Topics

انبیاء کی گواہی

حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کی بعثت و نبوت کی اطلاع کا اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر اہتمام فرمایا اس کی تفصیل یہ ہے

اللہ تعالیٰ کا تمام سابقہ انبیااور ان کے توسط سے ان کی امتوں کو حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کی بعثت کی خبر دینا اور پھر ان سے حضور علیہ الصلوٰۃو السلام پر ایمان لانے کے بارے میں عہد لینا۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے

’’یاد کرو اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ’’ آج میں نے تمھیں کتاب اور حکمت ودانش سے نوازا ہے ،کل اگر کوئی دوسرا رسول تمھارے پاس اسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمھارے پاس موجود ہے تم کو اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنا ہوگی‘‘ یہ ارشاد فرماکر اللہ تعالیٰ نے پوچھا’’کیا تم اسکا اقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اُٹھاتے ہو؟‘‘انہوں نے کہا’’ہاں ہم اقرار کرتے ہیں‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’اچھا تو گواہ رہو اور میں بھی تمھارے ساتھ گواہ ہوں۔‘‘

(سورۃ آلِ عمران۔ آیت81) 

حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ 

حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ دونوں باپ بیٹے نے اللہ تعالیٰ سے حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کی بعثت کے لئے خصوصی طور پر دُعا مانگی تھی۔ 

’’اے ہمارے رب !ان لوگوں میں خود انہی کی قوم سے ایک رسول بھیجئے جو انہیں تیری آیات سنائے،ان کوکتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے تو بڑا دانا اور حکیم ہے۔‘‘(سورۃ البقرہ۔ آیت 129)

زندگیاں سنوارنے میں خیالات، معاشرت،تہذیب و تمدن غرض ہر چیز کو سنوارنا شامل ہے نیز اس آیت سے بتانا مقصود ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ظہور حضرت ابراہیم ؑ کی دعا کا جواب ہے۔

حضرت عیسیٰ ؑ 

حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کی بعثت سے پہلے حضرت عیسیٰ ؑ اپنی امت کو حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کے اسم گرامی احمد ( علیہ الصلوٰۃ والسلام )کے ساتھ خوشخبری دے چکے تھے ۔

’’اور یاد کرو عیسیٰ ابن مریم کی وہ بات جو اس نے کہی تھی کہ اے بنی اسرائیل، میں تمھاری طرف اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا رسول ہوں،تصدیق کرنے والا ہوں اس توراۃ کی جو مجھ سے پہلے موجود ہے اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہوگا۔ ‘‘ (سورۃ الصف۔ آیت 6) 

مذکورہ بالا آیت میں حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کا اسم مبارک احمد( علیہ الصلوٰۃ و السلام) بتایا گیا ہے۔ احمد کے دو معنی ہیں۔ وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ تعریف کرنے والا ہواور وہ شخص جس کی سب سے زیادہ تعریف کی گئی ہو یا جو بندوں میں سب سے زیادہ قابل تعریف ہو۔

تکمیل دین

حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کی سیرت طیبہ انکشاف کرتی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃو السلام نے مکمل دین حق پیش کیا ہے اورحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ذریعے سے دین حق کی تکمیل ہوچکی ہے۔ دنیائے انسانیت کو اپنے مقصد زندگی کے لئے جس کامل دین کی ضرورت تھی وہ بھی حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ذریعہ سے پوری کردی گئی ہے۔ 

’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے۔‘‘(سورۃ المائدہ۔ آیت 3)

خلق عظیم

حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کی سیرت طیبہ کا سب سے بڑا ماخذ خود اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن حکیم ہے۔ جو حضور علیہ الصلوٰۃو السلام پر دورانِ نبوت نازل ہوتا رہا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃو السلام نے قرآن کی تعلیمات کے ابلاغ کے ساتھ ساتھ خود حضور علیہ الصلوٰۃو السلام نے عملی نمونہ پیش کیاہے۔کسی نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا کہ حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کا خلق عظیم کیا ہے؟ تو انہوں نے اس کاجواب دیا کہ ’’ کیاتم نے قرآن نہیں پڑھا؟ جو کچھ قرآن میں ہے وہ حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کا خُلق عظیم ہے۔‘‘ انسا ن ہر لمحہ ایک نئے احسا س سے متا ثر ہو تا ہے ۔ مثلاً کسی با ت پر خوش ہوتا ہے۔۔۔اور کسی بات پر غمگین ہو جاتا ہے ۔ کبھی کسی معا ملے میں کامیابی سے ہمکنا ر ہوتا ہے.....کبھی نا کا م ہوجاتا ہے۔۔۔ کبھی مصائب سے دو چا ر ہوتا ہے۔۔۔ اور کبھی نعمتو ں سے ما لا ما ل ہو تا ہے۔ ان سب حا لتو ں میں انسا نی جذبا ت مختلف ہو تے ہیں۔سیرت طیبہ زندگی کے ہر پہلو میں ہماری رہنمائی کرتی ہے۔

روشن پہلو 

حضور علیہ ا لصلوٰ ۃ وا لسلا م کی سیرت طیبہ کا رو شن پہلو یہ ہے کہ حضور علیہ ا لصلوٰ ۃ وا لسلا م نے پیغمبر کی حیثیت سے اپنی اِتّبا ع کر نے وا لو ں کو جو نصیحت فر ما ئی ہے خو د اس پر عمل کیا۔ قر آن کریم نے حضور علیہ ا لصلوٰ ۃ وا لسلا م کی زند گی کو حضور علیہ ا لصلوٰ ۃ وا لسلا م کی نبو ت کے لئے اس دلیل کے طور پر پیش کیا ہے ۔ 

’’آخر اس سے پہلے میں ایک عمر تمھارے درمیان گزار چکا ہوں، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔‘‘(سورۃ یونس۔ آیت 16)
نبو ت کے دعو ے سے پہلے حضور علیہ ا لصلوٰ ۃ وا لسلا م نے تمہا رے ساتھ چالیس سال گزار ے ہیں اور تم نے حضور علیہ ا لصلوٰ ۃ وا لسلا م کی را ست گوئی اور اما نت و دیانت کو دیکھ کر حضور علیہ ا لصلوٰ ۃ وا لسلا م کو صادق و امین جیسے لقب دیئے۔ کیا تم پھر بھی نہیں سمجھتے کہ جو شخص صادق و امین ہو جو تمہا رے معاملات میں جھوٹ نہیں بو لتا وہ اللہ تعالیٰ کے با رے میں کیسے جھوٹ بو ل سکتا ہے ؟ مگر ا فسو س تم عقل ا ستعما ل نہیں کرتے ۔
حضور علیہ ا لصلوٰ ۃ وا لسلا م لو گو ں کو ذکر الٰہی کی نصیحت کر تے تھے اور خو د حضور علیہ الصلوٰ ۃ وا لسلا م کا یہ حا ل تھا کہ دن رات میں کو ئی لمحہ ایسا نہ تھا جب حضور علیہ ا لصلوٰ ۃ والسلا م کا دل اور زبا ن اللہ تعالیٰ کی یا د سے غا فل ہو ۔ اُٹھتے بیٹھے ، چلتے پھر تے ، کھا تے پیتے، سو تے جا گتے ، پہنتے اوڑھتے ہر حال میں اور ہر وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کااللہ تعالیٰ سے ربط قائم تھا۔حضرت عائشہؓ فر ما تی ہیں کہ حضور علیہ ا لصلوٰ ۃ وا لسلا م ہر و قت اور ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی یا د میں مشغول رہتے تھے ۔

لو گو ں کو پا نچ و قت کی نما ز کا حکم تھا مگر خو د حضور علیہ ا لصلوٰ ۃ وا لسلا م آٹھ و قت کی نما ز قائم کرتے تھے ۔ یعنی پا نچ فر ض نما زیں ،فجر ، ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء ۔ ان کے علا وہ را ت کو تہجد ، سورج نکلنے پر اشر اق اور دن چڑھے چا شت کی نمازقائم کرتے تھے۔ حضور علیہ ا لصلوٰ ۃ وا لسلا م کی نما ز کی کیفیت یہ ہے کہ رات رات بھر نما ز میں کھڑے رہتے یہا ں تک کہ کھڑے کھڑ ے پیر مبا رک
پر ور م آجا تا ۔ مسلما نو ں پر سا ل میں تیس دن کے روزے فر ض ہیں ، مگر حضور علیہ ا لصلوٰ ۃ والسلا م کا کو ئی ہفتہ اور کو ئی مہینہ رو زوں سے خا لی نہیں جا تا تھا ۔اسی طر ح جب آپ علیہ ا لصلوٰ ۃ وا لسلا م نے صحا بہ کر امؓ کو زکوٰۃ کا حکم دیا تو پہلے خو د اس پر عمل کیا ۔ حضور علیہ ا لصلوٰ ۃ وا لسلا م کا معمو ل تھا کہ حضور علیہ ا لصلوٰ ۃ وا لسلا م کے پا س جو بھی نقد و جنس اور ما ل و اسباب آتا تھا وہ سب اللہ تعا لیٰ کی راہ میں خر چ کر دیتے تھے ۔
صحابہ کرام ؓ کاارشاد ہے حضور علیہ ا لصلوٰ ۃ وا لسلا م تما م لو گو ں سے زیا دہ سخی تھے اور سب سے زیاد ہ سخاوت حضور علیہ ا لصلوٰ ۃ وا لسلام رمضا ن المبا رک میں فر ما تے تھے ۔

حضور علیہ ا لصلوٰ ۃ وا لسلا م کا اعلیٰ طرز عمل یہ تھاکہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ایسا معاشرہ تشکیل دیا جس میں لوگ اپنی کمائی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے بے قرار رہتے تھے۔حضور علیہ الصلوٰۃو السلام نے دین حق کو لوگوں کے سامنے اس طرح پیش کیا کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ دین مبین صرف نظریہ نہیں ہے بلکہ قابل عمل نظامِ زندگی ہے جس پر ہر فردعمل کرسکتا ہے۔ 
اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کو خود اپنی زندگی کا نمونہ پیش کرنے کے بارے میں ہدایت فرمائی ہے

’’ کہو میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرامرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لئے ہے جس کا کوئی شریک نہیں اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے۔ اور سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والامیں ہوں۔ ‘‘(سورۃ الانعام۔ آیت 162تا163)

روشنی

قرآن مجیدمیں حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کودلیل روشن(برہان اور بَیّنہ) کہا گیا ہے کیونکہ حضورعلیہ الصلوٰۃ و السلام کی نبوت سے پہلے اور بعد کی زندگی ،حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کے اُمّی ہونے کے باوجود قرآن جیسی کتاب پیش کرنا،حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کی تعلیم اور قربت کے اثر سے ایمان لانے والوں کی زندگیوں میں غیر معمولی انقلاب رونما ہوجانایہ ساری باتیں اس بات کی علامت ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃو السلام اللہ کے رسول ہیں۔ 

’’ اے اہل کتاب ہمارا یہ رسول جو دینِ حق کی واضح تعلیم تمہیں دے رہا ہے، ایسے وقت تمہارے پاس آیا جبکہ رسولوں کی آمد کا سلسلہ ایک مدت سے بند تھا کہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس کوئی بشارت دینے والا اور ڈرانے والا نہیں آیا۔ سو دیکھو اب وہ بشارت دینے والا اور ڈرانے والا آگیا۔‘‘( سورۃ المائدہ۔ آیت 19)

’’ اے لوگو! تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس دلیل روشن آگئی ہے اورہم نے تمہاری طرف ایسی روشنی بھیج دی ہے جو تمہیں صاف صاف راستہ دکھانے والی ہے۔‘‘ (سورۃ النساء ۔ آیت 174)

’’ اور اب جو ایک کتاب اللہ کی طرف سے ان کے پاس آئی ہے اس کے ساتھ ان کا کیا برتاؤ ہے؟ باوجودیکہ وہ اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو ان کے پاس پہلے سے موجود تھی۔ باوجودیکہ اس کی آمد سے پہلے وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح و نصرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔ مگر جب وہ چیز آگئی جسے وہ پہچان بھی گئے تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کردیا۔ خدا کی لعنت ہے ان منکرین پر۔‘‘(سورۃ البقرہ ۔ آیت 89)

’’اہل کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ کافر تھے (وہ اپنے کفر سے) باز آنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے پاس روشن دلیل نہ آجائے۔ یعنی اللہ کی طرف سے ایک رسول جو پاک صحیفے پڑھ کر سنائے جن میں بالکل راست اور درست تحریریں لکھی ہوئی ہیں۔‘‘
(سورۃ البینہ۔ آیت1تا3)

اطاعت رسول

اہل ایمان پر لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کو نہ صرف اپنے والدین ، اپنی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب جانیں بلکہ ایمان کا تقاضا ہے کہ ایک طرف تو وہ آپ علیہ الصلوٰۃو السلام کی ذات اقدس کو خود اپنی جانوں پر ترجیح دیں اور دوسری طرف ہر معاملہ میں سب سے پہلے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف رجوع کریں اور یہ اس وقت ممکن ہے جب ہم حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کے اسوۂ حسنہ پر پورے خلوص سے زندگی کے تمام شعبوں پر عمل پیرا ہوں۔ 

’’بلاشبہ نبی(علیہ الصلوٰۃ والسلام) تو اہل ایمان کے لئے ان کی اپنی جانوں پر مقدم ہے اور نبی (علیہ الصلوٰۃ والسلام)کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔‘‘(سورۃ الاحزاب۔ آیت 6)

’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو۔ اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔‘‘(سورۃ الحجرات۔ آیت 1)

’’ (اے نبی!) لوگوں سے کہہ دو اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔ اللہ بڑا معاف کرنے والا رحیم ہے۔‘‘(سورۃ آل عمران۔ آیت 31)

’’کہہ دو کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو۔اگر نہ مانیں تواللہ بھی کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘(سورۃآل عمران ۔آیت 32)

’’جو شخص رسول( علیہ الصلوٰۃو السلام )کی فرماں برداری کرے گا تو بے شک اس نے اللہ کی فرمانبرداری کی اور جو نا فرمانی کرے تو اے پیغمبر(علیہ الصلوٰۃ وا لسلام) آپکوہم نے ان کا نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔‘‘ (سورۃ النساء۔آیت80)

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان