Topics
تحریروتحقیق
یاسر ذیشان عظیمی
بحوالہ روحانی ڈائجسٹ قلندر بابا
اولیا نمبر جنوری 2000
ٍٍٍ
ٍٍصفحہ 261 تا 272
یہ تمام تواریخ انتہائی احتیاط سے مرتب کی گئی ہیں اور اس سلسلہ میں حتی المقدور کوشش کی گئی ہے کہ ان تواریخ سے متعلق باقاعدہ مکمل ریکارڈ بھی حاصل کیا جائے۔ لیکن کچھ اہم ریکارڈ کی عدم دست یابی کی بناء پر قریب ترین عرصہ کا اندراج کیا گیا ہے۔ لہذا یہ امر لازم ہے کہ کسی واقعہ سے متعلق تاریخ میں اختلاف ہو۔تاہم اس صورت میں یہ اختلاف معمولی اور قابل نظر انداز ہی ہوگا۔
۱۸۹۸ ولادت: بمقام قصبہ خورد ضلع بلندشہر صوبہ یوپی بھارت
۱۹۰۲ ابتدائی تعلیم قصبہ خواجہ کے مکتب میں داخلہ لیا
۱۹۱۲ میٹرک ہائی اسکول بلند شہر سے کیا
۱۹۱۳ انٹرمیڈیٹ علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا
۱۹۱۳۔۱۴ ابتدائی تربیت علی گڑھ قیام کے دوران دور اندیشی کی طرف میلان بڑھ گیا ۔زیادہ وقت قبرستان کے پاس مولانا کاہلیکے حجرے میں گزارتے رات تشریف لے جاتے تو صبح سے واپس آتے۔
۱۹۱۵ سے ۱۹۱۴ تاج الاولیاء بابا تاج الدین ناگپوری کے پاس حاضری
۱۹۱۴ سے ۱۹۲۲ تاج الاولیاء بابا تاج الدین ناگپوری کے پاس 9 سال تک قیامبابا تاج الدین نے روحانی تربیت فرمائی
۱۹۲۲ قبل از والدہ کی وفات زمانہ تربیت میں ہی حضور قلندر بابا اولیاء کی والدہ ماجدہ سعیدہ بی بی چار بیٹیوں اور دو بیٹوں کو چھوڑ کر عالم بقا میں چلی گئیں، ایک ہمیشرہ کے علاوہ سارے بچے حضور قلندر بابا اولیاء سے چھوٹے تھے، کوئی بھی باشعور نہ تھا، آپ بہن بھائیوں کی تربیت کے لیے کمر بستہ ہو گئے۔
۲۴ -۱۹۲۳ شادی اور دہلی میں قیام بابا تاج الدین کے ارشاد کے مطابق آپ کی شادی دہلی میں ان کے عقیدت مند کی صاحبزادی سے
ہوگئی، شادی کے بعد دہلی میں قیام پذیر ہو گئے۔
۱۹۲۵ صحافت شاعری دہلی میں قیام کے دوران میں رسائل و جرائد کی صحافت اور شعرا کے دواوین کی اصلاح اور تربیت کا کام کرتے رہے۔دن کو صوفی منش لوگ آتے، اور تصوف کی محفلیں ہوتیں ، جب کہ رات کو شاعر ادیب اور اہل ذوق حضرات آپ سے فیض یاب ہوتے۔
۱۷ اگست ۱۹۲۵ تاج الاولیاء بابا تاج الدین ناگپوری وصال فرما گئے۔
۱۹۲۶ ناگ پور کو چھوڑ دیا وصال سے قبل بابا تاج الدین نے فرمایا تھا کہ میرے بعد یہاں قیام نہ کرنا چناں چہ نانا صاحب کے وصال کے بعد ناگپور آ جانا ترک کر دیا۔
۱۹۳۶: پہلی ملازمت برطانوی ہندوستانی فوج میں ایک سال ملازمت کی
۱۹۳۷ برما روانگی فوجی ملازمت کے دوران برما روانگی اور زخمی ہونے پر اسپتال داخل
۱۹۳۷ بڑے صاحبزادے محترم آفتاب( مرحوم) کی ولادت ہوئی
۱۹۴۲ شاعری اگرچہ قیام دہلی سے شعراء کے دیوانوں کے اصلاح کیا کرتے تھے تاہم دستیاب ریکارڈ کے مطابق 5 دسمبر 1942 کو" زار نزار" میں آپ کی غزل "میرا سفر رہی میرا کاشانہ ہے" شائع ہوئی۔
۴ جولائی۱۹۴۷ اعلان پاکستان تقسیم سے قبل ہی بذریعہ خط اظہار خوشی اور مبارک باد
۱۹۴۷ : پاکستان تشریف آوری مہاجرین کے ساتھ پاکستان آئے
۱۹۴۸ اوائل ابتدائی رہائش کراچی میں لی مارکیٹ کے محلہ عثمان آباد میں رہائش
۹۴۸ ابتدائی وسط باقاعدہ روزگار کا آغاز پاکستان آکر روزگار کے سلسلہ میں کراچی کے لارنس روڈ کی فٹ پاتھ پر بجلی کے فیوز
لگانے کا کام کیا۔
۱۹۴۸ اختتام تا وسط ۱۹۵۱۱۹۴۸ باقاعدہ ملازمت کا آغاز ڈان اخبار میں دو سال تک ملازمت کی سب ایڈیٹر کے عہدے پر فائز ہوئے
۱۹۵۰ درون خانہ بڑی صاحبزادی کی شادی کی جمیل صاحب سے ہوئی
۱۹۵۰ پیر اور مرشد کی پہلی ملاقات خواجہ شمس الدین عظیمی اور حضور قلندر بابا اولیاء کی پہلی ملاقات اردو ڈان
کے دفتر میں ہوئی حضور قلندر بابا اولیاء نے اس موقع پر آپ کو کھانے کے لیے پان دیا۔
۱۹۵۳ دوسری ملاقات خواجہ شمس الدین عظیمی اور حضور قلندر بابا اولیاء کی دوسری اور اہم ترین ملاقات اس
ملاقات کے بارے میں خواجہ شمس الدین عظیمی فرماتے ہیں اور ہم دونوں ایک دوسرے کے ہو گئے
۱۹۵۴ قبل از نظام تکوین؛ تکوینی نظام میں انتظامی ذمہ داری کا آغاز ہو چکا تھا
۱۹۵۴ وسط تک تکوینی ملاقات حضرت بو علی شاہ قلندر اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی آمد اہم تک تکوینی ملاقات
۱۹۵۴ دوسری ملازمت رسالہ نقاد میں کام
۱۹۵۶ باقاعدہ بیعت حضرت ابو الفیض قلندر علی سہروردی کے ہاتھ پر
۱۹۵۶ تفصیلات بیعت حضرت ابو الفیض قلندر علی سہروردی کے ہاتھ پر بیعت کی۔ حضرت ابو الفیض قلندر علی سہروردی نے ت سخت سردیوں میں گرانڈ ہوٹل کراچی میں رات تین بجے بلایا حضور قلندر بابا اولیاء رات ٹھیک دو بجے ہوٹل کی سیڑھیوں پر جا کر بیٹھ گئے ۔تین بجے حضرت ابو الفیض قلندر علی سہروردی نے دروازہ کھولا، اندر بلایا اور سامنے بٹھا کر حضور بابا صاحب کی پیشانی مبارک پر تین پھونکیں ماریں۔ پہلی پھونک میں عالم ارواح منکشف ہوگی۔ا دوسری پھونک میں عالم ملکوت و جبروت سامنے آگیا۔ تیسری پھونک میں حضور بابا صاحب نے عرش معلیٰ کا مشاہدہ کیا۔اس کے بعد حضرت ابو الفیض علی قلندر علی سہروردی نے قطب ارشاد کی تعلیمات تین ہفتوں میں پوری کرکے خلافت عطا فرمائی ۔
۱۹۵۷ قبل از ناظم آباد میں سکونت 1D 1/7ناظم آباد میں مستقل سکونت اختیار کرلی
۱۹۵۷ لوح و قلم لوح و قلم کا مسودہ خواجہ شمس الدین سے لکھوانا شروع کیا۔
۱۹۵۸ دربار رسالت مآب ﷺ دربار رسالت مآب صلی اللہ وسلم میں حاضری کا آغاز ہو چکا تھا
۱۹۵۹ لوح و قلم قلم کا مسودہ مکمل ہوگیا ۔
۱۹۵۹ نام کی مقبولیت زبان خلق پر حضور بھائی صاحب کے نام سے مقبولیت حاصل کی
۱۹۶۰ خانوادہ ۹ روحانی سلاسل کا خانوادہ بن کر مکمل ہو چکا تھا۔
۱۹۶۰ سلسلہ عالیہ عظیمیہ کا قیام دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے سلسلہ عظیمیہ کے قیام کی منظوری حاصل کی
۱۹۶۴ تکوینی مصروفیات تکوینی نظام میں بہت زیادہ مصروفیات بڑھ گئیں۔
۱۴ اپریل ۱۹۶۴ء بڑے صاحبزادے کی وفات آفتاب احمد گاڑی کے حادثے میں وفات ہو گئے گئے
۱۹۶۵ قبل از خواجہ صاحب خواجہ صاحب کے ہاں تشریف آوری کا آغاز ہو چکا تھا
۱۹۶۷ قبل از خانوادہ 11روحانی سلاسل کا خانوادبننا مکمل ہوگیا
۱۹۷۰بعد از عظیمیہ فاؤنڈیشن کا قیام عظیمیہ ٹرسٹ فاؤنڈیشن کا قیام آپ کی حیات میں ہی ہو چکا تھا
۱۹۷۷ بیماری کا آغاز آپ کی صحت خراب ہونا شروع ہوگئی
۱۹۷۸ بیماری میں اضافہ بیماری نےطول پکڑنا شروع کر دیا علاج معالجہ سے بھی فرق نہ پڑا
۱۹۷۸بعد از وسط صحت کی شدیدکمزوری بیماری کے باعث صحت بہت کمزور ہو گئی حتی کہ زیادہ وقت لیٹے ہی رہتے آخری دنوںمیں خرابی صحت کے باعث ہلنے بھی تک ہلنے میں بھی تکلیف پیش آنے لگی
یکم دسمبر ۱۹۷۸ روحانی ڈائجسٹ کا اجرا روحانی ڈائجسٹ کا پہلا شمارہ آپ کی زیر سرپرستی میں چھپا.
۱۹۷۸ اللہ سے درخواست جب بیماری سے بڑھ گئی اور کوئی علاج و معالجہ بھی کارگر ثابت نہ ہوا تو آپ کے قریبی عقیدت مند سراج صاحب نے آپ کی خدمت میں درخواست کی کہ آپ اس بیماری کو روحانی قوتوں سے ختم فرمائیں۔
اس پر بابا صاحب نے فرمایا:
"میں نے اللہ تعالی سے درخواست کی تھی کہ اللہ تعالی نے مجھے یہ ہدایت کی ہے کہ میں عوام کی طرح دنیا میں رہوں، اور عوام کی طرح علاج کراؤں اور عوام ہی کی طرح نقل مکانی کروں۔"
یکم جنوری ۱۹۷۹ روحانی ڈائجسٹ روحانی ڈائجسٹ کا دوسرا شمارہ آپ کی زیر سرپرستی شفا اس کے بعد آپ کا وصال ہوگیا اور یوں آپ کی حیات میں ڈائجسٹ دو مرتبہ چھپا۔
۲۷ جنوری ۱۹۷۹ روحانی ڈائجسٹ روحانی ڈائجسٹ کا تیسرا شمارہ پر تیار ہو چکا تھا کہ حضور قلندر بابا اولیاء کے وصال کی خبر آگئی ڈائجسٹ وائی ہنگامی طور پر روک دی گئی اور یہ خبراندرون ٹائٹل شائع ہوئی انا للہ وانا الیہ راجعون۔
۲۷ جنوری ۱۹۷۹ء اخبارات حضور قلندر بابا اولیاء کے وصال کی خبر روزنامہ جنگ روزنامہ جسارت اور روزنامہ ملت گجراتی نے نمایاں طور پر شائع کی۔
۲۷ جنوری ۱۹۷۹ء وصال رات ایک بج کر دس منٹ بروز ہفتہ آپ اپنے خالق حقیقی کے حضور حاضر ہوگئے، اس وقت ڈائجسٹ کا تیسرا شمارہ تیار ہو چکا تھا جسے ہنگامی حالت میں روک کر ٹائٹل پر آپ کے وصال کی خبر ان الفاظ میں شائع کی گئ:
آہ قلندر بابا اولیاءؒ!
واحسرتاہ کہ آج دنیا وجود سرمدی سے خالی ہو گئی جس کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے میں اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہوں اور میں ان کے کان آنکھ اور زبان بن جاتا ہوں پھر وہ میرے ذریعے سنتے ہی میرے ذریعہ بولتے ہیں اور میرے ذریعہ چیزیں پکڑتے ہیں۔
تجہیزو تکفین ۲۷ جنوری ۱۹۷۹ بہ مطابق ۲۷ صفر ۱۳۹۹
کفن آب زم زم میں ڈوبا ہوا بڑی پھوپھو جنڈو صاحبہ
تولیا احرام طاہر بھائی صاحب
سامان غسل شمشاد احمد صاحب
غسل بھائی علی اللہ
نماز جنازہ بعد عصر مسجد مولوی خلیل الرحمٰن صاحب نے پڑھائی
قبر کی جگہ حاتم جیون جی ARCHITECT نے محل وقوع کا انتخاب کیا
اندر کی اینٹیں جمیل صاحب
سلیب خواجہ شمس الدین عظیمی
سیمنٹ علی اللہ صاحب
قبر کی لمبائی سات فٹ اندر کی طرف 8 فٹ صندوق تعویذ
قبر کی چوڑائی چار فٹ اندر سے
قبر میں اتارا علی اللہ سراج اندر اتر شمشاد خارج قادری وقار یوسف صاحب اوپر رہے
تلقین سرہانے کی جانب خواجہ شمس الدین عظیمی
پائے مبارک کی جانب مولوی خلیل اللہ صاحب
لحد مبارک اس وقت مٹی جا رہی تھی اس وقت مغرب کی اذان ہو رہی تھی۔
آپ کو آپ کی وصیت کے مطابق عظیمیہ ٹرسٹ فاؤنڈیشن
کے شمالی حصہ میں سپرد خاک کیا گیا۔
۱۹۷۷ سے پیشتر حضور قلندر
بابا اولیاء ؒ نے آٹھ ماہ تک چوبیس گھنٹے میں صیرف ایک پیالہ دودھ پر گزارا کیا،
تین روز پہلے کھانا اور پینا بالکل چھوڑ دیا ، ایک ہفتہ پہلے ہی اس بات کا اعلان
فرمادیا کہ اب میں زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے کا مہمان ہوں، جس روز انتقال ہوا اس
روز اپنے داماد محمد جمیل صاحب سے فرمایا کہ آج تم کہیں نہ جانا میرا کچھ
پتہ نہیں، وصال والی رات دس بجے ، خانوادہ
سلسہ عظیمیہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیم صاحب کو طلب کیا، عظیمی صاحب بیان کرتے
ہیں، کہ حضور قلندر بابا اولیاء ؒ وصال سے قبل مجھے مخاطب کرکے فرمایا تھا
" خواجہ صاحب ! مشن کو پھیلانے والے لوگ دیوانے ہوتے ہیں" پھر مجھ
سے فرمایا آپ میری بات سمجھ گئے۔ میں نے
عرض کیا " حضور میں آپ کی منشا اور آپ کی ہدایت کو سامنے رکھ کر سلسلے کی
پیش رفت میں ان شاء اللہ دیوانہ وار کام کروں گا"، حضور خوش ہوئے اور میرے سر
پر ہاتھ رکھا، پھر پیشانی پر انگلیوں کے پوروں سے دائرے بناتے رہے، اور پھونک مار
کر فرمایا ،" اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو"، رات ایک بج کر دس منٹ پر
آپ اپنے خالق حقیقی کے حضور مسقل حاضری میں چلے گئے۔
حضرت عظیمی صاحب بیان کرتے ہیں کہ!
"آپ کی نماز جنازہ میں ہزاروں انسانوں کے علاوہ لاکھوں فرشتے بھی صف بستہ تھے۔سید الانبیاء سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، عاشق رسول حضرت اویس قرنی، سرتاج الاولیاء حضرت غوث اعظم اپنے معزز فرزند سعید کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ حد نظر تک اولیاء اللہ کی ارواح کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔"
"سوانح
ٰ حیات بابا تاج الدین ناگ پوری " میں لکھا ہے کہ عام روایت کے مطابق حضور بابا تاج
الدی اولیاء سرکار کامٹی ناگپور میں ۵ رجب المرجب ۱۲۷۷ بمطابق ۲۷ جنوری ۱۸۶۱ کو
پیر کے دن صبح فجر کےوقت پیدا ہوئے، حسین اتفاق یہ ہے کہ ۱۱۸ سال بعد ۱۹۷۹ کو اسی دن یعنی ۲۷
جنوری کو حضور قلندر بابا اولیاءؒ (نواسہ
بابا تاج الدین ناگ پوری) فجر سے چند گھنٹے قبل صبح ایک بج کر دس منٹ پر خالق
حقیقی کے حضور مستقل حضوری میں چلے گئے
مکمل نام: حسن اخری محمد عظیم برخیا المعروف حضور
قلندر بابا اولیاءؒ
حسن اخری: اللہ تعالی کے مقرب
بندوں کو جب حضور علیہ الصلاۃ والسلام روحانی طور پر تعلیمات دے کر فارغ
کرتے ہیں تو ایک نام عطا فرماتے ہیں اور بعد میں اسی نام سے یاد فرماتے ہیں۔ حضور
قلندر بابا اولیاء کو آپ صلی اللہ وسلم نے" حسن اخری " کا لقب عطا
فرمایا۔ دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں ان ہی الفاظ سے مخاطب خطاب کیے جاتے ہیں اس نام کی
مناسبت قلندر بابا اولیاء کے ننہالی جدی
ی نام" حسن مہدی "سے بھی ہے۔
سید: نجیب
الطرفین سادات ہونے پر سید کہلائے جاتے ہیں۔
محمد عظیم پیدائش
پر والدین یہ نام رکھا
برخیا
شعر و سخن کے شوق سے وابستہ کی خاطر "برخیا" کا تخلص اختیار کیا ۔
قلندر بابا
اولیاء ملائکہ ارض و سماوی اور حاملان عرش میں اسی نام سے
جانے جاتے ہیں اور بعد از وصال یہی نام آپ کے چاہنے والوں کی زبان پر ہے۔
بھیا: ڈان
کے دفتر میں سب آپ کو بھی بھیا کہتے تھے۔
بھائی صاحب آپ کے چھوٹے بھائی آپ کو اس نام سے پکارتے تھے
اس لیے دیگر افراد نے بھی آپ کو اسی نام سے پکارنا شروع کر دیا اور آپ بھائی صاحب
کے نام سے بھی جانے گئے۔
حضور بھائی
صاحب: بھائی صاحب کے ساتھ حضور کا اضافہ ڈاکٹر
عبدالقادر نے کیا جو کہ سلسلہ کے صاحب اختیار بزرگ ہیں۔
اگرچہ آپ بھائی صاحب نہیں کہلوائے جاتے لیکن حضور کا یہ اضافہ آج تک برقرار ہے۔
اماں: حکیم وقار یوسف عظیمی اور ان
کے بھائی بہن بھائی وغیرہ بچپن میں اسی نام سے پکارتے تھے۔
صلبی محمد آفتاب احمد مرحوم محترم شمشاد احمد محترم رؤوف احمد ،
محترمہ سلیمہ خاتون، محترمہ تسلیمہ خاتون،
روحانی: نوع انسانی نوع جنات و دیگر انواع عالم
v رباعیات قلندر بابا
اولیاءؒ: علم و عرفان کا سمندر
امور ہا ئے تصوف
اور نظام کائنات کے متعلق شاعری کی تصنیف آپ کے وصال کے بعد شائع ہوئی۔
v لوح و قلم: اسرار و رموز کا خزانہ
لوح محفوظ اور
کائنات سے متعلقہ قوانین پر مشتمل یہ جامع
تصنیف آپ کے وصال کے بعد شائع ہوئی۔
v تذکرہ تاج الدین
بابا: ماورائی علوم کا بحر بے کراں
کشف و کرامات
اور ماورائی علوم کی توجیہات پر یہ تصنیف آپ کی حیات میں ہی شائع ہوئی
v قدرت کی اسپیس: کائناتی فارمولوں کا ریکارڈ
آپ کا قد بہت مناسب، چہرہ پروقار، چوڑا ماتھا،
ابھرے ہوئے ابرو ،سر کے بال بہت مناسب داڑھی
گھنی اور چھوٹی، جبکہ سر اور داڑھی کے بال دس پندرہ روز میں روز ترشواتے۔
سر کے بال کبھی ایک انچ سے اور داڑھی کے بال صرف نصف انچ سے نہ بڑھائے تھے۔، سر پر
نہ کبھی استرا پھروایا، نہ
کبھی زلفیں رکھیں۔ آنکھیںنہ بہت
چھوٹی، نا بہت بڑی، گال گوشت سے بھرے ہوئے اور چوڑی ناک، مضبوط کندھے اور بازو
ہاتھ اور انگلیوں پر بہت ہی مناسبت سے گوشت کا
ابھار۔ آپ اکثر اوقات قمیص اتار کر رکھتے تھے، جس سے اوپری جسم عیاں ہوتا
تھا۔چہرہ ،گردن ،کندھے، سینہ ،کمر، غرض
کسی بھی حصہ میں کوئی ہڈی نمایاں نہ ہوتی، تمام جسم پر گوشت بہت مناسب تھا جس سے
آپ کی جسمانی وضع بہت ہی مناسب اور خوبصورت تھی۔ چہرہ دیکھنے سے ایک بہت ہی با
وقار اور سلجھے ہوئے اور صاحب علم ہونے کا
عکس دیتا تھا۔ طبیعت میں متانت اور سنجیدگی ایک خاص وقار سے نمایاں تھی، دانت بہت
ہی چمک دار تھے، جیسے موتی۔
آپ
نجیب الطرفین سید ہیں آپ کا خاندانی سلسلہ
گیارہویں امام حضرت حسن عسکری سے
جا ملتا ہے ۔دادھیال اور ننھیال دونوں جانب سے آپ کے جد
امجد حضرت فیصل مہدی عبداللہ عرب حضرت امام حسن عسکری کی اولاد میں سے تھے۔ حضرت
فیصل مہدی مدینہ منورہ سے ہندوستان تشریف لے آئے تھے اور یہاں آکر مدراس میں مقیم
ہوگئے۔ آپ کے صاحبزادے حضرت حسین مہدی رکن الدین مدراس سے کشمیر آگئے اور پھر یہاں سے ہری پور ہزارہ
میں سکونت اختیار کرلی۔ آپ نے 149 سال اور آٹھ ماہ کی طویل عمر پائی جب کی آپ کے
دوسرے صاحبزادے حضرت حسن مہدی جلال الدین مدراس میں ہی قیام پذیر رہے۔
حضور قلندر بابا
اولیاء کی دادھیال حضرت حسن مہدی رکن
الدین کی اولاد میں، اور ننھیال حضرت حسن
مہدی جلال الدین کی اولاد میں سے ہے ۔حضرت حسن مہدی رکن الدین کی اولاد میں سے دو
نام بہت قابل تذکرہ ملتے ہیں۔ ان میں سے ایک مخدوم حسین مہدی جمال الدین ہیں جوکی
اللہ دین کی عرفیت سے جانے جاتے ہیں جبکہ دوسرے حسین مہدی بدیع الدین شیر دل ہیں
جن کی اولاد میں سے حضور قلندر بابا اولیاء کے والد محترم تھے۔ جبکہ آپ کی ننھیال حضرت حسن مہدی جلال الدین کی اولاد میں
سے ہیں۔ آپ کے ننھیال کے خاندان میں کئی
صاحب ولایت بزرگ گزرے ہیں۔ مغل شہنشاہوں نے انہیں بہت سی جاگیریں نذرکی ہوئی تھیں۔انہیں
میں سے ایک سعد الدین مہدی تھے جو مغلیہ دور میں فوجی افسر ہوکر دہلی آئے۔ بادشاہ
دہلی کی طرف سے انہیں "ابار"
نام کا ایک موضع بطور جاگیر دیا گیا۔ مغل شہنشاہ فرخ سیر کے زمانے میں صوبے کے
گورنر نواب مالاگرڑھ نے حقوق جاگیرداری ضبط کرلیے اور صرف کاشتکاری کی حیثیت باقی رہ
گئی۔
چوں کہ آپ کے ننھیال کا وطن کولار (مدراس) ہے۔ اس لئے آپ کے خاندانی بزرگوں کی رہائش کی
نسبت سے یہ شہر" کولار شریف" کہلاتا ہے اور آپ کے ننھیال کے بزرگ "پیرزادہ
کو لار شریف" کے نام سے مشہور ہیں۔ حضرت سید قادر صاحب بھی انہی میں سے
ایک ہیں۔ بعض وجوہات کی بنا پر سید قادر صاحب اپنی آبائی جاگیر وغیرہ میں سے دستبردار
ہوکر فوج میں ملازم ہوگئے اور ترقی کرتے کرتے صوبیدار میجر کے عہدے تک پہنچ گئے
تھے۔ آپ کے ایک ہی صاحبزادے تھے جن کا نام حضرت سید علی صاحب تھا اور ایک ہی
صاحبزادی حضرت سیدانی بی اماں تھیں، جو کہ
اپنے وقت کی صاحب ولایت خاتون تھیں۔ ان کا مزار آج بھی مرجع خلائق خاص و عام ہے۔
حضرت سید علی صاحب کے صاحبزادے حضرت سید حیدر
صاحب فوج میں نا ئک تھے، آپ کا تبادلہ کامٹی ناکپور میں ہو گیا جہاں آپ نے مستقل
سکونت اختیار کر لی تھی۔ ان کی اولاد میں سے بابا تاج الدین کے دادا جمال الدین
تھے آپ کے چار صاحبزادے اور ایک صاحبزادی تھیں جن میں سب سے بڑے صاحبزادے حضرت سید
حسن مہدی بدرالدین صاحب تھے ۔بدرالدین مہری ساگر ڈپو میں صوبہ دار تھے۔ ساگر
ہندوستان کے صوبے یوپی میں واقع ہے۔
اس طرح سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا
ملتا ہے۔
حسین مہدی جمال الدین سعد الدین مہدی
سید قادر صاحب
سید علی سیدانی بی اماں
سید حیدر صاحب
جمال الدین سیدحسن مہدی صدرالدین
سید مہدی بدرالدین
حسین مہدی بدرالدین شیردل بابا تاج الدین ناگپوری حسن مہدی ظہورالدین حسن مہدی سراج الدین
والد گرامی حضور قلندر بابا محترمہ سعیدہ والدہ، حضور قلندر بابا اولیاءؒ
امام سلسلہ عالیہ عظیمیہ حسن اخری محمد عظیم برخیا المعروف حضور قلندر
بابا اولیاءؒ
آپ کا تکوینی
عہدہ اور مقام
حسن اخری سید
محمد عظیم برخیا المعروف حضور قلندر بابا اولیاء علمی و روحانی دنیا میں کس مقام
پر فائز ہیں وہاں تک ہماری رسائی نہیں شاید آئندہ نسلیں جب ان کا شعور ترقی کرجائے
تو قلندربابا کے مقام و مرتبے سے آشنا ہو جائیں۔تاہم حضور قلندر بابا اولیاء کے مقام
اور مرتبے کو جاننے کے لیے نظام
تکوین کو سمجھنے کی کوشش ضرور کی جا سکتی ہے۔
جس طرح دنیا میں
کسی حکومتی نظام کو چلانے کے لیے مختلف شعبے اور MINISTRIES قائم کی
جاتی ہیں، اسی طرح اللہ تعالی نے بھی اپنا انتظام چلانے کے لیے باقاعدہ ایک
سیکریٹریٹ ٹائم کیا ہواہے اسے نظام تکوین کہتے ہیں۔ اس نظام میں مختلف عہدے ہوتے
ہیں جیسے جیسے نجباء ، نقیا، ابرار، اخیار، اوتاد، مخدوم ، شاہ ولایت ،صاحب خدمت، اہل نظامت ، اہل تفصیل ، غوث، مدار تفہیم، قطب،قطب
عالم،قطب تفہیم، قطب تعلیم،قطب مدار، قطب الاقطاب،قطب کوچک ابدال، ابدال حق،
ممثلین، صدور الصدور وغیرہ۔۔۔
اولیاء اللہ کا
نہایت برگزیدہ گروہ" اقطاب "کہلاتا ہے۔ یہ گروہ تکوین عالم کی ذمہ
داریوں کو سرانجام دیتا ہے قطب عالم ایک ہوتا ہے، عالم غیب میں اس کا نام عبد اللہ
ہوتا ہے۔ ہر بستی اور ہر شہر میں ایک قطب
ہوتا ہے۔ قطب کے معاون اولیا ء اللہ کا گرور" ابرار" کہلاتا ہے۔ تکوین عالم کے کاموں میں مصروف اولیاء
اللہ کی تعداد 7 بتائی جاتی ہے۔ نظام
تکوین میں جو حضرات اللہ تعالی کی طرف سے
ملنے والے حکم ااور پالیسیوں کو عملی جامہ
پہنانے والے لوگ "اہل نظام " کہلاتے ہیں۔ اہل نظامت کی مرتب کردہ
پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے والے لوگ ہیں" اہل تفصیل" کہلاتے ہیں نظام
تکوین میں یہ حضرات اہم کردار ادا کرتے ہی۔
مقام ولایت
حضور قلندر بابا اولیاء تمام اولیاء کی تاریخ میں واحد بزرگ جو ۲۱ روحانی سلاسل کے
مربی و مشفی ہیں اور گیارہ روحانی سلاسل
کے خانوادہ ہیں، اسی طرح تمام اولیاء میں حضور قلندر بابا اولیاء کو یہ انفرادیت
حاصل ہے کہ انہوں نے روحانی اور آسمانی علوم کو محفوظ کرنے کے لئے باقاعدہ دستاویز
(کتاب لوح و قلم نقشہ جات ) کی صورت میں نوع
انسانی کے لیے مرتب کیا۔
آپ درج ذیل
روحانی سلاسل کے خانوادہیں۔
سلسلہ نوریہ سلسلہ قلندریہ سلسلہ فردوسیہ سلسلہ چشتیہ
سلسلہ قادریہ سلسلہ نقشبندیہ سلسلہ سہر وردیہ سلسلہ ملامتیہ
سلسلہ تاجیہ سلسلہ جنیدیہ سلسلہ سیفوریہ
مولانا کابلی براہ راست تعلیم دی
تاج الاولیاء بابا تاج الدین ناگپوری سرکار خانوادہ براہ راست تعلیم دی
حضرت ابوالفضل قلندر علی سہروردی خانوادہ براہ راست تعلیم دی
حضرحسن عظمی سراج الدین بندگی شاہ خانوادہ براہ راست تعلیم دی
حضرت حسن کبری مہدی ظہورالدین عبد المقتدر خانوادہ براہ راست تعلیم دی
حضرت محمد صغری تاج الدین (چراغ الدین) خانوادہ براہ راست تعلیم دی
حضرت شیخ بہاء الحق الدین زکریا ملتانی خانوادہ بطریق اویسیہ تعلیم دی
شیخ الشیوخ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی خانوادہ بطریق اویسیہ تعلیم دی
حضرت شرف الدین بو علی شاہ قلندر خانوادہ بطریق اویسیہ تعلیم دی
حضرت نجم الدین کبری شیخ کبیر امام سلسلہ بطریق اویسیہ تعلیم دی
حضرت ممشاد دینوری امام سلسلہ بطریق اویسیہ تعلیم دی
حضرت ذوالنون مصری امام سلسلہ بطریق اویسیہ تعلیم دی
حضرت شیخ غوث اعظم عبد القادر جیلانی امام سلسلہ بطریق اویسیہ تعلیم دی
حضرت شیخ بہاء الحق نقشبندی خواجہ باللہ امام سلسلہ بطریق اویسیہ تعلیم دی
حضرت ابوالقاہر امام سلسلہ بطریق اویسیہ تعلیم دی
حضر ت بایزید بسطامی امام سلسلہ بطریق اویسیہ تعلیم دی
حضرت امام موسی کاظم رضا امام سلسلہ بطریق اویسیہ تعلیم دی
حضرت عبد القاسم جنیدی بغدادی امام سلسلہ بطریق اویسیہ تعلیم دی
باب علم حضرت علی کرم اللہ وجہہ بطریق اویسیہ تعلیم دی
سید لانبیاء سرورکونین حضرت محمد ﷺ براہ راست تعلیم دی
اوصاف حمیدہ
لباس عمدہ مگر سادہ استعمال کرتے تھے،
قمیض کا کالر نہیں ہوتا تھا، پاجامہ چوڑے پائچے کا ، موری تقریبا ۶ انگل لوٹی ہوئی
، گرمیوں میں صرف قمیض پاجامہ زیب تن کرتے۔
لیکن سردیوں میں کہیں جب باہر تشریف لے جاتے تو شیروانی اور ٹوپی ضرور پہنتے۔ جناح
کیپ استعمال کرتے تھے۔ لباس عموما سفید رنگ کا زیب تن کرتے تھے۔ جوتے ہمیشہ براؤن پہنتے، سیاہ رنگ جوتے استعمال
نہیں کرتےتھے۔ فرماتے تھے جو آفاقی شعاعیںCosmic
Rays دماغ پر وارد ہوتی ہیں، جسم میں دور کرتے
ہوئے پیروں کے راستے میں جذب ہو جاتی ہیں۔ لیکن اگر سیاہ رنگ کے جوتے پہنے جائیں
تو سیاہ رنگ ان کو جذب کرکے زمین تک نہیں جانے دیتا ہے جس سے جسم اور ذہن کو نقصان
ہوتا ہے۔آپ بہت ہی مہمان نواز طبیعت کے مالک تھے۔کوئی خاص کھانا پسند نہ تھا نہ ہی
کوئی تکلف کرتے تھے ۔جو سامنے آیا وہی کھا لیتے البتہ اچھے کھانے کا شوق بھی
فرماتے تھے۔ لیکن عموما خوراک سادہ ہی ہوتی۔
بابا صاحب نے استعمال کی ہر چیز کی ایک جگہ مقرر
کر رکھی تھی۔ شیروانی ، دھل کر آئے ہوئے کپڑے بستر پر تکیہ پائیتی پر چادر ،تکیے
کے بائیں جانب ٹوپی غرض ہر چیز اپنی جگہ پر موجود ہوتی تھی۔ کوئی نا کوئی
کتاب آپ کے مطالعے میں ضرور رہتی جو عموما تکیے کے نیچے بائیں جانب موجود رہتی اور
ساتھ میں قلم بھی ہوتا۔ کتابوں کی الماری میں کتابیں ایسی ترتیب سے ہوتیں کہ کہتے
فلاں خانے میں دائیں طرف تیسری کتاب یا بائیں جانب پانچویں کتاب فلاں مضمون
پر ہے نکالو۔ حتیٰ کہ جوتے اتارتے وقت اس التزام سے رکھتے کہ جوتے ایک سوت آگے
پیچھے نہ ہوتے۔ مزاح بھی فرماتے اور دوسروں کی شگفتہ باتوں کو بھی پسند فرماتے ۔تبسم فرماتے ،یا ہنستے، لیکن
کبھی قہقہ نہیں لگاتے ۔مزاح ہمیشہ ایسا فرماتے جس سے محفل میں تہذیب و اخلاق
بھی رہے اور شگفتگی بھی ہو
جائے۔
بچوں سے خاص الخاص شفقت فرماتے، ان کی ہر بات سنتے تمام عمر کسی بھی بچے سے سختی
نہ کی ، دوسروں کو بھی شفقت کی تلقین کرتے ۔بچوں کی دل آزاری سے گریز فرماتے اور
بچوں کی خوشی کو ہمیشہ مقدم رکھتے۔ دوسروں سے اچھے برتاؤ اور حسن سلوک پر خاص زور
دیتے ، اور خود تو خاص الخاص ااس پر عمل پیرا رہتے۔ آپ کی تمام باتوں میں محبت
کا پہلو نمایاں رہتا تھا۔ قلندر بابا نے کبھی زندگی میں صابن سے ہاتھ نہ دھوئے، گرم پانی سے ہاتھ دھو کر تولیے سے صاف
کر لیا کرتے تھے۔ ہاتھ دھونے میں کافی وقت صرف ہو جاتا تھا۔ جب تک ہاتھ میں لگی
ہوئی چکنائی دور نہیں ہو جاتی تھی ہاتھ دھوتے رہتے تھے ۔ جھوٹ سے سخت نفرت کرتے سب کو نصیحت کرتے کہ نہ
بڑے جھوٹ بولیں اور نہ بچہ جھوٹ بولے۔ نہ تو فضول خرچ تھے اور نہ ہی نمود و نمائش
کے قائل۔ہمیشہ سادگی پسند کرتے تھے۔ اپنے تمام فرائض کی ادائیگی میں بہت پابند تھے۔
اور دوسروں کو بھی اس کی تاکید کرتے ۔چیخ کر بلانے کو سخت نا پسند کرتے ۔جو ذرا اونچی آواز میں بولتا
اسے تاکید فرماتے کہ " ارے بھائی آہستہ بولو ،بلاوجہ کیا بلڈ پریشر ہائی کرنا"
اگر جواب میں کہا جاتا ہے،" بھائی
صاحب عادت بن گئی ہے" تو آپ فرماتے " کیا عادت بن گئی ہے ۔۔۔بنا لی ہے! صحیح کر لو کیا فائدہ اتنی زور سے کیوں
بولتے ہو۔"
اس سلسلے میں ہمیشہ نصیحت کرتے"
آواز کمرے سے باہر نہیں جانی چاہیے اور نہ دوسرے کمرے میں آواز سے کوئی پریشانی ہو۔
وقت کی بہت زیادہ پابندی کرتے کہیں جانا ہوتا تو مخصوص وقت پر تیار ہوتے، اور پورے وقت پر پہنچ جاتے۔ پورے وقت پر تمام کام کرتے ۔بہت مہمان نواز تھے۔ ہر آنے والے کچھ نہ کچھ پیش کرتے ۔تمام زندگی کبھی کوئی مہمان خالی واپس نہ گیا۔
بہت کم گو تھے۔ فضول گفتگو سے پرہیز کرتے ۔مقابل کے ذہنی سطح پر اس کی
ضرورت اور سمجھ بوجھ کے مطابق گفتگو فرماتے ۔کوئی بات بتاتے وقت اکثر و بیشتر
عمومی افہام و تفہیم کے لئے اپنے ساتھ یا
اپنے سامنے ہونے والے واقعات کو بنیاد بنا کر کسی خیال یا نقطہ کو پیش کیا کرتے
تھے۔ اس سے حقیقت بیانی اور صداقت نظریہ اور خیال کے متعلق کوئی ابہام یا
عدم صداقت کا شائبہ نہیں ہوتا تھا۔ آپ کے دوست سید نثار علی بخاری بتاتے ہیں کہ آپ
اپنے والد صاحب کا بے حد احترام کرتے۔ ان کے سامنے ہمیشہ نیچی آواز میں بولتے اور
نظریں نیچی رکھتے۔
ارشادات عالیہ
یوں تو آپ کے ارشادات مبارک اتنے ہیں
کہ ان پر کئی جامع کتابیں بھی تحریر کی جائیں تو بھی ان میں کمی واقع نہ ہو یہاں
پر چند ارشادات مبارکہ پیش خدمت ہیں جو نوع انسانی کے لیے ایک پیغام ہیں،
Ø اصل رشتہ روحانی رشتہ ہے ۔
Ø سکون ایک کیفیت کا نام ہے جو یقینی ہے اور
جس کے اوپر کبھی موت وارد نہیں ہوتی۔
Ø آدمی آدمی کی دوا ہے۔
Ø استغناء
بغیر یقین کے پیدا نہیں ہو سکتا اور یقین کی تکمیل بغیر مشاہدے کے نہیں
ہوتی۔
Ø کسی کو اپنا بنانے کے لیے اپنا بہت کچھ
کھونا پڑتا ہے۔
Ø قرآنی پروگرام کے دونوں اجزاء نماز اور
زکوۃ روح اور جسم کا وظیفہ ہیں۔ وظیفے سے مراد حرکت ہے جو زندگی کو قائم رکھنے کے
لیے انسان پر لازم ہے۔
Ø آیات الہی سے مراد ایسی نشانیاں ہیں جن کی
طرف اللہ تعالیٰ نے بار بارقرآن میں توجہ دلائی ہے۔
Ø اپنے نفس کا عرفان انسان پر معرفت الہیہ کا دروازہ کھول دیتا ہے۔
Ø ایمان سے مراد ذوق ہے ، ذوق و عادت ہے جو
تلاش میں سرگرداں رہتی ہے۔
Ø ایک مرتبہ مرید اور مرشد کے آپس کے تعلق کے
حوالے سے بتایا کہ:
"مرید اور مرشد کا
رشتہ استاد شاگرد ،اولاد اور باپ کا ہے۔ مرید مرشد کا محبوب ہوتا ہے۔ مرشد مرید کی
افتاد طبع کے مطابق تربیت دیتا ہے۔ اس کی چھوٹی بڑی غلطیوں پر پردہ ڈالتا ہے۔ نشیب و فراز اور سفر کی صعوبتوں سے گزر کر اس
مقام پر پہنچا دیتا ہے۔ جہاں پر سکون زندگی اس کا
اس کا احاطہ کر لیتی ہے۔”
شاعری
حضور قلندر بابا اولیاء اس مادی دور کی تاریکیوں میں
روشنی کا مینار اور مضطرب اور پریشان دلوں کے لئے سرچشمہ ٔسکون و قرار تھے۔ وہ وقت بہت زیادہ دور نہیں جب آپ کی تعلیمات اور
ہدایات کا ایک بیش بہا خزانہ منظرعام پر آ جائے گا۔ اور دنیا کے بڑے بڑے دانشور
اور حکمت و فلسفہ کےحاملین یہ دیکھ کر انگشت بدنداں رہ جائیں گے کہ انہوں نےچاند
ستاروں پر کمند ڈالنے کی سعی ناتمام میں وقت اور دولت کا بے دریغ ضیاع کیا، مگر
فطرت کے راز ہائے سربستہ کے ایسے مایہ افتخار کے فیض سے محروم رہے۔ جو ابھی کچھ عرصہ پہلے تک
انہیں کے درمیان جسد خاکی کے روپ میں جلوہ فگن تھا اور جس کے درحکمت و ہدایت سے
متلاشیان حق کو وہ سب کچھ مل سکتا تھا جس کی انہیں تلاش تھی۔ آپ کی تعلیمات کا
بڑا حصہ آپ کی شاعری " رباعیات" ہیں،قلندر بابا اولیاء اردو شاعری کی
تاریخ میں اہم ترین اور واحد شخصیت ہیں جنہوں نے تصوف کو بیان کرنے کے لئے اردو کی
مشکل ترین صنف رباعی کا استعمال کیا اور یہ کام اس خوبی سے کیا کہ وہ اردو شاعری
کا شاہکار بن گیا۔
فنی محاسن کے اعتبار سے رباعیات قلندربابا
اولیاء ہر اس معیار پر پوری اترتی ہے جو کہ اردو شاعری کو امتیاز بخشتا ہے۔
رباعیات کے موضوعات اس کی زبان، مصرعوں کی ترتیب، اس کی بحر، الغرض ہر معیار پر یہ
رباعیات منفرد اور معیاری ہیں، اور بلا شبہ اپنے فنی محاسن کے سبب اردو ادب میں
نمایاں مقام حاصل کرنے کے قابل ہیں، اس طرز کی صوفیانہ شاعری میں یہ خوبی حضور قلندر بابا
اولیاء کو ایک منفرد مقام عطا کر دی ہے، حرف آخر کے طور پر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا
کہ حضور قلندر بابا اولیاء کی ذات گرامی سے رباعیات اور شعر و شاعری کی صورت میں شراب عرفانی کا ایک ایسا چشمہ پھوٹ نکلا جس سے رہروان
سلوک نشہ توحیدی میں مست و بے خود ہونے کے لیے ہمیشہ سرشار ہوتے رہیں گے۔ اور سخن کو سمجھنے والے
اپنی علمی و ادبی تشنگی دور کرتے رہیں گے۔ آنے والا وقت یقینا اثبات شاہد ہوگا کہ یہ
رباعیات جہاں اپنی اور معنوی اعتبار سے
کلاسک کا درجہ رکھتی ہیں وہاں یہ سرچشمہ ہدایت اور کائنات کے رازوں کی امین بھی
ہیں۔
حضور قلندر بابا اولیاء
کی خواہش تھی کی کتاب باتصویر چھپے،آپ نے اس کے لیے ملک کے نامور آذرروبی
سے تمام رباعیات کی تصاویرتیار کروائیں جو کہ محسن صاحب سے گم ہو گئیں۔ بعد
میں آپ نے اس سلسلہ میں دلچسپی ہی نہ لی، اس طرح آپ کی حیات مبارکہ میں یہ کام
پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا اور آپ کی شاعری کی کتاب رباعیات آپ کے وصال کے
بعد چھپی۔ میں نے سلسلہ عالیہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ کارکن کی حیثیت سے
ان رباعیات پر کام کا آغاز کیا تو میں نے یہ جانا کہ حضور قلندر بابا اولیاء نے رباعیات
کہہ قرآن کو شعری صورت میں بیان کر دیا اور یہ اور یہ رباعیات سوائے اللہ کی
آواز کے کچھ بھی نہیں۔
حضور
قلندر بابا اولیاء رباعیات کو با تصویر پیش کرنا چاہتے تھے تاکہ قاری اس کے حقیقی
مفہوم سے آشنا ہو سکے۔ رباعیات کا یہ
نیازاویہ شاید اس سلسلے کی ایک کڑی ہے کہ ہم رباعیات
میں پوشیدہ اللہ کے پیغام کو کو الہامی
کتاب قرآن مجید کی رو سے سمجھ سکیں۔ میرے لیے یہ امر افتخار حیات ہے، کہ زیر نظر
کاوش کو آپ تک پہنچانے کی سعادت
مجھے حاصل ہوئی ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ختمی مرتبت ، سرور
کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے نور نظر ، حامل لدنی ، پیشوائے سلسۂ
عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء ؒ کی
ذات بابرکات نوع انسانی کے لیے علم و عرفان کا ایک ایسا خزانہ ہے جب ہم
تفکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیا ں ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالی نے جہاں
آپ تخلیقی فارمولوں اور اسرار و رموز کے علم سے منور کیا ہے وہاں علوم و ادب اور
شعرو سخن سے بہرور کیا ہے۔ اسی طرح حضوور بابا جی ؒ کے رخ جمال (ظاہر و باطن) کے
دونوں پہلو روشن اور منور ہیں۔
لوح و قلم اور
رباعیات جیسی فصیح و بلیغ تحریریں اس بات کا زندہ
و جاوید ثبوت ہیں کہ حضور بابا قلندر بابا اولیاءؒ کی ذات گرامی سے شراب عرفانی ایک ایسا چشمہ پھوٹ نکلا ہے جس
سے رہروان سلوک تشنۂ توحیدی میں مست و بے خود ہونے کے لیے ہمیشہ سرشار ہوتے رہیں گے۔