Topics
ہم جب زندگی میں کام کرنے والے ان تقاضوں کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ زندگی کا کوئی تقاضہ ایسا نہیں جو خیال کے بغیر پورا ہوتا ہو، ہر خیال کا تعلق اطلاع سے ہے۔ اطلاع کہیں سے آتی ہے دماغ کے اوپر وارد ہوتی ہے۔ دماغ اسے محسوس کر کے معنی پہناتا ہے اور اطلاع کی تکمیل تقاضا بن جاتی ہے۔ یہ بات تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ زندگی کہیں سے آ رہی ہے اور کہیں جا رہی ہے۔ زندگی کا یہ تسلسل اس طرح قائم ہے کہ ایک ہی جذبہ بار بار پیدا ہوتا ہے اور چھپ جاتا ہے چھپنے کے بعد پھر ابھرتا ہے اور تکمیل کے بعد پھر چھپ(ریکارڈ) جاتا ہے۔
راز:
اطلاع دو طرح سفر کرتی ہے۔ ایک پابند ہو کر دوسرے آزاد ہو کر۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اطلاع پابند ہو کر سفر کرے یا آزاد ہو کر سفر کرے ریکارڈ ہوتی رہتی ہے۔
زندگی کے چار رُخ ہیں۔(۱) زندگی اطلاع ہے۔ (۲) اطلاع نزول کرتی ہے۔ نزولی کیفیت میں ٹائم اینڈ اسپیس کی پابندی لازمی ہے۔ (۳) اطلاع ٹائم اینڈ اسپیس سے آزاد ہو کر سفر کرتی ہے۔(۴) اطلاع کا کوئی سورس ہے۔
۱۔ انفارمیشن کا سورس
۲۔ خود انفارمیشن
۳۔ انفارمیشن حرکات و سکنات کی پابندی کے ساتھ
۴۔ انفارمیشن حرکات و سکنات سے آزاد
یہ تسلیم کرنے کے بعد کہ اطلاع کا کوئی سورس ہے۔ زندگی کے پانچ رُخ متعین ہیں۔ اس لئے کہ سورس کے لئے ضروری ہے کہ اس کا کوئی منبع ہو۔
ریڈیو ٹی وی ایک سورس ہے کہ خبریں سناتا ہے لیکن کہیں سے خبریں آ رہی ہیں۔ کوئی منبع یا مخزن ہے کوئی ہستی ہے جو خبریں سنا رہی ہے۔
روحانی راستے پر سفر کرنے والے دوست جانتے ہیں کہ کائنات میں کوئی شئے نقش و نگار کے بغیر موجود نہیں ہے۔ کائنات میں ہر شئے کی شکل وصورت ہے۔ ہر شئے کا جسم ہے۔ تمام اصلیں اور حقیقتیں غیب کی دنیا میں اس ہی طرح موجود ہیں جس طرح عالم ناسوت میں موجود ہیں۔ عالم غیب میں دیکھنے والی نگاہ سے سراغ ملتا ہے کہ کائنات میں موجود ہر نقش کے تین وجود ہیں۔
اول۔ تجلی ذات
دوم۔ تجلی صفات
سوئم۔ خلق
ہر وجود صعودی، نزولی دو رخوں پر قائم ہے۔ اس طرح زندگی کے چھ رُخ متعین ہوئے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
''کوئی نہیں لکھا گنہگاروں کا پہنچنا بندی خانے میں اور تجھ کو کیا خبر کیسا ہے بندی خانہ؟ ایک دفتر لکھا ہوا۔"( پارہ ۳۰ آیت ۷۔۸)
اگر انسان کو اطلاع نہ ملے اور کوئی انسان اچھائی برائی کے تصور سے آشنا نہ ہو اس کے لئے سزا جزا نہیں ہے۔ اصل میں سزا جزا کا تعلق اطلاعات سے ہے۔ اطلاعات میں اچھائی برائی کے معانی پہنا کر اطلاع کو قبول کیا جاتا ہے۔ اطلاع کے نزول کے بعد باشعور انسان اطلاع میں معنی پہناتا ہے۔ اطلاع میں معانی پہنانا دراصل ریکارڈ ہوجاتا ہے۔ یہی سزا و جزا کا قانون ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
خرابی ہے، اس دن جھٹلانے والوں کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لوگ جو اللہ کی آیتوں کو جھٹلاتے ہیں اور کہتے ہیں وہی باتیں ہیں جو پہلے لوگ کہہ چکے ہیں وہ اس لئے قبول نہیں کرتے کہ ان کے دلوں میں زنگ لگ گیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اس سے پہلے لوگ بھی اللہ کی طرف سے لوگوں کو باخبر کرتے رہے ہیں۔ لوگوں نے ان کی باتوں کو نہیں سنا۔ اس کے باوجود کہ ان کے علم میں ہر بات ریکارڈ ہے کہ پچھلے لوگوں نے بھی اللہ کی آیات کو جھٹلایا ہے۔
قانون یہ ہے کہ انسان اطلاع کو جس طرح قبول کرتا ہے یا رد کرتا ہے سب کا سب ریکارڈ ہو جاتا ہے۔
انسان جب کوئی عمل کرتا ہے تو اس عمل کو جس طرح ضمیر قبول کرتا ہے عمل اسی طرح ریکارڈ ہو جاتا ہے اور انسان دوسری زندگی یعنی صعودی زندگی میں اس ریکارڈ کو پڑھتا ہے۔ مرنے کے بعد یوم حساب تک یہی ریکارڈ زندگی بن جاتا ہے۔ نیکو کاروں کا ضمیر مطمئن ہوتا ہے۔ انہیں اللہ تعالیٰ ایسی نعمتیں عطا کرتا ہے جن نعمتوں سے انہیں سکون ملتا ہے۔ یہ سب بھی کتاب المرقوم(ریکارڈ) ہے۔
ہم کوئی بھی عمل کرتے ہیں ہمیں اطلاع فراہم کی جاتی ہے کہ یہ کام اچھا ہے یا برا ہے۔ جب ہم اچھائی کو قبول کرتے ہیں تو اچھائی ریکارڈ ہو جاتی ہے اور جب برائی کو قبول کرتے ہیں تو برائی ریکارڈ ہو جاتی ہے۔ ایک کام کرنے کے بعد بندے کا ضمیر مطمئن ہوتا ہے۔ دوسرا کام کرنے کے بعد ضمیر مطمئن نہیں ہے۔ ایک آدمی کہتا ہے کہ میں چوری کر کے مطمئن ہوں، میں نے چوری اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے کی ہے۔ اس لئے میرا ضمیر مطمئن ہے لیکن جب اس کے گھر میں چوری ہوتی ہے تو وہ چوری کو اچھا عمل قرار نہیں دیتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ خود کو دھوکا دے رہا ہے۔ ایک آدمی غصے میں کسی کو گالی دیتا ہے وہ گالی دینے میں اپنے آپ کو حق بجانب تصور کرتا ہے لیکن جب اس کو کوئی گالی دیتا ہے تو اسے غصہ آ جاتا ہے۔ اس کا مطلب بھی یہ ہے کہ وہ خود فریبی میں مبتلا ہے۔ ضمیر کا مطمئن ہونا یہ ہے کہ جو کچھ انسان اپنے لئے چاہتا ہے وہ ہی دوسروں کے لئے چاہے۔ جن باتوں سے وہ خود پریشان ہوتا ہے دوسروں کو ایسی باتوں سے پریشان نہ کرے۔ نزول و صعود کی حرکات براہ راست ضمیر سے تعلق رکھتی ہیں اور ضمیر اچھائی اوربرائی کو اچھی طرح جانتا ہے۔
آنکھوں کی روشنی
میرے بچو!میں اس قانون کو کئی دفعہ وضاحت کے ساتھ بیان کر چکا ہوں کہ کائنات میں جو کچھ ہے وہ سب کا سب خدوخال اور نقش و نگار پر قائم ہے۔ اور کائنات کو دیکھنے کی دو طرزیں ہیں۔
ایک طرز یہ ہے کہ کائنات کے اندر موجود اشیاء کو ٹھوس مادی شکل وصورت میں دیکھا جاتا ہے۔
اور دیکھنے کی دوسری طرز یہ ہے کہ شکلیں اور صورتیں نظر تو آتی ہیں، ان میں ٹھوس پن بھی ہوتا ہے لیکن ظاہری دنیا کی طرح نظر میں نہیں آتیں۔
روحانی سائنس کا کوئی شاگرد جب ظاہر دنیا سے نکل کر دل کے نقطہ میں جھانکتا ہے تو اس کے اوپر یہ راز منکشف ہو جاتا ہے کہ کائنات کے اندر موجود ہر شئے کے تین وجود ہیں۔
۱۔ ایک وجود کا تعلق براہ راست تجلی سے ہے۔
۲۔ دوسرے وجود کا تعلق صفات سے ہے۔
۳۔ تیسرے وجود کا تعلق عالم خلق سے ہے۔
تخلیق دو رخوں پر کی گئی ہے۔ ایک رُخ نور اور روشنی ہے اور دوسرا رُخ حرکت ہے۔
ہر نوع کے افراد سوتے جاگتے ہیں۔ سونے کی حالت انسان کو ذات سے قریب کرتی ہے اور بیداری انسان کو ذات سے دور کرتی ہے۔ سونے کی حالت صعودی سفر کا ذریعہ ہے۔ صعودی حالت سے واقفیت کے لئے مراقبہ کو ضروری قرار دیا گیا ہے جب کہ بیداری کی دنیا میں سفر کرنے کا ذریعہ ہاتھ پیروں کی جنبش بتائی جاتی ہے۔ ظاہری علوم کے ماہر لوگ اس پر غور نہیں کرتے ہاتھ پیروں کی جنبش اور حرکت کہاں سے آ رہی ہے۔ مادہ پرست حضرات کے برعکس روحانی لوگ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مادی دنیا میں ہاتھ پیروں کی جنبش غیر مادی دنیا کی جنبش کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نوعِ انسان کو زندگی گزارنے کا جو پروگرام دیا ہے اس پروگرام میں صعودی(خواب) اور نزولی(بیداری) دونوں پر غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ابدال حق قلندربابااولیاء کی روحانی اولاد کو تین کتابیں بطورورثہ منتقل ہوئی ہیں ۔ 1۔رباعیات قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ۔2-لوح وقلم ۔3۔تذکرہ تاج الدین بابارحمۃ اللہ علیہ
کتاب لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں ۔ ان فارمولوں کو سمجھانے کے لئے خانوادہ سلسلہ عظیمیہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے روحانی طلباء وطالبات کے لئے باقاعدہ لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جو تقریباً ساڑھے تین سال تک متواترجاری رہا ۔
علم دوست افراد کے لئے ان لیکچرز کو ترتیب دے کرا یک کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ روحانی علوم سے دلچسپی رکھنے والے تمام خواتین وحضرات ان مخفی علوم سے آگاہی حاصل کرسکیں ۔)
‘‘گفتۂ اوگفتۂ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود’’ کے مصداق حامل علمِ لَدْنّی ، واقف اسرار کُن فیکون، مرشدِ کریم، ابدال حق، حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا، حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کی زبانِ فیض ِ ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ خود حضور بابا صاحب کے روحانی تصرف سے میرے ذہن کی اسکرین پر نقش ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ الہامی تحریر حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کی مبارک زبان اور اس عاجز کے قلم سے کاغذ پر منتقل ہو کرکتاب " لوح و قلم " بن گئی۔میرے پاس یہ روحانی علوم نوع ِانسان اور نوعِ جنات کے لئے ایک ورثہ ہیں۔ میں یہ امانت بڑے بوڑھوں، انسان اور جنات کی موجودہ اور آنے والی نسل کے سپرد کرتا ہوں۔
خواجہ شمس الدّین عظیمی
(لوح و قلم صفحہ نمبر۳)