Topics

دن اور رات ۔۔۔۔۔؟

وہ صاحب طریقت کے سامنے بیٹھا تھا۔ دن کیا ہے اور رات کیا،اس کی سمجھ کے مطابق سمجھا رہے تھے۔ بات وقت پر آئی تو مسکراتے ہوئے پوچھا کہ ” وقت کیا ہے۔۔۔؟“

        سوال کے لیے تیار نہیں تھا۔ عرض کیا وقت پر جب میں نے غور کیا تو ذہن میں پہلا لفظ ” والعصر“ آیا۔ قرآن کریم میں جہاں جہاں وقت کا ذکر ہے تلاش کر کے غور کروں گا۔

        انہوں نے تائید میں سر ہلایا۔

        پھر کچھ سوچتے ہوئے اس نے عرض کیا، آپ بتا دیجیے وقت کیا ہے۔۔۔؟

        فرمایا، ” پہلے تم غور کرو پھر میں بتاؤں گا۔“

        انہوں نے راہ نمائی کی کہ یوم بھی وقت کے معنی میں آتا ہے۔

        ” مرشد کی باتیں “  کی ابتدا بھی اس نے وقت سے کی تھی۔ بجلی کے چمکنے پر رات کا دن بننا اور دن کا واپس رات میں داخل ہونا قدرت کا وہ مظاہرہ ہے جس نے چونکا دیا تھا۔ دن اور رات کے ردّ وبدل کو وہ روزانہ

Slow motion           میں دیکھتا ہے۔ اتنا آہستہ کہ بجلی کی چمک میں دن اور رات کا جو منظر اس نے دیکھا، احساس ہوا ذہن کی رفتار اتنی کم ہے کہ تیزی سے حرکت کرتی کائنات منجمد نظر آتی ہے۔ سر اٹھا کر تیز چلتے پنکھے کو دیکھئے۔۔ بالکل ایسے!

        رات بھی اسپیس ہے اور دن بھی۔ اسپیس بدلتی ہے وقت بدل جاتا ہے۔ مرشد فرماتے ہیں رات کے حواس حقیقی ہیں۔ سوچ رہا تھا رات میں ایسا کیا ہے جو دن میں نہیں ہوتا۔ رات اور دن دیکھنے کی دو طرزوں کی تخلیق ہے۔ اگر رات اور دن ایک ہوجائیں اور دن اور رات ایک ہو جائیں پھر کیا ہوگا۔۔۔؟ رات اور دن سمجھاتے ہوئے مرشد کریم نے فرمایا تھا، ” اس طرح سمجھنے کی کوشش کرو کہ رات اور دن ایک ہی ہیں اور ان کے درمیان شعوری پردہ پڑا ہوا ہے۔ شعوری پردہ کے اس طرف دن ہے اور پردہ کے دوسری طرف رات ہے۔“

        اس نے شعور کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ دن اگر شعور ہے تو پھر رات کیا ہے۔ رات اگر شعور ہے تو دن کے کیا معنی ہیں۔۔۔؟ ایسا لگا جیسے میرا ذہن ماؤف  ہو گیا۔ بجلی گرتی ہوئی محسوس ہوئی جیسے ہلکی بارش میں اندھیرے میں آسمان سے بجلی گرتی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ بجلی کی کڑک اور چمک سے ذہن کا جمود ٹوٹ گیا۔ جھماکا ہوا۔ ذہن کی رفتار اتنی زیادہ ہوگئی کہ سوچ کا زاویہ تبدیل ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے قرآن کی آیتیں یاد آگئیں۔

                ” رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں۔ اور بے جان میں

                سے جان دار کو نکالتا ہے اور جان دار میں سے بےجان کو۔“                                   (                  ٰال عمران  :  ۲۷)

اس کے بعد ذہن پر سکوت طاری ہوگیا۔

یہ بات مرشد کریم سے عرض کی۔ انہوں نے کچھ دیر غور کیا اور آسمان کو دیکھتے رہے۔

        بارہا اس بات کا مشاہدہ ہوا ہے کہ مرشد کریم تفکر میں ہوتے ہیں تو پلکیں نہیں جھپکتیں اور آنکھ کے ڈیلے ساکت ہو جاتے ہیں۔ اس کیفیت کے بعد انہوں نے فرمایا، ”  اللہ کی سنت میں تبدیلی اور تعطل نہیں ہے۔ تعطل سے مراد ایک لمحہ کے لیے بھی نظام رکتا نہیں۔ پھر ہم وقت کی رفتار کا کم یا تیز ہونا کسے کہتے ہیں۔۔۔؟ ذہن دو طرزوں میں پھنسا ہوا ہے اس لیے وقت کی رفتار کو کم یا تیز دیکھتا ہے۔ جو وقت کی حقیقت سے واقف ہو جاتے ہیں وہ جان لیتے ہیں کہ وقت میں تبدیلی نہیں۔“

