Topics

چوتھا سوال۔۔۔؟


 

 ممکن ہے پڑھنے والے کو ان تحریروں میں تکرار ملے اور ایسا ہونا فطری ہے اس لئے کہ مرشد جب مرید کی تربیت کرتا ہے تو ایک بات کئی زاویوں سے سمجھاتا ہے تاکہ ذہن قبول کر لے۔ تربیت دراصل تکرار ہے۔

  کتنی مرتبہ ایسا ہوا کہ عمل کا وقت آیا، ذہن نے بغاوت کر دی ، شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔ ایسے میں استغفار پڑھنے سے متعلق خواب یاد آجاتا لیکن باغی ذہن کسی طور استغفار کی تسبیح پر آمادہ نہیں ہوتا۔ خود سے لڑتے لڑتے تھک ہار کر آخری راستہ استغفار کا ہی نظر آتا ہے اور وہ کم زوری تسلیم کر کے اللہ سے کہتا ہے کہ جانتا ہوں میں غلط ہوں اور اس کیفیت سے نکلنے کی استطاعت چاہتا ہوں۔ اور تھوڑی دیر بعد ذہن پر سے دھند ہٹ جاتی ہے۔

       کمرے میں خاموشی سے زیادہ سکون تھا۔ یہ سکون اس ہستی کی وجہ سے تھا جس کے وجود سے نکلنے والی پرسکون لہریں کمرے پر محیط تھیں۔ یہاں بیٹھ کر محسوس ہوتا ہے کہ باحواس دیواریں تعظیم سے سر جھکائے کھڑی ہیں۔ کتابیں ، پانی کی بوتل، ٹشو پیپر کا بکس، کرسی ، ہر شے ترتیب اور قرینہ سے رکھی ہوئی تھی۔ ایسے میں اپنا آپ بے ترتیب محسوس ہوا۔

عرض کیا، غلطی ہو جانے کے بعد شرمندگی کی وجہ سے سامنے آنے کی ہمت نہیں ہوتی۔

فرمایا ، ” شرمندگی نہیں بڑھنی چاہئے ، میرے پاس آ کر عزم بڑھنا چاہئے ، ارادہ بڑھنا چاہئے ، ول پاور بڑھنی چاہئے ۔“

           جواب نے جھنجھوڑ دیا ۔ کیا کچھ نہیں تھا اس میں۔ مرشد کا ایثار ، یقین کی دنیا، محبت ، در گزر ۔

عرض کیا ، میرے اندر بغاوت بہت ہے۔

فرمایا ، ” یہ خاندانی روایات کی وجہ سے ہے جن سے نکلنے میں وقت لگتا ہے۔ غلطی کا احساس ہونا ضمیر کی راہ نمائی ہے۔ آپ کے ذہن میں خاندانی برتری کا احساس ہے کہ میرا خاندان ، زبان، تعلیم وغیرہ وغیرہ۔ انا پر بار بار ضرب پڑنے سے یہ کیفیت ختم ہو جاتی ہے اور بندہ اپنی نفی کر کے بالآخر خود کو سپرد کر دیتا ہے۔ آپ اپنی مرضی چاہتے ہیں جو دراصل خود کو نمایاں کرنے کی خواہش ہے۔ یہ خود سپردگی نہیں ہے۔ جب تک خود کو سپرد نہیں کرو گے، یہ ہوتا رہے گا۔“

مرشد کریم جب دیکھتے ہیں، لگتا ہے اسے نہیں ، اس کے اندر دیکھ رہے ہیں۔ نظر آنکھوں پر پڑی، ان آنکھوں میں کیا ہے، دیکھا نہیں جا سکتا ۔ شاگرد آنکھیں ذہن میں نقش کرنا چاہے تو ذہن میں تصویر نہیں بنتی۔ بلا شبہ آنکھوں کا رنگ بہت خوب صورت ہے، بندہ دیکھ نہیں سکتا البتہ نیل گوں اور سرمئی رنگوں میں موجود خمار میں کھو جاتا ہے۔

