Topics
حدیبیہ کے مقام پر فریقین کے درمیان جو صلح نامہ طے پایا تھا اس میں
دیگر شرائط کے علاوہ دو شرطیں یہ بھی تھیں:
۱۔ فریقین دس سال تک ایک
دوسرے کے ساتھ جنگ نہیں کریں گے۔
۲۔ عرب کے دیگر قبائل کو
اجازت دے دی گئی کہ جو قبیلہ جس فریق کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہے وہ کرسکتا ہے۔
چنانچہ ہر قبیلہ نے اپنی مرضی سے جس فریق کے ساتھ اپنا مستقبل محفوظ
سمجھا اس کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کرلیا۔
مکہ کے گرد و نواح میں جو قبائل آباد تھے،ان میں سے دو قبیلے ایسے
تھے جن کی پرانی دشمنی چلی آرہی تھی۔ ایک قبیلہ بنو بکر کہلاتا تھا اور دوسرا
خزاعہ۔بنوبکرنے قریش کے ساتھ اور بنوخزاعہ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ
دوستی کا معاہدہ کیا۔معاہدہ کے بعد امن وصلح کا دور شروع ہوگیا اور تمام فریق ہنسی
خوشی وقت گزارنے لگے۔ اس دوران مسلمانوں سے ربط کی وجہ سے خزاعہ کے بیشتر افراد
مسلمان ہوگئے، مگر بنو بکر قریش کے ساتھ تعلق کی وجہ سے کفر پر قائم رہے۔
کافی عرصے تک دونوں قبیلے صلح حدیبیہ کے پابند رہے اور ایک دوسرے کو
نقصان پہنچانے سے گریز کرتے رہے۔ پھر اچانک بنو بکر نے خزاعہ کے ساتھ قدیم دشمنی
کو یاد کرکے خزاعہ پر حملہ کرنے اور انتقام لینے کا فیصلہ کیا اور ایک رات بغیر
کسی سبب کے خزاعہ کی کسی بستی پر چڑھائی کردی۔ خزاعہ بے خبر تھے۔ ان کے وہم و گمان
میں نہیں تھا کہ رات کے اس پہر دشمن کوئی کاروائی کرسکتے ہیں اس لیے بے خبری میں
مارے گئے اور پہلے ہی حملے میں ان کا ایک آدمی قتل اور متعدد زخمی ہوگئے۔ اس کے
بعد باقاعدہ لڑائی شروع ہوگئی جو رات بھر جاری رہی۔ بنو بکر چونکہ قریش کے حلیف تھے اس لئے اس لڑائی میں قریش کے سرداروں
نے ان کی بھر پور مدد کی۔ ان کا خیال تھا کہ رات کے اندھیرے میں ہمیں کوئی نہیں
پہچان سکے گا اور کسی کو پتہ نہیں چلے گا کہ ہم نے بنو بکر کی مدد کی ہے۔۔۔ بنو خزاعہ نے جان بچانے کے لئے
حرم میں پناہ لی۔ اُنہیں امید تھی کہ یہاں ان کو امان مل جائے گی لیکن دشمن نے
حدود حرم کا بھی پاس نہیں کیا اور ان کو قتل کرتے رہے۔
ان حملہ آوروں میں سے چند آدمیوں نے اپنے سردار نوفل بن معاویہ کو
پکار کر کہا کہ ’’اے نوفل! اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ دیکھتے نہیں کہ تم حرم میں داخل
ہوگئے ہو اور پھر بھی قتل کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔‘‘
(نعوذ باللہ) اس وقت اس نے ایسا جملہ زبان سے نکالا کہ زمین بھی لرز
اٹھی۔
اس نے کہا:’’آج کوئی خدا نہیں۔ آج دشمن سے انتقام لینے کا موقع ہے۔
خبردار! آج کوئی شخص انتقام لینے میں سستی نہ کرے۔ دشمن جہاں ملے اسے قتل کردو ۔‘‘
بہرحال بنو بکر کو چونکہ قریش کی مدد حاصل تھی، اس لئے لڑائی میں ان
کا پلہ بھاری رہا اور انہوں نے خزاعہ کے تیئس آدمی مار ڈالے۔ صبح کی روشنی پھیلنے
لگی تو قریش کے سردار اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے اور بنو بکر اپنی بستی کی طرف
لوٹ گئے۔
قریش کے سردار جو اسلام کی عداوت میں اندھے ہوچکے تھے، وہ اپنی غلطی
