Topics

طلوع غروب ۔غروب طلوع


رات گہرے کالے  رنگ میں ڈوبی ہوئی تھی۔آنکھیں بند۔۔ بند آنکھوں کے پیچھے اسکرین سیاہ تھی۔ خیال بے خیال ہوا تو اسکرین پر اسکرین اشکال بننا شروع ہوگئیں۔اسے گول، سیدھی، ترچھی لکیروں والی شکل کہیں یا پھر Geometrical shapes       یہ خلا میں قائم ہیں اور ایک دوسرے کے مابین خلا ہے۔ دائرہ اور مثلث میں ڈایا گرام۔۔ ڈایا گرام میں یکجا بہت سی تصویروں کے عکس، ہر عکس میں مخلوق۔ڈایا گرام میں بنے ہوئے آدمی میں نظر آتا ہے کہ لامحدود عکس۔ ہر عکس ایک وجود اور ہر وجود کسی ایک مخلوق کا ہیولیٰ ہے۔مخلوق کا ہر یونٹ ایک دوسرے میں جذب ہے اور الگ بھی ہے۔ جیسے ہم آئینہ دیکھتے ہیں۔ صورت آئینہ میں نظر آتی ہے لیکن آئینہ میں موجود ہونے کے باوجود الگ بھی ہے۔تحریر بظاہر مشکل ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ آئینہ کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو آئینہ میں تصویر نظر آتی ہے۔یعنی آئینہ نے تصویر کو دیکھا اور ہم نے آئینہ کے دیکھنے کو دیکھا۔ آئینہ نے ہمارا عکس قبول کیا اور ہمیں الٹا دیکھا جب کہ دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ میں سیدھا دیکھ رہا ہوں۔

            بات تفکر کرنے کی ہے۔۔۔ سمجھ آ جاتی ہے۔

            تجرباتی مشاہدہ ہے کہ جب اس نے آسمان اور زمین میں موجود کسی شے پر غور کیا، پلکیں ٹھہریں اور اس شے نے حرکت کرنا شروع کی۔ خیال نے تصحیح کی اور کہا۔۔ وجود چاہے مٹی کا ہو یا ستاروں کا، اس وقت حرکت نہیں کرتا جب تمہاری نظر ان پر رکتی ہے بلکہ نظر کے رکنے سے تم ان کی حرکت دیکھ لیتے ہو۔ یہ دیکھنا اصل میں دیکھنا ہے۔ تم نے ستاروں کو دیکھا، اندر کی آواز سنی۔ ستارے حرکت میں ہیں اور آواز بھی گونج رہی ہے ۔ ان سب میں آدمی رک گیا ہے اور اپنے ٹھہرنے کو ہر شے پر قیاس کر رہا ہے۔

             جب  وہ کائناتی نظام پر غور کرتا ہے تو خیال کہتا ہے حقیقت ان لوگو ں پر روشن ہوتی ہے جو تقویٰ  اختیار کرتے ہیں۔ تقویٰ کی تعریف قربت ہے۔ پرہیز گاری اور احتیاط اس وقت کی جاتی ہے جب احساس غالب ہو کہ اللہ دیکھ رہا ہے ۔ آدمی یہ تو سوچتا ہے کہ احتیاط کرے لیکن احتیاط کے دوسرے رخ قربت پر غور نہیں کرتا۔ احتیاط کے بجائے قربت کا احساس غالب ہو جائے تو محبت فاتح عالم ہے۔

            قرآن کریم پڑھ رہا تھا کہ ایک آیت پر رک گیا۔

                        ” آفتاب ڈھلنے کے بعد سے رات کے اندھیرے تک صلوٰۃ قائم کیجیے۔ اور فجرمیں قرآن بھی۔ بے شک فجر کا قرآن پڑھنا حاضر ہونے کا وقت ہے۔ اورکسی قدر رات کے حصہ میں سو اس میں تہجد پڑھا کیجیے جو آپ کے لیے نفل ہے۔

                        امید ہے آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود میں جگہ دے گا۔“                                  ( بنی اسرائیل  :  ۷۹:۷۸)