    عرض کیا، یہ بات آپ مجھے کئی مرتبہ سمجھا چکے ہیں لیکن میں بار بار ایک ہی غلطی کرتا ہوں۔

                         فرمایا، ” آپ ایک چیز کو 'رد کر کے' آگے بڑھنا چاہتے ہیں، یہ طریقہ نہیں ہے۔ طریقہ یہ ہے کہ گزر جاؤ ۔ ایک دن میں نہیں گذرتے ، وقت لگتا ہے۔“

                  پوچھا ، آپ حکم کی تعمیل ایک ہی بار میں کر لیتے تھے؟

             انہوں نے فرمایا، ” میں تعمیل اس طرح کرتا تھا کہ پھر اس طرف نہیں سوچتا تھا، خیال آتا تو دوسرے کام میں مشغول ہو جاتا ۔ آپ اس لئے الجھ رہے ہیں کیوں کہ ترک کے قانون سے واقف نہیں ہیں، ترک کے معنی ہیں۔۔ سرنڈر!“

   ہم بچوں کو معیاری اسکولوں میں پڑھاتے ہیں کہ وہ اچھے اور کام یاب بنیں۔ اسکول دنیا کی اچھی تعلیم دے سکتا ہے لیکن کام یاب، آدمی رویوں سے ہوتا ہے۔ ہر جگہ بندہ رویوں کی وجہ سے ناکام اور اسی کے سبب کام یاب ہوتا ہے۔ اصلاح کا عمل بہت تکلیف دہ ہے۔ آدمی ٹوٹتا ہے ، بکھرتا ہے، جلتا ہے اور راکھ ہو جاتا ہے۔ راکھ سے نیا وجود جنم لیتا ہے جو  ” میں “ اور ”تو“ کی قید سے آزاد ہے۔ آزادی قربانی مانگتی ہے، جتنا عظیم مقصد ہوتا ہے، اتنی بڑی قربانی ۔آدمی کے لئے اپنا آپ سب کچھ ہوتا ہے اس لئے اپنے آپ کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ جب تک مرید خود کو مرشد کے سپرد نہیں کر دیتا۔ مرشد کا نہیں ہو سکتا۔

 

من تو شدم تو من شدی

من تن شدم تو جاں شدی

تاکس نہ گوید بعد ازیں

من دیگرم تو دیگری

مرشد تربیت کرتا ہے تو ابتدا میں سات آسمانوں کی باتیں نہیں کرتا نہ نور اور تجلی سے متعلق پڑھاتا ہے، وہ مرید کو رویہ میں خامیوں اور اندر کی تاریکیوں سے واقف کرتا ہے اس لئے کہ جس کا اندر پرُنور ہوگا، بات اس کو سمجھ میں آئے گی۔

             تاریکیوں سے واقف ہوا تو سب سے بڑی خامی یہ نظر آئی کہ وہ خود کو دوسروں کی نظر سے دیکھتا ہے اس لئے احساس کمتری یا بر تری کا شکار ہو جاتا ہے۔ کسی نے تعریف کر دی تو پھولے نہیں سمایا اور جب تنقید ہوئی تو دل چھوٹا ہو گیا۔جس نے اچھا کہا، یہ اس کا ذہن ہے اور جس نے برا کہہ دیا، اپنے ذہن کی ترجمانی کی۔ لوگوں کی رائے پر خود کو جانچ کر آدمی تین میں ہوتا ہے نہ تیرہ میں۔

   شیخ طریقت فرماتے ہیں کہ خامی کا ادراک ہو جائے تو اسے دہرانے کے بجائے اصلاح کرنی چاہئے ۔ خود سے کہا، رویے کتنے ہی سرد یا پُرجوش ہوں ، یہ لوگوں کی سوچ ہے۔۔۔میں ایسا نہیں۔ میں کیا ہوں، یہ اللہ کو معلوم ہے، بس ضمیر مطمئن ہونا چاہئے ۔ خود کو لوگوں کی نظر سے دیکھنے کے بجائے یہ جاننا چاہئے کہ مرشد کی نظر میں ، میں کہاں اور کیا ہوں۔

دوسال پہلے کی بات ہے شام میں ٹیرس پر بیٹھا موسم سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ خیال آیا۔۔ میں کہاں پھنس گیا! زندگی پہلے اچھی تھی، مرشد سے ملاقات بھی ہو جاتی تھی، ان ہدایات پر عمل کر کے قرآن کریم میں تفکر کرتا تھا اب ہر طرف ہاہا کار ہے۔ یہ سوچ کر ایک بار پھر پرندوں کی بولیوں میں گم ہو گیا۔

                        دو دن بعد ملاقات میں شیخ طریقت نے ہو بہو اس کے الفاظ دہرائے۔

       فرمایا ، ” آدمی اکیلا ہوتا ہے اور سوچتا ہے کہ میں کہاں پھنس گیا، اچھی خاصی زندگی تھی۔“

پھر الفاظ پر زور دیتے ہوئے فرمایا۔۔۔ ” خالص شیطانی خیال ہے، کبھی شیطان کے چکر میں مت پڑنا !“

بات سن کر مسکراہٹ گہری ہوگئی کہ چوری پکڑی گئی ہے۔

مرشدم مرید سے ایک لمحہ کے لئے بے خبر نہیں ہوتا۔

ایک روز اسائنمنٹ ملا جسے مکمل کرنا مشکل ہو گیا۔ جھنجھلایا ہوا تھا کہ زبان سے نکلا۔۔ یہ کام تو میری جان کو آگیا ہے۔

چند روز بعد مرشد نے فرمایا ، ” ہاں بھئی پہلے یہ کام کروالو، یہ تو تمہاری جان کو آگیا ہے۔“

سخت ندامت ہوئی اور اعتراف کیا کہ میں جھنجھلایا ہوا تھا اس لئے زبان سے ایسی بات نکل گئی۔

شفیق مرشد مسکرائے اور فرمایا، ” کام اس وقت مشکل ہو جاتا ہے جب آدمی سمجھتا ہے کہ میں کر رہا ہوں ۔ سب وسوسہ اور شیطانی چکر ہے۔“

غصہ پہلے سے کم ہو گیا ہے اور رد عمل بھی۔اگرچہ مکمل ختم نہیں ہوا لیکن بہت سی باتوں کو اب وہ نظر انداز کر دیتا ہے۔ تبدیلی کا احساس اس وقت ہوا جب ایک روز کسی نے نشان دہی کہ تم وہ نہیں ہو، جو پانچ چھ سال پہلے تھے۔ اب ٹھہراؤ آگیا ہے۔

   احساس دلانے پر متوجہ ہوا تو محسوس کیا کہ صبح سے کتنی باتیں ایسی ہو چکی ہیں جن پر وہ پہلے رد ِ عمل ظاہر کرتا تھا، اب نظر انداز کر دینے سے ذہن ہلکا رہتا ہے۔

     ایک روز چند باتیں ذہن کو ناگوار گزریں ۔ ذہنی کش مکش بڑھی تو آنکھیں جلنا شروع ہوگئیں۔ خیال آتے ہی کہ یہ غصہ نہیں حسد ہے، اللہ کا شکر ہے اس کیفیت سے نکل گیا۔

      مرشد کریم سے عرض کیا، میری سوچ غلط ہے، ہر ایک کو اپنی قسمت کا ملتا ہے۔ نہ کوئی کسی سے کچھ لے سکتا ہے نہ دے سکتا ہے۔ جس کو میں نے غصہ سمجھا ، وہ حسد تھا۔ آدمی کو پتہ نہیں چلتا اور وہ راہ سے بے راہ ہو جاتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ سے استقامت کی دعا کرنی چاہئے ۔

                         فرمایا ، ” یہ احساس کس نے دلایا ۔۔؟“

                       عرض کیا، اللہ تعالیٰ نے۔

  فرمایا ، ” اس سے پہلے جو سوچا، شیطان کی کارفرمائی تھی۔ اب جو کیا ہے یہ ضمیر کی آواز ہے۔ آپ نے ضمیر کی آواز کو سنا ۔ اسی طرح سنتے ہیں اور عمل کرتے ہیں۔“

    خواب میں دیکھا کہ وہ زمین پر بیٹھا ہے اور مرشد سفید لباس میں تخت پر۔۔

  انہوں نے چار سولات پوچھے۔۔

سوالات کیا تھے، یاد نہیں البتہ پہلے سوال پر اس نے کہا، جو آپ کا حکم!

 دوسرا سوال کیا گیا، اس نے کہا، جو آپ کا حکم!

                       تیسرا سوال پوچھا گیا ۔ اس بار پھر ذہن نے فرماں برداری کا اظہار کیا، جو آپ کا حکم!

                 البتہ چوتھ سوال پر وہ چونک گیا۔

      مرشد گہری نظروں سے دیکھ رہے تھے اور جواب کے منتظر تھے۔

   سوال سن کر وہ گھبرا گیا۔ نفی میں جواب دینا نا فرمانی تھی اور اثبات میں جواب دینے پر دل آمادہ نہیں تھا۔ وہ مرشد کا ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔

عرض کیا۔۔۔ سوال سمجھ میں نہیں آیا۔

      مرشد ہنس پڑے اور سر پر ہاتھ رکھ کر کچھ پڑھا۔۔۔

   نیند سے جاگتے ہی ذہن میں سوالات موجود تھے لیکن اگلے لمحہ ذہن خالی ہو گیا۔ یاد کرنے کی کوشش کے باوجود حافظہ خالی تھا۔ ادراک ہوا کہ خواب کے ذریعے خامی کی نشان دہی کی گئی ہے۔ کئی روز تک تعبیر پوچھنے کا موقع نہیں مل سکا۔ ڈر بھی تھا کہ میں نے کوئی غلطی تو نہیں کی جس پر معافی کی گنجائش نہیں۔ اس وجہ سے بھی ان سے تعبیر پوچھنے کی ہمت نہیں ہوسکی۔

       اس روز جب مرشد کریم معافی کے حوالہ سے بات سمجھا رہے تھے تو ہمت ملی اور خواب سنایا۔

         چوتھے سوال کی بات پر گہری مسکراہٹ تھی جیسے جانتے ہوں کہ سوال کیا تھا۔

انجان لہجہ میں انہوں نے پوچھ، ” چوتھا سوال کیا تھا۔۔۔؟“

عرض کیا، مجھے یاد نہیں ۔ آپ بتا سکتے ہیں کیا تھا۔

لاتعلقی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ مجھے کیا معلوم۔

البتہ تعبیر بتائی کہ آپ کو بتایا گیا ہے کہ ذہن کیئر آف اللہ پیٹرن پر قائم نہیں ہے۔

کچھ دنوں بعد یاد آگیا کہ چوتھا سوال کیا تھا۔

جب مرشد کریم کو بتایا انہوں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے فرمایا،” ذہن میں شکوک و شبہات ہیں۔ کیا میں آپ کے لئے غلط فیصلہ کر سکتا ہوں۔۔۔؟“

عرض کیا۔۔۔ نہیں ، بالکل نہیں۔

انہوں نے فرمایا ،” چھوٹے بچہ کی طرح خود کو استاد ( مرشد ) کے سپرد کر دو۔“


Topics


Murshid Ki Batein

خواجہ شمس الدین عظیمی



حضور قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں 

بچہ ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے 

استاد تراش خراش کے اسے ہیرا بنا دیتے