پر پچھتائے اور دور اندیش لوگوں نے ملامت کی۔ حارث بن ہشام اور عبداللہ بن ابی
ربیعہ نے کہا:
’’اے صفوان اور عکرمہ تم نے معاہدے کو توڑ
دیا ہے، یہ معاہدہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ طے پایا تھا۔ اس عہد شکنی کے
نتائج بھگتنے کیلئے اب تیار ہوجاؤ۔‘‘
بنو خزاعہ قبیلہ کے چالیس افراد مدینہ طیبہ حاضر ہوئے۔ جب بنو خزاعہ
کے وفد نے بارگاہِ رسالتؐ میں اپنی داستان بیان کی تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کو سخت رنج ہوا۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا
’’تمہارا کیا خیال ہے کہ وہ لوگ کون ہیں
جنہوں نے تمہارے سا تھ یہ زیادتی کی ہے؟‘‘
انہوں نے عرض کیا:’’بنوبکر۔‘‘
پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’بنوبکر تو بہت بڑاقبیلہ ہے ان میں سے کن
لوگوں نے تم پر ظلم کیا ہے؟‘‘
انہو ں نے عرض کی:
’’بنو نفاثہ نے اوران کی قیادت نوفل بن
معاویہ کررہاتھا۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’یہ بنو بکر کا ایک خاندان ہے۔ میں حالات
معلوم کرنے کیلئے ایک قاصد بھیجتا ہوں جو ان کے سامنے تجاویز پیش کرے گا۔ ان میں
سے جس تجویز کو وہ چاہیں پسندکرلیں۔ ‘‘
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنا قاصد مکہ کی طرف روانہ کیا
تاکہ صحیح مجرم کا پتہ لگائیں اور ان کے سامنے یہ تجاویزپیش کریں:قاصد نے مکہ پہنچ کر رسول اللہ علیہ
الصلوٰۃوالسلام کا پیغام سنایا:
’’ میں اللہ تعالیٰ کے رسول علیہ
الصلوٰۃوالسلام کاقاصد ہوں اور تمہارے سامنے یہ تجاویز پیش کرتا ہوں۔‘‘
۱۔ بنوخزاعہ کے مقتولوں
کی دیت(خون بہا) ادا کریں۔
۲۔ قریش، بنو بکر کی
حمایت سے الگ ہوجائیں ۔
۳۔ اعلان کردیا جائے کہ حدیبیہ
کا معاہدہ ٹوٹ گیا۔
اہلِ مکہ کا حتمی فیصلہ
ان تجاویز کو سننے کے بعد قریش نے باہم مشورہ کیا۔
قرظہ بن عمر جو نابینا تھا اس نے کہا:
’’ اگر ہم خزاعہ کے مقتولوں کی دیت دیں گے تو
ہمارے پاس پھوٹی کوڑی بھی باقی نہیں بچے گی۔ اس لیے پہلی تجویز ہمارے لیے قابل قبول
نہیں دوسری تجویز یہ ہے کہ ہم بنو بکر سے دوستی کا معاہدہ توڑ دیں، یہ بھی ہمارے
لیے ناقابلِ قبول ہے کیونکہ بنو بکر عر ب کے تمام قبیلوں میں کعبہ شریف کی زیادہ
تعظیم کرتے ہیں۔ ہم ان سے اپنی دوستی کا معاہدہ ختم کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں
البتہ تیسری تجویز ہمیں منظور ہے۔ ہم اعلانیہ صلح حدیبیہ کو ختم کرتے ہیں۔‘‘
یہ فیصلہ سن کر قاصد مدینہ واپس آگئے۔ قاصد کی واپسی کے بعد اہل مکہ
کی آنکھیں کھلیں اوراس کے خوف ناک نتائج نے ان کو پریشان کردیا۔
اس کے بعد ابوسفیان بن حرب مدینے آیا۔ اس کی ایک بیٹی حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کے نکاح میں تھیں۔ چنانچہ مدینہ پہنچا تو سب سے پہلے اپنی بیٹی ام
المومنین حضرت اُمِ حبیبہؓ کے گھر گیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بستر بچھا
ہوا تھا۔ اس نے جب بستر پر بیٹھنے کا ارادہ کیا تو اُم المومنینؓ نے فوراً وہ بستر
لپیٹ کر الگ رکھ دیا۔ ابوسفیان نے کہا:
’’ میری بچی! کیا تم نے اس بستر کو میرے لائق
نہیں سمجھا یا مجھے اس قابل نہیں سمجھا کہ میں اس پر بیٹھوں۔"
