Topics
حضرت عاصم کا تعلق مدینہ کے قبیلہ بنو
ظفرسے ہے جو اسلام لانے والے اولین قبیلے میں شامل ہیں۔ آپ کے دادا قتادہ انصاریؓ
غزوہ حنین میں اپنے قبیلے کے علم بردار تھے۔ حضرت عاصم مدینے کے علمی ماحول میں
جوان ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت ابان بن عثمانؓ اور عروہ بن زبیرؓ روایات نبوی
کی تدوین کرچکے تھے اور آپ نے مغازی کی روایات کے علاوہ حیات مبارکؐ کے مکی دور کے
حالات و واقعات اور سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے عہد شباب کے روز و شب کی
تفصیلات جمع کی ہیں۔ آپ کا شمار سیرت المغازی کے عالم کی حیثیت سے ہوتا ہے۔
ابن اسحاق نے آپ کے بارے میں لکھا ہے کہ
حضرت عاصم نے صرف تاریخی احوال ہی جمع نہیں کئے بلکہ حالت و واقعات کے محرکات پر
اپنی رائے کا اظہار بھی کیا ہے۔پہلی صدی ہجری کے اختتام پر حضرت عاصم دمشق چلے گئے
جہاں خلیفہ وقت حضرت عمر بن عبدالعزیز نے آپ کو جامع مسجد میں المغازی اور مناقب (اہل
بیت و صحابہ کرام اور أئمہ کی تعریف و توصیف) کے لئے مقرر کردیا۔اس طرح اسلامی
تاریخ میں سیرت طیبہؐ کی ترویج و اشاعت کا آغاز ہوگیا۔ اور عوام الناس جو نو مسلم
تھے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی حیات مبارکؐ سے واقف ہوئے۔عاصم بن عمر کا درس سن
کر لوگوں نے اپنی بیاضوں میں سیرت و مغازی کے واقعات جمع کرنے شروع کردیئے ۔کہا
جاتا ہے کہ یہ بیاضیں ،سیرت نبوی ؐکے خام مواد کے طور پر آئندہ مولفین کے بہت کام
آئیں اور ان کی حیثیت ابتدائی ماخذ کی ہوگئی۔حضرت عاصم نے ۱۲۸ ھ میں وفات پائی۔
حضرت عبداللہؒ مدینے کے ایک علمی خاندان کے
فرد تھے۔ آپ کا تعلق بنو نجار سے تھاحضرت عبداللہؒ کے جد اعلیٰ حضرت عمرو بن حزم
کو حضور علیہ الصلٰوۃوالسلام نے نجران کا عامل مقرر کرکے یمن بھیجا تھا۔ آپ کے
والد ابی بکر مدینے میں قاضی کے منصب پر فائز تھے۔ بچپن سے گھر میں تعلیمی ماحول
اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عظمت اور محبت دیکھی،اس ہی عالم میں جوان ہوئے
اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات مبارکؐ اورحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے
دور کے واقعات جمع کئے۔ حضرت عبداللہ بن ابی بکر نے غزوات النبی کی ترتیب وار
فہرست مرتب کی اور غزوات سے متعلق دیگر تفصیلات جمع کیں۔ آپ نے سیدنا حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کے عہد شباب اور نبوت کے ابتدائی ایام سے متعلق روایات کی تدوین
بھی کی۔ خصوصاًحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وہ خطوط مبارک جمع کئے جو حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے مختلف بادشاہوں کو تحریر فرمائے تھے۔ انھوں نے ’’وفود‘‘ کے
متعلق خاص طور پر مواد فراہم کیا ہے۔
ابی بکر نے جب علم حدیث میں اپنے بیٹے کی
دلچسپی کا حال دیکھا تو انہیں نصیحت کی کہ ہر حدیث کے مواد کا پورے سیاق و سباق کے
ساتھ مطالعہ کیا کریں۔ انہیں اموی خلیفہ عمر بن عبد العزیز کی طرف سے حکم ملا تھا
کہ’’ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی احادیث جمع کریں۔حضرت عبداللہ بن ابی بکر بن حزم
کا سن وفات۱۳۵ھ بتایا جاتا ہے۔
حضرت محمد بن مسلم ابن شہاب الزہری ۵۰ھ میں مدینہ منورہ میں
پیدا ہوئے۔ آپ کے آباؤ اجداد کا تعلق مکے کے قبیلے بنی زہرہ سے تھا، اسی نسبت سے
آپ الزہری کے نام سے مشہور ہیں ۔ آپ کے دادا عبداللہؓ بن شہاب غزوہ بدر اور غزوہ
احد میں مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار رہے ہیں پھر بعد میں ایمان کی دولت سے بہرہ
مند ہونے کے بعد مدینہ میں آباد ہوگئے۔محمد بن مسلم الزہری مدینے گئے۔ جید علماء
اور مشائخ سے مستفید ہوئے۔ آپ کے اساتذہ میں سعید بن المسیبؒ ،عروہ بن زبیرؒ ، ابو
سلمہ بن عبدالرحمن اور عبیداللہ بن عبداللہؒ شامل ہیں۔
حضرت عروہ بن زبیرؓ سے آپ نے علم المغازی
کا درس لیا تھا۔ ہر علمی محفل میں شریک ہوتے تھے۔ روایات کی تلاش اور تحقیق میں
عمر رسیدہ افراد اور خواتین سے رجوع کرنا پڑتا توان کے گھر پہنچ جاتے تھے۔ حافظے
کیلئے شہد استعمال کرتے تھے۔ مشہور ہے کہ آپ علمی مجالس میں شہد کا اہتمام کرتے
تھے اور شہد سے مہمانوں کی تواضع کرتے تھے۔ احادیث اور روایات بار بار لکھتے تھے،
تاکہ یاد رہیں۔ سیرت نبوی کی ترتیب و تدوین میں الزہری کو نمایاں مقام حاصل ہے۔
الزہری کے شاگردوں میں موسیٰ بن عقبہ، معمر بن راشد اور محمد بن اسحق کے نام
نمایاں ہیں۔
معمر بن راشد اپنے استاد محترم کے علمی
کارناموں کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’جب اموی خلیفہ ولید بن عبد المالک قتل ہوئے تو ان کے کتب خانے میں
لاتعداد کتابیں موجود تھیں جو الزہری کی عملی کاوشوں پر لکھی گئی تھیں۔ ‘‘
الزہری سخاوت میں مشہور تھے ۔ فائد بن اشرم
نے ایک قصیدے میں ان کی تعریف کی ہے اور قرۃ بن عبدالرحمن ، الزہری کی تعریف میں
کہتا ہے کہ ’’میں نے کوئی اور شخص ایسا نہیں دیکھا جس کی نظر میں دینار و درہم بے
وقعت ہوں۔الزہری ہشام کے بچوں کی تعلیم وتربیت میں مدد دیتے تھے ۔ الزہری نے ۱۲۴ھ میں وفات پائی ۔
زہری کی معرکۃ الآرا۔ تالیف سیرت نبوی کے
جملہ ادوار (ماقبل اسلام اور مابعد اسلام )کی عکاس ہے۔ (بعثت سے قبل) حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام کی زندگی میں جو اہم واقعات رونماہوئے ان کے ذکر کے علاوہ یہ کتاب
مکی ومدنی زندگی کے مختلف پہلو بالخصوص حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے پیغمبرانہ مشن
اور کارناموں پر روشنی ڈالتی ہے۔زہری کی مکمل کتاب دستیاب نہیں ۔ صرف اس کے متفرق
اجزا ، واقدی ، طبری اور بلاذری کی تالیف میں ملتے ہیں۔ان اجزا کوترتیب دے
کرتاریخی واقعات کا ایک مربوط مجموعہ تیار کیاجاسکتاہے۔
زہری کاانداز بیان بنیادی طور پر محدثانہ
ہے۔ ان کی علمی سرگرمیوں اور تصنیفی و تالیفی کارناموں کا خاص مقصدعلم حدیث کو
فروغ دینا تھا۔ زہری کا طریقہ تحقیق تفتیش واسناد یاسلسلہ روایت پر مبنی ہے۔ ان کی
بیان کردہ حدیثوں میں تاریخی واقعات کی کثرت پائی جاتی ہے۔ زہری کا خاص کارنامہ یہ
ہے کہ انہوں نے اجتماعی روایت کے طریقہ کو ایجاد کرکے علم حدیث میں ایک نئے باب کا
اضافہ کیا۔ اس نئے طریقے کے تحت زہری متعدد احادیث کو ایک مربوط روایت میں مجتمع
کردیتے ہیں اور اس طرح ترتیب زمانی کی رعایت کے ساتھ تاریخی روایات کوبیان کرکے
فنِ تاریخ نگاری کو وسعت دیتے ہیں ۔زہری اپنی روایات میں متعلقہ آیات قرآنی کابھی
بار بار حوالہ دیتے ہیں ۔
زہری کے یہاں شعر وشاعری کی لطافت بھی ملتی ہے۔ زہری کاتاریخی مطالعہ
مغازی تک محدود نہیں بلکہ انساب کی تفصیل اور اسلام کے ابتدائی حالات ان کی تاریخی
روایات کے اہم اجزا ہیں۔زہری کو علم الانساب میں مہارت حاصل تھی ۔
موسیٰ بن عقبہ حضرت زبیر بن العوامؓ کے