            سمجھنے کی کوشش کی کہ جب سورج یہاں غروب ہوتا ہے تو کہیں اور طلوع ہو جاتا ہے۔ یہاں غروب وہاں طلوع، وہاں غروب یہاں طلوع۔ ایک جگہ غروب ہونا دوسری جگہ طلوع ہونا ہے پھر سورج غروب ہو نا کیا ہے۔؟

رات کے اندھیرے تک یعنی صبح صادق تک صلوٰۃ کا قیام۔ تہجد کی تاکید ہے اور فجر میں قرآن کریم پڑھنے کو حاضر ہونے کا وقت بتایا گیا ہے ۔ مزید ارشاد ہے،

                        ” اور دعا کرو کہ پرور دگار، مجھ کو جہاں بھی لے جا صدق کے ساتھ لے جااور جہاں سے بھی نکال، صدق کے ساتھ نکال اور سلطان کو میرا مددگار کردے۔“                                             ( بنی اسرائیل : ۸۰)

            اگلی آیت میں اللہ نے حواس کی رفتار کو بڑھانے کے لیے سلطان کو مددگار بنانے کی دعا کا حکم دیا ہے۔ سلطان روح ہے۔ فجر کے وقت میں ایسی کیا بات ہے کہ قرآن کریم پڑھنے والا بندہ اللہ کے سامنے حاضر ہو جاتا ہے۔۔؟ بات کو سمجھنا اس وقت ممکن ہے جب آدمی عمل کرے۔ سوچا وقت سے واقف ہونے کے لیے سو کر وقت نہیں گزارا جا سکتا بلکہ جو وقت ہے اس میں جاگا جائے۔ ارادہ کیا کہ باقاعدگی سے صبح صادق کے وقت قرآن پڑھے گا تا کہ ایت سمجھ میں آجائے۔

جب سے ارادہ کیا ہے مخصوص وقت پر بغیر الارم کے آنکھ کھلتی ہے اور ہر بار اٹھنے پر پہلا خیال آتا ہے کہ قدرت مدد کر رہی ہے کہ وہ جاگے اور آیت سے واقف ہو۔ نیند بھری آنکھوں کے ساتھ اٹھ کر بیٹھتا ہے، ہمت نہیں ہوتی اور سو جاتا ہے۔ پانچواں دن ہے کہ وہ صبح اٹھ کر خود کو ملامت کرتا ہے کہ سو کیوں گیا۔

  مرشد کے پاس بیٹھا تھا۔سوال کرنے والا تھا کہ انہوں نے فرمایا، ” ساری عمر تو سو لیے، اتنا سو کر کیا کرنا ہے۔۔؟ “ بات گہری تھی۔

            فرمایا، ” جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے۔۔ نیند ضروری ہے لیکن جاگنا بھی سیکھو۔ “

            سخت شرمندہ ہوا تو انہوں نے فرمایا، ” اچھا کیا جاننا چاہتے ہو۔۔۔؟“

       عرض کیا، جاننا چاہتا ہوں کہ فجر میں ایسی کیا بات ہے کہ حواس کی رفتار بڑھ جاتی ہے اور اللہ چاہے تو بندہ کو حاضری نصیب ہوتی ہے۔۔۔؟

            فرمایا ” حیوانات، نباتات، جمادات، سماوات اور سمندری تخلیقات میں امر مشترک ہے کہ ہر ذی روح یا بزعم خود غیر ذی روح سمجھی جانے والی مخلوق شعور رکھتی ہے۔ شعور کے دو زاویے ہیں۔۔

            ۱۔ حواس اس طرح کام کریں کہ زمان اور مکان دونوں کا عمل دخل ہو۔ عمل دخل کے بغیر زندگی کا رخ متعین نہیں ہوتا۔ اس بالواسطہ میڈیم میں وقت ( زمان) ٹکڑوں میں تقسیم ہے۔ ٹکڑوں میں تقسیم سے مراد ہے کہ چلتے ہوئے ایک قدم اٹھانے کے بعد دوسرا قدم اٹھانا مجبوری ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ ایک قدم اٹھا اور اس کے بعد دوسرا قدم اسپیس پہ آیا۔ ان دونوں کے درمیان فاصلہ ہے۔ یہ فاصلہ اسپیس ہے۔ لیکن ایک قدم کے بعد دوسرا قدم زمین پر آنے تک کم سے کم یا زیادہ سے زیادہ وقفہ زیر بحث آتا ہے۔ دس قدم چلنے میں ہم ٹائم اور اسپیس کو نظر انداز نہیں کر سکتے اور نہ ہی دس قدم اٹھانے کے بعد کسی بھی طرح زمان و مکان دونوں کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ زمان و مکان، شعور لاشعور زندگی کے دو رخ ہیں۔شعور لاشعور تحریکات کی بنیاد پر مجبور ہے کہ وہ  gravity   کی غیرمتعین حدود میں رہ کر عمل کرے۔ بتانا یہ چاہتا ہوں کہ زمین   (earth)     اسپیس کے قائم مقام ہے۔ اور زمین کی محوری اور طولانی گردش زمان  (time)   کی پابند ہے۔

 

            ۲۔ لاشعور ، شعور کے برعکس زندگی ہے۔equation       یہ ہے کہ شعور جب   suspend  ہو جاتا ہے تو شعور کی بنائی ہوئی عمارت ڈیڈ باڈی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ زندگی کی بیلٹ لاشعور پر متحرک ہے۔ قانون یہ ہے کہ شعوری دلچسپیاں اعمال و حرکات، بھوک پیاس، سردی گرمی وغیرہ کا اس وقت بھی عمل دخل قائم رہتا ہے جب شعور  suspend  ہو۔ نیند کی مثال سامنے ہے۔“

            چھ سال سے وہ شعور اور لاشعور کے بارے میں پڑھ رہا ہے اور ہر بار بات نئے زاویہ سے سامنے آتی ہے۔ آخر ایک ہی بار میں مطلب سمجھ میں کیوں نہیں آجاتا۔۔۔؟ جانتا تھا کہ سوال درست نہیں ہے اور پوچھنے کی غلطی نہیں کرے گا۔ خیال نے کہا، ایسے سوال کا مطلب روحانی علوم کی اہمیت سے نا وافق ہو نا ہے۔ ڈھائی سال کی عمر میں تم  kindergarten  میں داخل ہوئے اور پھر بارہ سال لگے میٹرک کرنے میں۔ بعد کی تعلیم کا عرصہ الگ ہے۔ ہم روحانی علوم ایک ہی دن میں سیکھ لینا چاہتے ہیں اور محنت بھی نہیں کرتے۔ بس شیخ سے اتنا پوچھا کہ لاشعور اور شعور کیا ہے۔۔۔؟

            شیخ جو بغور دیکھ رہے تھے فرمایا، ” زندگی کا تجربہ یہ ہے کہ ہم جو حرکات یا اعمال شعوری زندگی میں کرتے ہیں ویسا سب کچھ لاشعوری زندگی ، نیند میں بھی کرتے ہیں۔ لاشعوری زندگی کے تاثرات اس طرح اثر انداز ہوتے ہیں جس طرح شعور میں ہوتے ہیں۔ ہم ڈرتے ہیں خوش ہوتے ہیں کھانا کھاتے ہیں سوتے جاگتے ہیں انتظار کرتے ہیں کچھ دیتے ہیں اور دوسروں سے کچھ لیتے بھی ہیں۔ ان اعمال و حرکات و سکنات کی موجودگی میں شعور اور لاشعور میں بظاہر کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ جب ہم سو جاتے ہیں شعور تقریباً   suspend  ہو جاتا ہے بجز اس کے کہ سانس کی آمد و شد جاری رہتی ہے پھر یہ سب کیا ہے؟ آسمانی کتابیں اور قرآن کریم کی تعلیمات بتاتی ہیں کہ شعور اور لاشعور زندگی کے دو رخ ہیں اور یہ دونوں رخ الٹ پلٹ ہوتے رہتے ہیں ایک دوسرے کے تعاون کے ساتھ۔

قانون قدرت کے تحت کتاب کے ایک ورق کے دو صفحات ہیں۔ ایک صفحہ پر لکھی ہوئی تحریر شعوری زندگی ہے اور ورق کے دوسرے صفحہ پر لکھی ہوئی تحریر۔۔۔ اس تحریر میں ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات وضاحت کے ساتھ لکھی ہوئی ہے۔“

            جواب لکھتے لکھتے صاحبِ شہود ہستی کو دیکھا تو قلم رک گیا۔ محسوس ہوا وہ خلا میں دیکھ رہے ہیں۔آنکھیں کھلی ہیں، پلکیں ساکت ہیں، آنکھ کی پتلی ٹھہری ہوئی ہے۔ بات جاری تھی لہذا وہ واپس کاغذ کی طرف متوجہ ہو گیا۔

” اس کو اس طرح سمجھیے کہ کتاب کا ایک ورق ہے۔ اس ورق کے دو صفحے ہیں۔ ایک صفحہ پر لکھی ہوئی تحریر کے جملوں میں اسپیس کا وقفہ ہے۔ دوسرا صفحہ لاشعور میں یہی تحریر وقفہ کے بغیر نظر آتی ہے جب کہ وقفہ اس میں بھی ہے۔ ہر مخلوق چرند ، پرند، جمادات، نباتات، دریا، سمندر سب کی زندگی ان دو دائروں میں مسلسل حرکت میں ہے۔اسپیس کا غلبہ ہو جاتا ہے شعور کی ورادات و کیفیات مظہر بن جاتی ہیں اور جب اسپیس ہونے کے باوجود وقفہ نظر نہیں آتا تو زندگی کے اعمال و حرکات لاشعوری زندگی ہیں۔ جو لوگ اللہ کی نشانیوں میں غور و فکر کرتے ہیں اور ان نشانیوں کے میکانزم سے اللہ کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ واقف ہیں وہ زمان و مکان کی حقیقت کا علم رکھتے ہیں۔“

            مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا، ” نیند کی حالت میں بشر وہ سارے کام کرتا ہے جو بیداری میں کرتا ہے لیکن نیند کے اعمال ، حرکات و سکنات میں اسپیس اور ٹائم ہونے کے باوجود نفی ہو جاتی ہے۔ نفی کیوں ہوجاتی ہے۔۔۔؟ اس لیے کہ شعور ٹکڑوں میں تقسیم ہونے والا ایک میکانزم ہے۔ نفی سے مراد ختم ہونا نہیں بلکہ ہمارے لیے کسی طرح اس کی پیمائش ممکن نہیں۔

            قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ ایک رات ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ ماضی میں اور حال میں سائنسی معلومات کے پیشِ نظر اگر حساب لگایا جائے تو ایک رات برابر ہے 60 ہزار دن رات کے۔ 60 ہزار دن رات کتنے گھنٹوں کا مجموعہ ہیں۔۔۔۔؟ غور و فکر کریں اور بتائیں کہ ساٹھ ہزار دن رات کے کتنے گھنٹے اور کتنے منٹ بنتے ہیں۔۔۔؟“

            جتنی دیر وہ خیال سے ہم کلام ہوتا ہے پلکوں کا جھپکنا کم ہو جاتا ہے۔ جواب اس وقت ذہن میں آتا ہے جس لمحہ آنکھوں کے ڈیلے ساکت ہوتے ہیں۔ یہ کوئی انہونی نہیں، غور کیجیے سب کے ساتھ ہوتا ہے۔ سوچتے سوچتے آنکھیں بند ہوئیں۔ برق رفتاری سے خیال کی روشنیاں پھیلیں، اس نے آنکھیں کھول دیں اور خود سے کہا۔۔۔ جب ہم سوتے ہیں تو پلکیں ساکت ہو جاتی ہیں۔ہم نیند کی دنیا میں داخل ہوتے ہیں جہاں وقت کی رفتار کی پیمائش ممکن نہیں اور ہم کہاں سے یہاں۔ یہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف ارادہ اور اختیار ہی نہیں ، پلک جھپکنے کا بھی محدودیت اور لامحدودیت سے تعلق ہے۔ یہ وہ باتیں نہیں جو آدمی نہ جانتا ہو لیکن غور نہیں کرتا اور جب غور کرتا ہے تو بظاہر عام نظر آنے والی بات کے پیچھے مکمل علم ہے۔ اس لمحہ وہ جس کیفیت سے گزرتا ہے، کسی دوسرے کو نہیں سمجھا سکتا جب تک دوسرا شخص خود اس کیفیت سے نہ گزرے۔

            ایک مرتبہ صاحبِ نظر ہستی نے کسی خاتون کو خواب کی تعبیر بیان کرتے ہوئے صاحبِ یقین بچہ کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا۔۔ ” تربیت کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ماں باپ دونوں خود کو صاحب ِ کردار ہوں ، بااخلاق ہوں، دونوں میں عفو در گزر ہو اور سخی ہوں۔ تربیت کا خاص خیال رکھا جائے اور دوستی کے لیے اچھے بچوں کا انتخاب کیا جائے۔ بچہ کو شروع سے بادب اور بااخلاق بنائیں اور اس کا یقینی طریقہ یہ ہے کہ ماں باپ اور بہن بھائی آپس میں ایک دوسرے کا ادب کریں۔ اس کے علاوہ رات کو ماں بچہ کو قرآن کی چھوٹی چھوٹی سورتیں سنائیں، اللہ ھو کا ورد کرے اور رسول اللہ        ؐ  کا بار بار تذ کرہ کیا جائے۔ سونے سے پہلے بڑوں اور چھوٹوں کو سلام کریں۔ کھانا کھانے سے پہلے اور بعد میں بڑے اور چھوٹے ہاتھ ضرور دھوئیں۔“

            اس نے یہ تحریر اپنی کزن کو پڑھ کے سنائی اور کہا۔۔۔ بچوں کی تربیت ایسے کرنی چاہئے ۔

            کچھ دنوں بعد جب وہ اپنے بھانجے کے ساتھ کھیل رہا تھا جس کی عمر پونے دو سال ہے۔ توتلی زبان اور میٹھے الفاظ میں ٹوٹے پھوٹے لفظ ادا کر کے بچی اسے اور وہ بچہ کو اپنی بات سمجھا رہا تھا۔ وہ جو کہتا، بچہ دہراتا۔ اس نے اللہ کہا۔۔ بچہ نے بھی اللہ کہا۔

            اس نے ترنم میں اللہ پڑھا، بچہ نے اسی ترنگ میں دہرایا۔

بچہ کے پاس  stuffed toys  تھے۔ اس نے بچہ سے کہا اب سونے کا وقت ہے۔ یہ سننا تھا کہ بچہ نے ایک کھلونے کو لٹایا اور تھپک تھپک کر اللہ ھو کہنا شروع کر دیا ۔ وہ مسکرا دیا۔

بچہ جو دیکھتا ہے وہ کرتا ہے۔ بچہ نے دیکھا کہ اس کی اماں اسے اللہ ھو اللہ ھو کہہ کر سلاتی ہیں تو بچہ نے اس عمل کو دہرایا۔ اس نے پوچھا۔۔ اللہ کہاں ہے؟

بچہ نے فوراً ہاتھ اٹھایا اور کہا۔۔۔ اللہ اوپر ہے۔

تھوڑی دیر بعد اس نے پھر پوچھا۔۔ اللہ کہاں ہے؟

 اسی طرح ہاتھ فضا میں بلند کیا اور کہا اللہ اوپر ہے۔ اس بار وہ اسے نیا جواب سکھانا چاہتا تھا۔اس نے اس کے دل پر ہاتھ رکھا اور کہا۔۔۔ اللہ یہاں ہے۔۔ بچہ یہ دیکھ کر مسکرا دیا۔

            مرشد کریم فرماتے ہیں، ” بچے ماں باپ کا عکس ہوتے ہیں ۔ بچہ وہ کرتا ہے جو ماں باپ کرتے ہیں۔ ایک شخص خود جھوٹ بول کر، اونچی آواز میں بات کر کے اپنے بچے کو جھوٹ بولنے سے روکے اور دھیمی آواز میں بات کرنے کا کہتا ہے تو کیا اس کا بچہ سچ بولے گا اور نرمی سے بات کرے گا۔۔۔؟ بچوں کی تربیت کے لیے ماں باپ کا صاحبِ اوصاف ہونا ضروری ہے۔“

            اس نے سنا تو تھا لیکن اپنے بھانجے کے ساتھ کئی روز گزار کر دیکھ بھی لیا کہ بچوں کی پلک کم جھپکتی ہے، ذہن کی رفتار تیز ہوتی ہے اور وہ فوراً یکسو ہو جاتے ہیں۔ اگر صحیح تربیت نہ کی جائے تو جیسے جیسے ایک دن دوسرے دن، ایک مہینہ دوسرے مہینہ اور ایک سال دوسرے سال میں داخل ہوتا ہے ، پلک جھپکنے کا عمل بتدریج بڑھتا رہتا ہے۔ خیال آیا۔۔ اللہ نے ہر بچہ کو دین فظرت پر پیدا کیا ہے تو کیا زیادہ پلک جھپکنے سے ہم فطرت سے دور ہو جاتے ہیں۔۔۔؟

            مرشد کریم کسی مضمون کی تصحیح کرواتے ہوئے رکے اور خلا میں دیکھا۔۔ اس طرح کہ پلک جھپکی نہ آنکھ نے حرکت کی۔ مرشد خلا میں دیکھ رہے تھے اور  وہ مرشد کو۔ محسوس ہوا ایسے دیکھنا بے ادبی ہے۔ نظر ہٹا لی۔ چند لمحوں بعد انہوں نے دوبارہ لکھوانا شروع کیا۔ اس منظر نے تجسس کو بڑھا دیا۔

            بعد میں  ان سے عرض کیا۔۔۔ میں نے محسوس کیا ہے آپ کی پلک بہت کم جھپکتی ہے یا پھر جھپکتی ہی نہیں اور جب آپ کسی بات پر غور کرتے ہیں تو آنکھ کے ڈیلے اس طرح ساکت ہو جاتے ہیں جیسے نظروں کے سامنے ہماری دنیا کی طرح کوئی اور دنیا روشن ہے۔ جاننا چاہتا ہوں کہ پلک جھپکنا اور نظر کا ساکت ہونا کیا ہے اور اس کا وقت کی رفتار سے کیا تعلق ہے۔۔۔؟

 فرمایا ، ” خیال مسلسل آتا ہے لیکن خیال میں تبدیلی ہوتی ہے۔ اس کو کہتے ہیں خیال کے قیام کا بڑے سے بڑا وقفہ پندرہ منٹ ہے۔ اسی صورت سے ہر آدمی کا نظام ہے۔ خیال تب آئے گا جب آپ کی پلک جھپکے گی۔ اس کی مثال کیمرہ ہے۔ فوکس کیا، شٹر گرایا، تصویر آجاتی ہے۔ شٹر نہ گراؤ، تصویر نہیں آئے گی۔ پلکیں شٹر کا کام دیتی ہیں۔ اگر پلک نہ جھپکے کچھ دیر کے بعد منظر غائب ہو جائے گا اس کے بعد اس کا ایک قاعدہ ہے، اس پر عمل کر لیا تو زمین اور زمین کے اندر اور خلا میں سب نظر آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی لاشعور کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو وہ پلک جھپکنا بھول جاتا ہے۔ بچوں کا بھی یہی ہے کہ تین ساڑھے تین مہینے تک پلک نہیں جھپکتی۔ آہستہ آہستہ  vocabularyبڑھتی ہے۔ جس مناسبت سے بڑھے گی اسی مناسبت سے شعور بڑھے گا۔ اگر پلک نہ جھپکے تو آدمی شعور کے دائرہ کار سے نکل جائے گا۔ کیمرے کو دماغ تسلیم کر لیں تو بات آسانی سے سمجھ آجائے گی۔“


Topics


Murshid Ki Batein

خواجہ شمس الدین عظیمی



حضور قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں 

بچہ ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے 

استاد تراش خراش کے اسے ہیرا بنا دیتے