حضرت ام حبیبہؓ نے اپنے والد کو جواب دیاکہ
’’یہ بستر اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول اللہ
علیہ الصلوٰۃوالسلام کا ہے اور تم مشرک ہو۔ اس لئے میں نہیں برداشت کرسکتی کہ تم
اللہ تعالیٰ کے رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کے پاک بستر پر بیٹھو۔‘‘
ابوسفیان اپنی بیٹی کے اس رویہ سے مایوس ہوکر اٹھ کر چلاگیا۔ وہ حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
مسجد میں تشریف فرما تھے۔ اس نے عرض کیا :
’’جب صلح حدیبیہ کا معاہدہ طے پایا تھا تو
میں وہاں نہیں تھا۔ اب میں اس لئے حاضر ہوا ہوں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس
معاہدے کی تجدید فرمائیں اور معاہدے کی مدت میں اضافہ
کردیں۔‘‘
لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کا جواب نہیں دیا۔ مایوس ہوکر
وہ حضرت ابوبکرصدیق ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی درخواست پیش کی۔ صدیق اکبرؓ
نے جواب دیا:
’’میری پناہ اللہ تعالیٰ کے رسول علیہ
الصلوٰۃوالسلام کی پناہ کے تابع ہے۔میں الگ سے کوئی پناہ دینے کا مجاز نہیں ہوں۔‘‘
وہاں سے ناکام ہوکر حضرت عمر فاروق ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے
بھی ابوسفیان کو دو ٹوک جواب دے دیا۔
پھر ابوسفیان حضرت عثمانؓ بن عفان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت عثمانؓ
نے وہی الفاظ دہرادیئے جو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمائے تھے۔
وہاں سے اٹھ کر سیدنا حضرت علی مرتضیٰؓ کی خدمت اقدس میں حاضر
ہوا۔آپؓ نے فرمایا:
’’اے ابوسفیان! تیرا بھلا ہو۔ بخدا جب اللہ
تعالیٰ کے رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کسی بات کا عزم فرما لیتے ہیں تو ہماری یہ
مجال نہیں ہوتی کہ ہم اس میں مداخلت کریں۔‘‘
ابو سفیان وہاں سے چلا گیا۔اس وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے
دعاکیلئے ہاتھ اُٹھائے اور اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کیا:
’’اے اللہ ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دے اورہماری کوئی اطلاع قریش
کونہیں ملے۔ یہاں تک کہ ہم ان کے شہرپر حملہ کردیں۔‘‘
جب مکہ والوں کو ابوسفیان کی واپسی کی خبر ہوئی تو اس کے پاس جمع
ہوگئے اور ابوسفیان سے پوچھا:
’’تم کیاکرکے آئے ہو؟کیاحضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے کوئی تحریر تمہیں دی ہے یا معاہدہ کی مدت میں توسیع کا وعدہ کیا ہے۔‘‘
ابو سفیان نے کہا :
’’ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان مطالبات
کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔‘‘
اہل مکہ کی جانب حاطبؓ بن ابی بلتعہ کاخط
حضرت حاطبؓ ایک معزز صحابی تھے۔ آپ ؓ کا تعلق مکہ سے تھا۔ حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے حملہ کی تیاری مکمل کرلی تو حضرت حاطبؓ بن ابی بلتعہ نے اہل
مکہ کو ایک مخفی خط لکھا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارادہ سے انہیں مطلع
کیا اور خط ایک عورت کو دیا کہ وہ اسے بڑی احتیاط سے اہلِ مکہ تک پہنچادے۔حضرت
