Topics

لیکچر 30: شعور۔ علمِ لَدْنّی


نوع انسانی میں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو گھر کے افراد کی توجہ ستر پوشی کی طرف رہتی ہے۔ ستر پوشی کے عمل کو اتنی زیادہ مرتبہ دھرایا جاتا ہے کہ چھپانا انسان کی طبیعت کا تقاضا بن جاتا ہے۔ اس تقاضے سے انسانی زندگی میں ستر پوشی کے ساتھ ساتھ عیب پوشی کے جذبات بھی کارفرما ہو جاتے ہیں۔ انسان اپنی غلطیوں کو چھپا کر خود کو مثالی بنا کر پیش کرنا چاہتاہے۔ یہی اخفا زندگی میں ارتقاء کا سبب بنتا ہے اس کے برعکس جانوروں میں اخفا نہیں ہوتا۔ حیوان چونکہ دوسرے حیوان کی زندگی سے واقف ہے اس لئے وہ خود کو دوسرے حیوان کے سامنے مثالی بنا کر پیش نہیں کرتا۔

انسان خود کو دوسروں کے سامنے مثالی بنا کر پیش کرتا ہے تو نئے نئے راستوں اور نئی نئی ایجادات کا سبب بنتا ہے۔ یہ انسان کی ایسی کوشش اور جدوجہد ہے جس جدوجہد و کوشش سے وہ علمِ حصولی سے گزر کر علمِ حضوری میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہی کوشش تمام طبعی علوم کا مجموعہ ہے۔ نئے نئے راستوں کا تلاش کرنا نئے نئے علوم کی داغ بیل ڈالنا اور ان علوم سے نئے نئے فلسفوں کا ظاہر ہونا یہ سب ارتقائی عوامل ہیں ارتقائی عمل کو علمِ حصولی کہتے ہیں۔ لیکن یہ بات محل نظر ہے کہ علمِ حصولی کی بنیاد پر جتنے بھی فلسفے وجود میں آتے ہیں یا ایجادات ہوتی ہیں ان کا بہت بڑا حصہ مفروضات اور قیاسات پر مشتمل ہے۔ جہاں مفروضات اور قیاسات کا عمل دخل ہے اس علم کو ’’ علمِ حضوری‘‘ کہتے ہیں۔ علمِ حضوری فکر کی گہرائیوں میں تلاش کئے جاتے ہیں۔ جب کہ علمِ حصولی طبعی قوانین کے پابند ہیں اور طبعی قوانین روحانی قوانین کا اتباع کرنے پر مجبو رہیں۔

ہر انسان کی زندگی دوسرے انسان کے لئے ایک سربستہ راز ہے اور ہر انسان دوسرے انسان سے ناواقف ہے۔ یہ ناواقفیت ہی انسان کی زندگی کا راز ہے۔ انسانی زندگی کا یہ راز ہر انسان کو اپنی غلطیوں کو چھپانے کی طرف مائل کرتا ہے۔ بالطبع ہر انسان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ خود کو دوسرے کے سامنے اچھا پیش کرے اور لوگوں کے سامنے اس کی غلطیاں ظاہر نہ ہوں۔ ہر انسان یہ بات جانتا ہے کہ میری زندگی کے بارے میں میرے علاوہ دوسرا کوئی شخص نہیں جانتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانی زندگی کا اخفا ارتقا کا سبب بنتا ہے۔ حیوانی زندگی میں اخفا نہیں ہے۔ انسانی ساخت کا شعوری امتیاز ہی دراصل اس کو علوم و فنون کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ نوعِ انسانی دو علوم سے واقف ہے۔ ایک علم مفروضات، قیاسات اور فکشن پر قائم ہے۔ دوسرا علم حقیقت پر مبنی ہے اس علم میں فکشن مفروضات اور قیاس شامل نہیں ہوتا۔ جو کچھ ہے وہ حقیقت ہے۔ ایسی حقیقت جس میں تغیر اور رد و بدل نہیں ہوتا۔

دونوں کی اصل علمِ لدُنّی ہے۔ علمِ حضوری اور علمِ حصولی دونوں کو ایک دوسرے سے  "علمِ لدُنّی"متعارف کراتا ہے۔ علمِ لدُنّیکے حقائق علمِ حصولی کی گہرائیوں میں تلاش کئے جاتے ہیں۔ مثلاً ہم اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر غور کرتے ہیں جب پانی کا تذکرہ کرتے ہیں تو پانی کے خدوخال پانی کا استعمال پانی بہنا سمٹنا بہاؤ یہ سب علمِ حصولی کے دائرے میں آتا ہے لیکن جب پانی کی ماہیئت تلاش کرتے ہیں تو اس تلاش کو اور تلاش کے نتیجے میں حاصل علم کو علمِ حضوری کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جگہ جگہ اپنی نشانیوں پر غور کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔

تمام طبعی قوانین اور تمام علوم جو اس دنیا میں رائج ہیں وہ سب روحانی قوانین کا اتباع کرتے ہیں۔ مثلاً جب ہم پانی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس بات کا بخوبی علم ہوتا ہے کہ پانی ہمیشہ نشیب کی طرف بہتا ہے۔ جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ پانی نشیب میں ہی کیوں بہتا ہے اور پانی کے اندر قوتیں کس طرح مخفی ہیں تو پانی کی فطرت سے ہمیں روحانی قوانین کا سراغ مل جاتا ہے۔ جیسے جیسے ہم گہرائی میں تفکر کرتے ہیں ہمارے اوپر نئے نئے انکشافات ہوتے ہیں اور یہ انکشاف ہمیں روحانی قوانین کی حقیقت تک پہنچا دیتے ہیں۔ روحانی حقیقت تک پہنچنا علمِ حضوری سے روشناسی ہے۔ علمِ حضوری اور علمِ حصولی میں ہم اس وقت فرق قائم کر سکتے ہیں جب ہمیں علمِ لدُنّیسے واقفیت ہو۔ یہی وہ علم ہے جو انبیاء علیہم السلام کو حاصل ہوتا ہے۔ یہی وہ علم ہے جو انبیاء کی نسبت سے اولیاء اللہ کو حاصل ہوتا ہے۔ علمِ لدُنّیجب انبیاء کو حاصل ہوتا ہے تو علم نبوت ہے اور علم نبوت کے زیر اثر جب اولیاء اللہ کو حاصل ہوتا ہے تو علمِ لدُنّیہے۔

اولیاء اللہ کو یہ علم الہام کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے اور پیغمبروں کو یہ علم وحی کے ذریعہ منتقل ہوتا ہے۔

کائنات چار دائروں میں متحرک ہے۔ ان دائروں کا ہر زاویہ الگ الگ معانی رکھتا ہے اور ان دائروں کے دو رُخ متعین ہیں۔ ایک رُخ جو صعودی حالت ہے۔ دوسرا رُخ نزولی حرکت ہے۔ ان دائروں کے دوسرے زاویوں کے الگ الگ چار نام ہیں۔

پہلے زاویئے کا نام راح ہے۔

دوسرے زاویئے کا نام   رُوح ہے۔

تیسرے زاویئے کا نام رویا ہے۔

چوتھے زاویئے کا نام رویت ہے۔

یہ چار اوصاف لاشعور سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب راح میں تغیر ہوتا ہے تو زمانی اور مکانی فاصلے معدوم ہوتے ہیں۔ ’’راح‘‘ میں سفر کرنے والے مسافر کو خدوخال نظر نہیں آتے۔ راح میں جب حرکت ہوتی ہے تو اس کا نام   رُوح ہے اور اس میں زمانی مکانی فاصلے پیدا ہو جاتے ہیں۔

اگر ہم کسی شخص کے سامنے سورج کا نام لیں تو آناً فاناً اس کے ذہن میں سورج کا عکس گزر جاتا ہے۔ گزرنے والا سورج وہ سورج ہے جس سے وہ خارج میں روشناس ہے۔ وہ کسی اور سورج کو نہیں جانتا۔ وہ فقط اس سورج سے واقف ہے جو ذہن میں موجود ہے۔ اگر ہم اس شخص کو ایک نقطہ تسلیم کر لیں تو یوں کہیں گے کہ نقطہ میں خدوخال نہیں ہیں۔ جب   رُوح میں حرکت ہوتی ہے تو خدوخال بن جاتے ہیں۔ نقطہ میں خدوخال کو   رُوح کہتے ہیں۔ نقطہ   رُوح بن جاتا ہے تو شعور پیدا ہوتا ہے۔ نقطہ کی پہلی حرکت کو تصور یا رویا کہتے ہیں۔ لیکن جب یہ تصور گہرا ہو کر بصارت کی سطح پر آ جاتا ہے تو رویت بن جاتا ہے۔ علمِ لدُنّیایک ایسی ایجنسی ہے جو علمِ حضوری اور علمِ حصولی دونوں کی حدیں قائم کرتی ہے۔ دونوں کی حدیں قائم کرنے کے بعد علمِ لدُنّیہمیں علمِ حضوری اور علمِ حصولی کے طبعی قوانین سے روشناس کرتا ہے علمِ لدُنّیہمیں باخبر کرتا ہے کہ تمام طبعی قوانین روحانی قوانین کے تابع ہیں۔

ادراک اور شعور

پہلا دائرہ شعور دوسرا دائرہ ادراک تیسرا دائرہ تصور اور چوتھا دائرہ شئے ہے۔ کائنات کی پہلی سطح کائنات اور افراد کائنات کے اندر بہت گہرائی میں واقع ہے۔ اس سطح کے اوصاف کا علم تقریباً ناممکن ہے اس سطح کی گہرائی میں مشیت براہ راست کام کرتی ہے۔ البتہ وہ لوگ اس سطح کی صفات کو جان لیتے ہیں جو براہ راست مشیت کے تابع ہوتے ہیں۔ پہلی سطح کے عارف لوگوں کو علم القلم سکھایا جاتا ہے۔ پہلی سطح کے بعد دوسری سطح جب نزول کرتی ہے تو اس میں نئے نئے اوصاف شامل ہوتے ہیں۔ ان مجموعی اوصاف کا نام لاشعور ہے۔ لاشعور میں جب حرکت ہوتی ہے تو فرد کا شعور اس کا احاطہ کر لیتا ہے اور اسی احاطہ کا نام تصور ہے۔ اور جب تصور اپنی سطح سے ابھر کر فرد کے سامنے آتا ہے تو شعور اپنی بالمقابل چیزوں کو دیکھنے لگتا ہے۔ مختصر یہ کہ کائنات کے ہر فرد کو چار سطحوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ جب  تک کوئی فرد ان چار سطحوں سے نہ گزرے اس وقت تک شئے کی موجودگی  زیر بحث نہیں آتی۔ اس بات کو اس طرح سمجھنا چاہئے کہ پہلے تین مرحلوں میں شئے کا تانا بانا تیار ہوتا ہے اور چوتھے مرحلے میں شئے خدوخال کے ساتھ موجود کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔ کائنات میں شئے کی حرکت دو طرح ہوتی ہے۔ ایک حرکت طولانی ہے اور دوسری حرکت محوری ہے۔ لیکن محوری حرکت طولانی حرکت کے تابع ہوتی ہے۔ طولانی حرکت ہو یا محوری حرکت دونوں میں ایک وقفہ ہوتا ہے۔

طولانی حرکت یا محوری حرکت (مکاں و زماں) دونوں حالتیں طولانی سمت اور محوری سمت میں ایک ساتھ گردش کرتی ہیں۔ یہ دونوں گردشیں مل کر مسلسل شعور تخلیق کرتی رہتی ہیں۔ اس کی مثال لٹو ہے۔

ڈوری میں باندھ کر لٹو کو پھینکا جاتا ہے۔ لٹو گھومتا ہے تو لٹو کے گھومنے کی حالت زمانی مکانی دونوں طرح ہوتی ہے۔ لٹو محوری گردش میں گھومتا ہے اور طولانی گردش میں آگے بھی بڑھتا ہے۔ طولانی گردش میں آگے بڑھنا مکانیت ہے اور محوری گردش میں دائروں میں گھومنا زمانیت ہے۔ لٹو چلنے کے بعد جب تھمتا ہے تو دیکھنے میں لٹو چند منٹ کے لئے چلا لیکن جس جگہ سے لٹو کی حرکت شروع ہوئی لٹو نے سفر کر کے کسی دوسری جگہ قیام کیا۔ ہم طولانی حرکت کو اپنے حواس میں سیکنڈ منٹ گھنٹے دن ماہ اور سال اور صدیوں کی شکل میں شمار کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ طولانی گردش کو اپنے حواس میں منٹ یا مکانیت کا وقفہ شمار کرتے ہیں۔ جب ہماری نظر آسمان پر اٹھتی ہے تو ہمارے حواس میں سیکنڈ منٹ کے وقفے ٹوٹ جاتے ہیں۔ جب کہ ہمارا شعوری تجربہ ہے کہ ہم چند سو قدم سے آگے نہیں دیکھ سکتے۔ ہم آسمان کی طرف نظر اٹھاتے ہیں تو لاکھوں میل ہمارے سامنے ہوتے ہیں۔ چاند سورج ستاروں اور اجرام فلکی کو دیکھنا اس لئے ممکن ہے کہ ہم طولانی گردش کے ساتھ محوری گردش میں بھی سفر کرتے ہیں۔ طولانی گردش میں وقفہ مکانیت ہے۔ محوری گردش میں مکانیت نہیں ہوتی جب ہم نو کروڑ میل دور سورج کو دیکھتے ہیں تو ہم محوری گردش میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ ہم محوری گردش میں سفر کریں یا طولانی گردش میں سفر کریں یہ دونوں گردشیں مل کر وقفہ کہلاتی ہیں۔

واہمہ خیال اور تصور سے گزر کر آدمی محسوساتی حالت میں داخل ہوتا ہے۔ محسوسات کی مرکزیت عالم ناسوت ہے۔ عالم ناسوت مادی زندگی ہے۔ ایسی مادی زندگی جو ٹھوس ہے اور عناصر کا مجموعہ ہے۔

تعصبات اور مفکرین

عالم ناسوت عناصر کی تخلیق ہے۔ عناصر کی تخلیق فرد کا چوتھا شعور ہے۔ اس شعور کا ادراک سطحی ہوتا ہے اس کا ٹھہراؤ اور ٹھوس پن بہت کم وقفے پر مشتمل ہے۔ چونکہ اس کا ٹھوس پن بہت کم وقفے پر مشتمل ہے اس لئے یہ شعور حواس کے اعتبار سے زیادہ ناقص ہے۔ ٹھوس پن زیادہ ہونے کی بناء پر اس شعور میں مسلسل خلاء واقع ہوتا رہتا ہے۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں۔

ضمیر نور باطن ہے۔ ضمیر یا نور باطن سے استفادہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے ذریعے شریعتیں نافذ کی ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات (شریعت و تکوین پر) غور و فکر کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ نوعِ انسان کی تخلیق کا اجمالی پہلو یہ ہے کہ اللہ کو یکتا اور ایک مانا جائے۔ یہ اسرار انبیائے کرام اور آخری نبی سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر وحی کے ذریعے منکشف ہوا۔ چونکہ انبیاء کو یہ کشف وحی کے ذریعے ہوتا ہے اس لئے ان کے فرمودات میں قیاس کو دخل نہیں ہوتا اس کے برعکس انبیاء علیہم السلام کے نہ ماننے والے فرقے توحید کو اپنے قیاس میں تلاش کرتے ہیں۔ وہ کسی ایک طاقت کی حکمرانی تسلیم کرنے کے لئے قیاس سے رہنمائی چاہتے ہیں۔ انبیاء کو نہ ماننے والے فرقے ہمیشہ توحید کو قیاس میں تلاش کرتے رہے۔ ان کے قیاس نے غلط رہنمائی کر کے توحید کوغیر توحیدی نظریات بنا کر پیش کیا۔ اور یہ نظریات کہیں نہ کہیں دوسرے فرقوں سے متصادم ہوتے رہے۔ قیاس (مفروضہ یا فکشن) کا پیش کردہ نظریہ کسی دوسرے نظریے کا چند قدم تو ساتھ دے سکتا ہے لیکن بالآخر ناکام ہو جاتا ہے۔ جب کہ انبیاء کا توحید کا نظریہ قیاس پر مبنی نہیں ہے۔

ہم جب نوعِ انسانی کا تذکرہ کرتے ہیں اور نوعِ انسانی کی فلاح و بہبود چاہتے ہیں تو ہمیں لازماً اس طرف توجہ دینی پڑے گی کہ نوعِ انسانی ایک کنبہ ہے۔ اس کنبہ کا ایک سرپرست ہے اور وہ ایسا سرپرست ہے جس کی سرپرستی میں شک کی گنجائش نہیں ہے۔ اس نظریئے پر نوعِ انسانی کو اکٹھا کرنے کے لئے ایک مکتبہ فکر پر جمع ہونا ضروری ہے۔ وہ نقطۂ فکر یہ ہے کہ اللہ ایک ہے اللہ نوعِ انسانی کا سرپرست ہے۔ ابتدائے آفرینش سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تک جتنے انبیاء مبعوث ہوئے، ان سب نے توحید کا ہی تذکرہ فرمایا ہے۔ کسی نبی کی تعلیم ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہے۔ اگر نوعِ انسانی ایک مرکز پر جمع ہو کر فلاح چاہتی ہے تو اسے انبیاء کی بتائی ہوئی توحید پر عمل کرنا ہو گا۔

تاریخ بتاتی ہے کہ انبیاء کی توحید کے نظریئے کے علاوہ آج تک جتنے نظام ہائے حکمت بنائے گئے وہ تمام اپنے ماننے والوں کے ساتھ مٹ گئے یا آہستہ آہستہ مٹتے جا رہے ہیں۔ موجودہ دور میں تقریباً تمام پرانے نظام ہائے فکر یا تو فنا ہو چکے ہیں یا ردو بدل کے ساتھ فنا کے راستے پر سرگرم عمل ہیں۔ اگرچہ ان نظام ہائے فکر کے ماننے والوں کی کوشش یہی ہے کہ تمام نوعِ انسانی کے لئے روشنی بن سکیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ قیاس پر مشتمل سارے نظام ناکام ہو ئے اور ناکام ہوتے رہیں گے۔

آج کی نسلیں گزشتہ نسلوں سے کہیں زیادہ مایوس ہیں اور آئندہ نسلیں اور بھی زیادہ مایوس ہوں گی۔ ایک وقت آئے گا کہ نوعِ انسانی کو کسی نہ کسی وقت اس نقطہ توحید کی طرف لوٹنا پڑے گا۔ جس نقطۂ توحید کو انبیاء علیہ السلام نے متعارف کرایا ہے۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ موجودہ دور کے مفکرین کو نصیحت کرتے ہیں کہ اگر وہ نوعِ انسانی کی فلاح و بہبود چاہتے ہیں تو اس کے علاوہ دوسرا راستہ نہیں ہے کہ قیاس سے ہٹ کر اس نقطۂ فکر کو سمجھا جائے جو نقطۂ فکر وحی کے ذریعے منکشف ہوا۔

ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف ممالک اور مختلف قوموں میں زندگی کی طرزیں مختلف ہیں۔ لباس اور جسمانی وظائف جداگانہ ہیں۔ یہ بات کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ تمام نوعِ انسانی کا جسمانی وظیفہ ایک ہو سکے۔ ہم جب جسمانی وظیفے سے ہٹ کر داخل (Inner) میں دیکھتے ہیں تو ہمیں ایک ہی بات نظر آتی ہے کہ جسمانی وظائف الگ الگ ہونے کے باوجود نوعِ انسانی کا ہر فرد روحانی وظائف میں باہم اشتراک رکھتا ہے اور باہمی اشتراک یہ ہے کہ مخلوق کی ضروریات پورا کرنے والا ایک اللہ ہے۔ ایک ہی ہستی ہے جس نے تمام مخلوق کو سنبھالا ہوا ہے۔ نوعِ انسانی کی جتنی ترقیاں ہیں، جتنے علوم کے مدارج ہیں، ان سب کا تعلق اسی ایک ذات سے ہے۔ کوئی علم اس وقت تک علم نہیں بن سکتا جب تک کوئی ذات ان علوم کو انسانی دماغ پر وارد (Inspire) نہ کرے۔ کوئی ترقی ممکن نہیں ہے جب تک اس دنیا میں کسی شئے کے اندر تفکر نہ کیا جائے۔ کوئی شئے موجود ہو گی تو ترقی ہو گی، موجود نہیں ہو گی تو ترقی نہیں ہو گی۔ نوعِ انسانی موجود ہو گی تو ارتقاء ہو گا۔ نوعِ انسانی موجود ہی نہیں ہو گی تو ارتقاء کیسے ہو گا؟ نوعِ انسانی کے دماغ میں کچھ کرنے کچھ بنانے کا خیال وارد نہ ہو تو وہ کچھ نہیں بنا سکتی۔ یہ وہ باہمی ربط ہے جو روحانی اعتبار سے تمام نوعوں اور تمام افراد میں ہمہ وقت متحرک ہے اور اس کا مخزن توحید کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

دنیا کے مفکرین کو چاہئے کہ دنیا میں رائج ان وظائف کی غلط تعبیروں کو درست کریں اور اقوام عالم کو وظیفہ روحانی کے ایک ہی دائرہ میں اکٹھا کرنے کی ہمہ گیر کوشش کریں۔ یہ روحانی دائرہ محض قرآن کی پیش کردہ توحید ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ قوم مستقبل کے خوفناک تصادم، چاہے وہ معاشی ہوں یا نظریاتی، نوعِ انسانی کو مجبور کر دیں گے کہ وہ بڑی سے بڑی قیمت لگا کر اپنی بقا تلاش کرے اور بقا کے ذرائع قرآنی توحید کے سوا کسی نظام حکمت میں نہیں ہیں۔ دنیا کے مفکرین پر لازم ہے کہ وہ خود کو تعصبات سے آزاد کر کے قرآن پاک کی بیان کردہ توحید کو اپنے اوپر اور پوری نوعِ انسانی پر جاری و ساری کریں۔

 

 

Topics


Sharah Loh O Qalam

خواجہ شمس الدین عظیمی

ابدال حق قلندربابااولیاء  کی روحانی اولاد کو تین کتابیں بطورورثہ منتقل ہوئی ہیں ۔ 1۔رباعیات قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ۔2-لوح وقلم ۔3۔تذکرہ تاج الدین بابارحمۃ اللہ علیہ

کتاب لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں ۔ ان فارمولوں  کو سمجھانے  کے لئے خانوادہ سلسلہ عظیمیہ  حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی  نے روحانی طلباء وطالبات  کے لئے باقاعدہ لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جو تقریباً ساڑھے تین سال تک متواترجاری رہا ۔

علم دوست افراد کے لئے ان لیکچرز کو ترتیب دے کرا یک کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ روحانی علوم سے دلچسپی رکھنے والے تمام خواتین وحضرات ان مخفی علوم سے آگاہی حاصل کرسکیں ۔)



‘‘گفتۂ اوگفتۂ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود’’ کے مصداق حامل علمِ لَدْنّی ، واقف اسرار کُن فیکون، مرشدِ کریم، ابدال حق، حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا، حضرت قلندر بابا اولیاءؒ  کی زبانِ فیض ِ ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ خود حضور بابا صاحب کے روحانی تصرف سے میرے ذہن کی اسکرین پر نقش ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ الہامی تحریر حضرت قلندر بابا اولیاءؒ  کی مبارک زبان اور اس عاجز کے قلم سے کاغذ پر منتقل ہو کرکتاب " لوح و قلم " بن گئی۔میرے پاس یہ روحانی علوم نوع ِانسان اور نوعِ جنات کے لئے ایک ورثہ ہیں۔ میں یہ امانت بڑے بوڑھوں، انسان اور جنات کی موجودہ اور آنے والی نسل کے سپرد کرتا ہوں۔


خواجہ شمس الدّین عظیمی

(لوح و قلم صفحہ نمبر۳)