Topics

لیکچر 15 : شخص اکبر

نسبت ذہنی ارتباط سے قائم ہوتی ہے۔ صحابہ کرام کو جتنا حضورﷺ سے عشق تھا اسی مناسبت سے حضورﷺ کی محبت کے ذریعے ان کے اندر انوار ذخیرہ ہوتے رہتے تھے۔ نور نبوت سے صحابہ کرامؓ کے اعیان رنگین ہو گئے۔ لطیفوں کی رنگینی کے بارے میں یہ بات وضاحت کے ساتھ بیان کی جا چکی ہے کہ رنگین ہونے سے مراد ہر انسان کی اپنی ذاتی طرزِفکر سے دوری ہے۔ ذاتی طرزِفکر سے دوری یہ ہے کہ انسان اپنے ذہنی رجحانات کے زیر اثر نسلی اعتبار سے جو زندگی گزارتا ہے زندگی ان ہی قدروں میں مختصر ہو جاتی ہے۔ ایک طرزِفکر سے دوسری طرزِفکر میں داخل ہونے کیلئے انسان کو پہلی طرز کی نفی کرنا پڑتی ہے۔ انسان ایک طرف اپنی انا کی نفی کرتا ہے اور دوسری طرف کسی ہستی کے تشخص کو اپنے اوپر محیط کر لیتا ہے۔ جیسے جیسے تشخص محیط ہوتا ہے طرزِفکر میں تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ دو بندوں کی طرزِفکر ایک بن جاتی ہے۔ یعنی جو تشخص انسانی انا پر محیط ہے وہی تشخص احاطہ کر کے بندے کا ذہن بن جاتا ہے۔

حضرت خواجہ باقی بااللہؒ کا واقعہ بطور مثال پیش کیا جاتا ہے۔ ایک نان بائی حضرتؒ کا دوست تھا۔ حضرت خواجہ باقی بااللہؒ اس کے یہاں کھانا کھاتے تھے اور وہ خواجہ صاحبؒ کے ساتھ ساتھ خواجہ صاحب کے مہمانوں کیلئے بھی طعام کا انتظام کرتا تھا۔ ایک روز خوش ہو کر خواجہ باقی باللہؒ نے اپنے دوست نان بائی سے کہا۔ 

جومانگنا ہے مانگ لے۔

نان بائی نے جواباً عرض کیا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے اپنے جیسا بنا دیں۔ نان بائی کے اصرار پر خواجہ باقی بااللہؒ نے نان بائی کے اوپر توجہ دی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب اپنے اور نان بائی کے سر کے اوپر سے حضرت باقی بااللہؒ نے رومال ہٹایا تو دونوں کی شکلیں ایک جیسی تھیں۔ حضرت باقی بااللہؒ نقشبندی کا تشخص نان بائی کے اندر اس طرح منتقل ہو گیا کہ نان بائی کی شکل و صورت بھی حضرت باقی بااللہؒ جیسی ہو گئی۔ نان بائی اس تصرف کو برداشت نہیں کر سکا اور چند دن زندہ رہ کر عالم بالا میں منتقل ہو گیا۔

جب کسی سالک کے اوپر اس کے پیر و مرشد کا تشخص محیط ہو جاتا ہے تو اس کی طرزِفکر میں بھی بتدریج احاطہ کرنے کی مناسبت سے تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ دو بندوں کی طرزِفکر ایک ہو جاتی ہے۔ مختصر یہ کہ سالک کے اندر روحانی استاد (مرشد کریم) کی طرزِفکر کی منتقلی کا نام نسبت ہے۔ جس طرح طرزِفکر میں تبدیلی واقع ہوتی ہے اسی طرح ذہنی سکت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ مثلاً اگر روحانی استاد کی رفتار پرواز ساٹھ ہزار گنا ہے تو مرید کے ذہن کی رفتار بھی ساٹھ ہزار گنا ہو جاتی ہے۔

ایک بار سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت جبریل امین سے دریافت فرمایا۔ جب تم پر وحی نازل ہوتی ہے اور وہ وحی لے کر تم میرے پاس اترتے ہو، کیا تم اس ذات اقدس کو دیکھتے ہو؟

