Topics

نقاب ِ کائنات


حضور قلندر بابا اولیا ؒ اسرار الٰہی کا بحرذخار ہیں۔ وہ کتاب " تذکرہ قلندر بابا اولیاؒ " کا مطالعہ کر رہا تھا۔ اس میں ان کی ذات سے صادر ہونے والی بے شمار کرامات میں سے چند کا ذکر کیا گیا ہے۔ کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے وہ اس صفحہ پر پہنچا جہاں حضور بابا جی ؒ کی وہ تحریر شامل ہے جو انہوں نے کسی خط کے جواب میں لکھوائی۔ یہ جواب، جواب نہیں نظام ِ کائنات کے حقائق سے پردہ اٹھایا گیا ہے، قرآن کریم کی متعدد آیتوں کی تفسیر ہے۔ ابدالِ حق کی تعلیمات ہر اس شخص کے لیے رشدو ہدایت اور سمت کا تعین کرتی ہیں جو آدمی سے انسان بن کر اپنے ازلی مقام جنت میں لوٹنا چاہتا ہے۔

 

        یہ مکتوب حضور بابا قلندر اولیاؒ نے ایک صاحب کے استفسارات کے جواب میں تحریر کروایا تھا۔

            بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

        برادر عزیز سلمہ اللہ تعالیٰ ، بہت دعا۔

        حسب ذیل عبارت تمہارے تحریر کردہ سوالات کے جواب میں لکھی جا رہی ہے۔ بظاہر سوالات بالکل مختصراً اور آسان ہیں لیکن ان کا جواب  زیادہ غور طلب ہے اور تفصیل چاہتا ہے۔ اگر پوری باتیں سمجھنے میں دقت پیش آئے تو بار بار پڑھ کے غور کر کے الفاظ کا مفہوم اچھی طرح ذہن نشین کر لینا۔ یہ ایسی باتیں ہیں جن کا صرف کاغذ پر لکھا رہنا کافی نہیں ہے، ان کا حافظہ میں نقش کرنا ضروری ہے۔لوح محفوظ سے ایک نور آتا ہے وہ اس طرح پھیلتا ہے کہ ساری کائنات اس کی گرفت میں ہوتی ہے ۔ اس کے پھیلنے کی طرزیں کسی ایک سمت  میں نہیں ہوتیں بلکہ ہر سمت میں ہوتی ہیں۔ اس بات کو دوسرے الفاظ میں اس طرح کہیں گے کہ اس نور کے پھیلنے کی کوئی سمت نہیں ہوتی۔ اب تم سمت نہ ہونے کا مطلب سمجھ لو کہ سمت نہ ہونا کیا چیز ہے اور نور کا تمام سمتوں میں پھیلنا کیا معنی رکھتا ہے۔ یہ ساری باتیں قرآن پاک میں بالتصریح اللہ نے ارشاد فرمائی ہیں۔افسوس یہ ہے کہ ان ارشادات کو متشابہات کہہ کر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ تحریر میں زیادہ گنجائش نہیں ہے۔ صرف ایک مثال دے کر میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں۔ اس مثال پر غور کرو۔

        چند خلاباز خلا میں جاچکے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ سو میل سے زیادہ بلندی پر ایک تو بالکل بے وزنی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ دوسرے یہ کہ زمین یا تو بالکل گول یا تقریباً گول نظر آتی ہے۔ ایک نے کہا گیند نما نظر آتی ہے۔ تم نے خوبھی مشاہدہ میں دیکھا ہے کہ پپیتہ کی صورت ہے۔ اب صحیح صورت حال سمجھنا چاہو تو یہ نظر آئے گا یا محسوس ہوگا یا یہ حقیقت منکشف ہوگی کہ ساڑھے تین ارب انسان اور چلنے پھرنے والے چوپائے سب کے سب ٹانگوں کے بل زمین سے لٹکے ہوئے ہیں۔ ہر آدمی یہ کہتا ہے میں زمین پر پیروں کے بل چل رہا ہوں۔ سمجھ لو کہ وہ کتنی غلط بات کہہ رہا ہے۔ جب سے نوع آدم آباد ہے، وہ تمام لوگ جن پر حقیقت منکشف نہیں ہوئی یہی کہتے ہیں یہی سمجھتے ہیں۔ غور کرو کہ جب آدمی پیروں کے بل لٹک رہا ہے تو چل کیسے سکتا ہے۔لٹکنے کی حالت تو بالکل جبری ہے۔ اس کا کہنا کہ میں چل رہا ہوں سراسر غلط ہے۔ جبری حالت میں ارادہ بے معنی ہے اس لیے کہ اس کی اپنی کوئی حرکت ممکن نہیں۔ یہ بات تو قرین قیاس ہے کہ جن تاروں میں اس کے پیر بندھے ہوئے ہیں وہ تار حرکت کرتے ہوں اور ان کے ساتھ پیر بھی حرکت کرتے ہوں۔ ان تاروں  سے آدمی کے ارادہ کا کیا تعلق جب کہ آدمی کو ان تاروں کا کوئی علم ہی نہیں۔ باوجود اتنی صریح غلطیوں کےباوجود وہ دعوے کرتا ہے کہ میرا سر بلندی کی طرف ہے اور میرے پیر پستی کی طرف اور میں چلتا پھرتا ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو ایک بنوا بنالیا ہے اور کہتا ہے کہ یہ بنوا حقیقت ہے۔

        دراصل نہ کوئی سمت اور نہ انسان حرکت کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ ہاں صرف نیت کر سکتا ہے۔ چناں چہ اس نے اپنی نیت میں لاشمار دعوے جمع کر لیے۔ آدمی کے باقی تمام دعووں کو اس  دعویٰ پر قیاس کر لو۔ اللہ نے قرآن میں ہر مشاہدہ کو رد کیا ہے۔ جگہ جگہ فرمایا ہے،

        ” تم نہیں سمجھتے ایسا ہے، ایسا ہے اور تم نہیں دیکھتے۔“

        ایک جگہ فرمایا ہے : ” تم دیکھتے ہو پہاڑ اور گمان کرتے ہو کہ یہ جمے ہوئے ہیں۔“

        اللہ نے جس چیز کو قرآن پاک میں غیب فرمایا ہے وہ آدمی کا غیب ہے، اللہ کا غیب نہیں ہے۔

ظاہر ہے جب وہ اللہ کے لیے غیب نہیں ہے تو اللہ کے لیے حضور ہے۔جو اللہ کا حضور ہے وہ حقیقت ہے جو آدمی پر منکشف نہیں ہے۔ اس لیے آدمی کا مشاہدہ حقیقت نہیں ہے اس لیے غلط ہے۔ بدیں سبب ہر مشاہدہ کو رد کیا ہے۔ اب ساری حقیقت علم حضوری ہے۔ یہ علم حضوری اللہ کی طرف سے ملتا ہے جس کو اللہ توفیق عطا فرمائیں۔ قرآن پاک میں اس کی بھی وضاحت ہے ۔ اللہ نے فرمایا،

                ” جس نے ہمارے لیے جہد کیا ہے، ہم اس پر اپنی راہیں کھول دیتے ہیں۔“

                                                        ( العنکبوت : ۶۹)

قرآن پاک میں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔

        ملکہ سبا کے قصہ میں ہے جب سلیمان ؑ نے کہا اپنے درباریوں سے کہ تم میں سے کون اس کا تخت جلدی لا سکتا ہے۔ جنات میں سے ایک نے کہا کہ جتنی دیر میں آپ دربار برخاست کریں گے، میں تخت حاضر کر دوں گا۔ دوسری آیت میں اللہ فرماتے ہیں،

