Topics

دیباچہ

(اصل متن "تذکرہ قلندر بابا اولیاء" سے حاصل کردہ)

ختمی مرتبت ، سرور کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے نور نظر ، حامل لدنی ، پیشوائے سلسۂ عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء ؒ کی  ذات بابرکات نوع انسانی کے لیے علم و عرفان کا ایک ایسا خزانہ ہے جب ہم تفکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیا ں ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالی نے جہاں آپ کو تخلیقی فارمولوں اور اسرار و رموز کے علم سے منور کیا ہے وہاں علوم و ادب اور شعرو سخن سے بہرور کیا ہے۔ اسی طرح حضوور بابا جی ؒ کے رخ جمال (ظاہر و باطن) کے دونوں پہلو روشن اور منور ہیں۔

لوح و قلم اور رباعیات جیسی فصیح و بلیغ تحریریں اس بات کا زندہ  و جاوید ثبوت ہیں کہ حضورقلندر بابا اولیاءؒ کی ذات گرامی  سے شراب عرفانی ایک ایسا چشمہ پھوٹ نکلا ہے جس سے رہروان سلوک تشنۂ توحیدی میں مست و بے خود ہونے کے لیے ہمیشہ سرشار  ہوتے رہیں گے۔

حضور بابا صاحب نے اپنی رباعیات میں بیشتر موضوعات پر روشنی ڈالی ہے، کہیں بنی نوع انسانی کی فطرت اور حقیقی طرز کو اجاگر کیا گیا ہے کہیں مٹی کے ذرے کی حقیقت اور فنا و بقا پر روشنی ڈالی ہے۔ کہیں پروردگار کی شان و عظمت کا ذکر ہے، کہیں  عالم ملکوت و جبروت کا تذکرہ ہے، کہیں کہکشانی نظام اور سیاروں ک ذکر ہے، کہیں فطرت آدام کی مستی و قلندری اور گمراہی پر روشنی ڈالی ہے، کہیں اس فانی دنیا کی زندگی کو عبرت کا مرقع ٹھہرایا گیا ہے، کہیں فرمان الہی اور فرمان رسول ﷺ پیش کرکے تصوف کے پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے، کہیں عارف کے بارے میں فرمایا ہے کہ عارف وہ ہے جو شراب معرفت کی لذتوں سے بہرہ ور ہو اور اللہ تعالی کی مشیت پر راضی ہو۔

غرضیکہ رباعیات عظیم ؔ علم و عرفان کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے۔

ذیل میں میکدہ عظیمیہ سے شراب عرفانی کے چند قطرے تشنگان شراب معرفت کے لیے پیش خدمت ہیں، اس طرح وہ ہرایک رباعی کو ساغر سمجھ کرپے درپے نوش فرماتے ہوئے تشنہ توحیدی میں مست و بے خود ہوکر سرور عرفانی سے لطف اندوز ہوسکیں گے۔ (انتخاب : تذکرہ قلندر بابا اولیاء ؒ صفحہ ۱۲۸۔ ۱۲۹تصنیف:  خواجہ شمس الدین  عظیمی۔)

یہ بات علی الاعلان کہی جاسکتی ہے کہ آٹھویں صدی ہجری کے بعد چودہویں صدی ہجری میں پھر ایک نئے دور میں داخل ہوا ہے اور اس نئے دور میں تصوف کی راہ پر چلنے والوں کی قیادت حضور قلندر بابا اولیاء ؒ کررہے ہیں۔

چودوہ سوسال بتدریج نشوو نما کے بعد آج تصوف اس دور میں داخل ہوچکا ہے، جس دور میں قرآن کے سربستہ رازوں کو کھول کر بیان کرنا آسان ہوگیا ہے ، کائناتی فارمولوں سے پردے اٹھائے جارہے ہیں  اور کائنات کی تخلیق میں کام کرنے انتظامی امور کو سمجھنے کی صلاحیت ابن آدم  کے اندر پیدا ہوگئی ہے، گویا ابن آدم کے اندر نیابت اور خلافت کا ذہن متحرک ہوگیا ، جب آدم دنیاوی خلافت کے ذہن سے کام کرتا ہے تو ایجادات ظہور میں آتی ہیں اور جب ابن آدم اللہ کی نیابت کے ذہین سے کام کرتا ہے تو اس کائناتی فارمولوں اور غیب میں کام کرنے والے عوامل کے اندر کام کرتا ہے، انسانی ایجادات کے علوم سائنسی ہیں اور غیب میں ریسرچ سے قوانین فطرت اور ماورائی علوم سامنے آئے ہیں سائنسی علوم اور روحانی علوم کا منبع   (SOURCE) اللہ تعالی کا امر ہےاور اللہ کے امر کا نزول روح پر ہوتا ہے، انسا  اگر قرآن اور آسمانی کتابوں میں غور فکر کرے تو خود اسے اپنے اندر فطرت کے تمام نظام موجود نظر آئیں گے اور وہ جان لے گا کہ اللہ تعالین کے حکم کا مظاہرہ دورخوں میں ہورہا ہے، ایک رخ میں مادی اور ظاہری کائنات  ہے اور دوسرے رخ میں باطنی کائنات ہے، جو انسان کے قلب میں جاری ہے ، ظاہر اور باطن دونوں میں دیکھنے والی آنکھ انسان کی آنکھ ہے اور اس آنکھ کی بینائی اللہ کا نور ہے، یہ نور ہی انسان کے ظاہر اور باطن دونوں میں مشاہدات کا واسطہ بنتا ہے۔ "رباعیات قلندر بابا اولیاءؒ "  کے مطالعے سے انسان کے اوپر سے مادیت کاغلبہ ختم ہوجاتا ہے۔

تصوف کے  قافلہ سالاروں نے ماضی میں جس طرح نثر اور شاعری سے تصوف کی آبیاری کی ہے ، ان ہی نقوش پر قائم مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیاء ؒ نے رباعیات لکھی ہیں قلندر بابا اولیاء ؒ کی رباعیات نے نسل انسانی کے لیے ورثہ ہیں۔ جس کے ذریعے آدم زاد خلافت و نیابت کا فراموش کردہ مقام دوبارہ حاصل کر سکتا ہے۔

دنیائے طلسمات ہے یہ ساری دنیا

کیا کہیے کہ ہے کیا یہ ہماری دنیا

مٹی کا کھلونا ہے ہماری تخلیق

مٹی کا کھلونا ہے یہ ساری دنیا

 

خواجہ شمس الدین عظیمی


خانوادہ سلسلہ عالیہ عظیمہ

Topics


Sharah Rubaiyat

خواجہ شمس الدین عظیمی

ختمی مرتبت ، سرور کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے نور نظر ، حامل لدنی ، پیشوائے سلسۂ عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء ؒ کی  ذات بابرکات نوع انسانی کے لیے علم و عرفان کا ایک ایسا خزانہ ہے جب ہم تفکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیا ں ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالی نے جہاں آپ تخلیقی فارمولوں اور اسرار و رموز کے علم سے منور کیا ہے وہاں علوم و ادب اور شعرو سخن سے بہرور کیا ہے۔ اسی طرح حضوور بابا جی ؒ کے رخ جمال (ظاہر و باطن) کے دونوں پہلو روشن اور منور ہیں۔

لوح و قلم اور رباعیات جیسی فصیح و بلیغ تحریریں اس بات کا زندہ  و جاوید ثبوت ہیں کہ حضور بابا قلندر بابا اولیاءؒ کی ذات گرامی  سے شراب عرفانی ایک ایسا چشمہ پھوٹ نکلا ہے جس سے رہروان سلوک تشنۂ توحیدی میں مست و بے خود ہونے کے لیے ہمیشہ سرشار  ہوتے رہیں گے۔