        مرشد کریم کے ایک ایک لفظ کو وہ تحریر کرتا ہے۔ ذہنی استعداد اتنی نہیں کہ الفاظ میں مخفی راز فوراً سمجھ سکے۔ نوٹ کر کے بار بار پڑھنے سے الفاظ روشن ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے روشنی بڑھتی ہے، پھیلتی جاتی ہے اور قریب و بعید روشن ہو جاتے ہیں۔ اندر سے آواز آئی۔۔۔ ہم سب یہاں پر عکس ہیں، تصویر کہیں اور ہے۔ اس آواز پر

” ماہنامہ قلندر شعور“ اپریل 2014 ء کے شمارہ کا سرورق نظروں کے سامنے آگیا۔ مرشد کریم کئی بار وضاحت سے یہ قانون سمجھا چکے ہیں۔

        خیال نے راہ نمائی کی کہ اندر کی آواز کا کیا مطلب۔۔۔؟ کیا آواز باہر بھی ہے۔۔۔؟

        اس نے سوچا آخر یہ رات دن ہیں کیا۔۔۔؟ دن میں جاگتے ہیں وہی کچھ کرتے ہیں جو رات میں کرتے ہیں۔ رات میں جاگتے ہیں یعنی دن میں سوتے ہیں تو وہی سب کچھ ہے جو رات میں تھا۔عجیب راز ہے جو کھلتا نہیں کہ رات اوٹ میں ہو جاتی ہے تو دن ظاہر ہوجاتاہے دن پردہ میں چھپ جاتا ہے تو رات ظاہر ہو جاتی ہے۔ اگر چہ یہ دو عالمین ہیں ہم دونوں میں کھاتے پیتے ہیں سوتے جاگتے ہیں خوفزدہ ہوتے ہیں خوش ہوتے ہیں شادی کے لوازمات پورے کرتے ہیں۔ جس طرح دن میں پاکی ناپاکی کا مسئلہ در پیش ہوتا ہے شعور میں نہ ہوتے ہوئے بھی غسل واجب ہو جاتا ہے۔ یہ سب کیا ہے۔۔۔؟ وہ اس بات پر تفکر کرتا رہا، کرتا رہا۔

        بالآخر ایک اسکرین ظاہر ہوئی۔ آدھی اسکرین پر رات کا سماں تھا اور آدھی اسکرین پر دن۔ لیکن ان دونوں کے درمیان کتاب کے ورق کی طرح پردہ تھا۔ دن کی طرف جو تصاویر بنی ہوئی تھیں وہی تصاویر رات کی سمت بھی بنی ہوئی تھیں۔ خمار آلود دھند چھا گئی اور اتنی بڑھی کہ کاغذ پر بنی ہوئی سب تصویریں نظروں سے اوجھل ہو گئیں۔تصویریں نظروں سے اوجھل ہوئیں تو خمار اتنا بڑھا کہ سب کچھ نظروں سے اوجھل ہوگیا لیکن چھوٹے سے چھوٹا وقفہ نہ ہونے کے باوجود اسی پردہ پر نقش و نگار پھر نظر آنے لگے اور دن پر اندھیرا چھا گیا۔ رات روشن ہوگئی۔ رات کی تاریکی روشنی بن گئی۔ ذہن نے دیکھا روشنی کے دو نام ہیں۔ ایک کا نام دن اور دوسری روشنی کا نام رات ہے جسے آدم زاد ناواقفیت کی بنا پر اندھیرا یا تاریکی کہتا ہے۔

 

        قرآن کریم کی آیات کے حوالہ سے مرشد کریم نے فرمایا تھا رات اور دن دراصل شعور کے دو زاویے ہیں۔ ایک زاویہ جو  شعور سے وابستہ ہے وہ تخلیقات کو دن کی روشنی میں ظاہر کرتا ہے اور تخلیق کا یہی زاویہ جب اندر کی آنکھ سے دیکھا جاتا ہے تو رات دن بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

                ”کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو

                رات میں داخل کرتا ہے۔“                     ( لقمٰن:۲۹)

                ” ان کے لیے ایک اور نشانی رات ہے ہم اس کے اوپر سے دن ہٹا دیتے

                ہیں تو ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے۔ “   (یٰس  : ۳۷)

        جب وہ غور کرتا ہے تو مرشد کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور پھر غور کرتا ہے۔ سوال ذہن میں آتے ہیں اور تھوڑی دیر بعد جواب بھی آجاتے ہیں۔ ان جوابات میں نئے سوال ہوتے ہیں۔ یوں سوال جواب، جواب اور پھر سوال کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ مرشد کریم اپنی بات میں سوچ کو فکر کے اتنے زاویے دے دیتے ہیں کہ شاگرد مستقل مزاجی سے تلاش  جاری رکھے تو ذہن کھل جاتا ہے۔

        بات دن اور رات سےشروع ہوئی تھی۔ مرشد کریم کی ہدایات کی روشنی میں وقت کی گتھی کو سلجھاتے ہوئے وہ کڑی در کڑی آگے بڑھ رہا تھا۔ اس نے سوچا کس عمل یا عادت سے رات دن کا فرق پیدا ہوتا ہے۔ بات پردہ کی ہے پھر پردہ کیا ہے۔۔۔؟ غور کیا لیکن سمجھ میں نہیں آیا۔ محسوس ہوا ذہن ماؤف ہو گیا ہے۔ ماؤف ہونے کی کیفیت بھی عجیب ہے۔ ذہن بھاری ہو جاتا ہے جیسے معنی پہنانے والی مشین پر سکت سے زیادہ بوجھ رکھ دیا گیا ہو۔

        اس نے آنکھیں بند کیں، ذہن پر بار کو کم کرنے کے لیے گہرے سانس لیے۔ آہستہ آہستہ وزن بے وزن ہوا۔ نظر باہر کی دنیا سے ہٹ کر اندر کی دنیا کی طرف متوجہ ہوئی تو اللہ رحمٰن ورحیم کی مہربانی سے ہر طرف سکون محسوس کیا۔ دیکھا کہ اس کا جسم خلا ہے جہاں اندھیرا اور گہری خاموشی ہے۔ خلا میں آواز گونجی۔۔۔ اور لہروں اور دائروں کی صورت میں پھیلتی ہوئی ذہن کی اسکرین سے ٹکرائی  اور اس نے بے اختیار کہا، ” اختیار۔۔۔ ارادہ کو استعمال کرنے کا اختیار!“

        یہ وہ عمل ہے جو دن کو رات اور رات کو دن بناتا ہے اور بندہ کو رات اور دن کے طلسم سے آزاد بھی کر دیتا ہے۔ کیسے۔۔۔؟ آدمی جب ارادہ کو استعمال کرتا ہے تو پستی ( اسفل سافلین) میں گرتا ہے اور استعمال نہیں کرتا تو اس کا شمار احسن تقویم میں ہوتا ہے۔ مثال سونا جاگنا ہے۔ اطلاع نیند میں بھی آتی ہے اور بے داری میں بھی۔ خواب میں اطلاع پر عمل ہوتا ہے تو ارادہ استعمال نہیں ہوتا لیکن جاگنے کے بعد ہم ارادہ کو استعمال کرتے ہیں۔ ارادہ کو استعمال کرنا پابندی میں لے جاتا ہے۔ خواب کی زندگی بتاتی ہے کہ ارادہ کو استعمال نہ کر کے اطلاع کو خالص رہنے دیا جائے تو ذہن کی رفتار تیز اور پرواز بلند ہوتی ہے۔ آزادی کی طرف سفر شروع ہوتا ہے۔ بیداری اور نیند کی کیفیت پر غور کیجیے۔۔۔ بات سمجھ آ جائے گی۔

        خالق کائنات اللہ نے زمین و آسمان کی تخلیق کے بعد دونوں کو حکم دیا کہ ہماری طرف خوشی سے آؤ یا  ذبردستی۔۔۔۔ آنا معین ہے۔ دونوں نے کہا ہم خوشی سے آتے ہیں۔

        اس نے خود سے کہا اس بات میں سبق یہ ہے کہ اختیار ہوتے ہوئے بھی اختیار کو استعمال نہ کرو، عجزوانکساری اپناؤ اور راضی رہو کیوں کہ اختیار صرف اللہ کا ہے اور اسی کو زیب دیتا ہے۔ آدمی جب اللہ کے اختیار میں مداخلت کرتا ہے تو مصیبت میں آجاتا ہے۔

        ذہن میں سوال آیا کہ اللہ کے نیک بندے کیا کرتے ہیں۔۔۔؟ پہلی تصویر مرشد کریم کی بنی۔ وہ مقامِ عبدیت پر ہیں۔ تکوین کے اعلیٰ عہدہ پر فائز صدر الصدور حضور قلندر بابا اولیاء  ؒ                            کا ذہن انہیں منتقل ہوا ہے۔ کائنات ان کے لیے مسخر ہے اور وہ اللہ، رسول اللہ             ؐ            اور اپنے عظیم مرشد کریم کی محبت میں مست و بے خود ہیں۔

        اللہ کے نیک بندوں کی بندگی کا یہ عالم ہے کہ اختیار ہوتے ہوئے بھی اختیار کو استعمال نہیں کرتے۔ خواص میں ہو کر عوام کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہ بات ان کا یقین بن جاتی ہے کہ زندگی اللہ کی مشیت کے تابع ہے۔ مشیت جو چاہتی ہے اور جیسا چاہتی ہے اور حکم دیتی ہے وہی ہوتا ہے۔ دوسروں کو بھی راضی بہ رضا رہنے کا درس دیتے ہیں۔ ایک بار اس نے استادِ طریقت سے عرض کیا تھا کہ حضور! میں بہت بے چین ہوں، یہ بے چینی کب ختم ہوگی؟ فرمایا” جب تم خود کو اللہ کے سپرد کر دو گے تو بے چینی ختم ہو جائے گی۔ پھر وہ ہوگا جو تم چاہو گے۔۔ بلکہ جو اللہ چاہے گا تم بھی وہی چاہو گے۔“

ایک ایک کر کے مرشد کریم کی باتیں نئے مفہوم کے ساتھ روشن کر رہی تھیں۔ جتنا غور کر رہا تھا سوچ کے دریچے کھل رہے تھے۔ اسی کیفیت میں وہ سو گیا۔ بڑے بزرگوں سے سنا ہے کہ جب کوئی سونے سے پہلے اللہ کا ذکر کرتا ہے اور اس کیفیت میں سو جاتا ہے تو رات لاشعوری طور پر اللہ کے ذکرمیں گزرتی ہے۔ نیند سے جاگا تو زبان پر آیت تھی،

        یہ پوری آیت عربی میں اس طرح یاد تھی جیسے حفظ کر کے سویا ہو۔ جب کہ اس نے کبھی اسے حفظ کیا نہ اس پر غور۔ ایک بار سرسری طور پر پڑھ کر گزر گیا۔ شعور میں دور دور تک آیت کا نام و نشان نہیں تھا۔ عربی حفظ ہونا انہونی تھی۔ خیال نے کہا، دنیا میں انہونی کا وجود نہیں۔۔۔ ہر موجود شے معین ہے۔ آیت کا ترجمہ ہے:

                ” دین کے معاملے میں زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط بات سے الگ کر دی گئی ہے۔ اب جو طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لایا، اس نے ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو ٹوٹنے والا نہیں اور اللہ سب کچھ سننے، جاننے والا ہے۔“                             ( البقرۃ  : ۲۵۶)

        آیت کا جو مفہوم ذہن میں آیا اسے تحریر کر لیا۔ اچھی چیز اختیار کرنا اور بری چیز سے اجتناب دین ہے۔ ارادہ کو استعمال کرنا آدمی کو مصیبت میں ڈالتا ہے اور اس سے فساد پھیلتا ہے۔ جو شخص ارادہ اور اختیار کو استعمال نہیں کرتا اور اپنی نفی کر کے یقین لاتا ہے اللہ پر، تو اس نے پکڑا سہارا مضبوط جو ٹوٹنے والا نہیں۔ اس مقام کو قرآن نے بندگی فرمایا ہے۔ اور نیند کی حالت میں قرآن کی آیت حفظ کروا کر قدرت نے اسے بندگی سکھائی ہے۔

Topics


Murshid Ki Batein

خواجہ شمس الدین عظیمی



حضور قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں 

بچہ ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے 

استاد تراش خراش کے اسے ہیرا بنا دیتے