حاطبؓ کی اس حرکت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کو مطلع فرمادیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت علیؓ، حضرت زبیرؓ بن عوام اور
مقدادؓ بن اسود کو طلب کیا اور حکم دیا کہ فوراً روانہ ہوجاؤ۔ راستے میں تمہیں
اونٹ پر سوار ایک عورت ملے گی۔ اس کی تلاشی لینا۔ اس کے پاس ایک خط ہے وہ اس سے لے
لینا۔
یہ حضرات تیزی سے ا س عورت کے تعاقب میں روانہ ہوگئے اور اس کو پکڑ
لیا۔ وہ اونٹ پر سوار تھی، اسے اُتارا اور اس کے سامان کی تلاشی لی لیکن خط نہیں
نکلا۔ حضرت علیؓ نے اس عورت کو ڈانٹتے ہوئے فرمایا:’’اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ کے نبی نے ہرگز غلط بیانی نہیں فرمائی،
تمہارے پاس یقیناًوہ خط ہے۔ بہتر ہے کہ وہ خط تم ہمارے حوالے کردو۔‘‘جب اس عورت کو یقین ہوگیا کہ معاملہ اب
سنگین ہوگیا ہے تو اس نے اپنی چوٹی کھولی اور اس میں جو خط اس نے چھپاکر رکھا تھا،
نکالا اور دے دیا۔حضرت علیؓ نے وہ خط بارگاہِ رسالتؐ میں پیش کیا۔ حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے حضرت حاطب ؓ کو طلب فرمایا، اور ان سے پوچھا:’’اے حاطبؓ !یہ تم نے کیاکیا؟‘‘
انہوں نے عرض کیا:
’’ یارسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام ! بخدا
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر میرا پختہ ایمان ہے، میں ہرگز مرتد نہیں ہوا۔ میرا
مکہ میں کوئی قریبی رشتہ دار نہیں تھا جو ان حالات میں میرے اہل و عیال کی خبرگیری
کرتا۔ میں نے یہ خط لکھ کر ان پر ایک احسان کیا ہے تاکہ وہ اس احسان کے بدلے میرے
اہل و عیال کا خیال رکھیں۔‘‘
حضور پُر نور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حاطبؓ کا یہ عذر سن کر فرمایا:
’’حاطبؓ نے سچی بات بتادی ہے۔‘‘
اس موقع پر حضرت حاطبؓ کو ان کی اس غلطی پر متنبہ کرنے کے لیے یہ آیت
نازل ہوئی۔
’’ اے ایمان والو! ان لوگوں کو دوست مت بناؤ،
جو میرے بھی دشمن ہیں اور تمہارے بھی۔‘‘(سورۃ الممتحنہ۔ آیت1)
۱۰ ؍ رمضان المبارک آٹھ ہجری کو اسلامی لشکر مکہ کی جانب روانہ ہوا۔ مکہ
سے ایک منزل کے فاصلے پر اسلامی لشکر نے پڑاؤ ڈالا۔ جب رات ہوئی توحضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے حکم دیا کہ سب لوگ الگ الگ الاؤ روشن کریں۔
اس حکم کا مقصد یہ تھا کہ اندھیرے میں دور سے دیکھنے پر بہت بڑا لشکر
نظر آئے اور دشمنوں کے دلوں پر رعب اور ہیبت طاری ہوجائے۔ صحابہ کرامؓ نے ایسا ہی
کیا اور وسیع و عریض میدان میں دس بارہ ہزار الاؤ روشن کردیئے۔ دور سے دیکھنے پر
یوں لگتا تھا جیسے لاکھوں کا لشکر خیمہ زن ہے۔
اہل مکہ کو معلوم ہوچکا تھا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک عظیم
الشان لشکر کے ہمراہ مکہ کے قریب آپہنچے ہیں، اس لئے تین آدمی۔۔۔ ابو سفیان بن
حرب، حکیم ابن حزام اور بدیل ابن ورقاءصورت حال کا جائزہ لینے کے لئے مکہ سے نکلے۔
نگہبانی پر مامور دستے کی ان پر نظر پڑی تو ، انہوں نے ان تینوں کو گرفتار کرلیا
اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس لے گئے۔ راستے میں حضرت عباسؓ سے ملاقات
ہوگئی۔ حضرت عباسؓ اور ابوسفیان کے مکہ میں بہت اچھے تعلقات رہے تھے، اس لئے انہوں
نے ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کو اپنی تحویل میں لے لیا اور حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے جانے لگے۔ جب حضرت عمرؓ کے الاؤ کے پاس سے
گزرے اور حضرت عمر ؓ کی ابوسفیان پر نظر پڑی تو ان کے غصے کی انتہا نہیں رہی۔
کیونکہ مسلمانوں کی بیشتر مشکلات کا سبب یہی شخص تھا۔ چنانچہ اس کو دیکھتے ہی
بآوازِ بلند گویا ہوئے ’’یہ رہا اللہ کا دشمن ابوسفیان۔ الحمدللہ کہ اللہ تعالیٰ
نے اس کو ہمارے قابو میں دے دیا ہے؛ جبکہ ہمارا نہ اس کے ساتھ کوئی پیمان ہے ، نہ
کوئی معاہدہ۔‘‘
حضرت عمرؓ اُٹھے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ خوشخبری سنانے
کے لئے گئے۔ حضرت عباسؓ نے یہ دیکھ کر اپنی رفتار بھی تیز کردی اور حضرت عمرؓ سے
پہلے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس پہنچ گئے۔ اسی دوران حضرت عمر ؓ بھی آپہنچے
اور عرض کیا ’’یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام ! اللہ تعالیٰ نے دشمنِ خدا
ابوسفیان کو ہمارے ہاتھ میں دے دیا ہے، اس لئے مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کا سر
قلم کردوں۔‘‘
حضرت عباسؓ نے کہا۔۔۔ ’’ یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام! میں اس
کو پناہ دے چکا ہوں۔‘‘
مگر حضرت عمرؓ نے اپنی بات پر اصرارجاری رکھا، آخر حضرت عباس ؓ کو
غصہ آگیا اور حضرت عمرؓ سے مخاطب ہوکر گویا ہوئے
’’ابوسفیان میرے قبیلے کا آدمی ہے ، اس لئے
تم بڑھ چڑھ کر بول رہے ہو۔ اگر تمہارے قبیلے بنی عدی کا فرد ہوتا تو یوں باتیں نہ
کرتے۔‘‘
حضرت عمرؓ نے کہا ۔۔۔ ’’نہیں عباس! یہ بات نہیں ہے۔ خدا کی قسم! جس
دن آپؓ اسلام لائے تھے، اس روز مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ اگر میرا باپ زندہ ہوتا اور
اسلام لاتا،تب بھی اتنی مسرت نہ ہوتی اور اس کی وجہ محض یہ تھی کہ رسول اللہ علیہ
الصلوٰۃوالسلام کو جس قدر آپؓ کے اسلام لانے سے خوشی حاصل ہوئی تھی، اتنی مسرت
میرے والد کے ایمان لانے پر نہ ہوتی۔ ‘‘
بہر حال حضرت عباسؓ چو نکہ ابوسفیان کو پناہ دے چکے تھے، اس لئے حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت عباسؓ کی اس بات کو قبول کرلیااور فرمایا۔۔۔ ’’فی
الحال توابو سفیان کو لے جائیں اور اپنی تحویل میں رکھیں۔ صبح میرے پاس دوبارہ
حاضر ہوں۔‘‘
صبح ہوئی اور لوگ نماز کے لئے بیدار ہونے لگے تو ابوسفیان نے پوچھا
کہ یہ کیا کرنے لگے ہیں؟
حضرت عباسؓ نے بتایا کہ نماز ادا کرنے کی تیاری ہورہی ہے۔ ابوسفیان
نے لوگوں کو انتہائی نظم و ضبط سے اُٹھ کر وضو کرتے اور باجماعت نماز ادا کرتے
دیکھا تو بہت متاثر ہو ا اور کہنے لگا :
’’عجیب اطاعت کا مظاہرہ ہے، محمد(علیہ
الصلوٰۃوالسلام) جس کام کا بھی حکم دیتے ہیں، سب بلاچون و چرا اس پر عمل کرنے لگتے
ہیں! اطاعت کا ایسا منظر تو میں نے کسی بڑے سے بڑے شاہی دربار میں نہیں دیکھا۔
‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت عباسؓ نے ابوسفیان اور دوسرے دو قیدی آپ علیہ
