Topics

نقطۂ وحدانی

کائنات ایسی روشنی ہے جو نزول و صعود کے ساتھ لہروں کی حرکت پرقائم ہے۔ مرکزی نقطہ ایک ایسا نقطہ ہے جو انوار سے معمور ہے۔ اور اس کے اندر روشنیاں جوش کھاتی اور ابلتی رہتی ہیں۔ ابلنے کے بعد روشنیوں کا بکھرنا ہی کائنات ہے۔ روشنی کے بکھرنے سے کائنات کے اندر ہر لمحہ لاشمار نظام تعمیر ہوتے رہتے ہیں۔ اس کی مثال یوں ہے کہ

ایک تالاب ہے۔ تالاب میں پانی بھرا ہوا ہے اور تالاب میں ایک فوارہ ہے۔ تالاب میں پانی بھی ہے۔ فوارہ بھی ہے۔ فوارہ جب ابلتا ہے تو تالاب میں گرتا ہے گرنے سے تالاب میں بے شمار دائرے بنتے ہیں۔ یہ بے شمار دائرے ستارے سیارے اور کہکشانی نظام ہیں جو ہر آن بن رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ تالاب کے اندر موجود دائرے اپنی بساط میں رہتے ہوئے سفر  کرنے کے بعد مٹ جاتے ہیں۔ جتنی تعداد میں دائرے بنتے ہیں اتنی ہی تعداد میں دائرے فنا ہو جاتے ہیں۔


یعنی دائروں کا فنا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ دوسرے اور دائرے بنیں گے۔ ہم جب تالاب کے اندر دیکھتے ہیں تو یہ بھی نظر آتا ہے کہیں دائرہ چھوٹا ہے اور کہیں بڑا ہے۔ اسی حساب سے ہر دائرہ کائنات کا ایک نظام ہے۔ اس قانون کو بیان کرنے سے منشاء یہ ہے کہ کائنات ہر وقت تعمیر ہو رہی ہے۔ کائنات ہر وقت فنا ہو رہی ہے۔ جیسے جیسے دائرے فنا ہو رہے ہیں اس ہی طرح نئے دائرے بن رہے ہیں۔ دائروں کا بننا اور مٹنا اس پانی کی وجہ سے ہے جو پانی فوارے سے ابل رہا ہے۔

فوارہ نقطۂ وحدانی ہے اور تالاب کائنات ہے۔ تالاب کے اندر دائروں کا بننا مٹنا نزولی و صعودی حرکات ہیں۔

جن روشنیوں پر کائنات تخلیق ہو رہی ہے اس کے دو رُخ ہیں۔ ایک رُخ روشنیوں کی گہرائی میں سمٹنے اور ہجوم کرنے پر مجبور ہے۔ دوسرا رُخ روشنیوں کے پھیلنے اور منتشر ہونے پر مشتمل ہے۔ گہرائیوں میں سمٹنا اور ہجوم کرنا مخفی حرکات ہیں۔ پھیلنا اور منتشر ہونا مثبت حرکات ہیں۔

تالاب کی مثال کے پیش نظر ہم یہ کہیں گے کہ کائنات میں کشش و گریز کے کروڑ ہا حلقے ہیں۔ ان حلقوں یا دائروں میں ہر حلقہ یا دائرہ اپنی ایک مرکزیت رکھتا ہے اور ان تمام دائروں کی مرکزیت فوارے سے وابستہ ہے۔ ہر حرکت اس کا تعلق صعود سے ہو یا نزول سے ہو، نقطۂ وحدانی کی سمت میں متحرک ہے۔ نقطۂ وحدانی سے جو دائرے (کائنات کے افراد) وجود پا رہے ہیں ان کی مرکزیت ایسی ان دیکھی شعاعوں پر ہے جن شعاعوں کو اللہ نے نور کہا ہے۔ یہ سلسلہ ازل سے ابد تک قائم ہے اور جاری رہے گا۔ جب سالک منفی اور مثبت حرکات کو سمجھ لیتا ہے تو وہ چھ شعوروں سے واقف ہو جاتا ہے اس کے بعد اس کے اوپر ساتویں شعور کا انکشاف ہوتا ہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ صفت ربانیت سے وقوف کے لئے سات شعوروں کو متحرک کرنا ضروری ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

بے شک تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا پھر عرش پر قائم ہوا۔(سورۃ اعراف آیت ۵۴)

انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے ایسی صلاحیت ودیعت کر دی ہے کہ انسان بیک وقت چھ شعوروں سے کام لے سکتا ہے۔

 اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

سورج چاند اور ستاروں کو پیدا کیا ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔

اس فرمان میں بتایا گیا ہے کہ ساری کائنات نقطۂ وحدانی ہے۔ نقطۂ وحدانی سے جس طرح حکم ہوتا ہے کائنات اس کو ماننے پرمجبور ہے۔

اللہ خالق ہے اور خالق نے اپنی صفات مخلوق کو منتقل کر دی ہیں۔ اللہ بحیثیت خالق کے رب العالمین ہے اور صفت ربانیت سے مخلوق زندہ ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے:

جس نے اپنے نفس کو پہچانا، اس نے اپنے رب کو پہچانا۔

جب ہم نفس انسانی کا تذکرہ کرتے ہیں دراصل ان تمام صلاحیتوں اور صفات کا تذکرہ کرتے ہیں جن صلاحیتوں اور صفات پر انسانی زندگی برقرار ہے اور جب انسان اللہ کی طرف سے منتقل شدہ صفات سے واقف ہو جاتا ہے تو اللہ سے واقف ہو جاتا ہے اس لئے کہ وہ صفت ربانیت سے واقف ہو گیا ہے۔


اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

"اللہ چھپا دیتا ہے رات سے دن کو ایسے طور پر کہ وہ رات اس دن  کو جلدی سے آلیتی ہے۔"

مفہوم یہ ہے کہ دن اور رات حواس کی دو قسمیں ہیں۔ رات اور دن کے حواس یکساں طور پر کام کرتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ دن میں حواس کی رفتا ر کم ہو جاتی ہے اور رات میں حواس کی رفتار زیادہ ہو جاتی ہے۔

حواس کی کم رفتاری سے آدمی شعور ی طور پر کم سفر کرتا ہے اور تیز رفتا ر حواس سے سفر میں تیزی آجاتی ہے۔ دن کے حواس میں چونکہ رفتار کم ہوتی ہے اس لئے اسپیس کا غلبہ ہو جاتا ہے۔ رات کے حواس میں دن کے حواس کے مقابلے میں رفتار بڑھ جاتی ہے۔ اس لئے اسپیس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے۔ لیکن اسپیس سے آزاد ہونے کے باوجود فرد اسپیس میں موجود رہتا ہے۔ یہ مسئلہ اس طرح حل ہوتا ہے کہ اسپیس میں تغیر واقع ہو جاتا ہے ۔ایک آدمی بیداری میں زمین پر چل رہا ہے وہی آدمی خواب کی حالت میں اسپیس سے آزاد ہو کر کسی دوسرے سیارے میں چل پھر رہا ہے۔ چلنا پھرنا اس بات کی علامت ہے کہ زمین کی اسپیس ہر سیارہ میں موجود ہے اسپیس ایک ہے اور ٹائم بے شمار ہیں۔


میں ہوں تیرا رب، میں ہوں اللہ عالمین کا رب۔

اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں اپنی ذات کو اللہ اور صفات کو رب فرمایا ہے۔ جب کوئی بندہ اپنے اندر موجود ربوبیت کی صفات سے متعارف ہو جاتا ہے تو وہ اللہ کی صفت ربانیت سے متعارف ہو جاتا ہے۔ چونکہ کائنات کے تمام افراد میں اللہ کی یہ صفت کام کر رہی ہے اس لئے بندہ صفت ربانیت سے متعارف ہو کر موجودات سے واقف ہو جاتا ہے اور اس واقفیت کی بنیاد پر موجودات اس سے قریب ہو جاتی ہیں۔

تخلیقی فارمولا

کائنات میں جو کچھ ہے سب روشنی ہے۔ ہر روشنی ایک الگ نوع ہے، ہر نوع میں روشنی کی معین مقداریں کام کرتی ہیں۔ اور مقدار ایک رنگ ہے۔ رنگوں کی ترتیب سے شکلیں وجود میں آتی ہیں اور ہر شکل میں ترتیب کے ساتھ یکسانیت ہے۔ بکری کی نوع میں جتنی بھی بکریاں ہوں گی سب کے اندر ایک قدر مشترک ہوگی۔

زمین پر چھ ارب آدمی موجود ہیں اور انسانی شماریات سے بہت زیادہ آدم دوسرے سیاروں پر موجود ہیں۔ ہماری زمین پر بسنے والا ہو یا کسی دوسرے سیارے میں رہنے والا آدم ہو سب کی شکلوں میں مشابہت پائی جاتی ہے۔

ہر نوع کے لئے روشنی کی ایک معین مقدار ہے۔ روشنی کی معین مقدار میں رد و بدل اس لئے واقع نہیں ہوتا کہ ہر روشنی کی مرکزیت نقطۂ وحدانی ہے اور ہر روشنی نزول کے بعد نقطۂ وحدانی کی طرف صعود کرتی ہے۔


Topics


Sharah Loh O Qalam

خواجہ شمس الدین عظیمی

ابدال حق قلندربابااولیاء  کی روحانی اولاد کو تین کتابیں بطورورثہ منتقل ہوئی ہیں ۔ 1۔رباعیات قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ۔2-لوح وقلم ۔3۔تذکرہ تاج الدین بابارحمۃ اللہ علیہ

کتاب لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں ۔ ان فارمولوں  کو سمجھانے  کے لئے خانوادہ سلسلہ عظیمیہ  حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی  نے روحانی طلباء وطالبات  کے لئے باقاعدہ لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جو تقریباً ساڑھے تین سال تک متواترجاری رہا ۔

علم دوست افراد کے لئے ان لیکچرز کو ترتیب دے کرا یک کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ روحانی علوم سے دلچسپی رکھنے والے تمام خواتین وحضرات ان مخفی علوم سے آگاہی حاصل کرسکیں ۔)



‘‘گفتۂ اوگفتۂ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود’’ کے مصداق حامل علمِ لَدْنّی ، واقف اسرار کُن فیکون، مرشدِ کریم، ابدال حق، حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا، حضرت قلندر بابا اولیاءؒ  کی زبانِ فیض ِ ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ خود حضور بابا صاحب کے روحانی تصرف سے میرے ذہن کی اسکرین پر نقش ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ الہامی تحریر حضرت قلندر بابا اولیاءؒ  کی مبارک زبان اور اس عاجز کے قلم سے کاغذ پر منتقل ہو کرکتاب " لوح و قلم " بن گئی۔میرے پاس یہ روحانی علوم نوع ِانسان اور نوعِ جنات کے لئے ایک ورثہ ہیں۔ میں یہ امانت بڑے بوڑھوں، انسان اور جنات کی موجودہ اور آنے والی نسل کے سپرد کرتا ہوں۔


خواجہ شمس الدّین عظیمی

(لوح و قلم صفحہ نمبر۳)