حضرت جبرئیل امین نے عرض کیا۔ میں صرف آواز سنتا ہوں اور میرے لئے بیت المعمور سے اوپر پرواز کرنا ممکن نہیں ہے۔

فروغ تجلی بسوز دپرم

سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا۔ اب تم ہماری نسبت سے پرواز کرنا۔ اس واقعہ سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ ہمت یا نسبت منتقل ہونے کے بعد سکت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔نسبتوں کے بہت سارے مرحلے ہیں اور اولیاء کرام نے بہت ساری نسبتوں کا تذکرہ کیا ہے۔ بہت سی نسبتوں سے مراد ایک ہی ہے وہ یہ کہ کسی شخص کو پیر و مرشد سے کتنا تعلق اور کتنی محبت ہے۔ 

مرید میں نسبت کے ذریعہ علوم کا ذخیرہ بتدریج منتقل ہوتا رہتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ مرید اپنے اوپر پیرو مرشد کی نسبت کا غلبہ محسوس کرتا ہے۔ اس کے بعد سالک کو نبی کریمﷺ کی نسبت احاطہ کر لیتی ہے اور سالک ہر وقت سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات اقدس میں حضورﷺ کی تعلیمات میں حضورﷺ کے اخلاق میں حضورﷺ کی صفات میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تلاش کرتا رہتا ہے اور جب حضورﷺ کی نسبت سے لطیفے رنگین ہو جاتے ہیں تو سالک کے اندر گداز پیدا ہو جاتا ہے اور سالک حضورﷺ کی ہر شان میں خود کو پگھلتے ہوئے دیکھتا ہے۔ حضورﷺ کی تعریف توصیف میں کوئی شعر سنتا ہے یانعت پڑھی جاتی ہے تو بے اختیار رونے لگتا ہے اس کی زندگی کا ہر لمحہ حضور کے لئے وقف ہو جاتا ہے۔ اس مرحلے کے بعد تیسرا مرحلہ خفی روشنی کا آتا ہے۔ جس طرح خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم کی طرزِفکر اللہ کی طرزِفکر ہے اور جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ اللہ کی معرفت سوچتے تھے اسی طرح سالک کی بھی طرزِفکر یہ بن جاتی ہے کہ کوئی بات اس کے سامنے آئے کوئی کام درپیش ہو وہ ہر لمحہ میں اللہ کے ساتھ وابستہ ہو جاتا ہے۔ اس کے دماغ میں از خود اس قسم کی لہریں دور کرتی رہتی ہیں کہ بغیر ارادے کے ذہن ہر عمل کو اللہ کی طرف موڑ دیتا ہے۔ کثرت سے استغفار پڑھتا ہے۔ اللہ کے رحم و کرم کی صفات کو یاد کرتا ہے اور اللہ میں گم رہتا ہے۔ اللہ کی آیات میں تفکر کرتا ہے اور خوش ہوتا ہے کہ بشر میں اللہ کی عظمت و جلال کا عکس آ جاتا ہے اور کبھی اللہ کی رحمت سے سرشار رہتا ہے۔

مثال: ہر آدمی پھول دیکھتا ہے وہ پھول کے رنگ اور پھول کی خوشبو دیکھ کر گزر جاتا ہے یا اس کے اندر خوشی و مسرت کا ہلکا سا ایک ارتعاش پیدا ہوتا ہے لیکن جس بندے کے لطیفے وحدت فکر سے رنگین ہو جاتے ہیں۔ پھول کے رنگ پھول کی پنکھڑیوں پھول کی خوبصورتی پھول کی خوشبو کو اللہ کے ساتھ وابستہ کر دیتا ہے کہ پھول کو اللہ نے کتنا خوبصورت بنایا ہے۔ زمین اللہ کی صناعی کا کتنا حسین مرقع ہے کہ ایک ہی جگہ کتنے رنگ کے پھول ہیں۔ چھوٹے بچوں کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے اور اس خوشی کی لہر کو اپنے اندر محسوس کرتا ہے۔ ہر خوبصورت چیز کی تعریف کرتا ہے اور بظاہر بدصورت شئے میں خوبصورتی ڈھونڈتا ہے۔ لیکن جس آدمی کے لطائف وحدت سے رنگین ہیں اور جس عارف کو حضورﷺ کی طرزِفکر منتقل ہو جاتی ہے وہ اس بچے کے ایک ایک عضو میں اللہ کی نشانیوں کا مشاہدہ کرتا ہے۔ کبھی وہ بچے کا چھوٹا سا ہاتھ دیکھتا ہے، کبھی اس کی نظر بچے کے نازک اور کومل جسم پر پڑتی ہے، کبھی نرم و نازک پھول جیسے حسین چہرے کو دیکھتا ہے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ اس چھوٹے جسم میں ایک بڑا آدمی موجود ہے اور کیسی شان کبریائی ہے کہ چند بالشت کے بچے کے اندر سات فٹ کا آدمی چھپا ہوا ہے۔ جو ایک توازن کے ساتھ ظاہر ہو رہا ہے۔ طرزِفکر کی اس منتقلی کا نام”تنزل’’ ہے۔

تنزلات کی تین قسمیں ہیں۔ ان تنزلات میں ایک طرف لہروں کا نزول جلی ہوتا ہے اور دوسری طرف خفی ہوتا ہے یعنی ایک نمایاں ہوتا ہے اور دوسرا مخفی رہتا ہے۔ پہلا جلی تنزل سر اکبر ہے، دوسرا جلی تنزل   رُوح اکبر ہے اور تیسرا جلی تنزل شخص اکبر ہے۔ روحانی اساتذہ شخص اکبر کو کائنات کہتے ہیں۔

ٹائم اسپیس

قلند رشعور اکیڈمی کے طلباء و طالبات یہ شعور حاصل کر چکے ہیں کہ نسبت سے مراد طرزِفکر کی منتقلی ہے۔ جیسے جیسے نسبت کا نزول سالک کے دماغ پر وارد ہوتا ہے مرشد کریم کی نسبت سے سالک میں علوم منتقل ہو جاتے ہیں۔ یہ نسبت دراصل مراد کی طرزِفکر مرید کے اندر منتقل ہونے کا ایک وصف ہے۔ مراد کے اندر جو علوم ذخیرہ ہیں وہ علوم لہروں کی شکل میں مرید کے ثابتہ میں، عین میں، جویہ میں نزول کرتے ہیں۔ ہر تنزل کے ساتھ ایک رُخ واضح ہوتا ہے اور دوسرا رُخ چھپا ہوا یا غیر واضح ہوتا ہے۔ جو رُخ   رُوح اعظم پر نازل ہوتا ہے اس کو خفی تنزل کہتے ہیں۔ یہ جلی و خفی تنزلات ہر آن و ہر لمحہ دماغ کے اوپر وارد ہوتے رہتے ہیں۔ جلی تنزلات کے تین رُخ متعین ہیں۔

ہر جلی تنزل کے ساتھ ایک خفی تنزل ہے۔ اور ہر جلی تنزل و خفی تنزل کے ساتھ درود و شہود کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ پہلا جلی تنزل سر اکبر ہے۔ دوسرا جلی تنزل   رُوح اکبر ہے۔ اور تیسرا جلی تنزل شخص اکبر ہے۔

جس کائنات کو مادی آنکھ دیکھتی اور پہچانتی ہے اس کی بنیاد روشنی کے اوپر قائم ہے۔ ایسی روشنی جس کے اندر بہاؤ ہے۔ اس روشنی اور روشنی کے اسی بہاؤ کو قرآن پاک”ماء’’ کہتا ہے۔ قرآن پاک نے جس روشنی کو ماء یعنی پانی کے نام سے متعارف کرایا ہے۔ سائنس اسی روشنی یا پانی کو گیسوں کے نام سے جانتی ہے۔ روشنیوں کے بہاؤ سے مراد یہ ہے کہ صدہا گیسوں کے اجتماع سے شکلیں وجود میں آتی ہیں۔

ایک گلاس میں پانی بھر کر دیوار پر پھینک دیں۔ پانی پھینکنے کے بعد جب پانی پوری طرح پھیل جائے اسے غور سے دیکھیں۔ دیوار کے اوپر مختلف شکلیں نظر آئیں گی۔ جس طرح دیوار کے اوپر پانی پھیل کر اور بکھر کر مختلف شبیہیں بنا لیتا ہے اسی طرح نزول کرنے والی روشنیاں جب کائنات کی اسکرین پر نزول کرتی ہیں تو شکلیں بنتی ہیں یہی شکلیں افراد کائنات ہیں۔

ماء کے ٹکرانے کے بعد شبیہہ کے اندر بنیادی مصالحہ پارے کی طرح ہوتا ہے۔ روشنیوں کے بہاؤ کے بعد روشنیوں سے مل کر اور ایک دوسرے کے اندر جذب ہو کر جو اجسام بنتے ہیں انہی اجسام کو حیوانات ، نباات اور جمادات کہا جاتا ہے۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے گیسوں کے مجموعے سے گیس کی ابتدائی شکل کا نام نسمہ بیان کیا ہے، یعنی نسمہ ان بنیادی لہروں یا ان بنیادی شعاعوں کا نام ہے جو وجود کی ابتداء کرتی ہیں۔ روشنیوں کی یہ لہریں جب Flowکرتی ہیں یا ان کے اندر بہاؤ پیدا ہوتا ہے تو انہیں لکیروں سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے۔ یہ لکیریں کائنات میں اس طرح پھیلی ہوئی ہیں کہ نہ تو ایک دوسرے سے فاصلے پر ہیں اورنہ ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔

اس کی مادی مثال سینما میں چلنے والی فلم ہے۔ ایک مخصوص روشندان کے ذریعے لہروں کا بہاؤ ہوتا ہے، روشنیوں اور لہروں کا یہ بہاؤ اسکرین پر نزول کرتا ہے اور اسکرین سے ٹکرا کر مختلف شکلوں اور صورت میں مظاہرہ کرتا ہے۔ جب ہم پروجیکٹر سے نکلنے والی روشنیوں یا شعاعوں کو دیکھتے ہیں یہ لکیریں نہ ایک دوسرے سے فاصلے پر ہوتی ہیں اور نہ ایک دوسرے میں پیوست ہوتی ہیں لیکن ہر لکیر میں تصویر کا کوئی نہ کوئی خدوخال ہوتا ہے۔ جس طرح پروجیکٹر سے نکلنے والی روشنیاں اسکرین سے ٹکرا کر تصویریں بنتی ہیں، اسی طرح خلاء میں سے گزر کر نسمہ کی لکیریں مادی اجسام بنتے ہیں۔ نسمہ کی لکیریں مادی اجسام میں ایک بنیادی واسطہ ہیں۔ پروجیکٹر سے نکلنے والی شعاعوں کو مادی آنکھ دیکھ سکتی ہے لیکن نسمہ کی لکیروں کو صرف شہود کی آنکھ دیکھ سکتی ہے۔ مادی ذریعہ سے ابھی تک نسمہ کو دیکھنا ممکن نہیں ہوا۔ البتہ ان لکیروں کے تاثرات کو سائنسی ایجادات کے ذریعے دیکھ لیا گیا ہے۔ آج کل Auraکی اصطلاح زبان زد عام ہے۔ نسمہ کی لہروں کا انعکاس Aura ہے۔ لیکن نسمہ کا دیکھنا ابھی تک ممکن نہیں ہوا۔


نسمہ ایسی لہروں کو کہتے ہیں جن لہروں سے جسمانی خدوخال بنتے ہیں۔ یہ لہریں دو طرح کی ہیں ایک لہر مفرد ہے دوسری لہر مرکب ہے۔ مفرد لہروں میں بھی خدوخال اور نقش و نگار ہیں اور مرکب لہروں میں بھی خدوخال ہیں۔ مفرد اور مرکب لہریں خلاء میں پھیلی ہوئی ہیں۔ لکیریں مفرد ہوں یا مرکب، مادی اجسام میں خدوخال بنتی ہیں اور خدوخال کو ہر دوسرے فرد پر منعکس کرتی ہیں۔ ان ہی لہروں کے تاثرات سے حسیں Sensesبنتی ہیں۔ یہ لہریں انسانی دماغ کے اوپر جب نزول کرتی ہیں تو دماغ کے اوپر ہلکا سا دباؤ پڑتا ہے۔ اتنا ہلکا دباؤ کہ حواس کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ یہ ہلکا سا دباؤ زندگی کے کسی عمل سے متعلق ہو یا ماضی اور حال سے متعلق ہو"واہمہ" کہلاتا ہے۔ جب یہ دباؤ ذرا زیادہ ہوتا ہے تو حواس میں ہلکا سا ارتعاش ہوتا ہے اس ارتعاش سے ذہن کے اوپر بنی ہوئی تصویر میں خاکہ بنتا ہے اور تصویر اس خاکہ میں گہرائی محسوس کرتی ہے۔ اہل تصوف اس کیفیت کو"خیال" کہتے ہیں۔

روشنیوں کا نزول جب اور گہرا ہوتا ہے اور دماغ کے اوپر نقش و نگار زیادہ واضح ہو جاتے ہیں تو ذہن میں یہ بات آنے لگتی ہے کہ فلاں چیز کے بارے میں خیال آرہا ہے اہل رُوحانیت   اس کیفیت کو"تصور" کہتے ہیں۔

یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہتے ہوئے تصور کے بعد احساس بن جاتا ہے اور احساس کے اندر جب گہرائی پیدا ہوتی ہے تو نسمے کی لہروں کے اندر مخفی رنگ نمایاں ہو جاتے ہیں۔ یعنی احساس کے اندر رنگینی واقع ہو جاتی ہے۔ جب احساس کے اندر رنگینی پیدا ہو جاتی ہے تو واہمہ، خیال، تصور اور احساس اپنے پورے خدوخال کے ساتھ مظہر بن جاتا ہے۔

دنیاوی علوم کی طرزوں میں ہم نسمے کی تعریف ڈرائنگ سے کر سکتے ہیں۔ ایک کاغذ ہے جس پر سیدھی لکیریں بنی ہوئی ہیں اور ان سیدھی لکیروں میں کوئی تصویر ابھری ہوئی ہے۔ دوسرے کاغذ میں سیدھی لکیر کو دوسری لکیر کاٹ رہی ہے اور ان دونوں لکیروں کے عمل سے کاغذ کے اوپر چھوٹے چھوٹے چوکور خانے بن جاتے ہیں ہم ان چوکور خانوں سے ایک تصویر بناتے ہیں اور تصویر بناتے وقت گراف کے خانوں کو معین تعداد کے ساتھ تصویر کے خدوخال بناتے ہیں۔ یعنی ہم ان خانوں کے ناپ اور خانوں کی تعداد سے مختلف اعضاء کی ساخت کا تناسب مقرر کرتے ہیں۔ اور گراف پر تصویر کشی کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح نسمے کی لکیریں مادی اجسام کی ساخت میں اصل کا کام دیتی ہیں اور ان لکیروں سے نوعیں بنتی ہیں اور نوعوں کے خدوخال وجود میں آتے ہیں۔

لوح محفوظ کے قانون کی رو سے احساس میں رنگینی پیدا ہونے کے بعد رنگ مظہر بنتے ہیں لیکن جب تک اس کے اندر گہرائی اور رنگینی پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک ہم لہروں یا شعاعوں کو کسی رنگ کا نام نہیں دے سکتے۔ اس لئے مادی آنکھ ان کا احاطہ نہیں کرتی۔ دراصل نسمے کی لکیریں یا بے رنگ شعاعیں ہی کائنات اور افراد  کائنات کی چھ بڑی حرکات ہیں ان لہروں لکیروں،بے رنگ شعاعوں  کا جتنا اجتماع ہو جاتا ہے اتنا ہی یہ لہریں ضرب اور تقسیم ہوتی ہیں۔ لہروں کے نزول اور ان کے بکھرنے سے کشش ثقل بنتی ہے۔ ان ہی لہروں کی حرکات اور گردشیں وقفہ بناتی ہیں۔

لکیروں کی اجتماعیت ایک طرف مکانیت سے آشنا کرتی ہے دوسری طرف ان ہی لکیروں کا دماغ پر بکھرنے کا عمل زمانیت ہے۔ لکیروں کے نزول لکیروں کے بکھرنے لکیروں کی گردش اور لکیروں کی ضرب تقسیم نسمہ کا"جذب" ہے۔ یعنی نسمہ اپنی ضرورت اور طبعی تقاضوں کے تحت ممکن کی شکل و صورت اختیار کر لیتا ہے۔ تصوف میں ممکن کا مطلب ہے کسی چیز کو تکمیل کے بعد مادی آنکھ دیکھ لے۔ 

جب تک شئے کی مادی صورت وجود میں نہ آئے اس حالت کو تمثل یا تحقق کہتے ہیں۔

ابتدائی حالت کو   رُوح کی آنکھ اور انتہائی حالت کو جسم کی آنکھ دیکھتی ہے۔ نسمہ دراصل وہ مخفی روشنی ہے جس کو نور کی روشنیوں میں دیکھا جا سکتا ہے اور نور وہ مخفی روشنی ہے جو خود بھی نظر آتی ہے اور دوسری مخفی روشنیوں کو بھی دکھاتی ہے۔

روشنی اور نور

حواس پانچ ہیں اور ان میں دو طرح حرکت ہوتی ہے۔ ایک حرکت یہ ہے کہ مادی آنکھ دیکھتی ہے اور دوسری حرکت یہ ہے کہ مادی آنکھ سے وہ چیز اوجھل ہوتی ہے لیکن روحانی آنکھ دیکھتی ہے۔ جس شکل و صورت کو مادی آنکھ دیکھتی ہے، تصوف میں اسے تشخص کہتے ہیں اور جس شکل و صورت کو روحانی آنکھ دیکھتی ہے اسے تحقق یا تمثل کہا جاتا ہے۔

دیکھنے کی طرزوں میں یہ بات زیادہ اہم ہے کہ وہ چیز مادی آنکھ سے دیکھی جائے یا روحانی آنکھ سے دیکھا جائے۔ دونوں صورتوں میں روشنی بنیاد ہے اور روشنی نور سے نظر آتی ہے۔ نور خود بھی نظر آتا ہے اور دوسری روشنیوں کے دکھانے کا ذریعہ بھی ہے۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے"اللہ نور السموات والارض" کی آیت میں تشریح کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ہم جس چیز کا نام حس رکھتے ہیں وہ کسی بھی شعبے سے متعلق ہو اس کے دو اجزاء یا دو رُخ ہوتے ہیں۔ ایک رُخ یہ ہے کہ اس میں خدوخال ہوتے ہیں، ٹھوس پن ہوتا ہے اور وہ مادی آنکھ سے نظر آتا ہے۔ دوسرا رُخ روشنیوں کا بنا ہوا ہے لیکن اس کے اندر پورے پورے حواس موجود ہیں۔ آسان زبان میں اس طرح سمجھئے کہ کائنات میں جتنی بھی موجودات ہیں وہ مرئی ہیں یا غیر مرئی ہیں۔

ایک رُخ ٹھوس گوشت پوست اور ہڈیوں کے ڈھانچہ پر قائم ہے۔ دوسر ارخ دوسرا جسم بالکل گوشت پوست کی طرح ہے لیکن روشنی کا بنا ہوا ہے۔ (اس کی مثال ٹیلی ویژن پر نظر آنے والی تصویر ہے) روشنی کا جسم غیر مرئی ہے جب کہ گوشت پوست کا جسم مرئی ہے۔

مرئی جسم کے بھی دو رُخ ہیں۔

۱۔ ایسی روشنیوں کا بنا ہوا جسم جو نظر آتی ہیں۔

۲۔ ان روشنیوں کا جسم جو نظر نہیں آتیں۔

مرئی جسم کی طرح غیر مرئی جسم کے بھی دو رُخ ہیں۔

۱۔ ایک رُخ روشنی ہے۔

۲۔ دوسرا رُخ نور ہے۔

نور وہ مخفی روشنی ہے جو غیر مرئی جسم کو دکھاتی ہے۔

کائنات میں موجود ہر تخلیق کے دو رُخ ہیں اور ان دونوں رخوں کے بغیر کوئی قالب مکمل نہیں ہوتا۔

لوح محفوظ کے قانون کے تحت کائنات میں کوئی بھی چیز وہ غیر مرئی یا مرئی ہو، بغیر شکل و صورت کے نہیں ہوتی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس شکل کو جسمانی آنکھ نہ دیکھ سکے۔ لیکن   رُوح کی آنکھ اس وجود کو اسی طرح دیکھتی ہے جس طرح جسمانی آنکھ مادی قلب کو دیکھتی اور محسوس کرتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جس طرح مرئی جسم میں خدوخال ہوتے ہیں اسی طرح غیر مرئی جسم میں خدوخال ہوتے ہیں۔ غیر مرئی جسم کو ہیولیٰ کہا جاتا ہے۔ کسی چیز کی موجودگی پہلے ایک تمثل یا ہیولیٰ کی شکل میں وجود پذیر ہوتی ہے اور اس کے بعد جسمانی خدوخال میں مظاہرہ کرتی ہے۔ جب تک شکل وصورت ہیولیٰ کے اندر موجود ہے نسمہ مفرد ہے۔ اور جب نسمہ مفرد یا غیر مرئی وجود مادی جسم میں اپنا مظاہرہ کرتا ہے تو اس کو نسمہ مرکب کہتے ہیں۔ نسمہ مرکب سے مراد ثقل (Gravity) ہے۔ ثقل کتنا ہی عارضی ہو جمود  ہے۔ اس جمود کا نام ٹھوس حس ہے۔




مرئی اور غیر مرئی وجود دو رخوں سے مرکب ہے۔ مرئی شئے نسمہ مرکب ہے۔ غیر مرئی شئے نسمہ مفرد ہے۔ نسمہ مفرد ہو یا نسمہ مرکب دونوں حرکت ہیں۔ ایک حرکت ایک سمت سے دوسری سمت میں جاری ہے، جو اکہری ہے۔ ایک سمت سے دوسری سمت سے جاری رہنے والی اکہری حرکت نسمہ مفرد ہے اور دوسری حرکت پہلی حرکت کے خلاف سمت میں جاری و ساری ہے اور اس طرح جاری و ساری ہے کہ پہلی حرکت میں پیوست ہو جاتی ہے ۔ اس دوہری حرکت کو نسمہ مرکب کہتے ہیں۔ ایک سمت سے دوسری سمت جاری و ساری حرکت میں دوسری حرکت شامل ہو جائے اور اس کے اوپر جو نقش و نگار ہیں انسان اور انسان کی دنیا ہے۔ نسمہ مفرد اکہری حرکت جن اور جنات کی دنیا ہے۔ حرکت جب تک غیر محسوس دائرے میں رہتی ہے، تمثل ہے اور جب غیر مرئی محسوس سے نکل کر محسوس میں داخل ہو جاتی ہے تو مادہ(Matter) ہے۔  


Topics


Sharah Loh O Qalam

خواجہ شمس الدین عظیمی

ابدال حق قلندربابااولیاء  کی روحانی اولاد کو تین کتابیں بطورورثہ منتقل ہوئی ہیں ۔ 1۔رباعیات قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ۔2-لوح وقلم ۔3۔تذکرہ تاج الدین بابارحمۃ اللہ علیہ

کتاب لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں ۔ ان فارمولوں  کو سمجھانے  کے لئے خانوادہ سلسلہ عظیمیہ  حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی  نے روحانی طلباء وطالبات  کے لئے باقاعدہ لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جو تقریباً ساڑھے تین سال تک متواترجاری رہا ۔

علم دوست افراد کے لئے ان لیکچرز کو ترتیب دے کرا یک کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ روحانی علوم سے دلچسپی رکھنے والے تمام خواتین وحضرات ان مخفی علوم سے آگاہی حاصل کرسکیں ۔)



‘‘گفتۂ اوگفتۂ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود’’ کے مصداق حامل علمِ لَدْنّی ، واقف اسرار کُن فیکون، مرشدِ کریم، ابدال حق، حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا، حضرت قلندر بابا اولیاءؒ  کی زبانِ فیض ِ ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ خود حضور بابا صاحب کے روحانی تصرف سے میرے ذہن کی اسکرین پر نقش ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ الہامی تحریر حضرت قلندر بابا اولیاءؒ  کی مبارک زبان اور اس عاجز کے قلم سے کاغذ پر منتقل ہو کرکتاب " لوح و قلم " بن گئی۔میرے پاس یہ روحانی علوم نوع ِانسان اور نوعِ جنات کے لئے ایک ورثہ ہیں۔ میں یہ امانت بڑے بوڑھوں، انسان اور جنات کی موجودہ اور آنے والی نسل کے سپرد کرتا ہوں۔


خواجہ شمس الدّین عظیمی

(لوح و قلم صفحہ نمبر۳)