Topics

کنکریاں مارنے کی حکمت

حج کا ایک رکن شیطان کو کنکریاں مارنا ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو قربانی کے لئے لے کر چلے تو منیٰ کے مقام پر شیطان نے انہیں اپنے ارادے سے باز رہنے کی کوشش کی۔ آپ نے شیطان کو کنکریاں مار کر بھگا دیا۔ یہ وہی مقامات ہیں جہاں حج کے دوران شیطان کو کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ کنکریاں مارنے کی حکمت یہ ہے کہ اگر اللہ کے حکم کی تعمیل میں کوئی رکاوٹ آئے تو اس کی مزاحمت کی جائے۔ ذہنی مزاحمت کے ساتھ جسمانی طاقت بھی استعمال کی جائے۔ یہاں تک کہ اللہ کا حکم پورا ہو جائے اور شیطان اپنے وسوسوں سے مایوس اور نامراد ہو جائے۔

عمل کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب عمل کرنے کا وقت اور جگہ کا تعین کر لیا جائے۔ دنیا میں جب کسی کام کا خیال دماغ میں آتا ہے تو اس خیال کی کوئی نہ کوئی صورت ہوتی ہے۔ مثلاً شک کی صورت ایک الجھے ہوئے طویل جال جیسی ہوتی ہے۔ آدمی اگر جال میں پھنس جائے تو نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ملتا۔ جتنا جال سے نکلنا چاہتا ہے جال مزید الجھ جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہر شئے اور ہر امر اللہ تعالیٰ کی جانب سے بندے تک آتا ہے۔ اور پھر لوٹ کر اللہ تک چلا جاتا ہے۔ حکم الٰہی لطیف انوار کا ذخیرہ ہے۔ جبکہ ناسوتی روشنیاں اور کثافت (شعور) عملی راستے میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ شیطان کھلا دشمن ہونے کی وجہ سے آدمی کے نفس کو کثافت سے بھر دیتا ہے۔ ’’نفس‘‘ (مٹی کے عناصر کا مرکب) میں شک وسوسے، غرور، تکبر، حسد اور نافرمانی اور دیگر غیر اخلاقی باتیں ہیں۔

نفس دو راستوں پر سفر کرتا ہے۔ ایک ناسوتی اور دوسرا غیبی دنیا کا راستہ۔ ناسوتی دنیا میں شیطان وسوسے ڈالتا ہے اور شیطان کی انسپائریشن حکم الٰہی اور انسانی عقل کے درمیان رکاوٹ بن جاتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا شیطان کو کنکریاں مارنا شیطان انسپائریشن کو رد کرنا ہے۔

جب شیطان نے بہکانے کی کوشش کی تو آپ نے اسے کنکریاں مار کر بھگا دیا۔ اللہ تعالیٰ  نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس عمل کو حج کا رکن قرار دے کر حاجیوں کے لئے لازمی قرار دے دیا۔ کنکریاں مارنے کا عمل گویا انسان کے اندر کے شیطان کو شکست دینے کا عمل ہے۔ کنکریاں مارتے وقت اس بات کا تصور کیا جانا چاہئے کہ ہم اپنے اندر کے شیطان کو شکست دے کر رسوا کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کر رہے ہیں۔


Topics


Roohani Haj O Umrah

خواجہ شمس الدین عظیمی

چار ابواب پر مشتمل اس کتاب کے باب اول میں تمام مقدس مقامات کا تعارف پیش کیا گیا ہے ۔ باب دوئم میں حج وعمرہ کا طریقہ اورباب سوئم میں اراکین حج وعمرہ کی حکمت بیان کی گئی ہے۔جب کہ باب چہارم میں چودہ سوسال میں گزرے ہوئے اورموجودہ صدی میں موجود ایسے مردوخواتین بزرگوں کے مشاہدات وکیفیات جمع کئے گئے ہیں جن کو دوران حج وعمرہ حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کا فیض حاصل ہوا ہے اورجن خواتین وحضرات  کو خالق اکبر ، اللہ وحدہ لاشریک کا صفاتی دیدارنصیب ہوا۔