Topics

جو سنا نہیں، سنا دیتا ہے۔۔۔جو دیکھا نہیں، دکھا دیتا ہے

                                                                                                                                      شام کے وقت دن کی تھکن اتارنے کے لیے ٹیرس پر آ بیٹھا۔ گھر میں سب کو ہریالی پسند تھی۔ مکان کے اطراف میں دور تک شجر کاری کی گئی تھی۔ بعض پودے چھوٹے درخت بن گئے تھے۔ اب نہ صرف یہاں وہ رہتے بلکہ ڈھیر سارے پرندے بھی درختوں پر آکر بس گئے تھے۔ دوسرے جانور سستانے کے لیے یا پھر جب دھوپ کی تمازت سے گھبرا جاتے ، اسی گلی کا رخ کرتے جہاں پانی تھا، ان کا دانہ تھا اور درختوں کی چھاؤں بھی۔

                                                                         دن کا یہ حصہ وہ پرندوں کو چہچہاتے، ڈالیوں پر جھومتے، ایک شاخ سے دوسری شاخ پر پھدکتے، دانہ چگتے ، پانی پیتے اور اس میں نہاتے ، مٹی کے ڈھیر پر پروں کو صاف کرتے، تنکوں کو جمع کرتے اور قریب کسی محفوظ مقام پر گھونسلہ بناتے دیکھ کر گزارتا۔ ان میں خاکی، سرخ اور ہرے رنگ کی چڑیا تھی اور سفید  اور کالے کبوتر بھی۔ کبھی کبھی سارس بھی اس طرف آجاتے۔ کچھ پرندے ایسے تھے جن کا اسے نام بھی معلوم نہیں ۔ کوئی کنگ فشر کے جیسا تو کسی کی دم مچھلی جیسی ہوتی۔ کوئی فاختہ کی نسل کا تھا تو کوئی ابابیل کی جسامت کی چھوٹی چڑیا۔ کبھی کبھار

Migrating birds  غول کے غول آتیں اور اڑ ان کے دوران ہم آواز ہو کر گنگناتی گزر جاتیں۔ یہ سارے مناظر دل فریب ۔۔۔ بہت دل فریب تھے۔

                                                                                                                   وہ باقاعدگی سے پرندوں کے لیے باجرہ اور پانی رکھتا۔ پرندوں کی تعداد بڑھ رہی تھی جن میں چڑیاں زیادہ تھیں۔ اکثر اوقات وہ رات میں برتن بھر دیتا تا کہ صبح پرندے جاگیں تو برتن خالی نہ ہو۔ پرندے اس کے گھر والوں سے مانوس ہو گئے تھے کیوں کہ کسی روز وہ لوگ باجرہ رکھنا بھول جاتے تو چڑیا صبح صبح Chorus  میں چوں چوں گاتیں۔۔۔ اتنا کہ سونے والا جاگ جاتا اور اسے معلوم ہو جاتا کہ دانہ نہیں ہے۔ پرندوں کو محویت سے دانہ چگتے ، واپس شاخوں پر بیٹھتے، کھیلتے اور تھوڑی دیر بعد اتر کر پھر دانہ چگتے دیکھ کر چہرہ پر تبسم چھا جاتا۔وہ سوچتا اللہ کتنا عظیم اور محبت کرنے والا ہے جو زمین کی تاریکیوں سے لے کر بحروبر تک ہر مخلوق کے رزق کا انتظام کرتا ہے۔ شہنشاہ ہفت اقلیم نانا تاج الدین ؒ نے بھی کیا خوب فرمایا ہے:

اجگر                                        کریں                        نہ                                         چاکری          ،                          پنچھی                           کریں                                  نہ                                    کام

داس                                         ملوکا                                           کہہ                                             گئے                                      سب                                   کے                                    داتا                                               رام           
 

             

                                                             تاج ملت و دین، حامل علم لدنی، واقف اسرار کائنات حضرت سید محمد تاج الدین ؒ وہ مبارک ہستی ہیں جن کی عظمت کا حال لکھنا نا چیز کے بس میں نہیں۔بابا تاج الدین ؒ کے نواسے ابدالِ حق حضور قلندر بابا اولیا ؒ کا ارشاد ہے،