الصلوٰۃ والسلام کے رُوبرو پیش کئے۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان سے پوچھا۔۔۔
’’کیا ابھی وہ لمحہ نہیں آیا کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی
معبود نہیں ہے؟‘‘
سب نے کہا کہ ہم
گواہی دیتے ہیں کہ اللہ وحدہٗ لاشریک ہے۔ ابوسفیان نے کہا کہ کیا شک رہ گیا ہے؟
حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے فرمایا۔۔۔’’یہ بھی گواہی دو کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔‘‘ ابوسفیان نے
پورا کلمہ شہادت پڑھ لیا اور مشرف بہ اسلام ہوگیا۔
اسلام لانے کے
بعدحضرت ابوسفیانؓ نے پوچھا۔۔۔ ’’یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام ! اگر قریش آپ
علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقابل نہ آئیں اور کسی قسم کی مزاحمت نہ کریں تو ان کو
امان مل جائے گی؟‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے فرمایا ۔۔۔ ’’ہاں! جو شخص مزاحم نہ ہو اس کے لئے امان ہے۔‘‘
حضرت عباسؓ نے
سرگوشی کی ۔۔۔ ’’یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام ! ابوسفیان جاہ پسند آدمی ہے،
اگر اس موقع پر آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کی کچھ عزت افزائی فرما دیں تو خوش
ہوجائے گا۔‘‘دریائے رحمت جوش میں آیا اور فرمایا۔۔۔ ’’ جو شخص
ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کے لئے بھی امان ہے۔‘‘
دوسرے دن حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مکہ میں داخل ہونے کے لئے کوچ کا ارادہ کیا تو حضرت عباسؓ
سے فرمایا کہ جس پہاڑی کے سامنے سے لشکر گزرے گا، اس پر آپؓ ابوسفیان ؓ کو لے کر
کھڑے ہوجائیں تاکہ ابوسفیانؓ اسلامی لشکر کے جاہ و جلال اور شان و شوکت کو اپنی
آنکھوں سے دیکھ لے۔ حضرت عباسؓ نے ایسا ہی کیا اور بلندی پر کھڑے ہوکر حضرت
ابوسفیانؓ کویہ عظیم الشان منظر دکھایا۔
یہ
عجیب روح پرور اور دلکش نظارا تھا۔ بہت بڑا لشکر تھا۔ مختلف قبائل کے لوگ تھے۔ ہر
قبیلہ اپنی نمایاں علامت کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا۔ جب یہ قبائل مرکزی کمان کے
احکام کے مطابق ایک خاص ترتیب و تنظیم سے یکے بعد دیگر مکہ کے لئے روانہ ہوئے تو
ان کا جوش و خروش قابل دید تھا۔ رجزیہ اشعار پڑھتے، نعرہ ہائے تکبیر بلند کرتے اور
اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے ترانے گاتے ہوئے جب یہ لوگ ابوسفیانؓ کے سامنے سے
گزرے تو وہ حیران و ششد ررہ گئے۔
مکہ میں داخل ہونے
والے پہلے دستے کی قیادت حضرت علیؓ نے کی۔ ان کے ہاتھوں میں حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کا مخصوص پرچم لہرا رہا تھا۔ دوسرا دستہ حضرت زبیرؓ بن عوام کی قیادت میں مغرب
کی جانب سے مکہ میں داخل ہوا۔ حضرت سعدؓ بن عبادہ انصاری مشرق کی طرف سے مکہ میں
داخل ہونے والے تیسرے دستے کی سربراہی کررہے تھے۔ چوتھے دستے کی قیادت حضرت خالدؓ
بن ولید نے کی جو جنوب سے مکہ میں داخل ہوئے۔ حضرت سعدؓ بن عبادہ جب مکے میں داخل
ہوئے تو انہوں نے بے اختیار یہ اعلان کیا۔
’’آج
کا دن حملے کا دن ہے اورآج حرمت ختم ہوگئی۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان