Topics

لیکچر39 : ادراک کیا ہے؟

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

وہ ذات جس نے تمہیں نفس واحدہ سے پیدا کیا۔

کائنات ایک نقطہ میں ریکارڈ ہے اس نقطہ کو کائنات کی مائیکرو فلم کہا جائے تو بات آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے۔ نقطے کا ایک جگہ سے دوسری جگہ ہونا ادراک کا سرچشمہ ہے۔ ادراک اطلاع ہے۔ اطلاع ہی میں گہرائی پہنائی پیدا ہوتی رہتی ہے۔ اس گہرائی کے نتیجے میں نقطہ الٹ پلٹ ہوتا رہتا ہے ادراک سیاہ نقطے کی صفات ہیں۔ سیاہ نقطے کی صفات اطلاعات ہیں۔

ہمارے شعورمیں یہ بات محفوظ ہے کہ ہیروشیما اور ناگا ساکی پر بم گرایا گیا تو لوگوں نے دیکھا کہ پہاڑ اپنی جگہ موجود ہے لیکن دھوئیں کی طرح ہے۔ جب پہاڑ کو ہاتھ لگا کر دیکھا تو وہاں پہاڑ نہیں محض دھند تھی۔ ان کھربوں سال پرانی پہاڑیوں پر جب بم گرایا تو پہاڑیاں ایک سیکنڈ میں اس طرح فنا ہو گئیں جیسے ان کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔ پہاڑیوں کی جگہ دھوئیں کا نشان باقی رہ گیا جو آہستہ آہستہ اڑ گیا۔

براہ راست طرز کلام یا روحانی تفکر سے اس بات کو اس طرح سمجھا جائے کہ ایک سیکنڈ کی فنا نے کھربوں سال کی بقا کو اپنے اندر جذب کر لیا۔ 

جو چیز کھربوں سال میں بنی تھی وہ ایک سیکنڈ میں فنا ہو گئی اور ایک سیکنڈ کی فنا نے کھربوں سال کی زندگی کو نابود کر دیا تو مفہوم یہ ہے کہ ایک سیکنڈ نے کھربوں سالوں کا احاطہ کر لیا۔ جب ہم ہیروشیما اور ناگاساکی کی پہاڑیوں کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہیروشیما کی پہاڑیوں کو کھربوں سالوں کا روپ دے کر بیان کرتے ہیں جس طرح ایک سیکنڈ کی فنا نے کھربوں سال کی زندگی کا احاطہ کر لیا، اسی طرح سیاہ نقطہ کا ایک سیکنڈ کا کھربواں حصہ ازل سے ابد تک محیط ہے۔ ہم ازل تا ابد سیاہ نقطے کی کارگزاری کو اس لئے نہیں سمجھ سکتے کہ ہم جس ادراک کو استعمال کرنے کے عادی ہیں وہ سیکنڈ کے کھربویں حصے کا مشاہدہ نہیں کر سکتا اور جو ادراک سیکنڈ کے کھربویں حصہ کا مشاہدہ کر سکتا ہے شعوری دائرے سے باہر ہے۔

سیکنڈ کے کھربویں حصہ کا مشاہدہ کرنے کا قانون۔ سورہ قدر میں بیان کیا گیا ہے۔ 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

ہم نے یہ اتارا شب قد رمیں اور تو کیا بوجھا، کیا ہے شب قدر؟

اللہ تعالیٰ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ارشاد فرماتے ہیں۔ آپ کیا سمجھے، شب قدر کیا ہے؟ شب قدر کی ایک رات بہتر ہے ہزار مہینے سے اور اس رات کی خصوصیت یہ ہے کہ فرشتے اور جبرائیل اترتے ہیں اپنے رب کے حکم سے امان اور سلامتی کی رات ہے صبح نکلنے تک۔

شب قدر میں جو ادراک متحرک ہو جاتا ہے اس ادراک کی رفتار عام شعور سے ساٹھ ہزار گنا زیادہ ہوتی ہے۔ اگر کوئی انسان عام شعور میں اس ادراک کو متحرک کر لیتا ہے جو ادراک ساٹھ ہزار گنا ہے تو وہ کائنات کا   رُوح کا اور فرشتوں کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔ اور تکوینی نظام کے فارمولوں سے واقف ہو جاتا ہے۔

