Topics
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تین دن تک اپنی ماں کا دودھ
پیا پھر چند روز ثوبیہ نے دودھ پلایا۔ ثوبیہ ابولہب کی کنیز تھیں۔ ثوبیہ نے حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چچا کو بھی دودھ پلایا تھا۔ یہ وہ خوش قسمت خاتون تھیں
جنہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیدائش کی خبر ابولہب کو سنائی تو ابولہب
نے انہیں آزاد کردیا۔
عربوں میں رواج تھا کہ پرورش کے لئے کم سن بچوں کوصحرامیں
بھیج دیتے تھے تاکہ صحراکے صحت افزا مقام پر رہ کر بچوں کی نشوونما اچھی ہو۔
دیہاتوں میں رہنے والی عرب عورتیں سا ل کے مختلف حصوں میں مکہ آتی تھیں اور شیر
خوار بچوں کو پرورش کے لیے صحرا میں لے جاتی تھیں۔ قبیلہ بنوسعد بن بکر کی عورتوں
نے دوسرے بچوں کو گود لیا اور حضرت حلیمہ ؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کوسینے
سے لگایا۔ انکاتعلق قبیلہ سعد بن بکر سے تھا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے چار سال بنوسعد میں امّاں حلیمہؓ کے پاس
پرورش پائی۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رضاعی بہن بھائی
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رضاعی بہن بھائی کے نام یہ
ہیں:-
عبداللہ، انیسہ، حذیفہ اور حذافہ ان کانام شیما بھی ہے اور
یہ اسی نام سے پکاری جاتی تھیں۔
جب حضرت حلیمہؓ سعدیہ اپنے شوہر کے ساتھ مکہ تشریف لائیں اس
وقت مکہ میں خشک سالی تھی اور لوگ بارانِ رحمت کے منتظر تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام جب دنیامیں تشریف لائے تو کسی دائی نے انہیں دودھ پلانے کے لئے قبول نہیں
کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام یتیم تھے۔
حضرت حلیمہؓ کہتی
ہیں کہ میں نے بھی اسی خیال سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گود نہیں لیا لیکن
مجھے غربت اورافلاس کی وجہ سے دودھ پلانے کیلئے کوئی اور بچہ نہیں ملا۔ میرے خاوند
نے جب یہ دیکھا کہ ہم خالی ہاتھ جائیں گے تو ہمیں شرمندگی ہوگی۔ میرے خاوند نے کہا
تم اس بچے کو ضرور لے آؤ۔
رضاعت کے دوران حضرت حلیمہؓ نے عجیب مناظر دیکھے اور وہ
حیران ہوتی رہیں۔ حضرت حلیمہؓ فرماتی ہیں:
”جب میں نے محمد(علیہ
الصلوٰۃوالسلام) کو گود میں لیا اسی وقت میرا سینہ دودھ سے بھرگیا اور محمد(علیہ
الصلوٰۃوالسلام) نے خوب سیر ہوکر دودھ پیا۔ جب ہم گھر سے نکلے تھے اس وقت خشک سالی
تھی۔ محمد(علیہ الصلوٰۃوالسلام) کی برکت سے خشک سالی خوشحالی میں تبدیل ہوگئی۔ہم
نے محمد(علیہ الصلوٰۃوالسلام)کو گود میں لے کر اللہ تعالیٰ کی برکتوں کا مشاہدہ
کیا۔ جب محمد(علیہ الصلوٰۃوالسلام)دو سال کے ہوئے تو بہت سمجھدار اور ہوشیار لڑکے
تھے تعجب ہوتا تھا اور ان کی فہم اور سمجھ پر حیرت ہوتی تھی۔“
ایک مرتبہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے رضاعی بھائیوں کے
ساتھ جنگل میں بکریاں چرانے کے لئے گئے۔ ان کا بھائی دوڑتا ہوا گھر آیا اوراس نے
ڈر اور خوف کے ملے جلے جذبات سے اپنی والدہ کو بتایاکہ دوسفید پوش آدمی آئے اور
انہوں نے محمد (علیہ الصلوٰۃوالسلام) کو زمین پر لٹا کر سینہ چاک کردیا۔ جب میں
وہاں سے چلا تو وہ محمد (علیہ الصلوٰۃوالسلام) کا سینہ سی رہے تھے۔
یہ واقعہ سن کر حضرت حلیمہ ؓ اور ان کے شوہر خوف زدہ ہوکر
دوڑتے ہوئے وہاں پہنچے جہاں بکریاں چررہی تھیں۔ انھوں نے دیکھا کہ حضرت محمد (علیہ
الصلوٰۃوالسلام) کھڑے ہوئے ہیں اور چہرہ مبارک کا رنگ پھیکا ہے۔ اماں حلیمہؓ دوڑتی