خاندان کے آزاد کردہ غلام تھے۔موسیٰ بن عقبہ ۵۵ھ میں مدینے میں پیدا ہوئے۔
اپنے دو بھائیوں ابراہیم بن عقبہ اور محمد بن عقبہ کے ساتھ مسجد نبوی میں درس دیتے
تھے۔آپ کی تالیف ’’المغازی‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔مالک بن انس ؒ ،الواقدی اور
الطبری آپ کی تالیفات کو قابل اعتماد سمجھتے تھے۔ اگرچہ یہ تالیف امتدادِ زمانہ سے
محفوظ نہیں رہی لیکن الواقدی ، ابن سعد، الباذری اورطبری نے اپنی تصانیف میں موسیٰ
بن عقبہ کی کتاب کے حوالے دئیے ہیں۔
موسیٰ بن عقبہ نے ۱۴۱ھ میں وفات پائی۔
معمر بن راشد ۹۴ھ میں بصریٰ میں پیدا ہوئے۔
معمر بن راشد آزاد کردہ غلام تھے۔ آپ نے حضرت قتادۃ بن دعامۃ سے احادیث کا علم
حاصل کیا اور پھر علمی ذوق کی تسکین کیلئے مدینہ منورہ میں آگئے۔ اس زمانے میں
امام الزہری کی بہت شہرت تھی۔ معمر بن راشد ان کے شاگردوں میں شامل ہوگئے۔اس کے
بعد سیرت طیبہ کی تحقیق میں مصروف ہوگئے اور روایات جمع کرکے المغازی کے نام سے
کتاب لکھی۔ جس میں حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی سیرت کے ساتھ انبیاء کرام اور اہل
کتاب کے تاریخی واقعات بیان کئے۔ آپ کا شمار ثقہ راویوں میں ہوتا ہے۔
کتاب المغازی زمانے کے دست برد سے محفوظ
نہیں رہی۔ لیکن سیرت نگاروں نے اپنی کتابوں میں اس کے حوالے دیئے ہیں۔ ان میں
طبری، الواقدی اور ابن سعد کے نام سرفہرست ہیں۔ معمر راشد نے ۱۵۳ھ میں وفات پائی۔
محمد
بن اسحق ۸۵ھ میں مدینہ منورہ
میں پیدا ہوئے۔ آپ کے دادایسار عراق کے رہنے والے تھے۔ ۱۲ھ میں مسلمانوں کے ساتھ جنگ
میں شکست کے بعد یساریوں کو قیدی بنا کر مدینے لایا گیا اور بعد میں وہ قیس بن
مخزمہ بن عبدالمطلب کی غلامی میں رہے۔اسلام قبول کرنے کے بعد یسار کو قیس بن مخزمہ
نے آزاد کردیا۔ یسار کے تین بیٹے تھے۔ جن میں سے ایک کا نام اسحق تھا اور محمد بن
اسحق ان کے بیٹے تھے۔ محمد بن اسحق نے سیرت نگاری میں وہ مقام حاصل کیا کہ امام الزہری کے
جانشین بن گئے۔
محمد بن اسحق نے امام الزہری سے مغازی کادرس لیا اور مدینے کے دیگر
صاحبانِ علم سے مستفیض ہوئے۔ ابن اسحق نے عبداللہ بن بکر اور عاصم بن عمر کو بھی
اپنی معلومات کا ماخذ بنایا ہے۔ فنِ مغازی کے علاوہ علوم حدیث اور فقہ میں بھی
مہارت حاصل کی اور اسی غرض سے اسکندریہ کا سفر کیا جہاں مصر کے معروف محدث یزید بن
ابی حبیب سے علم حدیث کی تدریس مکمل کی۔ مدینہ واپس آئے تو آپ کی شہرت علمی مجلسوں
میں عام ہوچکی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ دوسری صدی ہجری میں شائع ہونے والی کتاب المغازی واحد
کتاب ہے جو ہر دور میں مستند مانی گئی۔ہر سیرت نگار نے اس کتاب سے استفادہ کیا۔ یہ
کتاب آج بھی دستیاب ہے۔ شاید اسی بنا پر کہا جاتاہے کہ سیرت نگاری کا آغاز دوسری
سن ہجری سے ہوا۔
خلاصہ یہ ہے:۔
المبتدا (تاریخ قبل از اسلام)
اسے چار حصوں میں تقسیم کیاجاتا
ہے ۔ پہلا حصہ ابتدائے آفرینش سے حضرت عیسیٰ ؑ تک وحی و رسالت کی تاریخ ہے۔دوسرا
حصہ زمانہ جاہلیت میں یمن کی تاریخ سے متعلق ہے۔ تیسرا حصہ عرب قبائل اور اُن کی اصنام
پرستی سے بحث کرتا ہے جبکہ چوتھے حصہ میں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے قریبی اجداد
اور اہلِ مکہ کے رسوم و عقائد سے بحث کی گئی ہے۔
اس حصہ میں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی مکی زندگی، حضورعلیہ
الصلوٰۃوالسلام کی ہجرت اور مدنی زندگی کے پہلے سال کی مہمات کا تذکرہ ہے۔ابنِ
