Topics

گیارہ ہزار اسماء

ثابتہ خفی اور اخفیٰ کی یکجائی کا نام علم القلم ہے۔ لوح محفوظ میں جو کچھ نوری تحریر میں نقش ہے علم القلم ہے۔ علم القلم کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک حصہ اسمائے الٰہیہ ہے اور دوسرا حصہ حروف مقطعات ہیں جیسے قرآن پاک میں " الم کھیعص"ہے۔ اسمائے الٰہیہ اللہ تعالیٰ کی وہ صفات ہیں جن صفات سے اللہ تعالیٰ نے کائنات کو تخلیق کیا ہے۔ ہم اس بات کی وضاحت اس طرح کر سکتے ہیں کہ تمام تخلیقی فارمولے اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔ اللہ کی صفات جو کائنات کی تخلیق کی اصل ہیں تقریباً گیارہ ہزار ہیں، یہ گیارہ ہزار صفات ایک فرد میں مجتمع ہو سکتی ہیں اور گیارہ ہزار نوعیں بھی ہو سکتی ہیں۔ ان صفات کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

پہلا درجہ اسمائے اطلاقیہ

دوسرا درجہ اسمائے عینیہ

تیسرا درجہ اسمائے کونیہ

  رُوح کی تشریح میں نسمہ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ نسمہ کے تین اصطلاحی نام ہیں:

(۱)۔ نسمہ مرکب          (۲)   نسمہ مفرد       (۳) نسمہ مطلق

نسمہ مرکب نفس اور قلب کے دو لطیفوں سے مرکب ہے۔ جس کو   رُوح حیوانی کہا جاتا ہے۔ نسمہ مفرد کا قیام سر اور   رُوح کے لطیفوں پر ہے جس کو   رُوح انسانی کہا جاتا ہے۔ نسمہ مطلق خفی اور اخفیٰ کے دائروں پر قائم ہے جس کو   رُوح اعظم کہا جاتا ہے۔ اس کی مزید تشریح اس طرح ہے کہ قلب اور نفس سے ترتیب پانے والا نسمہ مرکب   رُوح حیوانی (جویّہ) ہے۔   رُوح اور سر کا اجتماعی نام عین یا اعیان ہے۔ خفی اور اخفیٰ کا اجتماعی نام ثابتہ یا   رُوح اعظم ہے۔ ریکارڈ اور روشنی کا نام جس میں ریکارڈ پڑھا جاتا ہے تدلیٰ ہے۔ شب معراج میں سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیر کا جہاں تذکرہ ہے وہاں اسی تدلیٰ کا تذکرہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ یہ فرما رہے ہیں کہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب معراج کا سفر اختیار کیا تو   رُوح اعظم کے دونوں لطائف اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ بیدار اور متحرک تھے۔

پیدائش عروج و زوال کی تمام مصلحتیں اسی تدلیٰ میں مندرج ہیں۔ تدلیٰ کا علم رکھنے والے کسی انسان پر جب   رُوح اعظم کی روشنیاں منکشف ہو جاتی ہیں تو ہر ذرہ کی   رُوح سامنے آ جاتی ہے اور بندہ ازل سے ابد تک کے تمام واقعات کی روشنیوں کا مطالعہ کر لیتا ہے۔ روشنیوں سے مراد وہ تمام واقعات ہیں جو ازل سے شروع ہو کر ابد تک واقع ہوں گے۔ تدلیٰ دو نقطوں سے مرکب ہے اور یہ دو نقطے اللہ تعالیٰ کی مصلحتوں، مشیت اور علم الٰہی کی ایک مختصر نویس یا (Short Formٌ)ہے۔ جس طرح ایک چھوٹی سی مائیکروفلم (Micro Film)میں پوری ایک کتاب محفوظ کر لی جاتی ہے۔ اسی طرح کائنات کی پیدائش سے متعلق تمام رموز اور تسخیر کائنات کے تمام فارمولے ان دو نقطوں میں محفوظ ہیں۔