                                                    "  نانا تاج الدین ؒ جیسی برگزیدہ ہستی ساڑھے تین ہزار سال میں اللہ اپنے خصوصی کرم سے پیدا کرتا ہے۔یہ ساری کائنات چار نورانی آبشاروں پر قائم ہے۔ نانا تاج الدینؒ کی عظمت کا حال یہ ہے کہ نور اور تجلیات کی ان چاروں آبشاروں کو اپنے اندر اس طرح جذب کر لیتے ہیں کہ ایک قطرہ بھی اِدھر اُدھر نہیں ہوتا۔ رسول اللہ ﷺ سے قربت کا عالم یہ ہے کہ حضور رحمتہ للعالمین ﷺ نے اپنے فرزند کی کوئی بات کبھی نامنظور نہیں کی۔"

                                                                                        نانا تاج الدین ؒ شاعرانہ ذوق بھی رکھتے تھے۔ داس ملوکا ان کا تخلص ہے جس کے معنی اللہ کا بندہ ہے۔ اللہ کی ربوبیت کا ذکر کرتے ہوئے نانا صاحب ؒ فرماتے ہیں کہ " چوپائے ملازمت نہیں کرتے اور پرندے کاروبار نہیں کرتے جب کہ رزق انہیں ملتا رہتا ہے۔ داس ملوکا کا کہنا ہے کہ دوستو! سب کی پرورش کرنے والا اللہ ہے۔"

                                                                                            کتاب بابا تاج الدین ؒ میں تحریر ہے کہ تمام عالم اللہ کے نظامِ تکوین میں سات حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو سات (ہفت) اقلیم کہلاتے ہیں۔ چناں چہ باعث تخلیق کائنات حضور پاک ﷺ کا وہ نائب جس کے انتظام و اختیار میں ساتوں اقلیم ہیں، شہنشاہ ہفت اقلیم کہلاتا ہے۔ یہ اعزاز نانا تاج الدین ؒ کو حاصل ہے۔

                                                                         نانا تاج الدین ناگپوری ؒ کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ کرامت ہے۔ ان کا ذہن ذات الہٰی کی تجلیات میں اس قدر محو ہوتا تھا کہ خرق عادت بطور عادت ان سے صادر ہوتی۔ لفظ کیا ادا ہوتے، بگڑی بن جاتی۔ نانا صاحب ؒ نے مسلسل 35 سال عوام میں رہ کر لوگوں کے مسائل حل کیے اور روحانی تربیت کی۔ کوئی ضرورت مند اس شفیق و انسان دوست ہستی کے گھر سے خالی نہیں لوٹا۔ اولیا ء اللہ کا فیض کبھی محل و وقوع کا پابند نہیں رہا۔ دور دراز رہنے والے عقیدت مند آستانہ پر آئے بغیر نانا صاحب ؒ کی توجہ سے راحت پاتے۔ جن و انس کے ساتھ تمام مخلوقات ان کے تابع فرمان تھیں۔

                                                             نوجوان عثمان اسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر کی حیثیت سے ناگ پور میں تعینات ہوا۔جبل پور کا رہنے والا تھا۔ ناگ پور میں اس کے تین ہم وطن عبدالغفار ، فضل کریم اور عباسی تھے۔ ملاقات ہوئی تو طے ہوا کہ شہر جا کر چائے پئیں گے اور موقع ملا تو بابا صاحب ؒ کی خدمت میں حاضری دیں گے۔

                                                                سارے راستے یہی گفتگو ہوتی رہی۔ بات سے بات نکلی تو ذکر معراج کا آیا۔ فضل کریم روحانی اور عبدالغفار جسمانی معراج کے قائل تھے۔ شکر درہ پہنچے تو دیکھتے ہیں کہ ایک فوٹو گرافر بابا صاحب ؒ کی تصویر لینا چاہتا ہے اور بابا صاحب ایسا نہیں چاہتے۔ وہ ذات ِ الہٰی میں اس قدر محو رہتے تھے کہ مصنوعی روشنی سے ان کی تصویر کھینچنا ممکن نہیں تھا۔

                                                ایک مرتبہ نانا تاج الدین ؒ کا گروپ فوٹو لیا گیا تو تصویر میں ان کی جگہ خالی تھی۔ خیر ! بہت اصرار کے بعد کرسی پر بیٹھے لیکن جیسے ہی بٹن دبتا، بابا صاحب ؒ ہل جاتے۔

