Topics

مرید ۔۔۔ مرشد کے آئینہ میں دیکھتا ہے

بہت دنوں بعد مرشد کریم سے ملاقات ہوئی۔ تعظیم سے بیٹھ کر انہیں ایک کے بعد ایک مصروفیت نمٹاتے دیکھتا رہا۔جب کبھی وہ ان کی شخصیت کو لفظوں میں بیان کرنے کی کوشش کرتا، محسوس ہوتا اس کے پاس وہ الفاظ نہیں جو اس وجیہہ اور واقف ِ اسرار ہستی کے شایانِ شان ہوں۔ خواہش تھی ان کے بارے میں ویسے جذبات کا اظہار کرے جیسے وہ اپنے مرشد کے بارے فرماتے ہیں لیکن پھر یہ سوچ کر خاموش ہو جاتا کہ کہاں وہ اپنے مرشد کے لائق شاگرد اور کہاں میں نالائق!

        خیال نے کہا مرشد لفظوں کی خوبصورتی کو نہیں دل کے خلوص کو دیکھتے ہیں۔ دل میں خلوص ہو تو ہر لفظ خالص ہو جاتا ہے۔

        مرشد کی ذات اپنے مرشد کریم میں گم ہے اور اس تعلق میں اتنی گہرائی ہے کہ مریدین بھی اس محبت کو محسوس کرتے ہیں۔اس مہربان ہستی کی شفقت میں آکر اس نے جانا کہ مرید وہ ہے جو مرشد کا عکس ہو اور اس کے مرشد ہو بہو اپنے مرشد کریم کا عکس ہیں۔۔۔ محبوب کا دل اور اللہ جانتے ہیں۔ بس محدود سوچ کو لفظوں کا روپ دے دیتا مگر یہ احساس ہمیشہ غالب رہتا کہ حق ادا ہوا اور نہ ہو سکتا ہے۔ وہ عشق بھی کیا عشق کو بیان کرنے والے الفاظ ہمیشہ ناکافی ہوتے ہیں۔

        مرشد اور مرید کی یہ کہانی ۔۔۔۔ مرشد کی باتیں، ایک عظیم بندہ سے شروع ہوتی ہیں جس نے حضور پاک ﷺ کے حکم سے شاگرد کی تربیت کے لیے خود کو دنیا کے سامنے ظاہر کیا۔ خراماں خراماں ہاتھ پکڑ کر چلنا سکھایا، اللہ کی محبت کا پودا من میں لگایا ، پھول لگے۔۔ ایسے پھول جن کی خوش بو ابدی ہے خوش بو انگ انگ میں رچ بس کر چہار سو پھیل گئی۔ دور دور سے دیوانے آتے ہیں۔ من مندر میں محبت کے دیپ جلتے ہیں۔ ایک عالم روشن ہوتا ہے۔

        مرشد۔۔ حضور قلندر بابا اولیاؒ کا لگایا ہوا وہ پودا ہیں جس کے پھولوں کی مہک ہوا کی طرح ہے۔ قریب رہنے والا بھی بامراد ہوتا ہے اور دور رہنے والا بھی فیض پاتا ہے۔ قلبی تعلق شرط ہے۔

یہ خوش بو ان کی اپنے مرشد سے محبت ہے۔ عشق و جنون کی داستان ہے۔۔ اور اس داستان پر ہزاروں پروانے نثار ہونا چاہتے ہیں۔

" مرشد کی جان سے جان ملتی ہے تومرید کی جان بنتی ہے "

        یہ وہ سنہرے الفاظ ہیں جو مہربان مرشد نے اپنے مرشد کریم کے لیے ادا کیے۔ طریقت کے نہ جانے کتنے قوانین اور عشق و جنون کے کون سے آداب اس قانون میں پنہاں ہیں یہ محب اور مرشد جانیں۔ آئیے دل اور دل کے دل دار کی باتیں کریں۔ مرشد کی جان کی باتیں کریں۔

        سرور کونین ، محبوب رب العالمین ، خاتم النبیین ، احمد مجتبیٰ، محمد مصطفیﷺ کے نائب اور نظام ِ تکوین میں صدر الصدور کے عہدہ پر فائز، واقف ِ اسرار ِ کن فیکون ، حضور قلندر بابا اولیا ؒ علم و عرفان اور آگہی کا وہ سمندر ہیں جس کی گہرائی سے صرف اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ واقف ہیں۔اپنے مرشد کا ذکر کرتے ہوئے مرشد کے لہجہ میں جو تڑپ اور جذبات میں  والہانا پن اس نے محسوس کیا اسے لفظوں میں ڈھالنے کے لیے ذہن پر کافی زور دیا اور باآخر یہ سوچ کر خاموش ہو گیا کہ یہ عشق و جنون کی داستان ہے، اسے جتنا  محسوس کیا جائے وہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں جو مرشد کے دل میں ہے۔ سمجھ میں آتا ہے تو بس اتنا کہ ہر غرض سے پاک کر کے خود کو مرشد کی ذات میں فنا کر دینے کا نام مرید ہے۔ باقی سب باتیں ہیں۔

        ابدالِ حق قلندر بابا اولیا ؒ اور مرشد کریم یک جان دو قالب کیسے بنے مرشد کی زبانی سنیے۔

                " ایک رات تہجد کی نماز کے بعد میں نے درود خضری پڑھتے ہوئے خود کو سیّدنا حضور سرور کائنات ﷺ کے دربار اقدس میں حاضر پایا۔ مشاہدہ کیا کہ حضؤر اکرم ﷺ تشریف فرما ہیں۔

 

        اس بندہ نے رسول اللہ ﷺ کے تخت کے  سامنے دو زانو بیٹھ کر درخواست کی:

        یارسول اللہ        ؐ ، رحمتہ للعالمین ؐ ، جن و انس اور فرشتوں کے آقا، حامل کون و مکاں، مقام محمود کے مکین، اللہ کے ہم نشین ، علم ذات کے امین، خیر البشر ، میرے آقا! مجھے علم لدنی عطا فرما دیجئے۔ میرے ماں باپ آپ ؐپر نثار، آپ ؐ کو حضرت اویس قرنی ؓ  کا واسطہ،آپ ؐکو حضرت  ابو ذر غفاری ؓ                کا واسطہ،  آپؐ  کے رفیق حضرت ابو بکر صدیق ؓ                               کا واسطہ،          آپؐ کو بی بی فاطمہ ؓ  ،حضرت علی ؑ اور حسنین ؑ کا واسطہ، اپنے اس بندہ پر  نظر کرم فرما دیجئے اور علم لدنی عطا فرما دیجئے۔

        میرے آقا ! آپ ؐکو قرآن کریم کا واسطہ، آپؐ کو اسم اعظم کا واسطہ، آپؐ کو تمام پیغمبروں کا واسطہ، آپؐ کے جد امجد حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے ایثار کا واسطہ، میرے آقا! میں آپ ؐکے در کا بھکاری ہوں۔ آپ ؐ کے علاوہ کون ہے۔۔۔؟ کوئی نہیں ! اللہ رب العالمین کے محبوب رحمتہ للعالمین بس آپؐ ہیں۔ آقا! میں غلام ہوں، غلام زادہ ہوں۔ میرے جد امجد حضرت ابو ایوب انصاری ؓ پر آپ ؐ کی خصوصی رحمت و شفقت کا واسطہ ، مجھے نواز دیجئے۔

        دریائے رحمت جوش میں آیا، فرمایا، کوئی ہے؟

        دیکھا کہ حضور قلندر بابا اولیاء ؒ دربار میں آکر مؤدب ایستادہ ہیں، اس طرح جیسے نماز میں نیت باندھے کھڑے ہوں۔ حضور بابا جی ؒ نے نہایت ادب و احترام سے فرمایا، یا رسول ؐاللہ! میں آپؐ کا غلام حاضر ہوں۔

        سیّدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا ، تم اس کو کس رشتہ سے وراثت دینا چاہتے ہو؟

        حضور بابا صاحب ؒ نے فرمایا، یا رسول اللہ ؐ! اس کی والدہ میری بہن ہیں۔

        سیّدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تبسم فرمایا اور ارشاد ہوا،

        خواجہ ابو ایوب انصاری ؓ کے بیٹے! ہم تجھے قبول کرتے ہیں۔

        اس وقت میں نے دیکھا کہ میں حضور قبلہ بابا صاحب ؒ کے پہلو میں کھڑا ہوں۔"

         حضور قلندر بابا اولیا ءؒ نے مرشد کریم کی روحانی تربیت کے لیے شب و روز 16 سال ان کے پاس قیام کیا۔مرشد کریم فرماتے ہیں۔۔” مجھے اپنے بابا جی قبلہ ؒ پر اتنا ناز ہے کہ شاید کسی کو ہو۔ جتنا یہ غلام ہمراز ہے، شاید کوئی نہ ہو۔ لطف و عنایت کی بارش جتنی اس عاجز و مسکین پر فرماتے ہیں، وہ خیال و تصور اور اظہار بیان سے بالا ہے۔“

        اس نے سوچا ، شیخ کی اس بات میں اپنے مرشد سے تعلق کی سچائی اور گہرائی کا بیان ہے۔ انہیں وہ نسبت عطا ہوئی ہے کہ محسوس ہوتا ہے مرشد اور مرید یک جان دو قالب ہوگئے ہیں۔

من                                     تو                                          شدم                                           تو                                              من                                                      شدی

من                                              تن                                           شدم                                     تو                                 جاں                                 شدی

تاکس                                                                   نہ                                                            گوید                                                  بعد                                                                 ازیں

من                                                                                                    دیگرم                                                                                                         تو                                                                                        دیگری

        وہ ان کے اور حضور قلندر بابا اولیا ؒ کی نسبتِ عشق پر غور کرتا ہے، دیگر اولیائے عظام کی حیات کا مطالعہ کرتا ہے تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ وہ مرید محبوب ہو گیا جس نے مرشد کا اد ب کیا۔

        ایک مرتبہ حضور قلندر بابا اولیا ؒ             سے کسی نے شکایت کی۔

        بابا جی ؒ نے فرمایا ، ” وہ ایسی بات نہیں کہہ سکتے۔“

وجہ دریافت کرنے پر ارشاد فرمایا  ، ” میں نے اپنے اندر دیکھا اور سوال کیا کہ کیا میں ایسی بات کہہ سکتا ہوں۔ اندر سے آواز آئی میں ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔ تو خواجہ صاحب کیسے کہہ سکتے ہیں۔“

        وہ سوچ رہا تھا کتنی بڑی بات ہے جب ایک استاد اپنے شاگرد کے لیے کہتا ہے کہ جو بات مجھ میں نہیں وہ اس میں نہیں، ادب اس قدر باادب ہوا کہ دوئی ختم ہو گئی۔ قلندر  بابا اولیا ؒ فرماتے ہیں،

        ” میں نے اپنے شاگرد کو پیس کر سرمہ بنادیا ہے۔ کوئی چاہے تو آنکھوں میں لگالے اور کوئی چاہے تو پھونک مار کر اڑا دے!“

        روحانیت ادب ہے۔ ادب گہرا سمندر ہے۔ جیسے جیسے عشق کی منازل طے ہوتی ہیں ادب بڑھ جاتا ہے۔ اللہ نے عزازیل کو بہت  علم عطا کیا۔ وہ فرشتوں کا سردار تھا لیکن ایک بے ادبی نے اسے قیامت تک کے لیے شیطان بنا دیا۔ دیکھا جائے تو شیطان کی بندگی کا یہ عالم کہ خالق کے علاوہ کسی اور کو سجدہ کرنا گوارا نہ کیا۔یہ بھی عشق کا مقام ہے لیکن بہرحال اس نے حکم کی خلاف ورزی کی۔

        بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ ہر کوئی روحانیت سیکھنا چاہتا ہے۔ اکثر اسے ایک پھونک کا کھیل سمجھتے ہیں کہ مرشد نے پھونک ماری اور مرید کی اندھی آنکھ بینا ہوگئی۔ جانتا تھا یہ بات اگر صاحب علم کے سامنے کہے تو بات بے بات بن جائے گی۔

        ذہن میں سوال آیا۔۔ جب ہر شخص روحانیت سیکھنا چاہتا ہے اور یہ ادب سے ملتی ہے پھر یہ جانتے ہوئے بھی ہم بے ادب کیوں ہیں اور شکوہ بھی کرتے ہیں کہ بیعت کو اتنا عرصہ ہوا لیکن آنکھ نہیں کھلی؟ خیال نے کہا۔۔ قول و فعل میں تضاد ہے۔ مرشد سے محبت کا دم بھرتے ہیں لیکن محبت ادب سے شروع ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ مرید ریڈیو بن جاتا ہے اور آواز مرشد کی ہوتی ہے۔

        مرشد کریم سے ملاقات ہوئی تو بات چیت کے دوران انہوں نے قصہ سنایا۔۔" ایک شخص کے پاس نہایت میلی کچیلی مٹی کی دو ہانڈیاں تھیں۔ دو مختلف لوگوں کو دے کر پوچھا کتنے روز میں صاف کر دو گے؟ پہلے نے کہا چالیس دن اور دوسرے نے کہا ، ایک دن میں۔ پہلا شخص روز ہانڈی کو کھرچتا، پانی ڈال کر ہلکی آنچ میں گرم کرتا ، میل نرم ہوا اور تہ در تہ ختم ہوتا رہا۔ یوں روزانہ کی محنت سے چالیس روز میں برتن صاف ہو گیا۔ دوسرے شخص نے ہانڈی کے چاروں طرف تیز آگ لگا دی۔ ہانڈی تو صاف ہو گئی لیکن اس قدر کمزور ہوئی کہ ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ گئی۔ برتن دونوں نے صاف کیے مگر ایک کی ترکیب کارگر رہی اور دوسرے کی بےکار ہوگئی۔"

        فرمایا ۔۔" کمال یہ نہیں کہ طاقت کا مظاہرہ ہو ، کمال یہ ہے کہ تربیت کر کے اس قابل بنا دیا جائے کہ وہ طاقت کا متحمل ہو سکے۔ اب مرشد محنت کرتا ہے لیکن اگر مریدخود کو پاک کرنے کے لیے کوشش نہ کرے تو کیا مرشد نے جو کھانا بنایا ہے وہ اس برتن (مرید) میں ڈالے گا۔۔؟

        سمجھ گیا کہ وہ کیا سمجھانا چاہ رہے ہیں۔ ادب کی قدر بے ادب کیا جانے! نظر کھلنا لوگوں کو بظاہر ایک پھونک کا عمل لگتا ہے لیکن ایسا سوچنے والے یہ نہیں جانتے کہ وہ شخص ادب کی کتنی منازل طے کر کے آیا ہے۔ سوال ذہن میں آیا کہ ادب کو کیسے سمجھا جائے؟

        کریم و شفیق مرشد نے بات جاری رکھی اور فرمایا۔۔ " ہر شے  گزر جانے والی ہے ۔ خود کو اللہ کے سپرد کرنا بندگی ہے اور بندگی ادب ہے۔ حضور قلندر بابا اولیا ؒ نے فرمایا جو بات مجھ میں نہیں وہ خواجہ صاحب میں بھی نہیں۔ اپنے نفس کو مارنا، سرمہ بننا آسان نہیں۔ جب آدمی  پستا ہے تو تکلیف ہوتی ہے۔ ہر کام کیئر آف اللہ

(Care Of Allah)     کرو۔ جو اللہ کرتا ہے وہی صحیح ہے، یہی فقیری ہے۔ یک در گیر ومحکم بگیر!"

          صرف جسمانی طور پر موجود ہونا موجودگی نہیں، تصور بھی حضوری ہے۔ ذہن میں آئی باتوں کے جواب بنا سوال پوچھے ملاقات میں مل گئے تھے۔ اس نے سوچا وہ صاحب یقین ہستی کے تصور میں رہتا ہے اس لیے کچھ بھی سوچتے ہوئے احتیاط کی ضرورت ہے۔

        کیا تم بھی نظر کھلنے کی خواہش رکھتے ہو۔۔۔؟ خیال نے پوچھا۔

        نہیں۔

        کیوں۔۔؟

        اس طرف خیال نہیں جاتا۔

        اگر خیال آجائے تو۔۔۔؟

        شرم محسوس کرتا ہوں کہ کیا میں اس لیے ان کے پاس جاتا ہوں کہ میری نظر کھلے اور زمین کے اندر مدفون خزانے نظر آئیں یا آسمانوں میں فرشتوں کو دیکھوں۔۔۔؟ نہیں نہیں ! یہ عشق میں ملاوٹ ہے اور عشق میں ملاوٹ محبت کے لیے ناسور ہے۔ اگر نظر کھل بھی جائے تو کیا۔۔۔؟   جو زخم اندر بن گئے ہیں ان کا مداوا تو نہیں ہوگا۔

        خیال نے پوچھا ، پھر کیا چاہتے ہو۔۔۔؟

        بہت چھوٹا منہ اور بہت بڑی بات۔۔ شیخ کے خیال میں بے خیال ہونا چاہتا ہوں۔ ان کے دل میں وہ مقام چاہتا ہوں جو ان کے لیے ان کے مرشد کے دل میں ہے۔ اتنا کہا تھا کہ ذہن میں ایک نقش ابھرا جس سے خالی الذہن ہو کر ایک طرف متوجہ ہو گیا ۔ چکا چوند ہوئی۔ آواز آئی۔۔۔۔

وَا ذ کرِ اسم ربّك وَ تبتل الیہ تبتیلا

" اور اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو اور سب سے کٹ کر اسی کے ہو رہو ۔"  (المزمل : ۴)

        شرح صدر ہوا اور سمجھ میں یہ آیا کہ الگ ہونے کا مطلب اندھیرا کوٹھری میں بیٹھنا یا تارک الدنیا ہونا نہیں بلکہ بندہ ہر عمل کیئر آف اللہ کرے۔ مرشد یہی طرز فکر تو عطا کرتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ ہے۔مرشد وہ راہ نما ہے جو مرید کی طرز فکر کو ایسے قالب میں ڈھال لیتا ہے کہ قرآن کریم کی یہ آیت مرید کی سیرت بن جاتی ہے۔

" کہہ دیجیئے کہ بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ کے لیے

ہے جو رب ہے سارے جہاں کا ۔"         ( الانعام : ۱۶۲)

اس نے خیال سے کہا کیا باپ سے کوئی اس لیے محبت کرتا ہے کہ وہ جائداد میں حصہ دے گا۔۔۔؟ باپ سے محبت، باپ کی محبت میں کی جاتی ہے۔ مرشد روحانی استاد۔۔۔ شفیق باپ ہیں۔ ان کے پاس جا کر میں ان سے ان کے علاوہ کچھ اور مانگوں۔۔۔؟

Topics


Murshid Ki Batein

خواجہ شمس الدین عظیمی



حضور قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں 

بچہ ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے 

استاد تراش خراش کے اسے ہیرا بنا دیتے