Topics
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی شہادت فراہم کرتی ہے کہ
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے تبلیغ کا کام انفرادی کردار سے انجام دیا۔حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام نے جو کچھ کہا حکم ربی کے مطابق فرمایا اور اس پر عمل کرکے دکھایا۔
کوئی ایک مثال ایسی نہیں ملتی کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے کچھ ارشاد فرمایا ہو
اور اس پر عمل نہ کیا ہو۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اپنی اعلیٰ سیرت اور حسن
اخلاق سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی۔ دشمن دوست بنتے چلے گئے۔حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام نے ہمیشہ عفو و در گزر سے کام لیا۔
حضرت علیؓ فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام خندہ جبیں،
نرم خو اور مہربان تھے۔سخت مزاج اور تنگ دل نہ تھے۔‘‘
حضرت زیدؓ بن حارث کئی سال گھر سے دور رہے۔ جب والد اور چچا لینے آئے
تو آپؓ نے جانے سے انکار کردیا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت میں رہوں
گا۔یمامہ کے سردار ثمامہ کا واقعہ گواہ ہے کہ وہ صرف حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے
حسن سلوک سے متاثر ہوکر اسلام میں داخل ہوئے۔
فتح مکہ کے موقع پر اور اسکے بعد لوگ جوق در جوق اسلام کے حلقہ میں
آئے۔
یہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے حسن سلوک کا معجزہ تھا کہ فتح مکہ کے
دو سال کے اندر پورا عر ب حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا متبع ہوگیا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعوت اسلام پر غورکرنے سے یہ بات روز و
روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ہر موقع پر اللہ
تعالیٰ کی ذات پر مکمل یقین کیا ہے۔مشکل سے مشکل وقت میں بھی مایوس نہیں ہو ئے ۔
طائف کاواقعہ گواہ ہے کہ اذیتوں کے بعد بھی مایوس نہیں ہوئے۔ بد دعا کے بجائے دعا
فرمائی۔ یقین تھا کہ ان کی نسلوں سے لوگ مسلمان ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسے کا
یہ عالم تھا کہ حالات کیسے بھی ناسازگار ہوئے،حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام مایوس نہیں
ہوئے۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ہر حال میں دعوت و تبلیغ کا کام جاری رکھا
کیونکہ دل میں اطمینان اور اللہ تعالیٰ کی مدد کا مکمل یقین تھا۔
حضرت ابو طالب حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو بلا کر سمجھانے کی کوشش
کرتے ہیں ’’جان پدر، اس کام سے ہاتھ کھینچ لو۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا
چچا جان! آپ میری تنہائی کا خیال نہ کیجئے۔ حق زیادہ دیر تک بے کس و تنہا نہیں رہے
گا ۔ ایک دن عرب اور عجم اس کے ساتھ ہوں گے۔
ہجرت کی رات کفار نے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے گھر کو گھیرے میں
لے رکھا تھا۔ مگر حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے دل میں کوئی خوف نہ تھا۔ غار ثور
میں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو’’ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ
ہے‘‘ کہہ کر تسلی فرمائی۔ احد اور حنین کی جنگوں میں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام ایک
لمحے کے لئے بھی مایوس نہیں ہوئے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ کا ثمر تھا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعوت و تبلیغ کے وقت انسانی نفسیات،
ذہنیت،سمجھ بوجھ اور حالت کو ہمیشہ مدنظر رکھا۔ یک لخت کسی پر بوجھ نہیں ڈالا۔ قوم
