Topics
محترم خواتین و حضرات! آپ نے یہ بات اچھی طرح سمجھ لی ہے کہ ہر حرکت ذہن کی سطح پر قائم ہے۔ نزول ایسی حرکت ہے جو نقطۂ ذات سے نیچے کی طرف سفر کرتی ہے۔ صعود ایسی حرکت ہے جو نقطۂ ذات تک صعود کرتی ہے اور نزول و صعود کی دونوں حرکتیں قدرت کے اشاروں پر عمل کرتی ہیں۔ کائنات کا ہر فرد ان کا پابند ہے۔ صعود کی حالت ذات سے قریب کرتی ہے اور نزول کی حالت ذات سے دور کرتی ہے۔ صعودی حالت وجدان اور نزولی حالت عقل ہے۔ یہ وہ پروگرام ہے جو بلا کسی فصل کے تواتر کے ساتھ جاری ہے۔ کائنات کا ایک ممتاز فرد انسان اس بات کا پابند ہے کہ وہ نزول و صعود کے قانون کو سمجھے اور اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے قانون کے مطابق اسے اپنے اندر متحرک کرے۔
اس پروگرام کی بنیاد نماز اور زکوٰۃ ہے۔ نماز اور زکوٰۃ دونوں رُوح اور جسم کا وظیفہ ہیں۔ صلوٰۃ رُوح کا وظیفہ ہے اور زکوٰۃ جسم کا وظیفہ ہے۔ نماز مجموعی طور پر ایک ایسا عمل ہے کہ جس عمل میں تمام انسانی حرکات و سکنات کو سمو دیا گیا ہے۔ مثلاً کھڑے ہونا ہاتھ اوپر اٹھانا بولنا پڑھنا دیکھنا سننا ہاتھ باندھنا جھکنا جھک کر دوبارہ کھڑے ہونا کھڑے ہونے کے بعد لیٹنا(سجدے کی حالت) لیٹنے کے بعد بیٹھنا بیٹھنے کے بعد پھر لیٹنا پھر کھڑے ہونا ادھر ادھر دیکھنا۔
نماز کے ارکان پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز زندگی کے ہر عمل اور زندگی کی ہر حرکت کا احاطہ کرتی ہے اور یہ ساری جسمانی حرکات و سکنات بندہ اللہ کے لئے کرتا ہے۔
نماز ایک ایسا پروگرام ہے جس پروگرام کی کامیابی کے نتیجے میں انسان کا ذہن اور ذہن کی ہر حرکت اور ہر عمل اللہ تعالیٰ سے وابستہ ہو جاتا ہے۔ نماز قائم کر کے بندہ یہ دیکھ لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے یا وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔
یہ تربیتی پروگرام دس بارہ سال سے شروع ہوتا ہے اور اٹھارہ بیس سال تک اس کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ انسان جب پندرہ بیس سال تک وظیفہ اعضاء کی حرکت کے ساتھ ذہنی طور پر اس بات کی مشق کرتا ہے کہ اس کے ہر عمل میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستگی قائم ہو تو وہ کامیاب ہو جاتا ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں اللہ کی طرف متوجہ رہ کر سارے کام انجام دینا اس کا معمول بن جاتا ہے۔ جب بندہ نماز قائم کرتا ہے تو وہ ربودگی اور بیداری دونوں کیفیات سے یکساں طور پر روشناس ہو جاتا ہے۔ ربودگی اور بیداری یا صعود و نزول وجدان اور عقل کے ساتھ اللہ کے ساتھ وابستگی زندگی کی تکمیل ہے۔ زندگی کی تکمیل میں نماز اہم کردار ادا کرتی ہے۔
دوسرا پروگرام زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ ایک ایسا عمل ہے جس کا منشا ءمخلصانہ اور بے لوث خدمت خلق ہے۔ زکوٰۃ اللہ کی اپنی عادت ہے۔ جب بندہ مخلصانہ قدروں میں اللہ کی مخلوق کی خدمت کرتا ہے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس نے وہ کام شروع کر دیا ہے جو اللہ تعالیٰ کرتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کی خدمت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ذہنی وابستگی اور بے لوث خدمت کو تصوف میں ’’جمع‘‘ کہتے ہیں یعنی انسان خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ہر وقت اللہ کی مخلوق اور اللہ کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی رکھتا ہے۔ جب تک کوئی بندہ جمع کی کیفیت میں داخل نہیں ہوتا اس کے اوپر عرفان کا راستہ نہیں کھلتا۔
عرفان حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان کی عادت میں یہ بات داخل ہو جائے کہ وہ اللہ کی مخلوق کی مخلصانہ خدمت کرے اور ہمہ وقت اس کا تعلق اللہ کے ساتھ قائم رہے۔
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی امت کو صلوٰۃ کا پروگرام عطا کیا ہے۔ جس طرح کوئی انسان مراقبے کے ذریعے اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ اپنے اندر مخفی علوم کو تلاش کرے اس ہی طرح نماز ایک مکمل پروگرام ہے۔ اس پروگرام کو صحیح طور پر ادا کرلینے کے بعد انسان از خود ایسی کیفیت میں داخل ہو جاتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ لیتا ہے اور جب کوئی انسان زکوٰۃ کا پروگرام (اللہ کی مخلوق کی خدمت) پورا کر لیتا ہے تو کائنات کا ایک یونٹ بن جاتا ہے۔ اللہ کی عادت جب اس کے اندر داخل ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے پسند کر کے اس کے اوپر عرفان کے دروازے کھول دیتے ہیں۔
پوری کائنات ’’نقطۂ وحدانی‘‘ میں بند ہے۔ اسی نقطہ کی گہرائیوں میں روشنیوں کے سوت یا روشنیوں کے ذخیرے چھپے ہوئے ہیں۔ اسی نقطۂ وحدانی میں روشنیاں جوش کھاتی اور ابلتی رہتی ہیں۔ انہی ابلتی روشنیوں سے کائنات کے اندر ہر لمحہ تغیر واقع ہوتا رہتا ہے۔ اسی تغیر سے ستاروں اور سیاروں کے لاشمار نظام تعمیر ہو رہے ہیں۔ جتنی تعداد متغیر ہوتی ہے اتنی ہی تعداد میں ستارے اور سیارے ٹوٹتے، مٹتے اور فنا ہوتے رہے ہیں۔ ٹوٹنے والے ستارے قائم رہنے والے سیاروں کے لئے اسٹور کا کام کرتے ہیں۔
ایک طرف نقطۂ وحدانی سے ابلنے والی روشنیاں ستاروں اور سیاروں کی تخلیق کرتی ہیں۔ دوسری طرف نقطۂ وحدانی سے نکلنے والی روشنیاں ایسے ستارے بناتی ہیں جو پورے پورے سیاروں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ غیر مستقل سیاروں کے ٹوٹنے سے مستقل سیارے فیڈ ہوتے رہتے ہیں۔ یہی وہ روشنیاں ہیں جن سے کائنات کو وسعت مل رہی ہے اور کائنات نئی نئی طرزوں میں پھیل رہی ہے۔
گہرائیوں میں سمٹنا ’’مخفی حرکات‘‘ ہیں اور روشنیوں کا پھیلنا اور منتشر ہونا مثبت حرکات ہیں۔ حرکت کی یہی دو حالتیں کشش اور گریز ہیں۔ کائنات میں کشش اور گریز کے کروڑ ہا حلقے پائے جاتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ابدال حق قلندربابااولیاء کی روحانی اولاد کو تین کتابیں بطورورثہ منتقل ہوئی ہیں ۔ 1۔رباعیات قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ۔2-لوح وقلم ۔3۔تذکرہ تاج الدین بابارحمۃ اللہ علیہ
کتاب لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں ۔ ان فارمولوں کو سمجھانے کے لئے خانوادہ سلسلہ عظیمیہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے روحانی طلباء وطالبات کے لئے باقاعدہ لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جو تقریباً ساڑھے تین سال تک متواترجاری رہا ۔
علم دوست افراد کے لئے ان لیکچرز کو ترتیب دے کرا یک کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ روحانی علوم سے دلچسپی رکھنے والے تمام خواتین وحضرات ان مخفی علوم سے آگاہی حاصل کرسکیں ۔)
‘‘گفتۂ اوگفتۂ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود’’ کے مصداق حامل علمِ لَدْنّی ، واقف اسرار کُن فیکون، مرشدِ کریم، ابدال حق، حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا، حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کی زبانِ فیض ِ ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ خود حضور بابا صاحب کے روحانی تصرف سے میرے ذہن کی اسکرین پر نقش ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ الہامی تحریر حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کی مبارک زبان اور اس عاجز کے قلم سے کاغذ پر منتقل ہو کرکتاب " لوح و قلم " بن گئی۔میرے پاس یہ روحانی علوم نوع ِانسان اور نوعِ جنات کے لئے ایک ورثہ ہیں۔ میں یہ امانت بڑے بوڑھوں، انسان اور جنات کی موجودہ اور آنے والی نسل کے سپرد کرتا ہوں۔
خواجہ شمس الدّین عظیمی
(لوح و قلم صفحہ نمبر۳)