Topics

یہ بات مگر بھول گیا ہے ساغر

 یہ بات مگر بھول گیا ہے ساغر

انسان کی مٹی سے بنا ہے ساغر

 سو بار بنا ہے بن کے ٹوٹا ہے عظیم

 کتنی ہی شکستوں کی صدا ہے ساغر

 

مزید تشریح!        مندرجہ بالا رباعی بھی قلندربابا اولیاء کی بیشتر رباعیات کی طرح دنیا کی عارضی اور   مفروضہ ہو ہونے کے بیان پر مشتمل ہے، اس میں بابا صاحب منفرد انداز بیان لیے ہوئے فرماتے ہیں کہ تخلیق کا جو طریقہ یا (procedure) ہے وہ تمام مخلوقات کے لئے یکساں ہے. ہر تخلیق بظاہر مٹی کی بدلی ہوئی شکل ہے اس لحاظ سے تخلیق کا طریقہ  ہر جاندار کے لیے یکساں ہے. خواہ وہ انسان ہو یا مٹی کا بے حقیقت ذرہ۔ واضح رہے کہ روحانیت میں ہر چیز جاندار شمار ہوتی ہے اور بھول بھی ہر مخلوق کا خاصہ ہے۔

اول الانسان اول النسیان

اس طرح کی رباعیات یا جو بے ثباتی دنیا کے مضمون پر مشتمل ہیں، بابا صاحب کی رباعیات میں بہ تکرار ملتی ہیں، ان سے بابا صاحب کا مطمح نظر ظاہر ہوتا ہے کہ ہر تخلیق اپنی اصل سے گریزاں ہے حالانکہ اسے  بالآخر اسی سمت رجوع کرنا ہے۔

صعود کے یہ مدارج مٹی سے شروع ہوکر مٹی کی اصل یعنی روشنی تک پہنچتے ہیں اور یہ روشنی اللہ تعالی کے نور کا عکس ہے۔ رہ گئی مٹی تو یہ روشنی کے اشارے پر ہر وقت شکست و ریخت کی منزل سے گزرتی رہتی ہے۔ اور نئی نئی تخلیقات میں منقلب ہوتی رہتی ہے یہ تو بجائے خود شکستگی اور فنا کی آئینہ دار ہے۔   ہر  مظہر  زبان حال سے فنا کی لامتناہی داستان سنا رہا ہے۔ انسان  کو  جو مٹی کی عارضی  شکل کو اصل سمجھ رہا ہے اس صورتحال سے نصیحت حاصل کرنی چاہیے۔



________________________

روحانی ڈائجسٹ: نومبر 83


Topics


Sharah Rubaiyat

خواجہ شمس الدین عظیمی

ختمی مرتبت ، سرور کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے نور نظر ، حامل لدنی ، پیشوائے سلسۂ عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء ؒ کی  ذات بابرکات نوع انسانی کے لیے علم و عرفان کا ایک ایسا خزانہ ہے جب ہم تفکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیا ں ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالی نے جہاں آپ تخلیقی فارمولوں اور اسرار و رموز کے علم سے منور کیا ہے وہاں علوم و ادب اور شعرو سخن سے بہرور کیا ہے۔ اسی طرح حضوور بابا جی ؒ کے رخ جمال (ظاہر و باطن) کے دونوں پہلو روشن اور منور ہیں۔

لوح و قلم اور رباعیات جیسی فصیح و بلیغ تحریریں اس بات کا زندہ  و جاوید ثبوت ہیں کہ حضور بابا قلندر بابا اولیاءؒ کی ذات گرامی  سے شراب عرفانی ایک ایسا چشمہ پھوٹ نکلا ہے جس سے رہروان سلوک تشنۂ توحیدی میں مست و بے خود ہونے کے لیے ہمیشہ سرشار  ہوتے رہیں گے۔