Topics

شام صبح اور صبح شام سے ملتی ہے


خشکی کی طرح سمندر میں بھی دنیائیں ہیں۔ نظر کی آخری حد پر سورج غروب ہو رہا تھا۔ عجیب بات ہے کہ اپنے گھر سے جو سورج غروب ہوتے وقت آسمان پر نظر آتا ہے وہ ساحل پر شام کے وقت زمین میں غروب ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ کیا سمندر زمین ہے۔۔۔؟

                                              نہیں معلوم سورج کہاں غروب ہوتا ہے اور غروب ہونا کیا ہے۔۔۔؟

                                                       سمندر کیا ہے۔ سمندر زمین پر ہے تو زمین کیا ہے۔۔۔؟

                                                         زمین کی حد آسمان سے ملتی ہے تو پھر آسمان کیا ہے۔۔۔؟

                                              ہر سوال میں ”کیا“ ہے، سوچتے سوچتے آدمی سوچ میں گم ہو جاتا ہے۔

چند روز سے شام کو چہل قدمی کے دوران سورج کو غروب ہوتا دیکھ کر یہ بات بار بار ذہن میں آئی کہ طلوع اور غروب کا منظر ایک ہے۔ آسمان کو دیکھ کر بتایا نہیں جا سکتا کہ زمین پر اس وقت سورج غروب ہو رہا ہے یا طلوع ہونے کا وقت ہے۔ لگتا ہے کہ شام ، صبح سے یا صبح شام سے مل جاتی ہے۔

توجہ لہروں کے شور کی طرف مبذول ہوئی۔ آواز سنی تو ادراک ہوا کہ سمندر بھی باتیں کرتے ہیں۔ غور کرنے کے باوجود سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر کہتے کیا ہیں۔

خیال نے کہا ، مہینوں سمندر سے دور رہ کر چند گھنٹے ساحل پر بیٹھ کر یہ توقع کرنا کہ سمندر کی باتیں سمجھ میں آجائیں، ممکن نہیں۔ سمندر سے واقف ہونے کے لئے سمندر کا حصہ یا سمندر بننا ہوگا۔

میں سمندر کیسے بن سکتا ہوں۔۔۔؟

خیال نے کہا، پانی بن کر کیوں کہ سمندر پانی ہے۔

میں بھی تو پانی ہوں، جو شے کھاتا ہوں سب میں پانی شامل ہے اور میری بنیاد بھی پانی ہے۔

خیال نے کہا، پانی تمہارے اندر مغلوب اور سمندر میں غالب ہے۔ تم پانی سے واقف نہیں۔ واقف ہونے کے لئے صفات اپناؤ تا کہ ذات سے واقف ہو جاؤ۔

نظر سمندر پر مرکوز کی تو اس مرتبہ سمندر کی بجائے، سمندر کی وسعت نظر آئی۔ جتنی دیر وہاں رہا، لہروں سے مانوس ہونے کی کوشش کی تاکہ آواز سمجھ میں آجائے۔

 کھلی آنکھوں سے دیکھا تو سوال در سوال سے ذہن بوجھل ہو گیا۔ آنکھیں بند کیں۔ ہر طرف اندھیرا تھا۔ ”حس“ آواز کی طرف متوجہ ہوئی اور آواز سے موج در موج کی تصویریں بننا شروع ہوگئیں۔ دیکھا کہ لہریں ، طول اور موج میں سفر کر رہی ہیں۔ طول۔۔ طوالت اور موج۔۔ دائرہ ہے۔ لہریں آگے بڑھتی ہیں اور دائرہ میں گھوم جاتی ہیں۔

                                                                                       ماحول سے بے نیاز سمندر کی لہروں میں گم تھا کہ ادراک ہوا، جس کو طول یا سیدھ میں آگے بڑھنا سمجھ رہا تھا وہ دراصل دیکھنے کا زاویہ  ( Angle Of Perception )  ہے۔ جو شخص لہر کو اوپر ، نیچے یا کسی ایک زاویہ سے دیکھے گا، وہ لہر کے گھومنے کو سیدھ میں آگے بڑھنا سمجھے گا۔ لیکن جس شخص کا ذہن سمتوں سے آزاد ہے وہ جان لے گا کہ جس کو لوگ طول، طوالت ، لمبائی یا سیدھ میں آگے بڑھنا سمجھتے ہیں، وہ  بھی دائرہ ہے۔ یہ سمجھنا کہ لہر پہلے آگے بڑھتی ہے پھر دائرہ میں گھومتی ہے، اس میں تعطل پیدا ہوتا ہے۔ یعنی آگے بڑھنے کے بعد وہ پوائنٹ جہاں سے لہر دائرہ کے لئے  Turn  ہوتی ہے وہاں شکل تبدیل ہو جائے گی۔

                                                                      بیگ سے کاغذ پنسل نکالی اور دائرہ بنایا۔ تجربہ سے مشاہدہ ہوا کہ دائرہ بنانے کے لئے ضروری ہے کہ لکیر کا ہر رخ دائرہ ہو۔ لکیر سیدھ میں جائے گی تو دائرہ خراب ہو جائے گا یا ٹوٹ جائے گا۔ کائنات میں ہر شے اللہ کی طرف سے آتی ہے اور اللہ کی طرف لوٹ جاتی ہے، یہ کائناتی دائرہ ہے۔ جس کائنات کا نظام دائرہ پر قائم ہے اس میں موجود شے طول میں کیسے ہو سکتی ہے۔۔؟جس کو ہم سیدھ میں آگے بڑھنا یا طول کہتے ہیں وہ دراصل دائرہ ہی ہے۔ ہم چوں کہ ایک اینگل سے دیکھتے ہیں، اس لئے دائرہ کو طول ( لمبائی) سمجھتے ہیں۔کسی بھی شے کو آگے بڑھنے کے لئے دائرہ درکار ہے۔ سمجھ میں یہ آیا کہ طول مفروضہ اور دائرہ حقیقت ہے۔

ذہن تفکر کے پیٹرن پر قائم ہو جائے تو اندر میں توازن سے نظرمیں ٹھہراؤ پیدا ہوتا ہے ۔اس کا مشاہدہ ہے کہ جب مرشد  کریم کوئی بات لکھوانے یا تحریر کو آسان کرنے کے لئے تفکر کرتے ہیں تو آنکھ کی پتلی بے حرکت اور جسم ساکت ہو جاتا ہے۔ احساس ہوتا ہے کہ اس وقت وہ یہاں نہیں، دوسری دنیا میں ہیں۔ احساس ہوا کہ تفکر کے علاوہ بھی ان کی پلک کم جھپکتے دیکھی ہے۔ لگتا ہے جیسے ہر لمحہ تفکر ہے۔ ذہن میں آیت روشن ہوئی،

                   ” زمین اور آسمان کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنےمیں اولی الالباب  کے لئے نشانیاں ہیں جو اٹھتے ، بیٹھتے اور لیٹتے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور زمین اور آسمان  کی ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں کہ  پروردگار یہ سب تو نے بے مقصد نہیں بنایا۔“     

(آل عمران               :                 ۱۹۰۔۱۹۱)

                                                             جب مرشد کریم کے بارے میں غور کرتا ہے تو دل کہتا ہے کہ جو تحمل ان کے اندر ہے، میرے اندر پیدا ہو جائے۔ آج نظر پر غور کیا تو احساس ہوا کہ ہمارے اندر تحمل اس لئے نہیں ہے کیوں کہ نظر میں ٹھہراؤ نہیں ہے ۔ توجہ اپنے دیکھنے پر مرکوز کی کہ کیا نظر کہیں رکتی ہے، اگر رکتی ہے تو کتنی دیر کے لئے اور کن چیزوں پر رکتی ہے۔ مشاہدہ ہوا کہ نظر نہیں رکتی۔ جس کو دیکھ کر بات کرتے ہیں، اس وقت بھی ذہن میں بہت کچھ ہوتا ہے، ہم مقابل کو نہیں، اپنے ذہن کو دیکھتے ہیں۔ آنکھ کی پتلی نہ ٹھہرے تو ذہن پوری طرح یک سو نہیں ہوتا۔

                                             تجربہ کیجیئے ۔۔ خود کو دیکھئے اور بتایئے کہ کیا آپ کی نظر کہیں رکتی ہے۔۔۔؟

                                                  تفکر ایسا میکانزم ہے کہ بندہ جس شے پر غور کرے، سب سے پہلے اپنے آپ سے واقف ہوتا ہے کیوں کہ جس چیز کو وہ دیکھتا ہے، لامحالہ اندر میں کوئی ، وہ شے اسے، اس کے اندر دکھاتا ہے۔

                                                                              چائے کے دوران مرشد کریم نے بسکٹ اس کی طرف بڑھایا۔ بسکٹ لیا اور شکریہ ادا کیا۔تھوڑی دیر بعد انہوں نے فرمایا ، ” لوگ کھانا کھاتے ہیں، ذہن کھانے کی طرف متوجہ ہوتا ہے لیکن اللہ کی طرف نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے ہوٹلوں میں جاتے ہیں، انواع و اقسام کے کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن نہ کھاتے وقت خیال آتا ہے کہ رزق اللہ نے دیا ہے اور نہ عالی شان ہوٹل کی عمارت دیکھ کر ذہن اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ لوگ کچھ دے دیں تو ان کا شکریہ ادا کرتے تھکتے نہیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنے کا خیال نہیں آتا جس نے وسائل عطا کئے ہیں۔“

                                                                                                 اس نے تاسف سے سر ہلایا اور سوچا ۔۔ واقعی لوگ کیسے ہیں، کھانا کھاتے ہوئے بھی اللہ کی طرف ذہن نہیں جاتا۔ اذہان (ذہن کی جمع) بند ہیں، غذا مرغوب ہوتی ہے لیکن عطا کرنے والے کا خیال نہیں آتا۔ افسوس جاری تھا کہ تھوڑی دیر بعد زبردست قسم کا جھٹکا لگا جیسے کسی نے جھنجھوڑ کر غفلت سے بیدار کیا ہو۔ کرنٹ اتنا شدید تھا کہ دیر تک لرزش محسوس کی۔

                                                  اندر میں سے آواز آئی ، تمہارے ہاتھ میں بسکٹ ہے، کیا بسکٹ کھاتے ہوئے تمہارا ذہن اللہ کی طرف گیا؟ نہیں گیا! اپنا محاسبہ کرنے کے بجائے مرشد کریم کی بات کو دوسرے پر کیوں گمان کیا۔۔۔؟

                                                                ایک لمحہ کو ذہن سن ہو گیا۔ خود سے پوچھا ، میں نے کیوں نہیں سوچا کہ یہاں لوگ نہیں، میں بیٹھا ہوں اور یہ بات میرے لئے کہی گئی ہے۔۔؟

                                                            آواز نے کہا، تم خود کو اچھا اور خامیوں سے پاک سمجھتے ہو۔ نظر اپنے عیوب پر نہ ہو تو دوسروں کے عیب نظر آتے ہیں۔ اسی وقت استغفار پڑھا، اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی، بسکٹ کے ساتھ اصلاح احوال پر بھی اللہ کا شکر ادا کیا اور تہیہ کر لیا کہ دوسروں کے بارے میں رائےقائم کرنے کے بجائے ، اپنے اندر دیکھوں گا۔

                                                                                   پانی کی طرح آواز بھی تصورات کا خول ہے۔ آواز میں تصویریں اور پیغام ہوتا ہے۔ ساحل پر ادراک ہوا کہ سمندر باتیں کر رہا ہے، اور بازگشت اتنی زیادہ ہے کہ محسوس ہوتا ہے یہاں صرف پانی کا نہیں، آواز کا بھی سمندر ہے۔

                                                   انسپائر ہوا کہ آواز اس وقت آتی ہے جب شے کسی چیز سے ٹکراتی ہے۔ پانی میں لہروں کے علاوہ دیوار ہے نہ دیوار جیسی ٹھوس شے، پانی۔ پانی سے ٹکرا رہا ہے اور آواز گونج رہی ہے۔پانی میں ایسا کیا ہے کہ لہریں ایک دوسرے میں ضم ہونے کے بجائے ٹکراتی ہیں اور آواز پیدا ہوتی ہے۔۔؟ممکن ہے کہ لہروں میں توانائی کی مقداریں مختلف ہونے کی وجہ سے ایسا ہو یا پھر اس میں خلا کا کوئی قانون ہے۔

مرشد کریم سے پوچھا ، لہریں کیا کہتی ہیں۔۔۔؟

فرمایا ، ” پانی مستقل محبوب کے اشتیاق میں حیران پریشان ہے، شور بھی مچاتا ہے اور خاموش بھی ہو جاتا ہے۔ پانی سمندر میں قید ہے اور سمندر مادیت ہے۔ فراق میں جل کر لہریں مادیت سے نکلنے کے لئے ساحل کی طرف آتی ہیں تو ساحل پر زمین انہیں واپس سمندر میں دھکیل دیتی ہے۔ لہریں خود سے کہتی ہیں کہ ہائے! ہمیں محبوب سے ملنا ہے۔ بارش ہوتی ہے تو لہریں بارش کے قطروں کو قبول کرتی ہیں۔ رد اس لئے نہیں کرتیں کہ بارش کے قطروں میں محبوب موجود ہے۔“

Topics


Murshid Ki Batein

خواجہ شمس الدین عظیمی



حضور قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں 

بچہ ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے 

استاد تراش خراش کے اسے ہیرا بنا دیتے