Topics

اندر میں کون۔۔؟

کمرے میں سسکیاں تھیں جو رونے کی آواز میں بدل گئیں۔ کوئی دبی آواز میں گفتگو کر رہا تھا تو کسی کی زبان پر قرآنی آیات کا ورد تھا۔۔ روح۔۔ روحانی دنیا میں لوٹ چکی تھی اور مٹی کے پتلے کو خاک کے سپرد کرنے کے انتظامات جاری تھے۔ دماغ سُن تھا۔ آوازوں کے باوجود اندر باہر، باہر اندر سناٹا تھا۔ ارد گرد سے بے نیاز نظریں ڈیڈ باڈی پر جمائے وہ مرنے والے کو نہیں۔۔۔ خود کو ڈھونڈ رہا تھا۔ جو ادراک پہلے کبھی نہیں ہوا۔۔ آج ہوا تھا۔۔ ایسا لگا کہ اس کے سامنے ماسک رکھا ہے۔

                                                                    کتنی مرتبہ مرشد کریم نے سمجھایا تھا کہ جسم لباس ہے  روح اصل ہے۔ ۔۔ روح اصل ہے جسم لباس ہے، لیکن عقدہ نہیں کھلا۔ خود سے پوچھا جو بات جس وقت بتائی جاتی ہے اس وقت سمجھ میں کیوں نہیں آتی۔۔۔؟

                                                                        وہ خاموش اور دل گرفتہ تھا۔ مرشد کریم جب روح اور جسم پر بات کرتے اور کئی بار تفصیل اور مختلف زاویوں سے سمجھانے کے بعد بھی بات سمجھ میں نہیں آتی تو فرماتے کہ تم ٹھوٹ ہو ٹھوٹ۔ آج سمجھ آیا ٹھوٹ ہونا کسے کہتے ہیں۔ خاموش دیکھ کر اندر میں کسی نے کہا، اللہ کا وعدہ ہے کہ جو مجھ میں جدوجہد کرتا ہے میں اس کے لئے اپنی راہیں کھول دیتا ہوں۔

                                                         اس نے دیکھا کہ زندہ اور مرنے والے کے جسم میں کوئی فرق نہیں۔ روح نکل جانے کے بعد ہم جسم کو ