Topics

کہتا ہے مجھے ایک زمانہ کافر

کہتا ہے مجھے ایک زمانہ کافر

سچائی کا انجام  ہوا یہ آخر

میں ایک کو دو نہ کہوں گا زنہار

گو سارے زمانے کو ہو بار خاطر

اس رباعی میں منصور حلاج کی طرف تلمیحی اشارہ ہے، جس نے  "انا الحق " کا نعرہ لگا کر خدا کی وحدانیت کا اور اپنی ذات کو خالق حقیقی کی ذات میں فنا کرینے کا اعلان کیا ۔ ایک یا وحدت سے ماورائی کا تصور دو علیحدہ ہستیوں کی علامت ہے، جن میں مغائرت اور بیگانگی  حد فاصل ہے، ایک کو دو کہنے سے انکار بصیرت آگاہی اور معرفت الہی کے اعلی ترین مقام پر پہنچنے کی دلیل ہے۔ مشہور زمانہ شعر:

من تو شدم تو من شدی، من تن شدم، تو جاں شدی

تاکس نگوید بعد  ازیں  من  دیگرم   تو    دیگری

اس حقیقت حقیقت کی طرف اشارہ ہے، ظاہر ہے کہ جب تک بندہ اپنے آپ کو اپنے خالق کی ذات میں فنا نہ کرے، بندہ اور خالق کے درمیان دو علیحدہ ہستی کا تصور باقی رہتا ہے۔ جب منصور نے انالاحق کا نعرہ لگایا تو وہ الوہیت میں ڈوب کر یعنی اپنی ذات کو مٹا کر اور خالق کائنات کی بقا سے متصل ہوکر اسی مقام پر فائز تھا جہاں حدیث قدسی کے مطابق اللہ تعالی اپنے بندے کا ہاتھ، پاوں، کان، آنکھ بن جاتا ہے جس وہ کام کرتا ، چلتا، سنتا، اور دیکھتا ہے، یہاں تک کہ وہ ننطق بن جاتا ہے جو بندہ کی زبان سے کلام الہی بن کر ظاہر ہوتا ہے، مگر اہل ظاہر اسے کفر قرار دیتے ہیں۔ جن کی عقل و بصیرت محدود اور تصورات ذہنی انتشار کا شکار ہوں، انہیں کیا خبر کہ کسی محبوب کی ذات میں فنا ہوجانا ہی اصل زندگی اور ثبات دوام کا سرچشمہ ہے۔ اگر غور و فکر کی گہرائی سے دیکھا جائے تو مقام اناالحق پر فائز بندہ  اللہ کی ذات میں اپنی ذات کو فنا کرکے خود باقی و لافانی دیکھتا ہے۔ دوئی کا تصور تو اللہ تعالی سے عیحدہ اپنی  ذات کا وجود تسلیم کراتا ہے۔ یہ کفر ہی نہیں بلکہ دراصل یہی شرک ہے جس بخشش نہیں۔




____________
روحانی ڈائجسٹ؛ ستمبر ۸۳

Topics


Sharah Rubaiyat

خواجہ شمس الدین عظیمی

ختمی مرتبت ، سرور کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے نور نظر ، حامل لدنی ، پیشوائے سلسۂ عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء ؒ کی  ذات بابرکات نوع انسانی کے لیے علم و عرفان کا ایک ایسا خزانہ ہے جب ہم تفکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیا ں ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالی نے جہاں آپ تخلیقی فارمولوں اور اسرار و رموز کے علم سے منور کیا ہے وہاں علوم و ادب اور شعرو سخن سے بہرور کیا ہے۔ اسی طرح حضوور بابا جی ؒ کے رخ جمال (ظاہر و باطن) کے دونوں پہلو روشن اور منور ہیں۔

لوح و قلم اور رباعیات جیسی فصیح و بلیغ تحریریں اس بات کا زندہ  و جاوید ثبوت ہیں کہ حضور بابا قلندر بابا اولیاءؒ کی ذات گرامی  سے شراب عرفانی ایک ایسا چشمہ پھوٹ نکلا ہے جس سے رہروان سلوک تشنۂ توحیدی میں مست و بے خود ہونے کے لیے ہمیشہ سرشار  ہوتے رہیں گے۔