انسان کے اندر ایک عام شعور کام کرتا ہے اور عام شعور کے برعکس اس کے اندر ایک ایسا شعور کام کرتا ہے جو ادراک یا عام شعور سے ساٹھ ہزار گنا ہے۔ تصوف میں اس ادراک کو”فتح’’ کہتے ہیں۔ سالک کو فتح میں داخل ہونے کے لئے کئی منازل سے گزرنا ہوتا ہے۔ سالک سلوک کے راستے پر سفر کرتا ہے تو عام شعور سے سفر کرتا ہے۔ عام شعور میں رہتے ہوئے طرح طرح کی مشقیں کرتا ہے ان مشقوں سے شعور کی رفتار بتدریج زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ یہ رفتار بہتر ہوتے ہوتے فتح تک پہنچ جاتی ہے۔

پہلے مقام پر جب سلوک کی راہوں پر سفر کرتے ہوئے مزاحمت ٹوٹتی ہے تو سالک کے اوپر غنودگی طاری ہو جاتی ہے۔ غنودگی سے مراد یہ ہے کہ سالک آنکھیں بند کر کے بیٹھتا ہے تو اس کے اوپر سونے جاگنے کے درمیانی عمل کا غلبہ ہو جاتا ہے۔ اطلاع جو آنکھوں کے سامنے نہیں ہے دماغ پر وارد ہوتی ہے۔ سالک اسی اطلاع کو کسی حد تک قبول کرتا ہے اور پھر غنودگی کی کیفیت سے نکلنے کے بعد شعور کی مزاحمت گھٹتی ہے تو”ورود‘‘ میں داخل ہو جاتا ہے۔ ورود کی اندر شعوری مزاحمت ٹوٹتی ہے تو سکت اور بڑھتی ہے۔ سکت میں اضافہ کے بعد سالک تیسری منزل میں داخل ہو جاتا ہے اس مقام کو کشف کہتے ہیں۔ کشف کے بعد الٰہام اور الٰہام کے بعد معانقہ اور معانقہ کے بعد مشاہدہ ہوتا ہے۔ مشاہدے کے بعد سیر اور سیر کے بعد فتح کا مقام ہے۔ یہ سب مقامات سیاہ نقطے کے ادراک ہیں۔ جیسے جیسے شعور سیاہ نقطے کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے اسی مناسبت سے وسعت پیدا ہوتی ہے اور وسعت میں اضافے کے ساتھ شعور کی رفتار میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اور یہی رفتار بڑھ کر ساٹھ ہزار گنا ہو جاتی ہے اور جب کسی بندے کے اندر شعوری رفتار ساٹھ ہزار گنا ہو جاتی ہے تو اس کے سامنے فرشتے آ جاتے ہیں۔ فتح کے حامل بندہ کی بصیرت اتنی وسعت اختیار کر لیتی ہے کہ وہ ازل سے ابد تک کے معاملات کو کھلی آنکھوں سے دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ فتح کے مقام پر مراقبے کی ضرورت نہیں رہتی۔ وہ بندہ جو اللہ کے انعام کے تحت فتح سے واقف ہو جاتا ہے یا جس کے ذہن میں فتح کی رفتار پرواز متحرک ہو جاتی ہے وہ کائنات کے بعید ترین فاصلوں میں نظام شمسی کو بنتا اور طبعی عمر تک پہنچ کر فنا ہوتے دیکھتا ہے۔

کائنات ازل ہے۔ ایسی ازل جس میں کائنات ہر آن ہر لمحہ تخلیق ہو رہی ہے۔ ایک طرف تخلیق ہو رہی ہے اور دوسری طرف فنا ہو رہی ہے۔ فنا اور بقا کا یہ نظام ہر لمحہ جاری و ساری ہے۔ فنا اور بقا کے لمحات اتنی تیزی سے جاری اور متحرک ہیں کہ ہم انہیں کسی بھی طرح وقت کے پیمانے میں بند نہیں کر سکتے۔ اس ہی لئے اس کو سیاہ نقطہ کے اندر سیکنڈ کا کھربواں حصہ کہا گیا ہے یعنی ایک سیکنڈ کے کھربویں حصے میں لاشمار کہکشانی نظام تخلیق پاتے ہیں اور اسی لمحے سیکنڈ کے کھربویں حصہ میں فنا ہو جاتے ہیں۔ ہم انسان کی فنا اور بقا کو ٹائم اور اسپیس میں بیان نہیں کر سکتے۔ جس طرح پیدائش کے بعد بچہ ہر آن پیدا ہو رہا ہے اور مر رہا ہے اسی طرح ساری کائنات سیکنڈ کے کھربویں حصہ میں تخلیق ہو رہی ہے اور اسی لمحہ میں فنا ہو رہی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے۔