اسمائے الٰہیہ میں پہلا تنزل یا اللہ کی صفات کا پہلا تعارف یہ ہے کہ اللہ بحیثیت علیم کے موجود ہے اور بحیثیت علیم کے اس طرح موجود ہے کہ اس علم میں اللہ کا کوئی ثانی نہیں اور نہ ہی اللہ نے اپنے اس خصوصی علم کو کسی فرد سے روشناس کرایا ہے۔ بحیثیت علیم اللہ نے اپنے علم اور اپنی صفات کو اپنے لئے مخصوص کر لیا ہے۔ انسان کا ادراک یا بڑی سے بڑی پرواز بھی اللہ کے اس علم کا کسی طرح تصور نہیں کر سکتی۔

اللہ کی وہ صفات جو موجودات کو منتقل ہو کر کائنات کے کل پرزے بن گئیں علم واجب کہلاتا ہے۔ علم واجب سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کاوہ علم جو اللہ تعالیٰ نے موجودات کو منتقل کر دیا۔ یعنی اللہ کی ایسی صفات جس کی نسبت موجودات کو حاصل ہے۔  علم واجب کو علم قلم بھی کہتے ہیں۔ جب اللہ نے اپنے ذہن میں موجود پروگرام کو اپنی مرضی سے الگ کیا اور اس کا مظاہرہ ہوا تو اس حالت کا نام تنزل اول ہے۔ تنزل اول کے اسرار و رموز اور تنزل اول میں کائناتی تخلیفی فارمولے ہیں۔  اللہ نے یہ کائنات کیوں بنائی ہے؟    او رکائنات کی تخلیق میں اللہ کی کیا مشیت ہے؟ اس کا عکس ثابتہ میں موجود ہے۔ ثابتہ کا ایک رُخ اخفیٰ ہے اور دوسرا رُخ خفی ہے۔ اخفیٰ اور خفی وہی رُخ ہیں جس کو   رُوح اعظم اور نسمہ مطلق کہا گیا ہے۔ ثابتہ کے اندر اللہ تعالیٰ کی گیارہ ہزار تجلیوں کا ذخیرہ ہے جو بندہ لطیفہ اخفیٰ اور لطیفہ خفی سے واقفیت حاصل کر لیتا ہے۔ اس کے مشاہدے میں گیارہ ہزار تجلیاں آ جاتی ہیں۔ ہر انسان کے اندر لطیفہ اخفیٰ اورخفی موجود ہیں۔

سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ ہر سالک کو اپنے مرشد کی محبت اور عشق عطا کریں۔ پیر و مرشد جب ثابتہ کے اندر اپنے تصرف سے انوار منتقل کر کے خفی اور اخفیٰ کو متحرک کر دیتا ہے تو سالک کو یہ علم حاصل ہو جاتا ہے کہ انسان بحیثیت علیم کے اللہ کے علم کا ایک جزو ہے اور یہ حقیقت بھی اس کے اوپر منکشف ہو جاتی ہے کہ بحیثیت علیم کے اللہ تعالیٰ کل ذات ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ چونکہ انسان بھی جزوی طور پر علیم ہے اس لئے اسے علم کا مشاہدہ ہو جاتا ہے جو اسے تنزل اول کی شکل میں منتقل ہوا تھا۔

کسی بھی علم کو حاصل کرنے کے لئے یہ بات از بس ضروری ہے کہ انسان دوسری باتوں سے خالی الذہن ہو کر کسی ایک نقطے پر اپنے ذہن کو مرکوز کر دے۔ انسان دراصل   رُوحِ اعظم کی حیثیت میں ایک یادداشت رکھتا ہے۔ اس یادداشت کو اگر وہ یاد کرنا چاہے، دیکھنا چاہے، پڑھنا چاہے یا اس کے فیوض سے خود کو فیض یاب کرنا چاہے تو اسے اس طرف متوجہ ہونا پڑے گا اور متوجہ ہونے کا اول آخر اور آزمودہ طریقہ مراقبہ ہے۔ مراقبہ میں جیسے جیسے انہماک پیدا ہوتا چلا جاتا ہے اسی مناسبت سے سالک اس یادداشت کو پڑھنے پر قدرت حاصل کر لیتا ہے۔ مراقبہ میں ذہن مرکوز ہو جائے تو تجلیات کے نقوش خواب میں نظر آنے لگتے ہیں اور زیادہ انہماک پیدا ہو جائے تو گیارہ ہزار تجلیات سالک کھلی آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے۔ اس یادداشت تک رسائی حاصل کرنے کے لئے بنیادی بات یہ ہے کہ نیند پر کنٹرول حاصل کیا جائے۔ سالک چوبیس گھنٹے میں ڈھائی گھنٹے سے زیادہ نہ سوئے۔ ہماری عادت ہے کہ ہم جاگنے کے بعد سو جاتے ہیں اور سونے کے بعد بیدار ہوتے ہیں۔ آدمی جتنے گھنٹے سونے کی عادت ڈال لیتا ہے اسی مناسبت سے نیند اس کی طبیعت کا تقاضا بن جاتی ہے۔ اس بات کو کئی مرتبہ بیان کیا گیا ہے کہ انسان نگاہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ جس طرح انسان کے اندر نگاہ بیداری میں کام کرتی ہے اسی طرح نگاہ سونے کی حالت میں کام کرتی رہتی ہے۔البتہ دیکھنے کا عمل اور دیکھی ہوئی چیز کے نقوش گہرے یا ہلکے ہوتے ہیں۔ نقوش جب گہرے ہوتے ہیں تو دیکھی ہوئی چیز زیادہ واضح طور پر ذہن کی اسکرین پر محفوظ رہتی ہے۔ خواہ وہ دیکھنا بیداری میں ہو یا خواب میں دیکھنا ہو۔ انسان گہرے نقوش کو یاد رکھتا ہے اور ہلکے نقوش کو بھلا دیتا ہے۔


Topics


Sharah Loh O Qalam

خواجہ شمس الدین عظیمی

ابدال حق قلندربابااولیاء  کی روحانی اولاد کو تین کتابیں بطورورثہ منتقل ہوئی ہیں ۔ 1۔رباعیات قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ۔2-لوح وقلم ۔3۔تذکرہ تاج الدین بابارحمۃ اللہ علیہ

کتاب لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں ۔ ان فارمولوں  کو سمجھانے  کے لئے خانوادہ سلسلہ عظیمیہ  حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی  نے روحانی طلباء وطالبات  کے لئے باقاعدہ لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جو تقریباً ساڑھے تین سال تک متواترجاری رہا ۔

علم دوست افراد کے لئے ان لیکچرز کو ترتیب دے کرا یک کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ روحانی علوم سے دلچسپی رکھنے والے تمام خواتین وحضرات ان مخفی علوم سے آگاہی حاصل کرسکیں ۔)



‘‘گفتۂ اوگفتۂ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود’’ کے مصداق حامل علمِ لَدْنّی ، واقف اسرار کُن فیکون، مرشدِ کریم، ابدال حق، حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا، حضرت قلندر بابا اولیاءؒ  کی زبانِ فیض ِ ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ خود حضور بابا صاحب کے روحانی تصرف سے میرے ذہن کی اسکرین پر نقش ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ الہامی تحریر حضرت قلندر بابا اولیاءؒ  کی مبارک زبان اور اس عاجز کے قلم سے کاغذ پر منتقل ہو کرکتاب " لوح و قلم " بن گئی۔میرے پاس یہ روحانی علوم نوع ِانسان اور نوعِ جنات کے لئے ایک ورثہ ہیں۔ میں یہ امانت بڑے بوڑھوں، انسان اور جنات کی موجودہ اور آنے والی نسل کے سپرد کرتا ہوں۔


خواجہ شمس الدّین عظیمی

(لوح و قلم صفحہ نمبر۳)