                                                 فوٹو گرافر افسردگی سے بولا ،     " بابا صاحب ؒ میں تو آپ کی تصویر فروخت کر کے بال بچوں کا پیٹ پالنے کی فکر میں تھا مگر آپ کو ذرا خیال نہیں۔"

                                                                                                          "کیا بولا رے، کیا بولا !"                                             بابا صاحب ؒ تڑپ گئے ۔  " لے، اچھا اتار لے مٹی کی تصویر!" ۔ تصویر کھینچ لی گئی۔ فوٹو گرافر نہال ہو گیا۔

           بابا کی نگاہ ناگ پور سے آئے چار دوستوں پر پڑی تو تیوری پر بل پڑ گئے اور فرمایا، " انگریزی پڑھ کر آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضور پاک ﷺ کو معراج روحانی ہوئی تھی!"

                                                     چاروں چونک گئے اور بابا تاج الدین ؒ حجرہ کی طرف چل دیئے۔ ہمت نہیں ہوئی کہ ان کے سامنے جائیں۔ واپسی کا ارادہ کیا مگر عثمان اور عبدالغفار آگے بڑھے۔

                              ایک خدمت گار بابا صاحب ؒ کے پاؤں دبا رہا تھا۔

بابا صاحبؒ نے اسے روکا اور عبد الغفار کی طرف دیکھ کر بولے ۔ " لے رے لڑکے، تو پیر دبا۔"

عثمان نے شامل ہونا چاہا لیکن بابا تاج الدین ؒ نے منع کر دیا۔

عبدالغفار نے پنڈلی کو ہاتھ لگایا تو بے حد سخت تھی۔ بابا صاحبؒ نے پٹھے اکڑا لیے تھے۔ دو منٹ کے بعد ہاتھ روکتے ہوئے کہا، " بابا! آپ تو پنڈلی اکڑائے بیٹھے ہیں، پاؤں کیسے دباؤں؟"

" تو ڈھیلی کر لے نا، سائنس کا زور !"

" اس میں سائنس کام نہیں آتی۔ آپ خود پاؤں ڈھیلا چھوڑ دیجیے۔" بابا تاج الدین ؒ پہلے ہنسے اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا، " تو اچھا لڑکا ہے، بتا کیا چاہتا ہے؟"

" بابا ! پڑھ لکھ کر تو نوکری مل جائے گی لیکن اللہ کیسے ملے؟"

وہ قدرے چونک کر فرمانے لگے ، " محنت کرتے، بچے پالتے، اللہ مل جاتا جی۔"

فضل کریم اور عباسی داخل ہوئے تو وہ ان کی طرف متوجہ ہوگئے۔

" کیوں رے! اب بتا حضور پاکﷺ کو معراج روحانی ہوئی تھی یا جسمانی؟"

دونوں خاموش رہے۔ عبدالغفار فوراً بولا، " بابا غلطی ہوئی، معاف کر دو۔"

فرمایا ، " کرسی پر بیٹھو گے، فوٹو اترواؤ گے، پھر سمجھ میں آئے گا۔ اچھا اب تم جاؤ۔"

                                               اسی لمحہ عثمان کو بنکٹ راؤ گارڈ کونے میں بیٹھا نظر آیا۔ وہ ٹکٹکی باندھے بابا تاج الدین ؒ کو دیکھے جا رہا تھا۔ بنکٹ راؤ کو سوا چھ بجے والی گاڑی لے کر بمبئی جانا تھا۔ پندرہ منٹ رہ گئے تھے اور اس نے وردی بھی نہیں پہنی تھی۔ وقت کم تھا اور اسٹیشن کا فاصلہ زیادہ۔ پہنچنا ممکن نہیں تھا۔بابا صاحب ؒ نے بنکٹ راؤ کو سلیمان کہہ کر مخاطب کیا اور آہستہ سے کچھ کہا۔ بنکٹ راؤ مسکرادیا مگر اپنی جگہ پر بیٹھا رہا۔

           چاروں دوست بابا صاحب ؒ کی روشن ضمیری سے متاثر ہو کر وہاں سے رخصت ہوئے۔

                                             راستہ میں عثمان نے کہا، بنکٹ راؤ کو سوا چھ بجے مسافروں کو لے کر آٹاری جانا ہے، ایک منٹ رہ گیا ہے لیکن وہ تو بابا صاحب ؒ کے پاس بیٹھا ہے۔ فضل کریم نے پوچھا کہ یہ وہی گارڈ تو نہیں جو دہری شخصیت کی وجہ سے مشہور ہے۔ بیک وقت بابا کے پاس بھی رہتا ہے اور ڈیوٹی پر بھی۔ سنا ہے بابا صاحب ؒ کا خاص معتقد اور فنافی الشیخ ہے۔

                                      چاروں نے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پہ قدم رکھا ہی تھا کہ ریل کی سیٹی بجی اور مسافروں کو لے کر گاڑی اٹاری روانہ ہوئی۔ گارڈ کا ڈبا سامنے سے گزرا اور وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بنکٹ راؤ وردی میں ملبوس سبز جھنڈی لہرا رہا ہے۔اس نے انہیں سر کی جنبش سے سلام کیا اور دور تک مسکراتا رہا۔

                                    بنکٹ راؤ کا اتنے کم وقت میں اسٹیشن پہنچنا معمہ بن گیا۔ ایک ساتھی نے تجویز دی کی بابا صاحب ؒ کے پاس واپس جا کر واقعہ کی تصدیق کرنی چاہیئے۔دوبارہ شکر درہ پہنچے۔ فضل کریم اور عباسی بابا صاحب ؒ کے سامنے جاتے ہوئے ہچکچاتے تھے۔ عبدالغفار اور عثمان نے ہمت کی۔

                                              حجرہ سے میلاد شریف کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ جھانک کر دیکھا سلام پڑھا جا رہا تھا۔ بابا تاج الدین ؒ حالتِ وجد میں جھوم رہے تھے اور بنکٹ راؤ ان کے قریب مودب کھڑا تھا۔ بابا جی ؒ کی آنکھیں بند اور اشک رواں تھے، " ارے فوج! درود پڑھو۔ بڑے سرکارﷺ کی سواری آرہی ہے۔"

          درود کی صدائیں بلند ہوئیں اور لطیف خوشبو پھیل گئی۔ سلام پڑھا جا چکا تھا۔

                                                                      بابا صاحب ؒ فرش پر بیٹھ گئے۔اور بنکٹ راؤ فاصلہ پر۔ عثمان اور عبدالغفار دونوں حجرے کے دروازہ کی اوٹ میں کھڑے تھے۔ وہ یہ حیرت انگیز منظر دیکھ کر الٹے پاؤں پھاٹک کی جانب بھاگے۔ پھر عجیب منظر دیکھ کر ٹھٹھک گئے۔ بابا صاحب ؒ خود ان کے سامنے موجود تھے اور ان پر جلال کی کیفیت طاری تھی۔ انہوں نے پلٹ کر حجرہ کی طرف دیکھا تو آنکھوں پر اعتبار نہ ایا۔ بابا صاحب ؒ حجرہ میں تھے۔ سوچا شاید دوسرے بزرگ ہوں۔ لیکن بابا صاحب ؒ کی آواز نے شبہ دور کر دیا۔

       راستہ ایک تھا۔ کب اور کیسے وہاں پہنچے حیران و پریشان تھے۔

   "انگریزی پڑھنے والو! ، بتاؤ ، حضور ﷺ کو روحانی معراج ہوئی تھی؟" بابا تاج الدین ؒ کی آواز میں غصہ غالب تھا۔ " اب لڑاؤ اپنی سائنس!"

حضرت بابا تاج الدین ؒ سے ہر مذہب و ملت اور عقیدہ کے لوگوں نے فیض پایا۔ فیض کا دریا بنجر و خشک اور زرخیز زمین دونوں کو بغیر کسی امتیاز کے سیراب کرتا تھا۔ ہر شخص اپنے ظرف کے مطابق بابا صاحب ؒ کی نظر کرم سے مستفیض ہوتا تھا۔

            جناب بہادر پرشاد صاحب بیان کرتے ہیں کہ " ایک سادھو سے ملاقات کے دوران بابا تاج الدین ؒ کا ذکر آیا تو انہوں نے ناک بھوں چڑھا کر کہا، ہم ہندوؤں کے یوگ میں کس چیز کی کمی ہے جو تم ایک مسلمان فقیر کے والہ و شیدا ہو رہے ہو؟ میں نے ان سے کہا، آپ بابا صاحب ؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر تو دیکھئے۔چناں چہ میں سادھو صاحب کو لے کر شکر درہ حاضر ہوا۔ بابا تاج الدین ؒ محل کے اندر تشریف رکھتے تھے۔ ہم دور کھڑے ہو کر محل کی طرف ٹکٹکی باندھ کر درشن کا انتظار کرنے لگے۔ یکایک دیکھا جس جگہ کھڑے ہیں وہاں محل ہے نہ کوئی آشرم۔ کبھی ندی کنارہ شنکر جی کا درشن کرتے ہیں کبھی رام چندر جی کو دیکھتے ہیں اور کبھی خود کو کرشن جی کے پاس دیکھتے ہیں۔ ہم نے ایک لمحہ میں سارے اوتاروں کے درشن کر لئے۔ اتنے میں لوگوں کی آوازیں گونج اٹھیں۔

                                          اب  ہم ایک بار پھر شکر درہ کے محل کے سامنے ہیں اور ہمارے بابا تاج الدین ؒ کھڑے ہیں۔ بے اختیار قدموں میں گر پڑے اور اس کے بعد جو گزری وہ پربھوہی جانتے ہیں۔"

(حضرت بابا تاج الدین ؒ کی کرامات کتاب " بابا تاج الدینؒ " سے مختصراً تحریر کی گئی ہیں)

پرندوں کی چہچہاہٹ اسے واپس پاکستان لے آئی۔ خیالوں ہی خیالوں میں وہ ناگ پور پہنچ گیا تھا۔ باہر کی دنیا سے اندر کی جانب متوجہ ہو ا تو ناگ پور کی گلیاں، بازار، چوبارے، مکانات، چار دوستوں کا سفر، اسٹیشن پر گہماگہمی، سیٹی بجنا، چلتی ہوئی ٹرین پر وردی میں ملبوس جھنڈی لہراتا مسکراتا بنکٹ راؤ، شکردرہ کا محل، نانا تاج الدین ؒ اور ان کا آستانہ۔۔۔ سارے لفظ منظر بن گئے۔

                                 تخیل بھی عجب شے ہے۔ جو نہیں دیکھا وہ دکھا دیتا ہے، جو سنا نہیں وہ سنا دیتا ہے، جو سمجھا نہیں سمجھا دیتا اور جو کہا نہیں کہلا دیتا ہے۔مرشد کریم یہ بات کئی بار سمجھا چکے ہیں کہ نشریاتی ہیڈ کوارٹر سے نکلنے والی لہریں جب سیٹلائیٹ کے ذریعے زمان و مکان کی کسی حد تک نفی کرتے ہوئے مشرق سے مغرب ، شمال سے جنوب، جنوب سے شمال تک پہنچتی ہیں تو ایک فرد کتنے گھروں میں پہنچ جاتا ہے۔ خدوخال اور آواز میں فرق نہیں ہوتا۔ پھر ٹی وی سے باہر کسی کا بیک وقت متعدد جگہ پر موجود ہونا انہونی بات کیوں ہے؟

                                                                 مواصلاتی نظام کو یہ صلاحیت کس نے دی؟ محقق نے۔

                  محقق اس صلاحیت کو براہ راست اپنے لیے استعمال کیوں نہیں کر سکتا۔۔؟

            خیال نے کہا، قانون سے تو وہ واقف ہے بس اند ر کی تاروں کو تارسے ملانے کی دیر ہے۔ اندر کی تاریں جڑ کر جب سوئچ بورڈ پر لگیں گی تو من کی دنیا روشن ہو جائے گی۔

                         سوچ رہا تھا جس بات کو ہم انہونی کہتے ہیں وہ اولیا ء اللہ کے لئے ہونی ہے۔

   خیال نے پھر راہ نمائی کی اور کہا، کائنات روشنی ہے، روشنی حدود سے آزاد ہے اور حضور پاک ﷺ کے روحانی علوم کے وارث اولیاء اللہ روشنی سے واقف ہیں۔ نانا تاج الدین ؒ شہنشاہ ہفت اقلیم ہیں۔ جہاں جہاں روشنی ہے نانا تاج الدین ؒ وہاں ہیں۔ لیکن ان کو دیکھنے والی نگاہ ہر جگہ نہیں اس لیے آدمی ہونی کو انہونی کہتا ہے۔

Topics


Murshid Ki Batein

خواجہ شمس الدین عظیمی



حضور قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں 

بچہ ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے 

استاد تراش خراش کے اسے ہیرا بنا دیتے