Topics

لیکچر 3 : لوح محفوظ

کائنات ایک ایسا پروگرام ہے جو اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود تھا اور موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب عمل درآمد کرنا چاہا اللہ کے ذہن میں یہ بات آئی کہ میرے ذہن کے مطابق کائنات میں بے شمار مخلوقات وجود میں آ کر اپنا مظاہرہ کریں تو اللہ تعالیٰ نے " کُن" فرما دیا۔   کُن فرمانے کے بعد اس   کُن کا مظاہرہ اس طرح ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں جو کچھ اور جس طرح موجود تھا وہ شکل و صورت کے ساتھ ایک اسکرین پر نقش ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود پروگرام یا اس پروگرام کے کردار " کُن"کہنے کے بعد جس بساط پر نقش ہوئے اس کو مذہب لوح محفوظ کہتا ہے۔

قانون:

  آدمی دنیا میں جتنا ہوش سنبھالتا جاتا ہے اور ماحول میں موجود چیزوں کے اندر اس کا انہماک ہوتا ہے اسی مناسبت سے ان چیزوں کی ماہیت اور حقیقت کا انکشاف ہونے لگتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسانی تصور میں کائنات کا یکجائی پروگرام موجود ہے لیکن وہ اس یکجائی پروگرام کو اس لئے نہیں دیکھ سکتا کہ اسے اتنی مہلت نہیں ملتی کہ وہ ماحول کے ہجوم سے خود کو خالی الذہن کر سکے۔ قانون یہ بنا کہ انسان جس حد تک شعوری اعتبار سے یکسو ہو کر کسی طرف متوجہ ہوتا ہے اسی مناسبت سے اس کے اوپر حقائق منکشف ہوتے رہتے ہیں۔ شعور کا جب نام لیا جاتا ہے تو لاشعور بھی زیر بحث آ جاتا ہے۔ ہم جن معنوں میں شعور سے واقف ہیں وہ یہ ہے کہ جو چیز ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور جس چیز کو ہم ٹھوس دیکھ رہے ہیں وہ چیز ہمارے ذہن کے لئے موجود ہے اور جو چیز ہم نہیں دیکھ سکتے ہیں وہ چیز ہمارے لئے موجود نہیں ہے۔ حالانکہ غیر موجود شئے کا احساس ہمارے اندر موجود ہے۔ کسی چیز کا احساس ہونا اس بات کی ضمانت ہے کہ کہیں نہ کہیں وہ چیز موجود ہے۔ اس کیفیت یا اس احساس کا نام لاشعور ہے۔ لاشعور کی دنیا میں داخل ہونے کے لئے شعوری دنیا کی گرفت سے آزاد ہونا ضروری ہے۔ اس بات کو بطور (Summary) اس طرح کہیں گے کہ ایک واحد اور یکتا ذات ہے اس کے ذہن میں مکمل پروگرام ہے۔ ایسا مکمل پروگرام جس میں زندگی کے تمام تقاضوں سے متعلق کردار موجود ہیں۔ مثلاً بھوک پیاس شکل و صورت آنکھ ناک دوستی محبت نفرت حقارت ظلم عفو و درگزر۔ اس ذات نے اس سارے پروگرام کو ایک ڈرامے کی صورت میں کاغذ پر لکھ دیا یا اس ڈرامے کے اندر پورے کردار کی فلم بنا دی۔ یہ فلم کیسے چل رہی ہے۔ یہ بات آئندہ بتائی جائے گی۔ ابھی صرف اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ کائنات کا یکجائی پروگرام ایک فلم کی شکل میں محفوظ ہے اور ہم میں سے ہر فرد خواہ وہ انسان ہو بکری ہو بھیڑ ہو کوئی بھی ہو اس فلم کا کردار ہے۔ ہم اپنے آپ کو بحیثیت کردار کے جانتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ یہ کردار کن روشنیوں کے اوپر یا کن قاعدوں اور ضابطوں کے مطابق متحرک ہے۔ جاننے سے مراد تصوف میں یہ لی جاتی ہے کہ آدمی ذہنی طور پر محسوس کرتا ہو آنکھ سے دیکھتا ہو۔ یہ دیکھنے کے لئے ہم بحیثیت کردار کے کہاں واقع ہوئے ہیں ہمیں غیر جانبدار طرزِفکر اختیار کرنا ہو گی۔ غیر جانبدار طرزِفکر کے لئے شعور کی گرفت سے نکل کر لاشعور کے دائرے میں داخل ہونا ہو گا۔ لاشعور میں داخل ہونے کے لئے غیر جانبدار طرزِفکر اس وقت مستحکم ہوتی ہے جب آدمی کے اندر استغناء ہو۔

استغناء یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی، زندگی کے تمام تقاضوں، تمام خواہشات اور تمام ضروریات کا کفیل اس ذات کو سمجھے جس ذات نے کائنات بنائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے استغناء حاصل کرنے کے لئے سورۃ اخلاص میں فرمایا ہے

"قل ھو اللہ احد" ’  اے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ فرما دیجئے کہ اللہ ایک ہے۔" اللہ الصمد" ’  اللہ ہر قسم کی احتیاج سے بے نیاز ہے۔ نہ وہ کسی کا باپ ہے نہ وہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی خاندان ہے۔

خالق اور تخلیق کا جب موازنہ کیا جاتا ہے تو پانچ باتیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ ہم جب خالق اور مخلوق کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے مخلوق اور خالق کی تعریفی حدیں کچھ اس طرح قائم ہوتی ہیں کہ اللہ ایک ہے، واحد ہے، یکتا ہے، بے مثل ہے۔ لیکن مخلوق ایک نہیں ہے، کثرت ہے۔ مخلوق کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی کی اولاد ہوتی ہے یا کسی کی باپ ہوتی ہے۔ مخلوق کے لئے ضروری ہے کہ اس کا کوئی خاندان ہوتا ہے۔ مخلوق احتیاج اور ضرورت کے دائرے میں قید ہے۔ کوئی مخلوق احتیاج اور ضرورت سے باہر قدم نہیں نکال سکتی۔ اس کی زندگی کا ہر ہر قدم ہر ہر جذبہ ایک احتیاج اور ضرورت ہے۔ ان پانچ باتوں میں مخلوق خالق سے براہ راست رابطہ اگر رکھ سکتی ہے تو صرف یہ ہے کہ اپنی تمام ضروریات کا کفیل اللہ کو سمجھے۔ جب ہم شعوری زندگی کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہم جان لیتے ہیں کہ زندگی میں ہمارا ذہن الجھا ہوا ہے اور زندگی سے متعلق ہر چھوٹی بڑی خواہش یا ضرورت کے لئے ہم اس طرح پابند ہیں اور بندھے ہوئے ہیں کہ ہمیں اس سے چھٹکارہ نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم خالی الذہن نہیں ہوتے۔ کبھی ہمارا ذہن اس بات میں لگا رہتا ہے کہ ہمیں معاش حاصل کرنی ہے۔ کبھی ہمارا ذہن مصروف رہتا ہے کہ ہمیں مکان بنانا ہے، شادی کرنی ہے وغیرہ۔ جب سالک شعور کے دائرے سے نکل کر تفکر کرتا ہے تو یہ بات اس کا یقین بن جاتی ہے کہ فی الواقع ہمارا کفیل اللہ ہے۔ اس کی مثالیں ایک نہیں ہزاروں ہیں۔ نو مہینے ماں کے پیٹ کی زندگی، پیدائش کے بعد بچپن اور لڑکپن کی زندگی، اس زندگی کو گزارنے کے لئے کوئی بھی مخلوق یا فرد اپنا ذہن اپنا اختیار اپنی عقل استعمال نہیں کرتا۔ انسان کے بعد جب ہم اربوں کھربوں دانہ چگنے والے پرندوں کی طرف نظر اٹھاتے ہیں تو وہاں یہ بات سورج کی طرح نظر آتی ہے کہ کفالت کا انتظام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ کسان جب کھیتی کاٹتا ہے تو جھاڑو سے ایک ایک دانہ جمع کرلیتا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ جو دانہ کرم خوردہ ہے وہ بھی محفوظ کر کے اپنی گائے بیل اور کھیتی کے کام آنے والے جانوروں کو کھلا دیتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب انسان نے ایک ایک دانہ زمین پر سے سمیٹ لیا تو یہ اربوں کھربوں پرندے کہاں سے دانہ چگتے ہیں؟

اللہ کے ساتھ بحیثیت خالق ربط قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے اندر یہ طرزِفکر راسخ ہو جائے کہ جس طرح اللہ ہمیں پیدا کرتا ہے اسی طرح اللہ ہماری زندگی کی کفالت بھی کرتا ہے۔ جب بندے کے اندر یہ یقین پیدا ہو جاتا ہے کہ کوئی ذات ہمیں سنبھالے ہوئے ہے اور ہماری ضروریات پوری کرتی ہے تو شعور سے ہٹ کر اس ذات کی طرف قدم اٹھنے لگتا ہے۔

جب کوئی بندہ یہ بات سوچ لیتا ہے کہ میری اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ میں کسی کے ہاتھ میں کھلونا ہوں تو اس کا ذہن یکسو ہو جاتا ہے۔ رُوحانیت  میں جتنے اسباق پڑھائے جاتے ہیں یا جتنی بھی مشقیں کرائی جاتی ہیں یا جتنی بھی ریاضتیں کرائی جاتی ہیں ان سب کا مقصد صرف یہ ہے کہ انسان غیر جانبدار ہو کر اپنی نفی کر دے اور اپنی نفی کر کے خالی الذہن ہو جائے۔ جیسے جیسے آدمی کے اندر فنا کا پروگرام متحرک ہوتا رہتا ہے اسی مناسبت سے اس کے اوپر لاشعوری زندگی کے خدوخال ظاہر ہوتے ہیں۔ رفتہ رفتہ وہ غیب کے نقوش معلوم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ لاشعوری زندگی میں داخل ہونے کے لئے خالی الذہن ہونے کا مراقبہ کرنا ضروری ہے۔

مراقبہ کی قسمیں بہت ہیں۔ براہ راست مراقبہ یہ ہے کہ آدمی آنکھیں بند کر کے یہ تصور کرے کہ میں روشنی کا ایک نقطہ ہوں۔ یہ مراقبہ آدھی رات گزرنے کے بعد یا صبح صادق کے وقت شمال رُخ منہ کر کے آرام دہ نشست میں بیٹھ کر اس طرح کیا جاتا ہے کہ سالک اپنے دل کا تصور کرے اور دیکھے کہ دل کے اندر چھوٹا سا سیاہ رنگ نقطہ گردش کر رہا ہے۔ مراقبہ کی کامیابی اس بات کا مظہر بن جاتی ہے کہ آدمی اپنی زندگی کے تمام آثار فنا ہوتے دیکھتا ہے اور خود کو صرف روشنی کا ایک نقطہ دیکھتا ہے۔ یہ نقطہ جب پوری طرح واضح ہو جاتا ہے تو نقطہ کی سیاہی چمک دمک میں منتقل ہو جاتی ہے۔ پھر اس نقطہ میں پھیلاؤ پیدا ہوتا ہے اور یہ پھیلاؤ اسکرین بن جاتی ہے۔ ایسی اسکرین جس کے اوپر کائنات کا پورا پروگرام نشر ہو رہا ہے یہ وہی اسکرین ہے جس کو قرآن پاک نے لوح محفوظ کہا ہے۔


Topics


Sharah Loh O Qalam

خواجہ شمس الدین عظیمی

ابدال حق قلندربابااولیاء  کی روحانی اولاد کو تین کتابیں بطورورثہ منتقل ہوئی ہیں ۔ 1۔رباعیات قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ۔2-لوح وقلم ۔3۔تذکرہ تاج الدین بابارحمۃ اللہ علیہ

کتاب لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں ۔ ان فارمولوں  کو سمجھانے  کے لئے خانوادہ سلسلہ عظیمیہ  حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی  نے روحانی طلباء وطالبات  کے لئے باقاعدہ لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جو تقریباً ساڑھے تین سال تک متواترجاری رہا ۔

علم دوست افراد کے لئے ان لیکچرز کو ترتیب دے کرا یک کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ روحانی علوم سے دلچسپی رکھنے والے تمام خواتین وحضرات ان مخفی علوم سے آگاہی حاصل کرسکیں ۔)



‘‘گفتۂ اوگفتۂ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود’’ کے مصداق حامل علمِ لَدْنّی ، واقف اسرار کُن فیکون، مرشدِ کریم، ابدال حق، حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا، حضرت قلندر بابا اولیاءؒ  کی زبانِ فیض ِ ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ خود حضور بابا صاحب کے روحانی تصرف سے میرے ذہن کی اسکرین پر نقش ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ الہامی تحریر حضرت قلندر بابا اولیاءؒ  کی مبارک زبان اور اس عاجز کے قلم سے کاغذ پر منتقل ہو کرکتاب " لوح و قلم " بن گئی۔میرے پاس یہ روحانی علوم نوع ِانسان اور نوعِ جنات کے لئے ایک ورثہ ہیں۔ میں یہ امانت بڑے بوڑھوں، انسان اور جنات کی موجودہ اور آنے والی نسل کے سپرد کرتا ہوں۔


خواجہ شمس الدّین عظیمی

(لوح و قلم صفحہ نمبر۳)