ہوئی گئیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سینے سے چمٹا لیا اور پھر حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کے رضاعی باپ نے بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سینے سے لگایا
اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پوچھاکہ کیا واقعہ پیش آیاہے؟
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا دو آدمی آئے تھے،
انھوں نے مجھے زمین پر لٹایا اور سینہ چاک کرکے میرا دل نکالا اور دھوکر دوبارہ
سینے میں رکھ دیا اور سینے کو سی دیا۔ اماں حلیمہؓ اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رضاعی والد
یہ عجیب واقعہ سن کر حیران ہوئے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اماں حلیمہؓ
ساتھ لے کر گھر واپس آگئیں۔
(شقِ صدر)سینہ چاک ہونے کا عمل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی
میں چار مرتبہ پیش آیا:
۱۔ پہلی بار یہ
واقعہ بعثت (پیدائش)کے وقت پیش آیا۔
۲۔ دوسری مرتبہ یہ
واقعہ بچپن میں پیش آیا جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت حلیمہؓ سعدیہ کے پاس
تھے۔
۳۔ تیسری بار یہ
واقعہ اس وقت پیش آیا جب حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی عمرمبارک4 سال تھی۔
ایک روز حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جنگل میں تھے۔ دو فرشتے
حضرت جبرئیل ؑ اور حضرت میکائیل ؑ سفید لباس میں انسانوں کی شکل میں آئے۔ ان کے
پاس سونے کا ایک طشت تھا جس میں برف تھی۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سینہ چاک
کرکے دل کو نکالا پھر دل کو بر ف سے دھو کر سینے میں رکھا اور سینے کو سی دیا اور
دونوں شانوں کے درمیان مہر لگادی۔
۴۔ چوتھی مرتبہ یہ
واقعہ معراج کے وقت پیش آیا۔
شقِ صدر کے واقعہ سے اماں حلیمہ ؓ کو یہ فکر ہوئی کہ محمدعلیہ الصلوٰۃوالسلام کو
کوئی صدمہ نہ پہنچ جائے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حضرت آمنہ کے پاس مکہ لے کر
حاضر ہوئیں اورپورا واقعہ سنایا۔ حضرت آمنہ کو یہ واقعہ سن کر کوئی تعجب نہیں ہوا۔
حضرت آمنہ نے فرمایا:
”میرا بیٹا نہایت سعید اور خوش بخت ہے۔ اے حلیمہ ؓ! تم مطمئن رہو، اسے کچھ نہیں ہوگا۔“
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عمر جب چھ سال کی ہوئی تو
حضرت آمنہ نے ان کے ساتھ مدینہ جانے کا قصد کیا۔ ام ایمن بھی آپ کے ساتھ تھیں۔ ایک
ماہ میکے میں قیام کیا۔ پھر جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو لے کر مکہ واپس جارہی
تھیں تو راستے میں ابواکے مقا م پر حضرت آمنہ کا انتقا ل ہوگیا۔(انا للہ وانا الیہ
راجعون)
اُمِّ ایمن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مکہ مکرمہ لے
کرواپس آئیں اور حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو حضرت عبدالمطلب کے سپرد کردیا۔والدہ
کی رحلت کے بعد حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام مکمل طور پر اپنے دادا کی کفالت میں
آگئے۔دادانے بھی شفقت و محبت کا حق ادا کردیا۔ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بے
حد محبت کرتے تھے اور ہر وقت حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کاخیال رکھتے تھے۔
سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ حضرت عبدالمطلب حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کے بغیر کبھی کھانا نہیں کھاتے تھے۔جب دسترخوان پر کھانا چن دیا
جاتا تھا توحضرت عبدالمطلب حکم دیتے میرے بیٹے کو میرے پاس لاؤ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام آتے تو انہیں اپنے پہلو میں بٹھاتے۔ عمدہ عمدہ کھانے اُٹھاکر حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کے سامنے رکھتے اور کھانے پر اصرار کرتے۔
