Topics
یہ جانتی ہے کیوں ہیں فرشتے روپوش
یہ جانتی ہے کیا ہے فرشتوں کا ہوش
یہ جانتی ہے ضرور
قدرت کا راز
سوسن ہے زباں دراز پھر ہے خاموش
تشریح! انسان کے اندر دو دماغ کام کرتے ہیں ایک دماغ میں ایسے خانے ہیں جن میں ظاہر آنکھوں سے نظر آنے والی چیزوں کا ریکارڈ رہتا ہے اور یہ ریکارڈ ساری زندگی میں لمحہ بہ لمحہ تقسیم ہوتا رہتا ہے ، ریکارڈ کی یہ تقسیم ہی واہمہ، خیال، تصور اور احساس بن جاتی ہے، دوسرے دماغ میں ایسے خانے ہیں جن میں ایسا کائناتی ریکارڈ موجود ہے جو ظاہر آنکھوں سے نظر نہیں آتا، جب کوئی بندہ اپنے ارادہ اور اختیار سے توفیق طلب کرکے اللہ کے رازوں سے واقف ہوجاتا ہے تو غیب کی دنیا میں بسنے والی مخلوق اس کی آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے اوروہ یہ جان لیتا ہے کہ غیب کی دنیا کے مکین کس قسم کے حواس میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مگر باوجود اتنا عظیم علم ہونے کے وہ کچھ بول نہیں سکتا، کچھ کہہ نہیں سکتا، اس لئے کی ظاہری آنکھوں والے اور مادی دنیا کو مقصد بنانے والے لوگوں کے شعور میں اتنی سکت ہی نہیں ہے کہ وہ اسرارورموز کی طاقت کو برداشت کر سکے۔۔۔۔۔۔۔۔ حضور قلندر بابا اولیاء نے عارف باللہ کو سوسن سے تشبیہ دی ہے۔
_________________
روحانی ڈائجسٹ: جنوری 85، ستمبر 2003
خواجہ شمس الدین عظیمی
ختمی مرتبت ، سرور
کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے نور نظر ، حامل لدنی ، پیشوائے سلسۂ
عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء ؒ کی
ذات بابرکات نوع انسانی کے لیے علم و عرفان کا ایک ایسا خزانہ ہے جب ہم
تفکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیا ں ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالی نے جہاں
آپ تخلیقی فارمولوں اور اسرار و رموز کے علم سے منور کیا ہے وہاں علوم و ادب اور
شعرو سخن سے بہرور کیا ہے۔ اسی طرح حضوور بابا جی ؒ کے رخ جمال (ظاہر و باطن) کے
دونوں پہلو روشن اور منور ہیں۔
لوح و قلم اور
رباعیات جیسی فصیح و بلیغ تحریریں اس بات کا زندہ
و جاوید ثبوت ہیں کہ حضور بابا قلندر بابا اولیاءؒ کی ذات گرامی سے شراب عرفانی ایک ایسا چشمہ پھوٹ نکلا ہے جس
سے رہروان سلوک تشنۂ توحیدی میں مست و بے خود ہونے کے لیے ہمیشہ سرشار ہوتے رہیں گے۔