Topics

رُوح کی تلاش

لباس کی صحیح حیثیت (لباس سے مراد گوشت پوست کا جسم) ہمارے سامنے اس وقت آتی ہے جب ہم مر جاتے ہیں۔ یعنی ہمارے اوپر موت واقع ہو جاتی ہے۔ اس قانون کے تحت مرنے کے بعد گوشت پوست کا جسم محض لباس کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔

یہ ضروری ہے کہ ہم تلاش کریں کہ زندہ رہنے کی حالت میں کیا ہمارے اوپر ایسی کوئی حالت واقع ہوتی ہے جو موت سے ملتی جلتی ہو۔ یا موت سے قریب ہو۔ یہ حالت وقتی طور پر ہوتی ہو یا کچھ طویل عرصے کے لئے واقع ہوتی ہو اس لئے کہ جب تک حرکت مسلسل اور متواتر نہ ہو اس کو مثال نہیں بنایا جا سکتا۔ زندگی کے مراحل میں یا زندگی کے شب و روز اور ماہ و سال میں جب ہم موت سے ملتی جلتی حالت کو تلاش کرتے ہیں تو ہمیں ایک حالت پر مجبوراً رکنا پڑتا ہے اور موت سے ملتی جلتی یہ حالت”نیند’’ ہے۔

بزرگوں کا کہنا ہے کہ”سویا اور مرا برابر ہے’’ فرق اتنا ہے کہ نیند کی حالت میں   رُوح کا اپنے لباس سے ربط برقرار رہتا ہے اور   رُوح اپنے لباس کی حفاظت کے لئے چوکنا اور مستعد رہتی ہے اور موت کی حالت میں   رُوح اپنے لباس سے رشتہ توڑ لیتی ہے۔ یا یوں کہئے کہ   رُوح لباس اتار کر آگے بڑھ جاتی ہے۔ نیند ہماری زندگی میں ایک ایسا عمل ہے کہ جس سے   رُوح کی صلاحیتوں کا پتہ چلتا ہے۔ 

 ہم دو حالتوں میں زندگی گزارتے ہیں۔ ایک حالت یہ ہے کہ ہماری آنکھیں کھلی ہوئی ہیں۔ ہمارا شعور بیدار ہے۔ ہم ہر چیز کو دیکھ رہے ہیں یا سن رہے ہیں، محسوس کر رہے ہیں اور ہم حرکت میں بھی ہیں۔ اس طرح حرکت میں ہیں کہ   رُوح کا لباس بھی حرکت میں ہے۔ یہ حالت بیداری کی ہے۔

زندگی کی دوسری حالت (جس کو نیندکہا جاتا ہے) میں ہم دیکھتے ہیں، سنتے ہیں، محسوس کرتے ہیں، خود کو چلتا پھرتا دیکھتے ہیں لیکن   رُوح کا لباس حرکت میں نہیں ہوتا۔   رُوح کے لباس سے مراد گوشت پوست کا جسم ہے۔ اس (Process) سے یہ ثابت ہوا کہ   رُوح اس بات کی پابند نہیں ہے کہ گوشت پوست کے ساتھ ہی حرکت کرے۔   رُوح گوشت پوست کے جسم کے بغیر بھی حرکت کرتی ہے۔ گوشت پوست کے جسم کے بغیر حرکت کرنے کا نام”خواب ’’ ہے۔