اسحٰق زیادہ تر اپنے مدنی اساتذہ کے حوالے سے روایات درج کرتے ہیں۔ ایک ایسی دستاویز بھی ملتی ہے
جسے صرف ابنِ اسحٰق نے شامل کیا ہے اور زمانہ مابعد کے کسی مغازی نے نہیں کیا۔
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا وہ معاہدہ ہے جوحضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے مدنی
قبائل سے کیا تھا اور جسے مدینہ کا سماجی ضابطہ کہا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف
فہرستوں کا ایک سلسلہ ہے جس میں پہلے ایمان لانے والوں کی فہرست، حبشہ کی طرف ہجرت
کرنے والوں کے نام، انصار میں سے پہلے مسلمان ہونے والوں کی فہرست، عقبہ کی دونوں
بیعتوں میں شرکت کرنے والوں کے اسماء، ان مہاجرین اور انصار کی فہرست جنہوں نے
مہاجرینِ مکہ کا مدینہ میں استقبال کیا تھا اور اُن لوگوں کے نام جن سے حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلا م نے مواخاۃ کا رشتہ قائم کیا تھا، یہ سب شامل ہیں۔
مغازی حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی مدنی زندگی کی تاریخ ہے، جس میں
مشرکینِ عرب سے پہلی جنگ سے لیکرحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے وصال تک کے حالات
ہیں۔ اس حصے میں شروع سے آخر تک غزوات کا بیان ہے۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلا م کے
آخری دنوں کا ذکر اور مرض الموت اور وفات کا حال قدرے تفصیل سے بیان کیا گیا۔غزوات
کا احوال لکھنے میں ابنِ اسحٰق ایک مقررہ ضابطے کی پابندی کرتے ہیں۔ پھر اپنے
ثِقَہ استادوں کے بیانات سے مرتب کی ہوئی ایک مجموعی رپورٹ درج کرتے ہیں۔ پھر اس
بنیادی واقعہ سے متعلق وہ انفرادی روایات بیان کر کے اُس خبر کی تکمیل کر دیتے ہیں
جو اُس نے دوسرے ذرائع سے فراہم کی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے بدر میں لڑنے والوں ،
اُحد میں شہید ہونے والوں اور حبشہ سے واپس آنے والے مہاجرین کی فہرستیں مرتّب کی
ہیں۔
ابنِ اسحٰق کو سیرت نگاری میں جو شہرت ملی اس کا ثبوت یہ ہے کہ امام
شافعی نے اُن کے متعلق کہا ہے کہ ’’جو شخص مغازی کا گہرا مطالعہ کرنا چاہتا ہے
اُسے ابنِ اسحٰق سے رجوع کرنا چاہئیے۔‘‘ ابنِ اسحٰق نے سیرتِ مطہرہ کی تدوین میں بہت سے اشعاربھی شامل کئے
ہیں جیسا کہ زیبِ داستان کے لئے عرب کی قدیم روایت میں ہوتا تھا۔ اربابِ علم و
دانش نے ابنِ اسحٰق کی زندگی میں ہی ان بے سند اشعار و قصائد پر تنقید کی ہے۔ سیرتِ مطہرہ کو عام الناس میں
روشناس کرانے اور فنِ سیرت نگاری کو فروغ دینے میں ابنِ اسحٰق کا بڑا نام ہے۔ ابن
اسحاق نے بغداد میں۱۵۰ھ میں وفات پائی۔
۱۱۔ ابو معشر السندی ؒ
عبدالرحمن بن الولید بن بلال المعروف ابو معشر السندیؒ کا نام ابنِ
اسحٰق کے ہمعصر سیرت نگاروں میں نمایاں ہے ۔ آپ یمن سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے
آباؤاجداد میں سے کوئی صاحب سندھ (پاکستان) میںآباد ہوگئے تھے۔اسی نسبت سے السندی
کہلائے۔ آپ یمن واپس چلے گئے تھے جہاں یمامہ اور بحرین کے درمیان جنگ میں قیدی بن
کر گرفتار ہوئے اور خلیفہ المہدی کی والدہ اُم موسیٰ بنت منصور الحمیریہ کی غلامی
میں رہے۔ غلامی سے آزادی ملی تو مدینہ چلے گئے اور وہاں علومِ فقہ و حدیث اور
المغازی کی تعلیم میں مصروف ہوگئے۔ ابو معشر السندیؒ نے بغداد میں رہتے ہوئے ۱۷۰ ھ میں انتقال کیا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان