Topics

رُوح کیا ہے؟

کسی بات سمجھنے اور اس کی حقیقت کو تلاش کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس بات کی طرف اپنی تمام تر ذہنی صلاحیتوں کے ساتھ متوجہ ہوں اور اس بات سے متعلق جتنے عوامل ہیں جتنے محرکات ہیں ان سے آگاہی حاصل کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات سے متعارف ہونے اللہ کی ذات کو جاننے اور اللہ تعالیٰ کی صفات سے آگاہ ہونے کے لئے اللہ کی تخلیق کی ہوئی کائنات میں تفکر کرنا ضروری ہے۔

ایک بہت بڑا آرٹسٹ ہے بہت اچھی تصویر بنا سکتا ہے لیکن کاغذ اور کینوس پر کبھی تصویر نہیں بناتا۔ اس کا تعارف مصور کی حیثیت سے نہیں ہوتا۔ کسی مصور کو ہم اس وقت مصور کہتے ہیں جب اس کی تخلیقات ہمارے سامنے ہوں۔ خالق کو پہچاننے اور خالق کی صفات سے وقوف حاصل کرنے کے لئے مخلوق کا پہچاننا اور تخلیقی فارمولوں سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ ہم جب کائنات کے بارے میں تفکر کرتے ہیں تو ہمیں دو بنیادی باتوں کا سراغ ملتا ہے۔ ایک یہ کہ کائنات کے اندر زندگی رواں دواں ہے۔ ساتھ ہی یہ کہ زندگی کسی کے تابع ہے۔ افراد کائنات کو زندہ رکھنے والی شئے جب تک فرد کو زندگی منتقل کرتی رہتی ہے فرد متحرک رہتا ہے اور جب یہ شئے فرد سے اپنا رشتہ توڑ لیتی ہے تو فرد زندگی کھو دیتا ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو تمام افراد کائنات میں جاری و ساری ہے۔ اس شئے کا نام" رُوح" ہے۔

رُوح کیا ہے؟

اللہ تعالیٰ کے ذہن سے نکلا ہوا ایک لفظ ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ لا متناہی ہیں اور غیر متغیر ہیں، شکست و ریخت سے ماوراء ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کا لفظ بھی لاتغیر ہے۔ مسلسل حرکت میں ہے۔ ازل تا ابد حرکت میں رہے گا۔ عقدہ یہ کھلا کہ   رُوح مسلسل حرکت ہے۔

کائنات کے اجزائے ترکیبی پر ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں ایک چیز بھی ایسی نہیں ملتی جو اس قانون سے باہر ہو۔ انسان کی روحانی صلاحیتوں کا جب تذکرہ آتا ہے اور نوعِ انسانی کا کوئی فرد   رُوح کی ساخت کو سمجھنا چاہتا ہے تو اسے باور کرنا پڑتا ہے کہ   رُوح مسلسل حرکت چاہتی ہے اور جب تک حرکت قائم رہتی ہے۔ آدمی کے اندر عمل کا صدور ظاہر ہوتا رہتا ہے۔ کلیہ یہ بنا کہ ساری کائنات ایک حرکت ہے۔ کائنات میں موجود تمام افراد ایک نظام کے تحت ایک دوسرے کی وابستگی کے ساتھ مسلسل حرکت میں ہیں۔ ظاہر حالات میں ہمارے سامنے اپنی پیدائش ہے۔ ماں کے پیٹ میں پہلے دن سے پیدائش تک اور پیدا ہونے کے بعد سے موت تک کوئی لمحہ کوئی آن کوئی گھڑی کوئی دن کوئی گھنٹہ کوئی منٹ ایسا نہیں ہے۔ جس میں حرکت نہ ہو۔

انسانی زندگی کا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ ہر انسان دو دماغوں میں بند ہے یا انسانی زندگی دو دماغوں میں تقسیم ہے۔ ان دو رخوں کا تذکرہ شعور اور لاشعور کے نام سے ہوچکا ہے۔ جب انسان شعور میں ہوتا ہے تو اس کی کیفیات الگ ہوتی ہیں اور جب انسان لاشعور میں زندگی بسر کرتا ہے تو کیفیات مختلف ہوتی ہیں۔ لیکن حرکت کسی وقت ساقط نہیں ہوتی۔ اس لئے آدم زاد شعوری کیفیات میں ہو یا لاشعوری کیفیات میں ہو مسلسل حرکت میں رہتا ہے۔ جب کوئی انسان شعوری زندگی میں حرکت کرتا ہے اس کے اوپر زمان و مکان کی پابندی عائد ہوتی ہے۔ زندگی کے اس آدھے رُخ کو بیداری کہا جاتا ہے اور جب کوئی بندہ لاشعوری زندگی میں سفر کرتا ہے اس کے اوپر سے زمان و مکان کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے۔ اس رُخ کو خواب کہا جاتا ہے۔ دیکھنے اور سمجھنے کی طرزوں کا تجزیہ کرنے سے ہمارے اوپر اس قانون کا انکشاف ہوتا ہے کہ اگر ہم اپنے ارادے اور اختیار سے کسی عمل کی طرف متوجہ رہتے ہیں تو وہ عمل ہمیں یاد رہتا ہے اور اگر ہم عمل کرنے کے باوجود ذہنی طور پر اس طرف متوجہ نہیں ہوتے تو وہ عمل بھول کے خانے میں جا پڑتا ہے۔ بیداری اور خواب دونوں حالت میں یہ صورت موجود رہتی ہے۔ جس طرح کوئی آدمی بیداری میں کئے ہوئے اعمال و حرکات کی طرف متوجہ ہو کر اسے یاد رکھنا چاہتا ہے تو وہ یاد رہتے ہیں۔ اسی طرح اگر خواب کی زندگی میں کئے ہوئے اعمال و حرکات کی طرف متوجہ رہے تو وہ بھی یاد رہتے ہیں۔

عام مشاہدہ ہے کہ زندگی کی دو طرزوں میں ایک طرز یہ ہے کہ طبیعت آدمی کو اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ وہ سو جائے۔ پھر مجبور کرتی ہے کہ وہ بیدار ہو جائے یعنی طبیعت اس بات کی عادی ہے کہ آدمی کو سلا کر لاشعور کو بیدار کر دے اور آدمی کو جگا کر لاشعور کو سلا دے۔ لاشعور کو بیدار کرنے اور شعور کی Activitiesسے واقفیت حاصل کرنے کے لئے ہمیں طبیعت کی اس عادت کو سمجھنا پڑے گا۔ ہم اس بات کی عادت ڈال سکتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ بیدار رہ کر لاشعور کی حرکات کو بیداری میں مشاہدہ کر لیں۔ شروع شروع میں اس عادت کی خلاف ورزی کرنا طبیعت کے لئے بار بنتا ہے۔ اگر آدمی مشق جاری رکھے یعنی نیند کو قریب نہ آنے دے تو دو دن اور دو رات گزرنے کے بعد طبیعت میں ایسا ٹھہراؤ آ جاتا ہے کہ لاشعوری حرکات بند آنکھوں کے سامنے آنے لگتے ہیں۔ اسی طرح کئی ہفتے یا کئی ماہ اگر جاگنے کا اہتمام کیا جائے تو کھلی آنکھوں کے سامنے بھی لاشعوری حرکات آنے لگتی ہیں اور درجہ بدرجہ آدمی غیب کی دنیا سے متعارف ہو جاتا ہے۔ بند آنکھوں سے لاشعوری زندگی کو دیکھنا یا غیب کی دنیا میں داخل ہو کر غیب کی دنیا سے متعارف ہونا تصوف کی اصطلاح میں"ورُود" کہلاتا ہے۔ مشق کرتے کرتے نگاہ کے اندر اتنی سکت پیدا ہو جاتی ہے کہ آدمی بیداری کی حالت میں کھلی آنکھوں سے باطنی دنیا کا بھی مشاہدہ کر لیتا ہے اس حالت کا نام شہود ہے۔

ضروری ہے کہ یہ مشق مرشد کریم کی نگرانی میں کی جائے۔ بصورت دیگر دماغی خلل واقع ہو جاتا ہے۔ روحانی استاد یا مرشد سالک کو اس وقت مشق کرائیں جب وہ خود ان مشقوں سے گزر کر ماورائی دنیا کا مطالعہ کر چکے ہوں۔


Topics


Sharah Loh O Qalam

خواجہ شمس الدین عظیمی

ابدال حق قلندربابااولیاء  کی روحانی اولاد کو تین کتابیں بطورورثہ منتقل ہوئی ہیں ۔ 1۔رباعیات قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ۔2-لوح وقلم ۔3۔تذکرہ تاج الدین بابارحمۃ اللہ علیہ

کتاب لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں ۔ ان فارمولوں  کو سمجھانے  کے لئے خانوادہ سلسلہ عظیمیہ  حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی  نے روحانی طلباء وطالبات  کے لئے باقاعدہ لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جو تقریباً ساڑھے تین سال تک متواترجاری رہا ۔

علم دوست افراد کے لئے ان لیکچرز کو ترتیب دے کرا یک کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ روحانی علوم سے دلچسپی رکھنے والے تمام خواتین وحضرات ان مخفی علوم سے آگاہی حاصل کرسکیں ۔)



‘‘گفتۂ اوگفتۂ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود’’ کے مصداق حامل علمِ لَدْنّی ، واقف اسرار کُن فیکون، مرشدِ کریم، ابدال حق، حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا، حضرت قلندر بابا اولیاءؒ  کی زبانِ فیض ِ ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ خود حضور بابا صاحب کے روحانی تصرف سے میرے ذہن کی اسکرین پر نقش ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ الہامی تحریر حضرت قلندر بابا اولیاءؒ  کی مبارک زبان اور اس عاجز کے قلم سے کاغذ پر منتقل ہو کرکتاب " لوح و قلم " بن گئی۔میرے پاس یہ روحانی علوم نوع ِانسان اور نوعِ جنات کے لئے ایک ورثہ ہیں۔ میں یہ امانت بڑے بوڑھوں، انسان اور جنات کی موجودہ اور آنے والی نسل کے سپرد کرتا ہوں۔


خواجہ شمس الدّین عظیمی

(لوح و قلم صفحہ نمبر۳)