Topics
ساری کائنات اور کائنات کے اندر تمام نوعیں اور افراد ایک مرکزیت کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ مختلف مراحل اور زندگی کے مختلف زمانے ظاہری نظروں سے الگ الگ نظر آتے ہیں لیکن زمانے کے نشیب و فراز اور زندگی کے مراحل میں تغیر و تبدل کتنا ہی کیوں نہ ہو سب کا تعلق مرکزیت سے ہے۔ مرکزیت کے درمیان لہریں یا شعاعیں واسطہ ہیں۔ ایک طرف مرکزیت سے لہریں یا شعاعیں نزول کر کے افراد کائنات کو فیڈ کرتی ہیں اور دوسری طرف فرد کے اندر نزول ہونے کے بعد صعود کرتی ہیں۔ نزول و صعود کا یہ سلسلہ ہی زندگی ہے۔ مختصر یہ کہ ساری کائنات میں لہر یا شعاع دور کرتی رہتی ہے۔ شعاع اور لہر کے دورانیہ کو دیکھتے ہوئے جو کائنات کی صورت بنتی ہے اس کو دائرے کے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔
یعنی پوری کائنات ایک دائرہ ہے اور یہ دائرہ جب صعودی اور نزولی حرکت کرتا ہے تو چھ دائرے بن جاتے ہیں۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں”فی ستہ ایام’’ کہا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
میں نے کائنات کو چھ دن میں بنایا ہے۔ کائنات اور افراد کائنات کے پہلے دائرے کا نام لطیفہ نفسی ہے۔
مثال: لطیفہ نفسی ایک چراغ ہے جس میں سے روشنی نکل رہی ہے۔ چراغ کی اس روشنی یا لو کا نام نگاہ ہے۔ چراغ کی لو ہوتی ہے جہاں لو ہو گی وہاں کا ماحول روشن اور منور ہو جاتا ہے۔ جہاں تک لو کی روشنی پڑتی ہے یہ خود کا مشاہدہ کر لیتی ہے۔ چراغ کی لو میں بے شمار رنگ ہیں جتنے رنگ ہیں اتنی ہی کائنات میں رنگینیاں ہیں۔ چراغ کی لو کی روشنی ہلکی، مدھم، تیز اور بہت تیز ہوتی رہتی ہے۔ جن چیزوں پر روشنی بہت ہلکی پڑتی ہے ان چیزوں سے متعلق ہمارے دماغ میں تواہم پیدا ہوتا ہے اور جن چیزوں پر روشنی ہلکی پڑتی ہے ان چیزوں سے متعلق ہمارے دماغ میں خیال پیدا ہوتا ہے اور جن چیزوں پر لو کی روشنی تیز پڑتی ہے ان چیزوں کا ہمارے ذہن میں تصور بنتا ہے اور جن چیزوں پر لو کی روشنی بہت تیز پڑتی ہے ہماری نگاہ ان کو دیکھ لیتی ہے۔
کسی چیز کو دیکھنے کے لئے ہم چار مراحل سے گزرتے ہیں۔ کسی چیز کو دیکھنے اور سمجھنے کے لئے اس چیز کا ہلکا سا وہم دماغ پر وارد ہوتا ہے یعنی چیز سے متعلق خاکوں میں نسبتاً گہرائی واقع ہوتی ہے۔ وہم میں جب گہرائی واقع ہوتی ہے تو خیال بن جاتا ہے۔ خیال میں گہرائی پیدا ہوتی ہے تو چیز کے نقش و نگار ذہن پر زیادہ گہرے ہو جاتے ہیں۔ نقش و نگار کی ان گہرائیوں کا نام تصور ہے اور جب یہ نقش و نگار تصور میں خدوخال میں ظاہر ہونے لگتے ہیں تو وہ چیز جس کو نگاہ دیکھ رہی ہے نظروں کے سامنے آ جاتی ہے۔
لطیفہ نفسی کے چراغ کی لو کی روشنیاں جب پھیلتی اور بکھرتی ہیں اور باصرہ کی حس کا بار بار اعادہ ہوتا ہے تو درجہ بدرجہ باقی چار حسیں ترتیب پاتی ہیں۔ لطیفہ نفسی کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ مصروف ہو جانا اور بکھر جانا پانچوں حسیات کی تخلیق کا سبب بنتا ہے۔
مرشد کریم کے تصرف سے اگر سالک لطیفہ نفسی سے واقفیت حاصل کر لیتا ہے تو وہ وہم خیال تصور اور شئے کے مظاہراتی وجود کے قانون سے واقف ہو جاتا ہے۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے لطیفہ نفسی کو ایک روشن چراغ سے تشبیہ دی ہے اور کائنات کو دائرہ کہا ہے۔ یعنی دائرے میں ایک چراغ روشن ہے اس روشن چراغ کی روشنی ہی دائروں کو منور کرتی ہے۔ یہ روشنی جو دائروں کو روشن رکھے ہوئے ہے دائرے کو دیکھنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ چراغ کی لو کائنات کے دائرے پر پڑتی ہے تو کائنات روشن ہو جاتی ہے۔ یعنی چراغ کی لو کائنات کو دیکھ رہی ہے اور جہاں جہاں لو کی روشنی جس جس مناسبت اور فاصلے سے دُور یا قریب سے منعکس ہوتی ہے، اسی مناسبت سے نگاہ میں تنوع پیدا ہوتا ہے۔ جن چیزوں کے اوپر چراغ کی روشنی بہت ہلکی پڑتی ہے ان چیزوں سے متعلق ہمارے ذہن میں ایک وہم پیدا ہوتا ہے۔ کسی چیز سے متعلق ایک ہلکا خاکہ ذہن محسوس تو کرتا ہے لیکن شعور اس کا دباؤ محسوس نہیں کرتا۔ یہ بہت ہلکی روشنی جب ہلکی ہوتی ہے تو وہم کا بہت ہلکا خاکہ بنتا ہے اور خاکے میں جب گہرائی پیدا ہو جاتی ہے تو خیال بن جاتا ہے۔ پھر اس خیال میں بھی گہرائی پیدا ہوتی ہے۔ خیال میں گہرائی پیدا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لو کی روشنی تیز ہو جاتی ہے۔ جہاں روشنی تیز ہو جاتی ہے۔ کائناتی دائرے کے اندر موجود چیزوں کا تصور ذہن پر وارد ہونے لگتا ہے۔ تصور کا مطلب ہے کہ کسی چیز کا نقش دماغی اسکرین پر اس طرح ابھر آئے کہ دماغ اور شعور وزن محسوس کرے اور دماغ اس کے خدوخال دیکھنے لگے اور جن چیزوں پر چراغ کی روشنی بہت تیز پڑتی ہے وہ چیزیں تصور سے گزر کر مظہر بن جاتی ہیں۔ اس میں بہت ہی عجیب نکتہ ہے کہ کوئی چیز جو ہم دیکھ رہے ہیں آنکھ نہیں دیکھ رہی بلکہ روشنی آنکھ بن جاتی ہے۔ روشنی بصارت بن جاتی ہے روشنی نگاہ بن جاتی ہے۔ روشنی نگاہ بننے کے بعد دور اور قریب سے مظاہرہ کرتی ہے تو اس دوری یا قربت کی بنیاد پر کسی چیز کو دیکھنے سے پہلے چار مرحلے آتے ہیں۔ کسی چیز کو نگاہ کے ساتھ دیکھنا اس وقت ممکن ہے جب لطیفہ نفسی کی روشنی بہت دور ہو، بہت دور سے مراد بہت ہلکی ہو یا کم ہو پھر تیز ہو اور بہت تیز ہو۔ جہاں لطیفہ نفسی کی روشنی بہت ہلکی ہے اس کا نام وہم ہے۔ جہاں لطیفہ نفسی کی روشنی ہلکی ہے اس کا نام خیال ہے اور جہاں لطیفہ نفسی کی روشنی تیز ہے اس کو تصور کہتے ہیں اور جہاں روشنی بہت تیز پڑتی ہے وہ شئے نگاہ کے لئے مظہر بن جاتی ہے۔
اس قانون سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے بہت ساری مشقیں ہیں۔ جن میں ایک مشق”استرخاء’’ ہے۔
کسی چیز کو توہماتی طور پر خیال کے دائرے میں یا تصوراتی اور مظاہراتی طور پر دیکھنے کا قانون یہ ہے کہ سالک کے اوپر مختلف صورتیں وارد ہوتی ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ عمل استرخاء سے سماعت حرکت میں آ جاتی ہے۔ سماعت سے مراد یہ ہے کہ رُوح کے اندر وہ روشنیاں جو ہلکی ہیں اور خیالات بن رہی ہیں آواز بن جاتی ہیں۔ یہ عمل استرخاء کا پہلا قدم ہے۔ عام طور پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ پہلے نظر کھل جاتی ہے اور پھر سماعت بیدار ہوتی ہے۔
کائنات میں موجود کسی انسان کسی فرشتے کسی پرندے کے اندر جو روشنی خیال بن رہی ہے سماعت بن کر گونجنے لگتی ہے۔ ایک گونجار پیدا ہوتی ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد عالی مقام ہے کہ جب وحی نازل ہوتی ہے تو کانوں میں مکھیوں کی بھنبھناہٹ اور گھنٹیوں کی آواز آتی ہے۔ عمل استرخاء میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے مادی چیزیں بھی استعمال کی جاتی ہیں۔ مسلسل بیدار رہنے اور نیند کے اوپر کنٹرول حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اگر سیاہ مرچوں کا سفوف روئی کے پھوؤں پر لگا کر کانوں میں رکھا جائے تو اس سے دماغ کے اندر خیال بننے والی روشنیاں Echoہونے لگتی ہیں۔ جب آدمی عمل استرخاء میں روئی کے پھوؤں پر سیاہ مرچ کا سفوف چھڑک کر کانوں میں رکھتا ہے اور مراقبہ کرتا ہے تو اسے دور پرے کی چیزیں اپنے اندر گونجتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ مثلاً ایک آدمی عمل استرخاء کے بعد مراقبہ کر رہا ہے۔ اس کے کانوں میں روئی کے پھوئے رکھے ہوئے ہیں۔ اس کا خیال کسی فیکٹری کی طرف چلا جاتا ہے فیکٹری میں چلنے والی مشینوں کی آواز وہ باہر سننے کی بجائے اپنے اندر سنتا ہے۔ علیٰ ہذالقیاس وہ دوسری آوازیں بھی اپنے اندر سننا شروع کر دیتا ہے۔ سننے کی حس کے بعد عمل استرخاء میں سونگھنے اور چھونے کے حواس بیدار ہوتے ہیں۔ لاکھوں سال کے فاصلے پر اگر خوشبو کی طرف ذہن متوجہ ہو جائے تو آدمی اس خوشبو کو سونگھ لیتا ہے۔ اسی طرح کوئی چیز لاکھوں میل کے فاصلے پر موجود ہے اور خیال اس کے چھونے کی طرف منتقل ہو گیا تو آدمی اس کا لمس محسوس کرتا ہے۔
ذاتی تجربہ
حضور قلندر بابا اولیاءؒ جس وقت یہ قانون لکھوا رہے تھے میرا ذہن کشمیر میں زعفران کے کھیتوں کی طرف مرکوز ہو گیا۔ کشمیر میں کھیتوں کا تصور قائم کر کے میں نے لمبے لمبے سانس لینا شروع کر دیئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کمرہ اور گھر کا صحن زعفران کی خوشبو سے معطر ہو گیا۔ باہر سے آنے والے مہمانوں نے بڑی حیرت کا اظہار کیا کہ اتنی تیز زعفران کی خوشبو کہاں سے آ رہی ہے؟
خواجہ شمس الدین عظیمی
ابدال حق قلندربابااولیاء کی روحانی اولاد کو تین کتابیں بطورورثہ منتقل ہوئی ہیں ۔ 1۔رباعیات قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ۔2-لوح وقلم ۔3۔تذکرہ تاج الدین بابارحمۃ اللہ علیہ
کتاب لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں ۔ ان فارمولوں کو سمجھانے کے لئے خانوادہ سلسلہ عظیمیہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے روحانی طلباء وطالبات کے لئے باقاعدہ لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جو تقریباً ساڑھے تین سال تک متواترجاری رہا ۔
علم دوست افراد کے لئے ان لیکچرز کو ترتیب دے کرا یک کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ روحانی علوم سے دلچسپی رکھنے والے تمام خواتین وحضرات ان مخفی علوم سے آگاہی حاصل کرسکیں ۔)
‘‘گفتۂ اوگفتۂ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود’’ کے مصداق حامل علمِ لَدْنّی ، واقف اسرار کُن فیکون، مرشدِ کریم، ابدال حق، حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا، حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کی زبانِ فیض ِ ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ خود حضور بابا صاحب کے روحانی تصرف سے میرے ذہن کی اسکرین پر نقش ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ الہامی تحریر حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کی مبارک زبان اور اس عاجز کے قلم سے کاغذ پر منتقل ہو کرکتاب " لوح و قلم " بن گئی۔میرے پاس یہ روحانی علوم نوع ِانسان اور نوعِ جنات کے لئے ایک ورثہ ہیں۔ میں یہ امانت بڑے بوڑھوں، انسان اور جنات کی موجودہ اور آنے والی نسل کے سپرد کرتا ہوں۔
خواجہ شمس الدّین عظیمی
(لوح و قلم صفحہ نمبر۳)