Topics

اس کو چھٹی نہ ملی جس کو سبق یاد ہوا

                      روحانیت راز ہے اور راز یہ ہے کہ مرشد کے ایک حکم پر بھی عمل کیا جائے تو بندہ روحانیت کے دائرہ میں آجاتا ہے اس لئے کہ ایک حکم سارے حکموں سے منسلک ہے۔ مرشد کریم نے تفکر کا حکم دیا۔ ابتدا میں حکم کی اہمیت سے غافل ، توجہ نہیں دی لیکن اللہ کی مہربانی سے ایک وقت آیا جب احساس ہوا کہ شیخ طریقت درس و تدریس کے دوران جو قوانین سمجھاتے یا سولات پوچھتے ہیں، وہ ذہن میں کیوں نہیں بیٹھتے، جواب مجھے معلوم کیوں نہیں۔۔؟ بہت مرتبہ ایسا ہوا جواب نہ ملنے پر انہوں نے سوال اس طرح دہرایا کہ محسوس ہوا، جواب سامنے اور واضح ہے۔ ہمیں نظر نہیں آرہا۔

                                                                                      بالآخر ایک روز فرمایا ۔۔۔ ” تم ٹھوٹ ہو ٹھوٹ!“

                                                                                         خود سے پوچھا ، مرشد کی آواز پر میرا ذہن کیوں نہیں کھلتا؟

                                                                    خیال بولا، اس لئے کہ ذہن ۔۔۔ ذہن سے نہیں ملتا۔ جب تم حکم کی اہمیت کو نہیں سمجھتے تو پھر کیسی بیعت ؟ اس دن اس نے سوچا۔۔۔ میں ڈھٹائی سے سبق کو دہرائے اور تفکر کئے بغیر لیکچر میں شریک ہو جاتا ہوں اور ہر ہفتہ مستقل مزاجی سے اس مشق کو دہراتا ہوں۔ کیا یہ اُس ہستی کا ادب اور عقیدت و محبت ہے جو سراسر ایثار ہے، صحت اور موسم کی سختی کی پرواہ کئے بغیر اپنے مرشد کے حکم کی تصویر بن کر ہماری تربیت کرتی ہے۔۔؟

                                                                               اس نے اپنے سامنے جنون دیکھا اور ندامت کے سمندر میں ڈوب گیا۔

                              زندگی کی روش تبدیل ہوئی۔ مرشد کریم نے اگر دن رات کے بارے میں سمجھایا ، لہروں کا قانون بتایا یا پھر خلا اور قدرت کی طرف متوجہ کیا۔ اس نے وقت مقرر کر کے ہر روز لیکچر میں سمجھائے گئے نکات کو بار بار پڑھا،ان کی تحریروں میں مضمون سے متعلق جہاں پر جو کچھ لکھا ہے،سمجھنے کی کوشش کی اور نوٹس بنائے۔ قرآن کریم میں آیات تلاش کیں۔ اس دوران ذہن میں آنے والے الفاظ کو مفہوم کے ساتھ نوٹ کرتا پھر سارے ہوم ورک کو

سامنے رکھ کر غور و فکر کے بعد خلاصہ لکھ لیتا۔ علیحدہ نوٹ بک بنائی جس میں ہر ہفتہ دئیے گئے لیکچر کو اپنی رائٹنگ میں لکھا۔

                                                                اس مشق سے مرشد کریم کے الفاظ ذہن میں نقش ہو گئے۔۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ حکم پر عمل سے ضمیر کی ملامت کم ہو گئی۔ ڈر ختم ہو گیا کہ جواب صحیح ہو یا غلط۔۔ میرا کام کوشش ہے۔

                                                 اب جب کوئی سوال کیا جاتا ، کوشش ہوتی کہ جواب دینے کے لئے ہاتھ بلند کرے۔

مرشد کریم نے اس بات سے بے نیاز کہ جواب صحیح ہے یا غلط۔۔۔ حوصلہ افزائی کی۔جواب بتانے میں مشکل ہوتی تو وہ سوال در سوال کر کے بالآخر اس نکتہ پر لے آتے جو انہوں نے پوچھا تھا۔  یقین راسخ ہو گیا کہ سبق اچھی طرح سے پڑھ کر جانے سے شیخ خوش ہوتے ہیں جو شاگرد کے لئے اطمینان قلب ہے۔ تعمیل حکم سے ذہن میں غیر ضروری باتوں کا غلبہ کم اور مرشد کی باتیں غالب ہونا شروع ہوئیں۔ تعلق کا ایک قلبی سلسلہ بن گیا۔ میر طاہر علی رضوی کہتے ہیں،

مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا

اس کو چھٹی نہ ملی جس کو سبق یاد ہوا

                                                  سات سال پہلے کی بات ہے تعلیمی نشست کے دوران مرشد کریم نے آدم و حوا کے جنت سے زمین پر آنے کی وجوہات اور اس واقعہ میں حکمت سمجھائی ۔ اس کے بعد سوال پوچھا ،

            ”  وہ کون سا  محرک ہے جس کی وجہ سے جنت کی فضا نے آدم و حوا کو رد کر دیا۔۔۔؟“

                                                      مختلف جوابات دیئے گئے لیکن وہ مطمئن نہیں ہوئے۔

                                                       اس سے پوچھا ، ” تم بتاؤ۔“

                                                سب کی طرح اس نے بھی عرض کیا، نافرمانی کی وجہ سے۔

                               پوچھا ، ” نافرمانی کیوں ہوئی۔۔؟“

                                         عرض کیا، شیطان کے بہکاوے میں آگئے۔

” شیطان کے بہکاوے میں کیوں آئے۔۔؟“

                          اس لئے کہ ذہن اللہ سے ہٹ گیا۔

              اللہ سے ذہن ہٹنے کا مطلب کیا ہے؟“

                اللہ سے ذہن ہٹنا نا خوشی ہے۔

فرمایا ،” ٹھیک ہے۔ جنت کے ماحول میں ناخوشی نہیں ہے۔ ناخوشی کا سبب کیا بنا۔۔؟“

عرض کیا، نافرمانی۔

پوچھا ،” نافرمانی کیوں ہوئی۔۔؟“

سوال در سوال کر کے وہ پہلے سوال پر آگئے۔

خاموش رہا کہ اب کیا جواب دے۔ پشیمانی ہوئی کہ ذہن اس حد تک بند ہے کہ آسانی کرنے کے بعد بھی جواب تک نہیں پہنچ رہا۔

فرمایا ،” شاباش بتاؤ جنت سے زمین پر آنے کی بنیادی وجہ کیا ہے۔۔۔؟“

اس نے ایک نظر شیخ کو دیکھ کر شرمندگی سے سر جھکا لیا اور دل میں مدد کے لئے پکارا کہ مجھے کچھ نہیں آتا، میں ناقص ہوں ، میری مدد کریں۔

بارعب مردانہ آواز گونجی ۔۔۔” بغاوت!“

اور اس نے کہا ۔۔۔حضور ، بغاوت ۔۔۔ اللہ کے حکم سے بغاوت کی وجہ سے جنت سے زمین پر آئے۔

پُرزور لہجہ میں فرمایا۔۔” جی ! نافرمانی بغاوت ہے۔“

بشمول اس کے سب کی جان میں جان آئی۔

بات یہ نہیں ہے کہ مرشد ڈانٹ دیں گے، وہ نرمی سے کام لیتے ہیں۔ اہمیت اس امر کی ہے کہ شاگرد نہیں چاہتا مرشد کو ناگواری محسوس ہو۔

نشست کے بعد قریبی دوست سے پوچھا ، مجھے جواب کس نے بتایا تھا۔۔۔؟

حیرت سے دیکھا اور کہا، کسی نے نہیں۔ مرشد کریم نے تم سے سوال پوچھا ، ایسے میں کوئی درمیان میں کیسے

بول سکتا ہے۔۔۔؟

                                                                     زندگی میں ایسے بہت سے واقعات ہوتے ہیں جنہیں آدمی اتفاق کہہ کر گزر جاتا ہے۔ اللہ کے نظام میں کوئی شے اتفاق نہیں۔۔حکمت سے مرکب ہے۔ جب ہر شے کی مقداریں معین ہیں تو پھر حالات و واقعات کو اتفاق سمجھنا۔۔ لاعلمی ہے۔

                                                اولیائے کرام ۔۔۔ اللہ کے دوست ہیں۔ اللہ کے دوستوں کی محفل میں سکون اور خالق کائنات سے محبت و قربت ہے۔ مرشد کریم نے سکھایا کہ غورو فکر کیسے کرتے ہیں۔فرمایا ، ” قرآن کو ترتیب سے پڑھو۔ اس میں ایک ایک لفظ پر غور کرو۔ نفس مضمون یا اس لفظ کو پورے قرآن میں تلاش کرو اور پھر غور کرو۔ اللہ کی رحمت سے ذہن کھلے گا اور نفس مضمون کا مفہوم واضح ہوگا۔“

                                  ترتیب کے لحاظ سے قرآن کی ابتدا سورہ فاتحہ سے ہوتی ہے۔ اس سورہ میں کائناتی قوانین ہیں۔ سورہ فاتحہ سے پہلے اعوذ با للہ اور بسم اللہ پڑھی جاتی ہے۔

                                         مرشد کریم بسم اللہ پڑھتے ہیں تو دل پر ضرب محسوس ہوتی ہے۔ ایک روز سوچا کہ ضرور بسم اللہ میں بہت بڑی حکمت ہے جس کی وجہ سے اندر میں کوئی بار بار متوجہ کرتا ہے ۔ ما سوائے سورہ توبہ کے ہر سورہ کے ساتھ بسم اللہ لکھا ہے۔ کام کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا سکھایا جاتا ہے۔ غور کیا کہ اس کا مفہوم کیا ہے۔۔۔؟

                                                  لاشعور نے کہا کہ اعوذ با للہ پڑھ کر ہم فکشن حواس سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔ بسم اللہ پڑھ کر حقیقت میں داخل ہوتے ہیں۔ شیطان الرجیم ۔۔۔ فکشن حواس ہے، وہ جس کی ملامت کی گئی۔

                                                 اللہ نے فکشن حواس سے دیکھنے کی ملامت کی ہے اور دل کی آنکھ سے دیکھنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اکثر سوالوں پر شیخ طریقت نے ایک ہی جواب دیا کہ دل نے جو دیکھا جھوٹ نہیں دیکھا۔

                                                                بسم اللہ ۔۔۔اللہ کے نام سے جو رحمٰن و رحیم ہے ۔ کسی کام کو کرنے سے پہلے اللہ کا نام اس لئے لیتے ہیں تاکہ وہ ہو جائے ۔ اللہ جب کسی کام کو کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو حکم دیتا ہے”ہو“ اور وہ ہو جاتا ہے۔ مخلوق اللہ کے تصرف کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتی ۔بسم اللہ میں تخلیق کا قانون ہے کہ اس ذات کے تصرف سے ” ہو جا“ جس نے کائنات

تخلیق فرمائی ہے۔ خود سے کہا، صورت حال یہ ہے کہ اشرف المخلوقات ہو کر ہم ” تسمیہ “ پڑھتے ہیں لیکن کام نہیں ہوتا۔۔؟

                                          اندر میں آواز نے ملامت کی کہ تخلیقات میں اشرف ہونے کا جو تقاضا ہے وہ پورا نہیں ہوا۔ ذہن شے کو تخلیق کرنے یا باطن سے ظاہر میں لانے کی توانائی سے ناواقف ہے۔ اللہ کے حکم میں تاخیر نہیں ہے۔ تاخیر سے دوسرا خیال آتا ہے اور شک پیدا کرتا ہے۔ اللہ حکم دیتے ہیں اور وہ ہو جاتا ہے ۔ شک شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے اور ہم شیطان الرجیم۔ فکشن حواس میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کسی سورہ سے پہلے جب اعوذ با للہ اور بسم اللہ پڑھتے ہیں تو دراصل ہم اللہ کے حضور عرض کرتے ہیں کہ ہمیں شک وسوسہ سے محفوظ رکھ، خالص بندوں میں شامل کر اور اپنے کلام کے اسرار ہم پر ظاہر فرما یعنی یقین کی دنیا میں داخل کر دے۔

اعوذ با للہ من شیطٰن الرجیم اور بسم اللہ الرحمٰن الرحیم  پڑھنے کے بعد سورہ فاتحہ کی آیات پر تفکر سے پہلے سورہ کا نام غور طلب ہے۔

                                     فاتحہ کے بنیادی حروف ف ت ح ۔۔ فتح کے ہیں جس کے معنی ” کھولنا “ ہیں۔ فتح سے متعلق آیات تلاش کیں تو مفہوم یہ سمجھ میں آیا کہ حقائق و معارف اور اسپیس در اسپیس عالمین کا مشاہدہ ۔۔ غیب کے راستوں کا علم اللہ کے پاس ہے جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا بجز اس کے اللہ کسی کو ان راستوں کا علم عطا فرمائے۔

                                                              خشک اور تر ۔۔۔ بحر و بر میں سب کچھ اللہ کی ملکیت ہے ۔۔ شے کھلنے کا مطلب یہ ہے کہ کھلنے سے پہلے وہ بند ہے ۔ بند سے مراد یہ ہے کہ شے موجود ہے لیکن فرد کو ادراک نہیں یا ادراک مشاہدہ کے درجہ میں داخل نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،

                       

” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو میں بتاؤں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذاب الیماشرف

سے بچادے؟ ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول ؐ پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں

اپنے مال اور نفس سے۔ یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو۔ اور اللہ

تمہارے گناہ معاف کرے گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن

کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمہیں

عطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کامیابی ۔ اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو وہ بھی

تمہیں دے گا۔ اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی حاصل ہو جانے

والی فتح۔ اہل ایمان کو بشارت دے دو۔“       ( الصّف            :                  ۱۰۔۱۳)

                                                    ایمان کیا ہے ، اللہ اور رسول ؐ پر ایمان کا مطلب کیا ہے، مال اور نفس کا جہاد کسے کہتے ہیں، باغ کیا ہے اور نہروں سے کیا مراد ہےَ ابدی قیام کے کیا معنی ہیں، قائم ہونا کسے کہتے ہیں؟ جنت کی ٹائم اور اسپیس کے بارے میں اللہ کا کیا فرمان ہے؟ جو لوگ ان احکامات پر عمل کریں گے تو عن قریب انہیں اللہ کی مدد اور فتح حاصل ہوگی۔ ہر لفظ کو انڈر لائن کر کے قرآن میں تلاش کریں تو اس ایک آیت میں اسرار معانی کا جہاں آباد ہے۔

                                                                                                                     اسی طرح بیعت رضوان کے موقع پر ارشاد باری ہے:

            ” اللہ مومنوں سے خوش ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے ۔ ان کے

            دلوں کا حال اس کو معلوم تھا اس لئے اس نے ان پر سکنیت نازل فرمائی۔ ان کو انعام

            میں قریبی فتح بخشی۔“       ( الفتح  : ۱۸)

 

                            حامل علم لدنّی قلندر بابا اولیا ءؒ کے ارشاد پر تفکر سے ” فتح“ کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

” اگر انسان خالی الذہن ہو کر اس نسبت  *  کی طرف متوجہ ہو جائے تو ثابتہ کی تمام تجلیات کا مشاہدہ کر سکتا ہے ۔ یہ نسبت دراصل ایک یاد داشت ہے۔ اگر کوئی شخص مراقبہ کے ذریعے اس یادداشت کو پڑھنے کی کوشش کرے تو ادراک ، درود یا شہود میں پڑھ سکتا ہے۔ انبیا اور انبیا کے وراثت یافتہ گروہ نے تفہیم کے طرز پر اس یادداشت تک رسائی حاصل کی ہے۔

طرز تفہیم :                    طرز تفہیم دن رات کے چوبیس گھنٹے میں ایک گھنٹہ ، دو گھنٹے یا زیادہ سے زیادہ ڈھائی گھنٹے سونے اور باقی وقت بیدار رہنے کی عادت ڈال کر حاصل کی جا سکتی ہے۔ طرز تفہیم کو اہلِ تصوف 'سیر' اور 'فتح' کے نام سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔“                                       (کتاب : لوح وقلم)

* یہاں نسبت سے مراد ، نسبت علیم ہے۔

                                                                      ایک ایک لفظ پر تفکر کر کے آگے بڑھا جائے تو سورہ فاتحہ کے معانی روشن ہوتے ہیں اور وہ راستہ حاصل ہوتا ہے جسے اللہ نے صراط ِ مستقیم فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ یہ ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ نے انعام کیا۔ اہلِ عشق کے لئے انعام ۔۔۔ اللہ کی قربت ، اللہ کا عرفان و دیدار ہے۔

 

 


Topics


Murshid Ki Batein

خواجہ شمس الدین عظیمی



حضور قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں 

بچہ ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے 

استاد تراش خراش کے اسے ہیرا بنا دیتے