                ” ایک دوسرے شخص نے کہا پلک جھپکنے بھی نہ پائے گی کہ تخت یہاں موجود ہوگا۔۔

                اور تخت آگیا۔“

        اللہ  نے اس شخص کی خصوصیت بتائی ہے کہ وہ کتاب کا علم رکھتا تھا۔جتنے صحائف آسمانی ہیں، اللہ ان سب کو کتاب کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ان میں قرآن بھی ہے۔ چناں چہ قرآن میں یہ علم موجود ہے جیسا کہ اللہ نے خود فرمایا اور با ر بار قرآن کو کتاب کے نام سے موسوم کیا ہے۔ جو قرآن نہیں سمجھتے وہ جو بھی چاہیں کہیں، ان کی زبان کون پکڑ سکتا ہے لیکن قرآن خود ان کی تردید کرتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ تم عربی پڑھو اور قرآن کو قرآن کے الفاظ میں سمجھو ، بغیر تا دیل اور بغیر کسی اثر کے بالکل غیر جانب دار ہو کر، اس تصور سے کہ اللہ کیا فرماتے ہیں۔ جہاں تک سمجھنے کا سوال ہے، اللہ نے خود وعدہ فرمایا ہے کہ ” میں نے تمہارے لیے قرآن کا سمجھنا آسان کر دیا ہے، ہے کوئی سمجھنے والا؟ “                                        یہ صدائےعام ہے، سورہ قمر میں چار مرتبہ یہ بات کہی گئی ہے۔

        آدم برسر مطلب ۔۔۔ تم یہ بات سمجھ گئے ہو کہ سمت کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ آدمی کی اپنی مفروضہ اور قیاس کردہ ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے کہ علم حضوری کے علاوہ کوئی علم موجود نہیں ہے۔ آدمی کا حافظہ اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ علم حضوری  کی کسی ایک طرز کو بھی اپنے اندر محفوظ کر لے۔

         چناں چہ لوح محفوظ سے پھیلنے والا نور آدمی کو اطلاعات فراہم کرتا ہے تو اپنی غرض اور مطلب برآری کے نقطۂ نظر سے کام لے کر ان اطلاعات کو 999 فی ہزار تو رد کر دیتا ہے۔ ایک فی ہزار کو مسخ کر کے توڑ مروڑ کے حافظہ میں رکھ لیتا ہے۔یہی مسخ شدہ اور بگڑے ہوئے خدوخال اس کے تجربات کا ، مشاہدات کا، عادات اور حرکات کا سانچہ بن جاتے ہیں۔اب جتنی اطلاعات وہ اخذ کرتا ہے ان ہی سانچوں میں ڈھلتی چلی جاتی ہیں۔ یہ ہے آدمی کا تمام کارنامہ اور اس کی متعین کردہ اور فرض کردہ سمتیں، فارمولے اور اصول۔ اس خرافات کے بارے میں وہ بار بار یہ کہتا رہتا ہے کہ یہ ہے میرا تجربہ، یہ ہے مشاہدہ ، یہ ہے علم طبیعی۔

        تمہاے ذہن میں یہ بات تو آگئی کہ جو نور پوری کائنات میں پھیلتا ہے اس میں ہر قسم کی اطلاعات ہوتی ہیں جو کائنات کے ذرّہ                    ذرّہ   کو  ملتی ہے۔ ان اطلاعات میں چکھنا، سونگھنا ، سننا، دیکھنا، محسوس کرنا، خیال کرنا، وہم و گمان وغیرہ وغیرہ زندگی کا ہر شعبہ ، ہر حرکت ، ہر کیفیت کامل طرزوں کے ساتھ موجود ہوتی ہیں۔ ان کو صحیح حالت  میں وصول کرنے کا طریقہ صرف ایک ہے۔ انسان ہر طرز میں ، ہر معاملہ میں، ہر حالت میں کامل استغنا رکھتا ہو،۔۔ مسخ کرنے والی اس کی اپنی مصلحتیں ہوتی ہیں ۔ جہاں مصلحت نہیں ہے، وہاں استغنا ہے، غیر جانبداری ہے اور اللہ کا شعار ہے۔ اب جو حرکت ہوتی ہے وہ پوری کائنات کو محیط ہے اور پوری کائنات میں عمل کرتی ہے۔

        اس چیز کو پھر ایک دفعہ سمجھ لو۔ یہ کوئی باریک بات نہیں ہے۔ صرف توجہ کی ضرورت ہے۔ آدمی کی ذاتی مصلحتیں اپنے لیے نور کی شعاعوں کو محدود کر لیتی ہیں۔ یہ محدود شعاعیں اپنا کائناتی عمل ترک نہیں کر سکتیں وہ تو جاری رہتا ہے۔ اب آدمی کا ایک باطل تصور جو اس نے شعاعوں سے وابستہ کر لیا ہے، غلط آدمی بن جاتا ہے یہی ناکامی ہے۔

        سیدھی سادھی بات ہے جس نور کا تعلق ساری کائنات سے ہے وہ ایک فرد واحد کے لیے کیسے مخصوص ہو سکتا ہے۔ انسان اگر ذاتی اغراض کی قید و بند میں مبتلا نہیں ہے تو ان شعاعوں کو پوری کائنات پر محیط دیکھتا اور محیط سمجھتا ہے۔چناں چہ شعاعوں کا اور اس کے زاویۂ   نظر کا ایک خاص ارتباط قائم ہو جاتا ہے۔ یہ ارتباط وہ شے ہے جو اللہ کے قانون کے زیرِ اثر شعاعوں کے لیے محل توجہ ہے۔ اب اس کے مفاد کا تحفظ شعاعیں خود  کرتی ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ اگر وہ کہے دن تو شعاعوں کو دن پیدا کرنا پڑے گا۔اگر وہ کہے رات تو شعاعوں رات کی تخلیق کرنی پڑے گی۔ اللہ کا شعار شعاعوں کو اس بات کا حکم دیتا ہے کہ وہ دو سنتیں پوری کریں،

        ۱۔ کائنات کے لیے عمل کرنا

        ۲۔ دوسری اس فرد کے مفاد میں عمل کرنا جس نے ان شعاعوں سے ارتباط قائم کیا ہے۔

جس وقت حضرت اویس قرنی  ؓ اور حضرت عمر ؓ کی ملاقات ہوئی تو حضرت عمرؓ نے حضرت اویس قرنی ؓ سے درخواست کی کہ آپ مجھے نصیحت کریں۔ اس پر حضرت اویس ؓ نے دوسوال کئے۔

        ۱۔ یا عمر    ؓ ! آپ اللہ کو جانتے ہیں؟

        انہوں نے جواب دیا، ہاں میں اللہ کو جانتا ہوں۔

        ۲۔ یا عمر ؓ! اللہ بھی آپ کو جانتا ہے؟

        جواب دیا، اللہ بھی مجھے جانتا ہے۔

اب دونوں باتوں کا مطلب بالکل واضح ہے۔صرف یہ کافی نہیں ہے کہ انسان اللہ کی راہ میں قدم اٹھائے اور کام پورا ہو جائے۔ وہاں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ قدم صرف اللہ کے لیے اٹھایا گیا ہے یا اور بھی مصلحتیں شامل ہیں؟  اس میں جنت بھی ایک مصلحت ہے اور بہت سی نیکیاں بھی مصلحت ہیں۔ اللہ کسی کو اس وقت تک نہیں پہچانتا جب تک کہ مقصد صرف اللہ کی ذات نہ ہو۔ اگر ایک آدمی کا مقصد جنت ہے تو جنت اسے جانتی ہے۔ کہتی ہے”آؤ لبیک!“  یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ روحانیت میں اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا مقصد، کوئی دوسری غایت شریک کرنا کفر ہے۔

-------------

        اللہ نے قرآن پاک میں فرمایا،

                                ھدی للمتقین ۙ الذین یومنون بالغیب

                        ”یہ کتاب ان لوگوں کو روشنی دکھاتی ہے جو اپنے اندر اللہ کے بارے

                        میں ذوق رکھتے ہیں۔“                                                         (البقرۃ:                       ۲-۳)

        غیب سے مراد وہ تمام حقائق ہیں جو انسان کے مشاہدات سے باہر ہیں۔ وہ سب کے سب اللہ کی معرفت سے تعلق رکھتے ہیں۔ایمان سے مراد ذوق ہے۔ ذوق وہ عادت ہے جو تلاش میں سرگرداں رہتی ہے۔ اس لیے نہیں کہ اسے کوئی معاوضہ ملے گا بلکہ اس لیے کہ طبیعت کا تقاضہ پورا کرے۔

        متقی سے وہ انسان مراد ہے جو سمجھنے میں بڑی احتیاط سے کام لیتا ہے۔ ساتھ ہی بدگمانی کو راہ نہیں دیتا۔وہ اللہ کے معاملہ میں اتنا محتاط ہوتا ہے کہ کائنات کا کوئی روپ  اسے دھوکا نہیں دیتا۔ یہ ذوق ہی انسان کے اندر بستا ہے ورنہ انسان خلا رہے۔ جب کہ اللہ نے قرآن پاک میں ارشاد کیا ہے،

”   میں نے انسان کو بجنی مٹی سے بنایا ۔“                                                              (  الحجر  :  ۲۸)

        یہاں مٹی کی نیچر ( فطرت nature)  بیان کی ہے جو خلا ہے۔ اب یہ بات تمہارے لیے سمجھنا بہت آسان ہے کہ ذوق میں نہ وزن ہوتا ہے ، نہ ذوق کے لیے فاصلہ کوئی معنی رکھتا ہے۔ نہ ذوق زمین و آسمان کی حد کا پابند ہے، نہ اسے وقت پابند بنا سکتا ہے۔ یہی ذوق چلتا پھرتا ہے۔ یہ بات ضرور ہے کہ انسان اس سے اس وقت تک متعارف نہیں ہوتا جب تک اس سے تعارف حاصل نہ کرے۔ جب تعارف حاصل کر لیتا ہے تو اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہی ذوق انسان ہے۔ یہ پوری کائنات میں آزاد ہے۔ فرشتوں کا سربراہ ہے۔ اللہ کی بہترین صناعی ہے اور کائنات میں اللہ کا نائب ہے۔ وہ پیروں سے چلنے، نہ ہاتھوں سے پکڑنے کا پابند ہے، نہ آنکھوں سے دیکھنے اور کانوں سے سننے کا محتاج ہے۔ ساری خرافات آدمی نے آپ ہی تخلیق کی ہیں اور آپ ہی ڈھول بجاتا پھرتا ہے کہ ہائے میں تو بالکل مجبور ہوں۔

        تم نے لکھا ہے چلنے کی کوشش کرتا ہوں تو گرنے لگتا ہوں۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ ابھی تم انسان سے اچھی طرح متعارف نہیں ہو جو حقیقی انسان ہے۔ تم یہ خط بغور پڑھنا۔ اگر کوئی لفظ یا طرزِ بیان میں مشکل ہو اسے بار بار پڑھ کر سمجھ لینا۔رات کے وقت فرصت میں بیٹھ کر حرف بہ حرف اس خط کی نقل کرنا اور وہ نقل فائل میں محفوظ کر لینا۔ اس خط کی نقل کرنا تمہارے لیے اشد ضروری ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ عبارتیں اور مفہوم اچھی طرح تمہارے حافظہ میں منتقل ہو جائیں۔ پھر اس نقل کا بار بار پڑھنا  بھی ضروری  ہے۔ جب تم اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر کو بار بار پڑھنے میں آسانی محسوس کرو گے اور ذہن کو لفظوں کے معانی میں مرکوز رکھ سکو گے، میرے لکھے ہوئے لفظوں کو پڑھنے میں ذہن پر الگ سے جو بار پڑ سکتا ہے، اس بار تمہارا ذہن محفوظ رہے گا۔

                                                                بہت یاد سے،

                                                                                                                             دعاگو

                                                                حسن اخریٰ عظیم

                                                                                                                                                                 ۱ بجے  شب ، ۱۹ اگست ۱۹۶۳ء

        نوٹ:     ابدالِ حق حضور قلندر بابا اولیا ؒ کا خط مختصر تحریر کیا گیا ہے۔

Topics


Murshid Ki Batein

خواجہ شمس الدین عظیمی



حضور قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں 

بچہ ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے 

استاد تراش خراش کے اسے ہیرا بنا دیتے