کو آہستہ آہستہ اس لافانی پیغام کے لئے تیار کیا۔ ان لوگوں کو سوچنے کا موقع
دیا۔دین اسلام کے لئے ان کے دلوں میں جگہ بنائی۔ اپنے کردار ، عمل اور حسن سلوک سے
اپنے آپ کو پہلے صادق اور امین کے طور پر پیش کیا اور پھر اسلام کی طرف بلایا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیشہ موقع و محل کو مدنظر رکھ کر گفتگو
فرماتے تھے۔ مخالفین کے ساتھ بھی خلوص اور احترام سے بات فرماتے تھے ان کے دلائل
حوصلے سے سنتے تھے اورایسے جواب دیتے کہ وہ تفکرکرنے پر مجبور ہوجاتے۔حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام لمبی چوڑی تقریر سے اجتناب فرماتے۔ محل اور موقعہ کے مطابق گفتگو
فرماتے تھے اور دوران گفتگو مخالف کی ذہنی استطاعت کا خاص خیال رکھتے تھے۔
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام ہر ایک کے لیے دل میں محبت، ہمدردی، دل
سوزی اور شفقت کا جذبہ رکھتے تھے۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام لوگوں کو مصیبت میں
دیکھ کر مضطرب ہوجایا کرتے تھے ۔ایک موقع پرحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ارشاد
فرمایا ’’ایک شخص نے الاؤ جلایا۔ آگ کے شعلے دیکھ کر پروانے اس پر ٹوٹ پڑے اس شخص
نے ہاتھ ہلا ہلا کر انہیں بچانے کی سرتوڑ کوشش کی مگر پروانے تھے کہ اندھا دھند اس
الاؤ میں گر رہے تھے۔یہی مثال میری ہے میں تمہیں جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کرتا
ہوں۔ مگر تم ہوکہ اس آگ میں چھلانگ لگانے پر تلے ہوئے ہو۔ ‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام قوم کا حقیقی درد رکھنے کے باوجود جذباتی
نہیں ہوتے تھے۔ مخالفین کے اعتراضات صبر و تحمل سے سنتے تھے اور پھر ان کو دلائل
کے ذریعے قائل کرنے کی کوشش فرماتے تھے۔ جذبات کا اثر فوراً ہوتا ہے اور جب تک
جذبات میں تلاطم رہتا ہے، اثر قائم رہتا ہے۔ جونہی جذبات ٹھنڈے پڑتے ہیں اثر بھی
ختم ہوجاتا ہے۔ جبکہ دلائل سے سمجھائی ہوئی بات کا اثر دیرپا ہوتا ہے۔ جو فیصلہ
انسان سوچ سمجھ کر کرے اس پر قائم رہتا ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کاطریقہ تعلیم یہ تھا کہ حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام لوگوں کوتفکر پر مجبور کردیتے تھے۔ فکر و تدبر کے لئے تیار کرتے
تاکہ سچائی کو شعوری طور پر تسلیم کریں۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام لوگوں کو اسلام
کے اصول و ضوابط سمجھانے کے لئے، توحید ورسالت کا قائل کرنے کے لئے بھی عقلی اور
مشاہداتی دلائل سے کام لیتے تھے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیشہ مناظرہ اور بحث مباحثے سے
پرہیزفرمایا کیونکہ اکثر اوقات مناظرہ اور بحث مباحثہ سچائی کی راہ میں رکاوٹ بن
جاتا ہے۔ مخالف بات سمجھنے کے بجائے اپنی ساری توانائی،اور صلاحیت مخالف کے دلائل
کو رد کرنے میں صرف کردینا ہے۔ فتح و شکست کو وہ انا کا مسئلہ بنا لیتا ہے۔ اصل
مقصد سے ہٹ کر مخالف کونیچاکرنے کی کوشش شروع ہوجاتی ہے۔
داعی کے قول و فعل میں مطابقت از حد ضروری ہے۔ اگر اس کے قول اور عمل
میں تضاد ہوگا تو اس کا پیغام قابل قبول نہیں ہوگا۔ وہ اپنا اثر کھودے گا وہ قوت
جو انقلاب برپا کردیتی ہے وہ ہے قول و فعل میں یہ آہنگی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے جو بھی کیا وحی الٰہی کے عین مطابق کیا اور جو کہا اس پر پوری طرح عمل
بھی کیا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام قرآن کی عملی
تفسیرہیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت ہر دور، ہر زمانے، ہر ملک کے اہل
ایمان کے لئے مثال ہے۔ دوسرے تمام پہلوؤں کی طرح حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی
داعیانہ زندگی بھی دعوت و تبلیغ کا علم ہے۔ داعی کے لئے ضروری ہے کہ وہ حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام کی پوری زندگی کوسامنے رکھے۔ اس پرعمل کرکے لوگوں کے پاس جائے۔ جو
طریقے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اپنائے تھے ان پر عمل کرے۔ جن چیزوں سے حضور
علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اجتناب فرمایا ان سے رُک جائے۔ تاکہ اس کی ذات اور دعوت و
تبلیغ کا کام مذاق بن کر نہ رہ جائے۔ بلکہ اس میں وہی اثر ہو جوحضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام کے زمانے میں تھا۔
جو لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب لے آیا۔ جس نے تاریخ اور تہذیب کارخ
موڑ دیا۔
ہر شخص کی ذہنی سطح میں اختلا ف پایا جا تا ہے ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کا قا عد ہ تھا کہ وہ تعلیم و تربیت کے سلسلے میں ہر شخص کی ذہنی سطح کا
پو راپورا خیال ر کھتے اور لو گو ں سے ان کے انداز و معیار کے مطا بق گفتگو فر ما
تے تھے۔حضرت ابو ہر یر ہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی
خدمت میں حا ضر ہوا اور کہا کہ میر ے یہا ں لڑکا پیدا ہو ا ہے ، جو سیاہ رنگ کا ہے
۔ میں نے اُسے قبو ل کر نے سے انکا ر کر دیا ہے۔ کیو نکہ ہم میا ں بیوی میں کوئی
سیاہ رنگ کا نہیں ہے ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی سمجھ اور پیشہ کے مطابق
جواب مر حمت فر مایا ۔ اس سے پو چھا ۔
کیا تمہا رے پاس کچھ اونٹ ہیں ؟
اس نے کہا ۔’’جی ہا ں ‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پھر دریا فت فر ما یا ۔ ’’وہ کس رنگ کے
ہیں ‘‘؟
اُس نے کہا ’’سر خ ر نگ کے ‘‘۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس پر سوال کیا کہ’’ کیا ان میں کو ئی
خاکستری رنگ کا یا کم سیا ہ ر نگ کا کو ئی اونٹ بھی ہے ؟‘‘
اس نے کہا ۔’’ جی ہا ں ہے ‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فر ما یا ۔’’ اب تم ہی بتا ؤ کہ سر خ ر
نگ کے اونٹو ں میں یہ سیا ہی کیسے آگئی ۔‘‘
اس نے جواب میں کہا ۔’’ممکن ہے اس کے نسب میں کو ئی اونٹ خاکستری یا
سیاہ ر نگ کا ہو اور اسکی جھلک ہو ۔‘‘
جب با ت یہا ں تک پہنچ چکی تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ کہہ
کر اس کے شبہ کو دور کر دیا :
’’کہ یہاں بھی معاملہ ایساہوسکتا ہے کہ نسب
کا کرشمہ کار فرما ہو اور اس میں تمھاری بیوی کا کوئی قصور نہ ہو۔‘‘
آسان راستہ بھی ایک اصو ل تھا ، جس کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
احکام و عبادات میں خصو صیت سے مدنظر ر کھتے تھے۔ لو گو
ں کو اس با ت سے منع فرماتے تھے کہ احکام و مسائل میں مشکلا ت یا
تنگی سے کا م نہ لیں۔
حضرت ابن عبا سؓ سے روایت ہے ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد
فرمایا:
لو گو ں کوتعلیم دو اور آسانی پیدا کر و اور مشکلا ت سے پر ہیز کر و
۔
حضرت انسؓ سے مر و ی ہے :
’’تمہا رے دین کا وہ حصہ بہتر ہے جو زیا دہ
آسان اور سہل ہو اور بہتر ین عبادت احکام کی سمجھ بو جھ ہے ۔‘‘
پو ر ی دنیا پر عیا ں ہے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بطو رمعلم و مبلغ
سب سے زیا دہ کامیاب ہیں ۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زما نہ حیا ت میں
ہی اسلام پو رے عر ب میں پھیل گیا تھا ۔ پھرحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سب سے
بڑی کا میا بی یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہزاروں کی تعد اد میں صحابہ
کر امؓ کی تعلیم و تر بیت فر مائی جو بلند اخلا ق، پختہ ایمان وا لے اور اعلیٰ
سیرت و کر دار کے حامل تھے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان سب کو اسلام کا معلم و
مبلغ بنا دیا ۔
سفارت کے ذریعے مختلف قوموں اور ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات ، دو
طرفہ معاہدے اور تجارتی امور پر رابطے قائم کیے جاتے تھے جو آج بھی کئے جاتے
ہیں۔اس زمانے میں سفارت خانے نہیں ہوتے تھے لیکن سیاسی طور پر اُسے مقام حاصل تھا
۔جب سفارتی رابطہ قائم کرنے کی ضرورت پیش آتی ایسے افراد کو سفیر بناکر بھیجاجاتا
تھاجو زیر غور مسئلے کے ہر پہلو کو خوب سمجھتا ہو ۔ذہین اور سمجھدار ہو اپنی بات
کو موثر انداز میں پیش کر سکے اور دوسرے فریق سے اپنی بات منواسکے۔
۱۔ مدینے میں دو قبائل
اوس اور خزرج کے درمیان اختلافات پیدا ہوتے رہتے تھے۔جس کے سبب وہ آپس میں جنگ
کرتے رہے ان کے درمیان ہونے والی ’’ جنگ بعاث ‘‘میں جب قبیلہ اوس کو شکست ہونے لگی
تو انہوں نے ایک وفد ابوالحیس کی سربراہی میں قریش کے پاس بھیجا تھا ۔اس وفد میں ا
یاس بن معاذ بھی تھے قبیلہ اوس نے یہ سفارتی رابطہ اس لئے قائم کیا تھا کہ قریش کو
اپنا حلیف بنالیں اور جنگ میں ان سے خرزج کے خلاف مدد حاصل کریں ۔
۲ ۔ مکہ میں سفارت کا
ادارہ قبیل�ۂ عدی کے پاس تھا اور بعثت کے وقت حضرت عمر فاروق ؓ سفیر کے عہدے پر
فائز تھے۔
ا۔ حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے جب نبوت کا اعلان فرمایا اور لوگوں
کو توحید کی دعوت دی تو قریش نے یہودی علماء سے سفارتی رابطہ قائم کیا۔ قریش نے
نضربن حارث اور عقبہ بن ابی محیط کو مدینہ منورہ بھیجا تھاکہ وہ یہودی علماء سے
حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی دعوت اورحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے پیغام کے بارے
میں مشورہ کریں کیا محمد (علیہ الصلوٰۃ والسلام) واقعی نبی ہیں ؟
۲۔ مشرکین کے ظلم و ستم
سے تنگ آکرچند مسلمانوں نے حبشہ کی جانب ہجرت کر لی تھی ۔اہلِ مکہ نے اس موقع پر
حبشہ کے بادشاہ کے پاس سفارتی نمائندے بھیجے تاکہ بادشاہ کو قائل کر سکیں کہ وہ
ہجرت کر کے آنے والے مسلمانوں کو ان کے حوالہ کردے یا اپنی مملکت سے انہیں نکال دے
۔ قریش کی جانب سے سفارت کے فرائض عمرو بن العاص اور عمارہ بن ولیدنے انجام دیئے
۔حبشہ کے بادشاہ نے دربار میں قریش کے ان سفیروں کے ساتھ مسلمانوں کے نمائندوں کو
بھی بلالیا ۔ مسلمانوں کی جانب سے حضرت جعفر طیارؓ نے ان قریشی سفیروں کی باتوں
اور ان کے اعتراضات کا بہت موثر انداز میں جو اب دیا۔
حضرت جعفر طیارؓ کی موثر گفتگو نے حبشہ کے بادشاہ کو متاثر کیا اور
اس نے مسلمانوں کو واپس کرنے سے انکار کر دیا ۔ مکہ کی سفارت ان بے خانماں مہاجرین
کے مقابلہ میں ناکام ہو گئی مسلمان مہاجرین کی یہ بہت بڑی کامیا بی تھی ۔
ان مثالوں سے واضح ہو تا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں سفارتی رابطے صرف اس
وقت قائم کئے جاتے تھے جب دفاعی معاہدات طے کرنے ہوں یا کوئی مشکل درپیش ہو ،بعض
اوقات محض سیاسی تعلقات بنانے کیلئے بھی رابطہ قائم کیا جاتا تھا ۔لیکن حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے اس ادارہ کو فعال اورمنظم بنایا اور اس کے فرائض میں سب سے اہم
ذمہ داری تو حید کے فر وغ کو قرار دیا اسلام ایک آفاقی دین ہے ،جس نے زمان و مکان
کی حدود قیود سے بالا تر ہو کر تمام انسانوں کی فلاح کے لئے ایک جامع نظامِ حیات
پیش کیا۔ اس نظا م میں دعوتِ دین یا نظریہ حیات کی اشاعت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے
،حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سُفَراکے فرائض میں دعوت دین کے فریضہ کو سب سے
زیادہ اہمیت دی ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان