Topics

لیکچر 2: ثابتہ اعیان جویّہ

یہ بات پوری طرح واضح ہو گئی ہے کہ جس طرح بیداری میں کئے ہوئے اعمال اور بیداری میں سرزد ہونے والی حرکات انسانی زندگی سے براہ راست تعلق رکھتی ہیں۔ اس ہی طرح خواب میں کئے ہوئے اعمال اور خواب میں سرزد ہونے والی حرکات کا تعلق بھی انسانی زندگی سے ہے۔ یہاں یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ نیند کی حالت میں کئے ہوئے اعمال سب کے سب حقیقی نہیں ہوتے اور خواب میں کئے ہوئے تمام اعمال کا تاثر قائم نہیں ہوتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بیداری میں کئے ہوئے اعمال و حرکات کا تاثر اسی وقت قائم ہوتا ہے جب آدمی ان اعمال کی طرف متوجہ ہو۔ یعنی ذہنی طور پر کسی عمل یا حرکت کو قبول کر لینے کے بعد اس کا تاثر قائم ہوتا ہے۔

بیداری کے اعمال و واقعات اور خواب کے اعمال و واقعات کو سامنے رکھ کر دونوں کا موازنہ کیا جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ اگر ہم بیداری میں کسی چیز کی طرف یا کسی کام کی طرف متوجہ ہیں تو وہ چیز ہمارے لئے خیال میں رہتی ہے۔ لیکن اگر اس چیز کی طرف متوجہ نہیں ہیں تو بیداری میں کیا ہوا عمل بھی خیال سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔


یہ بات روزمرہ کے معاملات میں شامل ہے کہ ہم معاش کے حصول کے لئے گھر سے دفتر جاتے ہیں۔ گھر سے نکلنے کے بعد بس میں بیٹھتے ہیں۔ کنڈیکٹر سے ٹکٹ خریدتے ہیں اور پیسے بھی دیتے ہیں۔ اس سے بات بھی ہوتی ہے اور بس میں سفر کر کے یعنی مختلف بازاروں سے گزر کر دفتر پہنچ جاتے ہیں۔ دفتر پہنچنے کے بعد اگر کوئی آدمی یہ سوال کرے کہ کنڈیکٹر کی کیا شکل وصورت تھی۔ اور راستے سے گزرتے وقت آپ نے کیا کیا دیکھا تو اس کے علاوہ کوئی بات نہیں ہوتی کہ آدمی یہ کہے کہ میں نے توجہ نہیں کی۔ باوجودیہ کہ اس کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں۔ وہ بس میں بیٹھا ہوا یہ دیکھ رہا ہے کہ سڑک کے دونوں طرف دکانیں ہیں راستے میں چوراہے ہیں اور طرح طرح کے بورڈ آویزاں ہیں لیکن چونکہ اس کی ذہنی مرکزیت صرف اور صرف دفتر ہے۔ اس لئے اسے کوئی چیز یاد نہیں رہتی۔ اس کے برعکس ایک آدمی بس میں بیٹھتا ہے اور اپنی توجہ اس بات پر مرکوز رکھتا ہے کہ راستے میں کیا کیا چیزیں موجود ہیں اور کس قسم کے حالات پیش آ رہے ہیں۔ ایسا مسافر دفتر پہنچنے کے بعد کافی وضاحت کے ساتھ یہ بتا دیتا ہے کہ راستے میں فلاں فلاں چیزیں میں نے دیکھی ہیں۔

تفصیل بیان کرنے سے منشاء یہ ہے کہ وہ خواب ہو یا بیداری اگر آدمی حالات و واقعات کی طرف متوجہ ہے تو حافظہ اسے محفوظ کر لیتا ہے ورنہ سب باتیں حذف ہو جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کتنی ہی مرتبہ خواب کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور کتنی ہی مرتبہ بیداری میں کئے ہوئے اعمال و حرکات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔

روحانی نقطۂ نظر سے اور آسمانی صحائف کی روشنی میں انسانی زندگی دو رخوں پر قائم ہے۔ ایک رُخ بیداری اور دوسرا رُخ خواب انسان آدھی زندگی خواب میں گزارتا ہے اور آدھی زندگی بیداری کی کیفیت میں بسر کرتا ہے۔ بیداری اور خواب کا موازنہ کرنے کے بعد بیداری میں کئے ہوئے اعمال و حرکات کا تجزیہ کرنا بھی ضروری ہے۔ خواب میں جو سفر ہوتا ہے اس میں Time &Spaceنہیں ہوتا۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کے لئے کسی سواری یا ٹائم گزارنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اس کے برعکس بیداری میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کے لئے سواری کی ضرورت پیش آتی ہے اور وقت کا صرف ہونا بھی لازم ہے۔ گہرائی میں تفکر کیا جائے تو خواب کی زندگی میں کئے ہوئے اعمال و حرکات بھی اسی طرح سرزد ہوتے ہیں جس طرح بیداری میں سرزد ہوتے ہیں یعنی کسی کام کو کرنے کے لئے پہلے اس کام کو کرنے کا خیال آتا ہے۔ پھر اس خیال میں رنگینی پیدا ہوتی ہے اور یہ رنگینی تصور بن جاتا ہے اور تصور اپنی رعنائیوں کے ساتھ مظہر بن جاتا ہے۔

مثلاً ایک آدمی مضمون لکھنے بیٹھتا ہے۔ جس وقت مضمون لکھنے بیٹھتا ہے اس کے ذہن میں نہ مضمون کے اجزائے ترتیبی ہوتے ہیں اور نہ تفصیل۔ مگر جس وقت وہ لکھنا شروع کرتا ہے تو خود بخود ذہن میں الفاظ بننے لگتے ہیں اور مفہوم لفظوں کی شکل میں ڈھل جاتا ہے۔ اب تین صورتیں ہیں ایک یہ کہ مضمون کہیں موجود ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مضمون جس مفہوم میں موجود تھا اس نے لفظوں کی صورت اختیار کر لی اور تیسری صورت یہ ہے کہ لفظ کاغذ کے اوپر مظہر بن گئے۔

روحانی نقطۂ نظر سے وہ مقام جہاں مضمون مفہوم کے ساتھ موجود تھا تحت الشعور ہے اور جب مفہوم الفاظ کی شکل میں منتقل ہو گیا تو لاشعور ہے اور یہی مفہوم جب عبارت بن کر کاغذ کے اوپر نقش ہو گیا تو شعور ہے۔ روحانی زبان میں تحت الشعور کو ثابتہ لاشعور کو اعیان اور شعور کو جویّہ کہتے ہیں۔


مضمون نگار کی مثال سے ہمیں یہ معلوم ہو گیا کہ مضمون کاغذ پر نقش ہونے سے پہلے کہیں موجود تھا۔ اس طرح موجود تھا کہ ہم اس سے واقف نہیں تھے لیکن جب ہم نے خود کو تیار کر کے اس مفہوم کی طرف توجہ مرکوز کی تو مفہوم واضح ہو گیا۔ واضح ہونے سے مراد یہ ہے کہ مفہوم حافظہ کی سطح پر ابھر آیا اور ہم نے ہاتھ اور قلم کا سہارا لے کر حافظے پر موجود ان نقوش کو کاغذ پر منتقل کر دیا۔ حقیقت یہ منکشف ہوئی کہ انسان کا ذہن پہلے سے مضمون اور مفہوم سے روشناس تھا مضمون اور مفہوم سے روشناسی اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کائنات کی ہر چیز سے روشناس ہے۔ بات اتنی سی ہے کہ کچھ چیزوں کو وہ جانتا ہے خواہ وہ دیکھنے کی وجہ سے جانتا ہو یا سننے کی وجہ سے جانتا ہو اور کچھ چیزوں کو وہ نہیں جانتا لیکن وہ تمام چیزیں کہیں نہ کہیں موجود ہیں۔ ذہن انسانی اس بات سے آگاہ ہے کہ سننے کے عمل کے ساتھ یا دیکھنے کے عمل کے ساتھ کچھ چیزوں سے وہ واقف ہو جاتا ہے اور جن چیزوں سے وہ واقف نہیں ہے ان چیزوں سے واقفیت پیدا کرنے کا تجسس اس کے اندر موجود ہے۔ یہی وہ تجسس ہے جو مادی اور روحانی صلاحیتوں کو ہمارے اوپر منکشف کرتا ہے۔ تجسس کی اس روشناسی سے ہم جس حد تک واقفیت ہو جاتے ہیں اسی مناسبت سے ہمارے اندر صلاحیتیں بیدار ہو جاتی ہیں اور ہم نئی نئی چیزیں اختراع کرنے پر قدرت حاصل کر لیتے ہیں۔ روحانی طرزوں میں یہ صلاحیتیں اس قدر وسعت اختیار کر لیتی ہیں کہ کائنات ایک آئینہ کی طرح ہمارے سامنے آ جاتی ہے اور ہم اس بات سے واقف ہو جاتے ہیں کہ کائنات میں پہلے کیا تھا اب کیا ہے اور آئندہ کیا ہو گا۔ دراصل تجسس ہی ایک ایسی حرکت ہے جس کے ذریعے کوئی انسان علوم میں ترقی کر کے مہارت حاصل کر سکتا ہے۔


Topics


Sharah Loh O Qalam

خواجہ شمس الدین عظیمی

ابدال حق قلندربابااولیاء  کی روحانی اولاد کو تین کتابیں بطورورثہ منتقل ہوئی ہیں ۔ 1۔رباعیات قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ۔2-لوح وقلم ۔3۔تذکرہ تاج الدین بابارحمۃ اللہ علیہ

کتاب لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں ۔ ان فارمولوں  کو سمجھانے  کے لئے خانوادہ سلسلہ عظیمیہ  حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی  نے روحانی طلباء وطالبات  کے لئے باقاعدہ لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جو تقریباً ساڑھے تین سال تک متواترجاری رہا ۔

علم دوست افراد کے لئے ان لیکچرز کو ترتیب دے کرا یک کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ روحانی علوم سے دلچسپی رکھنے والے تمام خواتین وحضرات ان مخفی علوم سے آگاہی حاصل کرسکیں ۔)



‘‘گفتۂ اوگفتۂ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود’’ کے مصداق حامل علمِ لَدْنّی ، واقف اسرار کُن فیکون، مرشدِ کریم، ابدال حق، حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا، حضرت قلندر بابا اولیاءؒ  کی زبانِ فیض ِ ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ خود حضور بابا صاحب کے روحانی تصرف سے میرے ذہن کی اسکرین پر نقش ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ الہامی تحریر حضرت قلندر بابا اولیاءؒ  کی مبارک زبان اور اس عاجز کے قلم سے کاغذ پر منتقل ہو کرکتاب " لوح و قلم " بن گئی۔میرے پاس یہ روحانی علوم نوع ِانسان اور نوعِ جنات کے لئے ایک ورثہ ہیں۔ میں یہ امانت بڑے بوڑھوں، انسان اور جنات کی موجودہ اور آنے والی نسل کے سپرد کرتا ہوں۔


خواجہ شمس الدّین عظیمی

(لوح و قلم صفحہ نمبر۳)