Topics
جب بھی کائنات کا تذکرہ آتا ہے کائنات کے خدوخال کا تعارف کرایا جاتا ہے انسان ٹائم اسپیس میں محدود ہو کر بات کرتا ہے۔ زندگی کا تعارف خدوخال اور نقش و نگار سے ہوتا ہے۔ زندگی کا ایک حصہ خدوخال اور نقش و نگار پر مشتمل ہے اور دوسرا حصہ رفتار کے اوپر قائم ہے۔
خدوخال میں تبدیلی نظر آتی ہے لیکن جس وقت (رفتار) پر خدوخال نشوونما پاتے ہیں وہ نظر نہیں آتا۔
زندگی کا ایک رُخ آنکھوں کے سامنے ہے اور دوسرا رُخ چھپا ہوا ہے۔ جو رُخ آنکھوں کے سامنے ہے اسپیس ہے اور آنکھوں سے اوجھل رُخ ٹائم ہے۔ یعنی انسان جہاں سے آیا اس کا بچپن لڑکپن جوانی اور بڑھاپا جہاں گم ہو گیا وہ ٹائم ہے۔ بچپن لڑکپن جوانی اور بڑھاپے کے خدوخال اسپیس ہیں۔
زندگی کے دو رُخ ہیں ایک رُخ قائم ہے اور دوسرا رُخ ایک طرف گھٹتا ہے تو دوسری طرف بڑھتا ہے اور تیسری طرف فنا ہو جاتا ہے۔ زندگی جس رُخ پر قائم ہے وہ زماں ہے۔ زندگی جس رُخ پر گھٹ رہی ہے بڑھ رہی ہے اور فنا ہو رہی ہے ’’مکان‘‘ ہے۔
روحانی علوم انسان کی رہنمائی کرتے ہیں کہ کائنات میں رشتہ داری کا دارمدار روشنی پر ہے۔ ایک روشنی مادی آنکھ سے نظر آتی ہے اور دوسری قسم کی روشنی باطنی آنکھ سے نظر آتی ہے۔
روشنی کی اصل غیر متغیر ہے اور روشنی کی وہ حیثیت جہاں مکانیت ہے متغیر ہے۔
غیر متغیر روشنی میں بھی خدوخال ہوتے ہیں۔ اس روشنی کے اندر جسم اور نقش و نگار بھی ہوتے ہیں۔
انسانی زندگی کا ہر عمل اور انسانی زندگی کی ہر حرکت خیال کی محتاج ہے۔ جب تک ہمیں کسی عمل یا کسی حرکت کے بارے میں اطلاع فراہم نہ ہو ہم عمل نہیں کر سکتے۔
اطلاع کے ساتھ ہی حرکت واقع ہوتی ہے اور اس حرکت کا مظاہرہ عمل ہے۔ زندگی کا ہر لمحہ ایک طرف بڑھ رہا ہے اور دوسری طرف فنا ہو رہا ہے یعنی ہر لمحہ کہیں سے آ رہا ہے اور کہیں ریکارڈ ہو رہا ہے۔ اس آنے اور ریکارڈ ہونے پر انسانی ارتقاء کا دارومدار ہے۔
یہ بات بہرحال تسلیم کرنا پڑے گی کہ پیدائش سے پہلے انسان کہیں موجود تھا۔ وہاں سے اس دنیا میں آیا۔ اور اسے اس دنیا سے جانا ہے۔ اس دنیا میں آنا نزولی حرکت ہے اور واپس جانا صعودی حرکت ہے۔ خاکی دنیا کے ساتھ ایک دوسری دنیا بھی آباد ہے اور اس کے بھی دو رُخ ہیں۔ ایک رُخ کا نام اعراف ہے اور دوسرے رُخ کا نام برزخ ہے۔ انسان انفرادی حیثیت میں لوح محفوظ سے زمین پر نزول کرتا ہے۔ لوح محفوظ اور دنیا کے درمیان ایک زون ہے اس زون سے انسان کو زمانیت و مکانیت کی اطلاع فراہم ہوتی ہے۔ اس زون کو برزخ کہتے ہیں۔ جس طرح فرد عالم ارواح سے برزخ میں آتا ہے اسی طرح اس دنیا سے جانے کے لئے ایک اور زون میں قیام کرنا پڑتا ہے اس کا نام اعراف ہے۔
اعراف کی دنیا یا برزخ کی دنیا میں زندگی اسی طرح رواں دواں ہے جس طرح عالم ناسوت میں زندگی رواں دواں ہے۔ فرق یہ ہے کہ عالم ناسوت میں انسان ان اطلاعات کو قبول کرتا ہے جو لوح محفوظ اور برزخ سے گزر کر اسے مل رہی ہیں اور ان اطلاعات میں وہ معانی پہناتا ہے۔
معانی پہنانے کے دو رُخ ہیں۔
ایک رُخ میں تخریب ہے اور دوسرے رُخ میں تعمیر ہے۔ لیکن جب ہم ایک دو چار دس بیس اعمال پر غور کرتے ہیں تو عمل کی حیثیت ایک ہی نظر آتی ہے۔ معانی پہنانے سے عمل کے اندر تعمیر یا تخریب پیدا ہو جاتی ہے۔
ایک آدمی آگ اس لئے روشن کرتا ہے کہ کھانا پکانا یا سردی رفع کرنا مقصود ہے۔ دوسرا آدمی گھر جلانے کے لئے آگ جلاتا ہے۔ آگ ایک ہی ہے لیکن معانی پہنانے سے تخریب یا تعمیر بن گئی۔
کائنات میں جتنی بھی اشیاء ہیں ان سب کی اصل اطلاع ہے۔ اور یہ اطلاع ہی منفی یا مثبت زندگی بن جاتی ہے۔ عمل سے پہلے خبر یا اطلاع کا ہونا ضروری ہے۔ عمل ہمیں نظر آتا ہے اور اطلاع ہمیں نظر نہیں آتی۔
اب ہم یوں کہیں گے کہ انسانی زندگی میں کائنات کی ساخت ایسی بساط پر قائم ہے جس کا دباؤ ہم محسوس کرتے ہیں لیکن وہ نظر نہیں آتی۔
منفی اور مثبت صلاحیتوں سے مراد یہ ہے کہ ہم پوری زندگی کے ہر لمحے کو ایک طرف نفی کر رہے ہیں اور دوسری طرف قبول کر کے زندگی میں حرکت پیدا کر رہے ہیں۔
پانی کی موجودگی اس لئے ہے کہ پانی کے بارے میں ہمیں یہ معلوم ہے کہ پانی سیرابی کے لئے ضروری شئے ہے۔ اطلاع دینے والی چیز کو ہم رُوح کہتے ہیں اور اطلاع کے اندر معانی پہنانے کو پانی کہتے ہیں۔
پیاس رُوح ہے اور پانی جسم ہے۔ پانی ایک رُخ ہے اور پیاس دوسرا رُخ ہے۔ اگرچہ یہ دونوں رُخ ایک دوسرے سے متضاد نظر آتے ہیں لیکن ایک ہی وجود کے دو اجزاء ہیں۔ پیاس کو پانی سے اور پانی کو پیاس سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک پیاس کا تقاضا ہے پانی موجود ہے۔ پیاس پانی کی دلیل ہے اور پانی کی ہستی پیاس کے بغیر نہیں ہے۔
دو رُخ مل کر ایک وجود بنتے ہیں۔ کوئی وجود دو رخوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ البتہ وجود کے ساتھ کہیں مکانی فاصلہ ہے اور کہیں زمانی فاصلہ ہے۔ کسی بھی شئے کے دو رخوں میں مکانی فاصلہ نمایاں ہوتا ہے یا زمانی فاصلہ نمایاں ہوتا ہے۔ ایک آدمی کرہ ارضی پر پیدا ہوتا ہے اور مر جاتا ہے۔ اس زمانی فاصلے کے نقش و نگار اس کی زندگی ہیں اور زندگی کے اعمال و حرکات مکانیت ہیں۔
ملکوتی صفت اور بشری صفت
پیاس اور رُوح کی مثال دی جا چکی ہے۔ پیاس سے پانی موجود ہے اور پانی سے پیاس موجود ہے۔ اگرچہ پانی اور پیاس ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن پیاس کو پانی سے اور پانی کو پیاس سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ہر چیز کی موجودگی میں دو رُخ کام کرتے ہیں۔ یہ دونوں رُخ زمانی اور مکانی ہوتے ہیں۔
نسمہ ایسی روشنی ہے جسے خلاء کے علاوہ دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ خلاء ایک وجود ہے۔ خلاء جب وجود ہے تو اس میں حرکت بھی ہے۔ خلا ایک ایسا متحرک وجود ہے جو ازل سے ابد کی طرف سفر کر رہا ہے۔ ازل سے ابد تک حرکت میں مختلف دائرے ہیں، حرکت کے پہلے دائرے کا نام عالم ملکوت ہے۔ عالم ملکوت میں مادی عناصر موجود نہیں ہوتے۔
زمانیت نسمہ ہے۔ نسمہ روشنی ہے، روشنی خلاء ہے، خلاء وجود ہے اور وجود حرکت ہے۔ خلاء کی اکہری حرکت کا نام نسمہ مفرد ہے۔ خلاء کے اندر فاصلہ شامل ہو جائے تو خلا کی حرکت اور فاصلے کی حرکت ایک جگہ جمع ہو کر نقش و نگار بن جاتے ہیں۔ اس دوہری حرکت کا نام نسمہ مرکب ہے۔ اس کو موالید ثلاثہ بھی کہا جاتا ہے۔
زمانیت اصل ہے۔ مکانیت اصل کے اوپر نقش و نگار ہیں۔ مکانیت کو مادی آنکھ دیکھ سکتی ہے، زمانیت مادی آنکھ سے مخفی ہے، زمانیت نسمہ ہے روشنی ہے خلاء ہے۔ مکانیت وجود ہے، حرکت ہے اور حرکت ایسا مظاہرہ ہے جس کو مادی آنکھ دیکھ لیتی ہے، نسمہ مرکب (مکانیت) میں جیسے جیسے دلچسپی بڑھتی ہے اسی مناسبت سے نسمے میں روشنیوں کا ہجوم زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ روشنیوں کے ہجوم کے بھی دو مراتب ہیں۔ ایک کو عین دوسرے کو مکان کہتے ہیں۔ عین ماہیت ہے اور مکان مظہر ہے۔ ماہیت نظر نہیں آتی چیز نظر آتی ہے۔ مثلاً ایک چیز ہے اس کی خاصیت ہے ٹھنڈ پہنچانا۔ چیز نظر آتی ہے، ٹھنڈ نظر نہیں آتی۔ ہم جب خوبصورت آدمی دیکھتے ہیں تو صورت نظر آتی ہے لیکن حسن کی کشش نظر نہیں آتی۔
کائنات کی ہر شئے میں حس ہے اور ہر چیز کی حس دو رخوں پر قائم ہے۔ ایک رُخ باطن ہے اور دوسرا رُخ ظاہر ہے۔ باطن رُخ زمانیت ہے اور ظاہر رُخ مکانیت ہے۔ کسی چیز کی حیات کے بارے میں جب ہم تذکرہ کرتے ہیں تو ہمارا منشا ءزندگی کے دو رخوں کو بیان کرنا ہوتا ہے۔ زندگی کا ایک رُخ زمانیت ہے اور زندگی کا دوسرا رُخ مکانیت ہے۔ تمام نقش و نگار اورانسانی زندگی کی جسمانی حرکات و سکنات مکانیت ہیں اور انسانی زندگی کے نقش ونگار اور اعمال جس بساط پر قائم ہیں زمانیت ہے۔ زندگی کا کوئی عمل کوئی نقش کوئی حرکت زمانیت کی بساط کے بغیر موجود نہیں ہے۔ زمانیت مادی آنکھ سے اوجھل ہے زمانیت کا اصطلاحی نام نسمہ ہے۔ نسمہ ایسی روشنی ہے جو دو سمتوں میں سفر کرتی ہے۔ ان میں سے ایک رُخ گریز ہے۔ دوسرا رُخ کشش ہے۔
انسان کی ذات روشنیوں کا مجموعہ ہے۔ ذات میں جو روشنیاں کام کر رہی ہیں ان روشنیوں کے اندر مسلسل دو حرکتیں واقع ہو رہی ہیں ایک حرکت کشش ہے یعنی انسان اپنی بساط کی طرف کھنچ رہا ہے۔ دوسری حرکت یہ ہے کہ انسان زندہ رہنے کے لئے روشنیاں اپنے اندر جذب کر رہا ہے۔ وہ حرکت جو اس ہستی کی طرف کھنچ رہی ہے جس ہستی کے حکم سے کائنات وجود میں آئی ہے ملکوتی صفت ہے۔ اور وہ روشنی جو گریز کی شکل میں انوار سے دور کر رہی ہے صفت بشری ہے۔ ان دونوں صفات میں ہر صفت ایک قاعدے اور ضابطہ کی پابند ہیں۔ آدمی جتنا گریز میں یا خارجی دنیا میں مستغرق ہو جاتا ہے اسی مناسبت سے کشش کی روشنیوں سے دور ہو جاتا ہے۔ روشنیوں سے دور ہونے کے باعث انوار ضائع ہوتے رہتے ہیں اور آدمی گریز سے جتنا قریب ہو جاتا ہے اسی مناسبت سے اس کے اندر سے صفت ملکونیت کم سے کم ہو جا تی ہے۔ نتیجے میں وہ عالم ملکوت سے اتنا دور ہو جاتا ہے کہ اس کے علم میں یہ بات ہی نہیں رہتی کہ انسان کی ایک صفت ’’ملکونیت‘‘ بھی ہے جو فی الواقع انسان کی اصل ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ انسان صراط مستقیم سے اتنا دور ہو جاتا ہے کہ اس کی تمام دلچسپیاں مکانیت میں مجتمع ہو جاتی ہیں اور وہ صفت ملوکیت سے انکار کر بیٹھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
ہم نے ان کے دلوں پر مہر کر دی اور کانوں پر مہر لگا دی اور ان کی آنکھوں پر پردے ڈال دیئے اور ان کے لئے عذاب الیم ہے۔
عذاب الیم سے مراد یہ ہے کہ وہ صفت ملوکیت سے محروم کر دیئے گئے۔
عالم ملکوت اور عالم ناسوت میں زندگی گزارنے کے فارمولے کی مزید وضاحت یہ ہیں:
روشنیوں کی ایک متعین مقدار ہے جو ملکونیت اور بشریت کا توازن برقرار رکھتی ہے۔ روشنی کے توازن میں اگر مقدار کم ہو جائے تو حیوانی اور مادی تقاضے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ بات ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ صفت ملوکیت عالم امر میں صعود کرتی ہے یعنی انسان کے اندر بشری صفت کے متضاد ملوکیت ایسی صفت ہے جو انسان کو حاکم مطلق اللہ کی طرف کھینچتی ہے اور اللہ کی طرف کھینچنا ہی عالم امر میں صعود ہے۔
اس کے برعکس جب انسان کے اندر بشری تقاضے بڑھ جاتے ہیں اور مکانیت میں استغراق بڑھ جاتا ہے تو صفت ملکونیت کی جگہ مادی تقاضے یا دنیا میں دلچسپیاں اتنی زیادہ ہو جاتی ہیں کہ انسان عالم ناسوت میں قید ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آدم سے فرمایا تھا کہ تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور جہاں سے دل چاہے خوش ہو کر کھاؤ پیو اور اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تمہارا شمار ظالموں میں ہو گا۔ جیسے ہی ذہن ماوراء ہستی سے دور ہوا۔ روشنیوں کا توازن بگڑ گیا اور آدم کے اوپر بشریت کا اظہار ہوا آدم نے خود کو ننگا محسوس کیا اور آدم نے اپنے اوپر کثافتوں کا بوجھ محسوس کیا۔ کثافتوں کے ہجوم کی وجہ سے آدم نے خود کو جنت میں رہنے کے قابل نہیں سمجھا۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
ہم نے انسان کو بہترین صناعی کے ساتھ پیدا کیا اور پھر اس کو اسفل سافلین میں پھینک دیا۔ یعنی جب کشش کے رشتہ میں توازن نہیں رہا تو جنت نے آدم کو رد کر دیا۔ تسخیر کائنات کے فارمولے میں یہ بات پوری طرح واضح کر دی جاتی ہے کہ جس طرح آدم نے کشش سے گریز کر کے اپنے اوپر ملوکیت کے دروازے بند کر لئے اسی طرح گریز کر کے کشش میں داخل ہو کر آدم کے لئے عالم ملکوت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ابدال حق قلندربابااولیاء کی روحانی اولاد کو تین کتابیں بطورورثہ منتقل ہوئی ہیں ۔ 1۔رباعیات قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ۔2-لوح وقلم ۔3۔تذکرہ تاج الدین بابارحمۃ اللہ علیہ
کتاب لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں ۔ ان فارمولوں کو سمجھانے کے لئے خانوادہ سلسلہ عظیمیہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے روحانی طلباء وطالبات کے لئے باقاعدہ لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جو تقریباً ساڑھے تین سال تک متواترجاری رہا ۔
علم دوست افراد کے لئے ان لیکچرز کو ترتیب دے کرا یک کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ روحانی علوم سے دلچسپی رکھنے والے تمام خواتین وحضرات ان مخفی علوم سے آگاہی حاصل کرسکیں ۔)
‘‘گفتۂ اوگفتۂ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود’’ کے مصداق حامل علمِ لَدْنّی ، واقف اسرار کُن فیکون، مرشدِ کریم، ابدال حق، حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا، حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کی زبانِ فیض ِ ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ خود حضور بابا صاحب کے روحانی تصرف سے میرے ذہن کی اسکرین پر نقش ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ الہامی تحریر حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کی مبارک زبان اور اس عاجز کے قلم سے کاغذ پر منتقل ہو کرکتاب " لوح و قلم " بن گئی۔میرے پاس یہ روحانی علوم نوع ِانسان اور نوعِ جنات کے لئے ایک ورثہ ہیں۔ میں یہ امانت بڑے بوڑھوں، انسان اور جنات کی موجودہ اور آنے والی نسل کے سپرد کرتا ہوں۔
خواجہ شمس الدّین عظیمی
(لوح و قلم صفحہ نمبر۳)