قلم لکھ کر خشک ہو گیا

فتح کا حامل بندہ یہ دیکھتا ہے کہ لاشمار کہکشانی نظام تخلیق ہو رہے ہیں اور لاشمار دور سے گزر کر فنا ہو رہے ہیں۔ فتح کا ایک سیکنڈ ازل سے ابد تک محیط ہوتا ہے اس سے یہ نتیجہ مرتب ہوتا ہے کہ ’’وقت‘‘ محض ایک مفروضہ ہے اور ایک ایسی اطلاع ہے جس اطلاع کو ہم شعوری طور پر محیط کر کے دیکھنا چاہتے ہیں۔ جب کہ وہ محدود نہیں ہے۔

ہم کہتے ہیں کہ زید اخبار پڑھتا ہے اور زید کہتا ہے کہ میں نے اخبار پڑھا۔ میں نے خط لکھا۔ کون کہتا ہے کہ اخبار کس نے پڑھا، خط کس نے لکھا؟ یہ سب زید نے کہا مگر بیان کرنے والا سمجھنے والا زید کا ذہن ہے۔ زید نے کیا کہا! اس کا جاننے والا زید کا ذہن ہے۔ جاننے کی نوعیت اطلاع سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ زید نے کیا کام کیا۔ اس کا جاننے والا زید کا ادراک ہے۔ جب ہم زید کے جاننے کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں اس کے علاوہ کوئی بات نظر نہیں آتی کہ جاننے کی نوعیت اطلاع سے زیادہ نہیں ہے۔ زید کے ذہن میں ایک اطلاع وارد ہوئی کہ اخبار پڑھو۔ دوسری اطلاع پر زید نے خط لکھا۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکتے کہ جاننے پڑھنے کی نوعیت اطلاع سے زیادہ نہیں ہے۔ اخبار پڑھنا، خط لکھنا سب اطلاعات ہیں۔ یہ تسلیم کرلینے کے بعد کہ زید کا خط لکھنا، اخبار پڑھنا اطلاعات ہیں تو یہ تلاش کرنا ضروری ہو گیا کہ زید کون ہے؟ اگر ہم ان اطلاعات سے قطع نظر کر لیں تو یہ کہنا کہ زید کون ہے اور زید نے کیا کیا۔ سب بے معنی باتیں ہیں۔

حقیقت صرف یہ ہے کہ زید کے ذہن کو اطلاعات موصول ہوئیں اور اس نے ان اطلاعات کو قبول کیا۔ اطلاع دینے والا بھی ذہن ہے اور قبول کرنے والا بھی ذہن ہے۔ اطلاع دینے والا اور اطلاع قبول کرنے والا وہی سیاہ نقطہ ہے جسے ادراک کہا گیا ہے۔

نو کروڑ میل 3424سال

"ادراک" کے معنی یہ ہیں کہ ہم کسی زمانیت یا مکانیت کا تذکرہ کر رہے ہیں۔

ادراک کیا ہے؟

ادراک دراصل لمحات کی تقسیم ہے۔ ایسی تقسیم جو بڑے سے بڑے وقفے کو چھوٹی سے چھوٹی کسر میں بیان کر دے اور چھوٹے سے چھوٹے وقفے کو بڑے سے بڑے وقفے میں تقسیم کر دے۔ لمحہ کوئی وقفہ نہیں ہے بلکہ ایسی اطلاع ہے جو اطلاع کھربویں حصے میں لمحے کو تقسیم کر دیتی ہے۔ یہی اطلاع لمحے کو طویل وقفے میں بیان کر کے کروڑوں سال میں محیط کر دیتی ہے۔ اسی سال کا بوڑھا جب اپنے بچپن کے واقعات سناتا ہے تو وہ ایک لمحہ میں اسی سال کے وقفوں کو بیان کر دیتا ہے۔ حالانکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ جس طرح بچپن سے اسی سال گزار کر آدمی اسی سال کا ہوا اسی طرح اسی سال بچپن میں جانے کے لئے وقت گزرتا۔ سو سال کا بوڑھا جب بچپن کا تذکرہ کرتا ہے تو اس کے اندر بچپن سے لے کر سو سال کا عرصہ فلم کی طرح لپٹ کر سامنے آ جاتا ہے۔

سائنس دان زمین سے سورج کا فاصلہ نو کروڑ میل بتاتے ہیں۔ ہم جب زمین پر کھڑے ہو کر سورج کو دیکھتے ہیں تو لمحے کے کروڑویں حصہ میں سورج کو دیکھ لیتے ہیں۔ جب کہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ ہم نو کروڑ میل کا فاصلہ(ایک گھنٹہ میں تین میل کے حساب سے) تین ہزار چار سو بیس سال سفر کر کے سورج تک پہنچتے۔ اسی طرح دوسرے سیاروں کا تذکرہ آتا ہے کہ فلاں سیارہ سورج سے بھی دور ہے لیکن جب اس سیارے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو وہ سیارہ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ زمین سے سیارے کا فاصلہ کھربوں میل پر پھیلا ہوا ہے۔ ہم ایک لمحے میں اس فاصلے سے گزر جاتے ہیں۔ جو چیز کروڑوں میل کے فاصلے کو لمحے سے روشناس کرتی ہے، ادراک ہے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ انسان اور اللہ کے رشتہ میں کسی قسم کا بعد نہیں ہوتا لیکن چونکہ ہم نے ادراک کے نقطہ نظر سے ادراک کی تقسیم کو بڑے سے بڑا وقفہ تسلیم کر لیا ہے۔ اس لئے اللہ کے اور بندے کے درمیان بظاہر دوری نظر آتی ہے ، جو نہیں ہے۔ ہم جب کہتے ہیں کہ زمین سے سورج کا فاصلہ نوکروڑ میل ہے اور اگر اس نو کروڑ میل کو تسلیم کر لیں اور اللہ کی موجودگی جس مقام پر ہے اس مقام کا تعین کریں تو کھربوں میل کا فاصلہ بن جاتا ہے۔ سورج سے آسمان تک کافاصلہ نو کروڑ میل فرض کر لیں اور الہامی کتابوں کے مقامات ذہن میں رکھیں تو صحائف کے نقطہ نظر سے زمین، سات آسمان، عرش اور کرسی ہے۔ زمین سے عرش اور کرسی تک دس مقامات کا تعین ہوتا ہے۔ ہر ہر قدم کا فاصلہ نو کروڑ میل فرض کر لیا جائے تو اللہ اور بندے کے درمیان نوے کروڑ میل کا فاصلہ بنتا ہے۔

ادراک دراصل ایک نقطہ ہے۔ اس نقطے کے پھیلاؤ کا نام ادراک اور سمٹنے کا نام بھی ادراک ہے۔ نقطہ جب سمٹتا ہے تو وقفے نظر انداز ہو جاتے ہیں اور جب نقطہ پھیلتا ہے تو فاصلے طویل ہو جاتے ہیں۔

رُوحانیت  درس دیتی ہے کہ اس نقطے کو سمجھ کر نقطہ کی اس واردات سے رشتہ مستحکم کریں جو نقطہ کا سمٹنا ہے۔ اگر ہم اس نقطے کے سمٹنے سے رشتہ استوار کر لیتے ہیں تو ہمارے اور کائنات کے درمیان فاصلے معدوم ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس نقطے کے پھیلاؤ سے رشتے قائم کرتے ہیں تو فاصلے طویل ہو جاتے ہیں۔ 

فاصلے کی طوالت کو ذہنی طور پر جتنا قبول کر لیتے ہیں اسی مناسبت سے ٹائم اسپیس کی گرفت زیادہ ہو جاتی ہے اور جس قدر ہم اپنے اوپر فاصلے اور وقفوں کا ہجوم توڑ دیتے ہیں اسی مناسبت سے فاصلے کی نفی کر دیتے ہیں اور ادراک کے اس زاویئے میں قدم رکھ دیتے ہیں جہاں ٹائم اسپیس ختم ہوجاتا ہے۔ ہم یہ بتا چکے ہیں کہ ادراک زمان ہے اور ادراک کسی سیکنڈ کی کم سے کم کسر ہے۔ دوسری طرف ادراک طویل سے طویل وقفہ ہے۔ یہ دونوں ادراک کے دو رُخ ہیں۔ ہر شخص ادراک کے اس طرز عمل سے ہر وقت گزرتا رہتا ہے۔ 

للہ تعالیٰ نے ہر انسان کو ادراک کے سمٹنے اور پھیلنے کی صلاحیتیں عطا کی ہیں۔

جب ہم نقطے کے سمٹنے کے ادراک کا تذکرہ کرتے ہیں تو خواب اور رات کی زندگی کا تذکرہ کرتے ہیں۔ جب ہم نقطے کے پھیلنے کا تذکرہ کرتے ہیں دن اور بیداری کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ادراک کی دونوں طرزیں انسان میں موجود ہیں اور ہمہ وقت متحرک ہیں۔ ادراک ذہن کے علاوہ کچھ نہیں ہے یعنی ذہن جس طرح وقفوں کی پیمائش کرتا ہے، وقفوں کی پیمائش چھوٹی کسر میں یا طویل وقفوں میں ہے دونوں ادراک کے دو رُخ ہیں۔

جب اطلاع کا تذکرہ کرتے ہیں اس اطلاع میں ہمیں اس کے علاوہ کوئی بات نہیں ملتی کہ جہاں سے اطلاع چلی وہ بھی کسی کا ذہن ہے اور جس مقام پر اطلاع قبول کی گئی وہ بھی ذہن ہے۔ اطلاع دینے اور قبول کرنے والا ذہن ہے۔

ذہن کے دو رُخ ہیں اور ذہن ہی ہمیں نقطے کے سمٹنے اور پھیلنے کی اطلاع دیتا ہے۔ ہیروشیما پہاڑیوں کے تذکرہ میں ایک ذہن کہتا ہے کہ فنا ہونے والی پہاڑیوں کی عمر دو کھرب سال ہے، یہ دو کھرب سال کہاں سے آئے، کس نے بتایا کہ یہ دو کھرب ان پہاڑیوں کی عمر ہے کوئی فرد واحد دو کھرب سال تک زندہ نہیں رہتا اور نہ یہ ممکن ہے کہ دو کھرب سال کی تاریخ ذخیرہ ہو۔ جب انسان اس معمہ کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ انسانی شعور ناقص ہے۔

انسان کے پاس پانچ ہزار سال کی تاریخ موجودنہیں ہے اور جب پانچ ہزار سال کی تاریخ موجود نہیں تو دو کھرب سال کا تذکرہ کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دو کھرب سال کا تذکرہ کرنا یا دو کھرب سال کی عمر کا تعین محض ایک اطلاع ہے۔ اطلاع کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر ایک سال کو ایک یونٹ قرار دیا جائے تو دو کھرب سال کو دو کھرب یونٹ کہا جائے گا یعنی ادراک نے ایک احساس کو دو کھرب حصوں پر تقسیم کر دیا۔ یہ ایک اطلاع ہے لیکن اس کی طوالت دو کھرب سال کا زمانہ ہے۔ دو کھرب سال کسی نے نہیں دیکھے دو کھرب سال کے زمانے کو کسی طرح ذہن کے اندر محسوس نہیں کر سکتے۔ لیکن جب سننے والے نے دو کھرب سال کی اطلاع کے بارے میں سنا تو اس نے عملاً دو کھرب سال کی طوالت کا احساس کیا اس نے دو کھرب سال کی اطلاع کو قبول کر لیا۔

ہیروشیما کی پہاڑیوں کی عمر دو کھرب سال ہے، اسے یوں کہیں گے کہ ادراک کے ایک سیکنڈ میں دو کھرب سال کا پیمانہ موجود ہے۔ دو کھرب سال کس طرح گزارے دو کھرب سال کب گزرے دو کھرب سال کس نے گزارے اس بات کو بیان کرنے کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے۔ محض اطلاع ہے۔ ایسی اطلاع جس کے ادراک کی طوالت ایک سیکنڈ سے زیادہ نہیں ہے لیکن ذہن نے اطلاع کو قبول کیا اور قبول کرنے کے بعد دوکھرب سال کی طوالت کا احساس کر لیا۔

روشنی غیر متواتر

ہر فرد اپنے بارے میں یہ جانتا ہے کہ میں ہوں۔ جب کوئی فرد یہ جان لیتا ہے کہ میں ہوں تو اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ میں کیا ہوں؟ جب ذہن میں میں کیا ہوں کا سوال ابھرتا ہے تو یہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ میں کہاں سے آیا ہوں۔

میں ہوں کا تعلق علم سے ہے۔ میں ہوں کس طرح معلوم ہوا کہ میں ہوں۔ انسان کی اپنی ذات کا تشخص اور اپنی انفرادی حیثیت علم ہے۔ میں کی حیثیت علیم اور ہوں کی حیثیت علم ہے۔ بندہ اپنی انفرادیت کا تذکرہ کرتا ہے تو کہتا ہے میں ایک طرف علم ہوں اور دوسری طرف علیم ہوں۔ یہ علیم کون ہے یہ صفت کیسے وجود میں آئی علیم نے اپنی صفت کا مظاہر کس طرح کیا؟

علم اطلاع کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ انسان بحیثیت علیم اور بحیثیت علم دو رخوں سے مرکب ہے۔ علم ہو یا علیم دونوں کا تعلق اطلاع سے ہے۔ یہ اطلاع کہ میں ہوں کہاں سے آئی یوں سمجھئے کہ انسان ایک اطلاعاتی ادراک ہے۔ ایسا ادراک جس کی بنیاد اطلاع پر قائم ہے۔ اطلاع کے اندر معانی پہنائے جاتے ہیں۔ ایک طرف اطلاع میں معانی نہیں ہوتے اور دوسری طرف اطلاع میں معانی پہنائے جاتے ہیں۔ اطلاع کے اندر جب طوالت ہوتی ہے تو وقفہ پیدا ہو جاتا ہے اور جب طوالت نہیں ہوتی تو وقفہ کم سے کم ہو جاتا ہے یا اتنا کم ہو جاتا ہے کہ وقفہ نہیں رہتا۔ اطلاع میں ادراک کی طوالت ایک سیکنڈ سے زیادہ نہیں ہے لیکن یہی طوالت جو ایک سیکنڈ سے زیادہ نہیں ہے کھربوں سال پر محیط ہو جاتی ہے جب ہم کھربوں سال کا تذکرہ کرتے ہیں تو کھربوں سال کا وقفہ ایک سیکنڈ سے زیادہ ہوتا ہے۔

انسان ایک اطلاع ہے چونکہ انسان بذات خود اطلاع ہے۔ اس لئے ساری زندگی اطلاع ہے۔ جذبات و احساسات اور حواس کا تعلق اطلاع پر ہے۔ اطلاع ہے تو حواس ہیں۔ اطلاع نہیں ہے تو حواس نہیں ہیں۔

اطلاع کیا ہے؟

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:

God said light and there was light.

خدا نے کہا، روشنی! اور روشنی ہو گئی۔ اسی بات کو قرآن پاک نے   کُن فیکون بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا ہو جا اور وہ ہو گیا۔ جب ہم اللہ کہتے ہیں تو اللہ کو روشنی کے علاوہ کوئی نام نہیں دے سکتے۔ جب روشنی نے اپنے کسی پروگرام کو نشر کرنا چاہا تو اس پروگرام کو (جو روشنی کے ذہن میں محفوظ ہے) حکم دیا حکم کے بعد ذہن کے اندر موجود پروگرام کا مظاہرہ اس طرح ہوا کہ روشنی نے کہا روشنی اور روشنی ہو گئی۔ اس لئے کہ روشنی کے ذہن میں جو کچھ ہے سب روشنی ہے۔

ایکویشن یہ بنی کہ ساری کائنات ایک روشنی کے ذہن کا عکس ہے۔ چونکہ سارا پروگرام روشنی کے ذہن سے منتقل ہوا اس لئے پروگرام کا ہر جز ہر کردار روشنی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

"اللہ نور السموات والارض"

اللہ آسمانوں اور زمین کا نور(روشنی) ہے۔

کائنات میں موجود ہر شئے روشنی ہے۔ ہماری بصارت بھی روشنی ہے، سماعت بھی روشنی ہے۔ فہم و فراست کی صلاحیت بھی روشنی ہے۔ جس ماحول میں ہم زندہ ہیں اس ماحول میں تمام چیزیں روشنی ہیں۔ جب یہ ثابت ہو گیا کہ کائنات کا ہر چھوٹا جز اور بڑا جز روشنی ہے تو کتاب اور کتاب کے الفاظ بھی روشنی ہیں۔چونکہ کتاب بھی روشنی ہے الفاظ بھی روشنی ہیں۔ اس لئے ہماری نظر بھی روشنی ہے۔ روشنی کو روشنی پڑھتی ہے اور روشنی کو روشنی دیکھتی ہے۔ ہم جب کتاب پڑھتے ہیں تو روشنی پڑھتے ہیں روشنی سمجھتے ہیں۔

روشنی کیا ہے؟

روشنی ایک اطلاع ہے یعنی روشنی اور اطلاع ایک ہی چیز ہے۔ انسان اپنی حفاظت کے لئے لباس بناتا ہے وہ لباس سوتی کپڑے کا اونی کپڑے کا یا کھال کا ہوتا ہے۔ جب تک لباس گوشت کے جسم پر ہے لباس میں حرکت ہے جب جسم پر سے لباس اتار دیا جاتا ہے تو لباس میں حرکت نہیں رہتی۔ لباس بھی روشنی ہے یہ لباس”نسمہ’’ ہے۔

سائنس اس مرحلہ تک پہنچ گئی ہے کہ انسان اور انسان کے علاوہ جتنے بھی افراد ہیں سب روشنیوں کے خول میں بند ہیں۔ روشنی خود روشنی ہے۔ دوسری طرف روشنی اپنی خودی کو ظاہر کرنے کے لئے روشنی دکھاتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ کائنات میں جتنی چیزیں موجود ہیں روشنی ہیں۔ روشنی مظاہرہ کرنے کے لئے لباس بناتی ہے جب تک روشنی لباس سے رشتہ قائم رکھتی ہے لباس قائم رہتا ہے اور جب روشنی لباس سے رشتہ توڑ لیتی ہے لباس بکھر جاتا ہے۔ روشنی کی حرکت مسلسل اور متواتر ہے۔ روشنی کسی لمحے چین سے نہیں بیٹھتی اس لئے ہر لمحہ ہر آن نیا روپ نیا لباس بنا کر مظاہرہ کرتی ہے۔ روشنی بتاتی ہے کہ میں ہوں اور”میں ہوں’’ اطلاع کے علاوہ کچھ نہیں اور اطلاع خود روشنی ہے۔


Topics


Sharah Loh O Qalam

خواجہ شمس الدین عظیمی

ابدال حق قلندربابااولیاء  کی روحانی اولاد کو تین کتابیں بطورورثہ منتقل ہوئی ہیں ۔ 1۔رباعیات قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ۔2-لوح وقلم ۔3۔تذکرہ تاج الدین بابارحمۃ اللہ علیہ

کتاب لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں ۔ ان فارمولوں  کو سمجھانے  کے لئے خانوادہ سلسلہ عظیمیہ  حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی  نے روحانی طلباء وطالبات  کے لئے باقاعدہ لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جو تقریباً ساڑھے تین سال تک متواترجاری رہا ۔

علم دوست افراد کے لئے ان لیکچرز کو ترتیب دے کرا یک کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ روحانی علوم سے دلچسپی رکھنے والے تمام خواتین وحضرات ان مخفی علوم سے آگاہی حاصل کرسکیں ۔)



‘‘گفتۂ اوگفتۂ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود’’ کے مصداق حامل علمِ لَدْنّی ، واقف اسرار کُن فیکون، مرشدِ کریم، ابدال حق، حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا، حضرت قلندر بابا اولیاءؒ  کی زبانِ فیض ِ ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ خود حضور بابا صاحب کے روحانی تصرف سے میرے ذہن کی اسکرین پر نقش ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ الہامی تحریر حضرت قلندر بابا اولیاءؒ  کی مبارک زبان اور اس عاجز کے قلم سے کاغذ پر منتقل ہو کرکتاب " لوح و قلم " بن گئی۔میرے پاس یہ روحانی علوم نوع ِانسان اور نوعِ جنات کے لئے ایک ورثہ ہیں۔ میں یہ امانت بڑے بوڑھوں، انسان اور جنات کی موجودہ اور آنے والی نسل کے سپرد کرتا ہوں۔


خواجہ شمس الدّین عظیمی

(لوح و قلم صفحہ نمبر۳)