Topics

مکہ بحیثیت مرکز

دنیا کے مختلف شہروں، گاؤں اور گوٹھوں میں دیوی دیوتاؤں کی پرستش کی لئے بت کدے اور بڑے بڑے مندر موجود تھے۔ سورج چاند اور ستاروں کی پوجا کے لئے وسیع و عریض ہیکل تھے لیکن کوئی عبادت خانہ ایسا نہیں تھا جسے ایک مرکز کی حیثیت حاصل ہو۔

’’ہم نے اس گھر کو تمام انسانوں کے لئے مرکز اور امن کی جگہ قرار دے دیا۔‘‘

(البقرہ: ۱۲۸)

بیت اللہ شریف کسی خاص قبیلے، قوم یا کسی خاص مذہب کے ماننے والوں کے لئے مرکز نہیں ہے۔ پوری توحید پرست انسانی برادری کے لئے اسے مرکز بنایا گیا ہے۔

۴۰۰قبل مسیح تاریخ میں قبطی دیوتاؤں کے ضمن میں ’لات‘ دیوتا کا ذکر ملتا ہے۔ جس کا ہیکل طائف کے قریب تھا۔ اہل مکہ اس کی زیارت اور قربانی کے لئے جمع ہوتے تھے۔

سو سال قبل مسیح حجاز میں ایک معبد تھا۔ جس کا سب لوگ احترام کرتے تھے۔ تاریخ کے مطابق دوسری صدی قبل مسیح میں ساٹھ ہیکل سبا میں اور پینسٹھ ہیکل بنی عطفان کی بستیوں میں تھے۔ ہیکلوں کے چاروں طرف کا علاقہ حرم کہلاتا تھا۔ ان میں کام کرنے والے لوگوں کو ’’کاہن‘‘ کہا جاتا تھا۔ بتوں کی قدرت ظاہر کرنے کے لئے ان کے ہاتھوں میں مختلف چیزیں سجا دیں جاتی تھیں۔

’’حرم‘‘ کعبہ سب سے زیادہ مشہور تھا اس میں ودّ اور ہبل نامی بتوں کے ہاتھوں میں کمان اور تیر تھے۔ آفتاب پرستوں نے ایک بت نصب کر رکھا تھا۔ اس کے ہاتھ میں روشن اور چمک دار ہیرا تھا۔

مکہ کرہ ارض کے تقریباً وسط میں واقع ہے۔ اسی وجہ سے مکہ کو زمین کی ناف کہتے ہیں۔

مکہ طول میں تقریباً ۳ کلومیٹر اور عرض میں آدھا کلومیٹر ہے۔ وادی مکہ شمالاً جنوباً دو پہاڑی سلسلوں میں گھری ہوئی ہے۔ یہ پہاڑ مشرق، مغرب اور جنوب یعنی شہر کے تینوں دروازوں پر قریب قریب باہم مل جاتے ہیں۔

قدیم زمانے میں شہر میں داخل ہونے اور باہر جانے کے لئے صرف تین راستے تھے۔

پہاڑوں کی قدرتی ترتیب شہر پناہ کا کام دیتی ہے۔

یہ شہر خشک پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔ جن کی بلندی ۲۰۰ سے ۶۰۰ فٹ تک ہے۔ مکہ سطح سمندر سے ۳۳۰ میٹر بلندی پر واقع ہے۔ سردیوں میں ۲۵ ڈگری سینٹی گریڈ اور گرمیوں میں ۵۰ ڈگری سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا ہے۔ سردیوں میں معمولی سردی اور گرمیوں میں سخت گرمی ہوتی ہے۔ اوسط ًدرجہ حرارت ۳۵ ڈگری سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ دن رات عموماً برابر وقفے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ نصف گھنٹے کا فرق ہوتا ہے۔

امیر حج

حج ۹ ہجری میں فرض ہوا۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو امیر حج مقرر کر کے صحابہ کرام کو مکہ معظمہ بھیجا۔ جبرئیل امین وحی لے کرآئے  اور سورۃ توبہ کی ابتدائی ۴۰ آیتیں نازل ہوئیں۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت علیؓ کو مکہ معظمہ روانہ کیا اور احکامات الٰہی حاجیوں کے اجتماع میں پڑھ کر سنائے گئے۔ اس موقع پر مشرکین کا داخلہ مسجد الحرام میں بند کر دیا گیا۔

’’اے ایمان والو! مشرکین ناپاک ہیں لٰہذا اس سال کے بعد یہ مسجد الحرام کے قریب پھٹکنے نہ پائیں۔‘‘

(سورۃ التوبہ۔ ۲۸)

انبیائے کرامؑ کی قبور:

روایت کے مطابق کعبہ شریف کے ارد گرد تین سو انبیاء کی قبریں ہیں۔ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان ستر انبیاء کی قبریں ہیں(*ایک روایت کے مطابق رکن یمانی اور مقام ابراہیمؑ کے درمیان ۹۹ انبیاء کی قبریں ہیں) اور حطیم کے اندر میزاب کعبہ کے نیچے سیدنا حضرت اسمٰعیلؑ اور ان کی والدہ ماجدہ سیدہ حضرت ہاجرہؑ کی قبریں ہیں۔ اسی طرح چاہ زم زم اور مقام ابراہیمؑ کے درمیان سیدنا ہودؑ ، شعیبؑ اور حضرت صالحؑ کی قبریں ہیں۔ اتنی کثیر تعداد میں انبیاء کی قبریں دنیا بھر کے کسی بھی خطے میں نہیں ہیں۔ اہل مکہ کعبہ شریف میں چاروں سمت رخ کر کے صلوٰۃ قائم کرتے ہیں جبکہ دنیا میں کوئی بھی شہر ایسا نہیں ہے جہاں چاروں طرف منہ کر کے نماز ادا کی جاتی ہو۔


Topics


Roohani Haj O Umrah

خواجہ شمس الدین عظیمی

چار ابواب پر مشتمل اس کتاب کے باب اول میں تمام مقدس مقامات کا تعارف پیش کیا گیا ہے ۔ باب دوئم میں حج وعمرہ کا طریقہ اورباب سوئم میں اراکین حج وعمرہ کی حکمت بیان کی گئی ہے۔جب کہ باب چہارم میں چودہ سوسال میں گزرے ہوئے اورموجودہ صدی میں موجود ایسے مردوخواتین بزرگوں کے مشاہدات وکیفیات جمع کئے گئے ہیں جن کو دوران حج وعمرہ حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کا فیض حاصل ہوا ہے اورجن خواتین وحضرات  کو خالق اکبر ، اللہ وحدہ لاشریک کا صفاتی دیدارنصیب ہوا۔