Topics
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تفکر کے ذریعہ اللہ تعالیٰ تک رسائی حاصل کی۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
جب رات کی تاریکی چھا گئی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا۔ ستارے کی چمک دیکھ کر کہا۔ یہ میرا رب ہے اور جب ستارہ غروب ہو گیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا غروب ہو جانے والا چھپ جانے والا گھٹ جانے والا معبود نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد ستارے سے زیادہ روشن اور چمک دار چاند کو دیکھا۔ چاند بھی غروب ہو گیا۔ اس کے بعد چاند سے زیادہ روشن سورج کو دیکھا اور یہ سوچا کہ اب تک دیکھی جانے والی چمک دار چیزوں میں سب سے زیادہ روشن سورج ہے۔ سورج بھی غروب ہو گیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا۔ غروب ہونے والا خدا نہیں ہو سکتا اور میں اس خدا کی طرف اپنا رُخ کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔
اس آیت مبارکہ میں اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ تغیر پذیر شئے پرستش کے قابل نہیں ہے۔
انسانی زندگی کا تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ زندگی کسی لمحے ٹھہرتی نہیں ہے۔ ہر آن اور ہر منٹ زندگی کی تجدید ہوتی رہتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
پاک ہے وہ ذات جس نے سب چیزوں کو دو قسموں پر پیدا کیا۔
ان دو قسموں کو سمجھنے کے لئے ہمیں انسان کے اندر کام کرنے والے شعوری اور لاشعوری حواس کو سمجھنا پڑے گا۔ شعوری اسباب جب زیر بحث آتے ہیں تو ہمارا واسطہ ہر ہر قدم پر غیر رب سے پڑتا ہے اور ہم زندگی گزارنے کے لئے رب کے علاوہ دوسری بہت ساری چیزوں سے اپنا رشتہ جوڑ لیتے ہیں۔ اس کے برعکس ہماری زندگی کا دوسر ارخ یہ ہے کہ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی کسی ہستی سے رشتہ قائم کرنے پر مجبور ہیں۔ یہی لاشعوری حواس جب غیر رب کی نفی کرتے ہیں اور زندگی کو بحال رکھنے کے لئے ایک مسلمہ حقیقت ہیں اور زندگی کے لئے جزو اعظم ہیں۔
آدھی زندگی شعور میں اور آدھی لاشعور میں گزرتی ہے۔ پیدائش کے بعد انسانی زندگی کا بڑا حصہ لاشعور میں گزرتا ہے۔
بارہ سال تک کی شعوری عمر میں افہام و تفہیم نہیں ہوتی۔ آٹھ سال یا بارہ سال کی عمر تک نیند کا وقفہ شمار کیا جائے تو بیداری سے زیادہ ہے۔ انسان لاشعور میں عمر کا ایک تہائی حصہ صرف کرتا ہے اور عمر کا باقی حصہ شعور میں صرف کرتا ہے۔ لاشعوری زندگی کا حصہ غیر رب کی نفی کرتا ہے اور اس نفی کا اختیار انسان کو حاصل ہے۔ اگر انسان شعوری زندگی میں رہتے ہوئے لاشعوری زندگی میں زیادہ وقت گزارے تو اسے لاشعوری زندگی میسر آ جاتی ہے۔
ترجمہ : اے کپڑے میں لپٹنے والے ! رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر تھوڑی سی دیر یا نصف رات۔
قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو۔ بے شک رات کو اٹھنے میں دل اور زبان کا خوب میل ہوتا ہے۔ (سورہ مزمل شریف)
اس آیت میں اس بات کی دعوت دی گئی ہے کہ شعوری زندگی میں رہتے ہوئے لاشعوری زندگی میں داخل ہو کر اللہ کی طرف متوجہ رہو اور اپنے رب کا نام یاد کرتے رہو۔ بے شک وہ مشرق اور مغرب کا مالک ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں۔
زندگی کا ایک وقفہ یہ ہے کہ ہم لاشعوری حواس میں بے عمل رہتے ہیں اور بیداری میں وظیفہ اعضاء پورا کرتے ہیں۔ ان حواس میں ہمارے اور زمان اور مکان کا غلبہ رہتا ہے۔ یعنی ہم خود کو ہر قدم پر پابند اور مقید محسوس کرتے ہیں۔ زندگی کے دوسرے وقفے نیند کی حالت میں ہمارے اوپر زمان و مکان کی پابندی ٹوٹ جاتی ہے۔
رات کو نماز قائم کرنا یا تہجد میں اٹھنا اسی طرف دعوت ہے۔ یہ وہ وقفہ ہے جو پابند شعور سے آزاد کر دیتا ہے۔ سورۃ مزمل شریف میں یہی قانون بیان فرمایا گیا ہے جس طرح غیر شعوری طور پر غیر رب کی نفی کرنے سے جسمانی زندگی تعمیر ہوتی ہے اسی طرح شعوری طور پر غیر رب کی نفی کرنے سے روحانی زندگی حاصل ہوتی ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ابدال حق قلندربابااولیاء کی روحانی اولاد کو تین کتابیں بطورورثہ منتقل ہوئی ہیں ۔ 1۔رباعیات قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ۔2-لوح وقلم ۔3۔تذکرہ تاج الدین بابارحمۃ اللہ علیہ
کتاب لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں ۔ ان فارمولوں کو سمجھانے کے لئے خانوادہ سلسلہ عظیمیہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے روحانی طلباء وطالبات کے لئے باقاعدہ لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جو تقریباً ساڑھے تین سال تک متواترجاری رہا ۔
علم دوست افراد کے لئے ان لیکچرز کو ترتیب دے کرا یک کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ روحانی علوم سے دلچسپی رکھنے والے تمام خواتین وحضرات ان مخفی علوم سے آگاہی حاصل کرسکیں ۔)
‘‘گفتۂ اوگفتۂ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود’’ کے مصداق حامل علمِ لَدْنّی ، واقف اسرار کُن فیکون، مرشدِ کریم، ابدال حق، حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا، حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کی زبانِ فیض ِ ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ خود حضور بابا صاحب کے روحانی تصرف سے میرے ذہن کی اسکرین پر نقش ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ الہامی تحریر حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کی مبارک زبان اور اس عاجز کے قلم سے کاغذ پر منتقل ہو کرکتاب " لوح و قلم " بن گئی۔میرے پاس یہ روحانی علوم نوع ِانسان اور نوعِ جنات کے لئے ایک ورثہ ہیں۔ میں یہ امانت بڑے بوڑھوں، انسان اور جنات کی موجودہ اور آنے والی نسل کے سپرد کرتا ہوں۔
خواجہ شمس الدّین عظیمی
(لوح و قلم صفحہ نمبر۳)