خواب کے بارے میں مختلف نظریات ہیں۔ کوئی کہتا ہے خواب محض خیالات ہوتے ہیں۔ جس قسم کے خیالات میں آدمی دن بھر مصروف رہتا ہے اسی قسم کی چیزیں اسے خواب میں نظر آ جاتی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ خواب ناآسودہ خواہشات کا عکس ہے۔ جب کوئی خواہش ناآسودہ رہ جاتی ہے اور اس کی تکمیل نہیں ہوتی تو وہ خواہش خواب میں پوری ہو جاتی ہے۔ اسی طرح کی بے شمار باتیں خواب کے بارے میں مشہور ہیں اور ہر شخص نے اپنی فکر اور علم کے مطابق خواب کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ کہا ہے۔ لیکن اس بات سے ایک واحد فرد بھی انکار نہیں کر سکتا کہ جس طرح   رُوح گوشت پوست کے جسم کے ساتھ حرکت کرتی ہے۔ اسی طرح   رُوح گوشت پوست کے جسم کے بغیر بھی متحرک رہتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ خواب دیکھنا اور خواب میں کئے ہوئے اعمال اور خواب میں کی ہوئی حرکات و سکنات خیالی ہیں تو اس کی تردید ہو جاتی ہے۔ اس کی تردید اس طرح ہو جاتی ہے کہ ہر شخص ایک یا دو یا زیادہ خواب ایسے ضرور دیکھتا ہے کہ خواب دیکھنے کے بعد جب وہ بیدار ہوتا ہے تو خواب میں کئے ہوئے اعمال کا اثر اس کے اوپر باقی رہتا ہے۔ اس کی ایک بڑی واضح مثال خواب میں کئے ہوئے اعمال کے نتیجے میں غسل کا واجب ہوجانا ہے۔ جس طرح کوئی آدمی بیداری میں جنسی لذت حاصل کرنے کے بعد ناپاک ہو جاتا ہے اور مذہباً اس کے اوپر غسل واجب ہو جاتا ہے اسی طرح خواب میں کئے ہوئے اس عمل کے بعد بھی اس کے اوپر غسل واجب ہو جاتا ہے اور وہ اس وقت تک نماز ادا نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ غسل جنابت سے فارغ نہ ہو۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ خواب میں کوئی ڈراؤنا منظر نظروں کے سامنے آ گیا۔ آدمی جب بیدار ہوا تو منظر کی دہشتناکی اس کے اوپر پوری طرح مسلط ہوتی ہے۔ جس طرح کسی دہشتناک واقعہ سے بیداری میں دل کی حرکت تیز ہو جاتی ہے سی طرح خواب میں دہشتناک  چیز دیکھنے سے دل کی حرکت تیز ہو جاتی ہے۔ بیداری میں جس طرح کوئی خوشنما منظر دیکھنے کے بعد آدمی کے اوپر مسرت اور شادمانی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور آدمی بیدار ہونے کے بعد خود کو خوش اور پُرمسرت محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح خواب میں خوشنما مناظر دیکھنے سے وہ خوش ہوتا ہے۔ یہ بیداری اور خواب کے اعمال و واقعات کا اجمالی خاکہ ہے۔


Topics


Sharah Loh O Qalam

خواجہ شمس الدین عظیمی

ابدال حق قلندربابااولیاء  کی روحانی اولاد کو تین کتابیں بطورورثہ منتقل ہوئی ہیں ۔ 1۔رباعیات قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ۔2-لوح وقلم ۔3۔تذکرہ تاج الدین بابارحمۃ اللہ علیہ

کتاب لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں ۔ ان فارمولوں  کو سمجھانے  کے لئے خانوادہ سلسلہ عظیمیہ  حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی  نے روحانی طلباء وطالبات  کے لئے باقاعدہ لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جو تقریباً ساڑھے تین سال تک متواترجاری رہا ۔

علم دوست افراد کے لئے ان لیکچرز کو ترتیب دے کرا یک کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ روحانی علوم سے دلچسپی رکھنے والے تمام خواتین وحضرات ان مخفی علوم سے آگاہی حاصل کرسکیں ۔)



‘‘گفتۂ اوگفتۂ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود’’ کے مصداق حامل علمِ لَدْنّی ، واقف اسرار کُن فیکون، مرشدِ کریم، ابدال حق، حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا، حضرت قلندر بابا اولیاءؒ  کی زبانِ فیض ِ ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ خود حضور بابا صاحب کے روحانی تصرف سے میرے ذہن کی اسکرین پر نقش ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ الہامی تحریر حضرت قلندر بابا اولیاءؒ  کی مبارک زبان اور اس عاجز کے قلم سے کاغذ پر منتقل ہو کرکتاب " لوح و قلم " بن گئی۔میرے پاس یہ روحانی علوم نوع ِانسان اور نوعِ جنات کے لئے ایک ورثہ ہیں۔ میں یہ امانت بڑے بوڑھوں، انسان اور جنات کی موجودہ اور آنے والی نسل کے سپرد کرتا ہوں۔


خواجہ شمس الدّین عظیمی

(لوح و قلم صفحہ نمبر۳)