حضرت عبدالمطلب کے لئے دیوارِ کعبہ کے سائے میں مسند بچھائی
جاتی تھی چونکہ حضرت عبدالمطلب قریش کے سردار تھے اس لئے احتراماً کوئی شخص بھی
سردار کی مسند پر بیٹھنے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔حرب بن امیہ جیسے صاحب ِ حیثیت لوگ
بھی اس پر نہیں بیٹھتے تھے لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جب بھی داد کے پاس آتے
اس مسند پر بیٹھ جاتے۔ حضرت عبدالمطلب کے بیٹے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مسند
سے اُتارنا چاہتے توحضرت عبدالمطلب کہا کرتے میرے بیٹے کو بیٹھنے دوکیوں کہ مجھے
امید ہے کہ میرا یہ بیٹا اتنے بلند مقام پر فائز ہو گا کہ اس سے پہلے کوئی عرب اس
مرتبہ تک نہیں پہنچا۔
دادا کی زیرِ کفالت دوسال ہی گزرے تھے کہ محبتیں نچھاور
کرنے والے دادا کا دستِ شفقت بھی اُٹھ گیا (انا للہ وانا الیہ راجعون)اس دن مکہ
والوں پر رنج و الم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔کیونکہ ان کا محبو ب سردار ہمیشہ کے لئے ان سے
جدا ہو گیا تھا۔حضرت عبدالمطلب کے سوگ میں کئی دنوں تک مکہ میں کو ئی بازار نہیں
لگا۔
حضرت ابو طالب اور زبیر حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے والد
عبداللہ کے سگے بھائی تھے۔ان تینوں کی والدہ کا نام فاطمہ بنتِ عمرومخزومیہ تھا۔
حضرت عبدالمطلب مرتے وقت اپنے آٹھ سا ل کے یتیم پوتے کو اپنے بیٹے حضرت ابو طالب
کے حوالے کر گئے۔ اگرچہ حضرت ابوطالب نے بھتیجے اور اپنے بچوں کے درمیان فرق نہیں
کیا اور دونوں میاں بیوی نے حقیقی بیٹے کی طرح ان کی پرورش کی لیکن ماں کی محبت
اور باپ کی شفقت کا نعم البدل نہیں ہوتا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام آٹھ سال کی عمر میں ہر صبح شہر
سے باہر نکل جاتے اور شام گئے تک اکیلے صحرا میں رہتے تھے۔ اکثر اوقات
لامحدودآسمان اور لامتناہی افق پر نظریں جمائے رکھتے اور سورج ڈھلنے سے پہلے
مویشیوں کو لے کر واپس آبادی میں آجاتے تھے۔ وہ بچہ جس کا باپ نہ ہو۔ جس کی ماں نہ
ہو اور جو کھیلنے کودنے کی عمر میں محنت مشقت کرے وہ زندگی میں خود کفیل (self made) ہوتا ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چچا حضرت ابوطالب ایک تاجر
تھے۔ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بارہ سال کی عمر میں شام لے گئے۔ شام کے شہر
”بصریٰ“ کے نزدیک ان کا کارواں ٹھہرا۔ جس جگہ کارواں نے پڑاؤکیا وہاں ایک صومعہ
میں بحیرا نامی راہب رہتا تھا۔ سریانی زبان میں بحیرا کے معنی بزرگ اور دانشور کے
ہیں۔
عربوں کا یہ تجارتی قافلہ جب صومعہ کے قریب پہنچا تو
بحیرابزرگ نے دیکھا کہ جس درخت کے نیچے قافلہ والے ٹھہرے ہیں اس کی ٹہنیا ں خود
بخود جھک گئی ہیں۔ اس نے دیکھا کہ ایک بارہ سالہ لڑکا قافلہ میں شامل ہے، جس پر
بادل کا ٹکڑ ا سایہ کیے ہوئے ہے۔ بحیرا نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بحیثیت
آخری نبی پہچان کرحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سرپرست حضرت ابو طالب کو نصیحت کی
کہ
”اپنے بھتیجے کی پوری پوری نگرانی کریں۔“
حضرت ابوطالب نے کہا:”آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ بچہ
وہی ہے جس کا تذکرہ الہامی کتابوں میں ہے۔“
بحیرا نے جواب دیا:
”تم لوگ جب گھاٹی کے اس جانب
نمودار ہوئے تو کوئی بھی درخت ایسا نہیں تھا جو جھکا نہ ہو۔“
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان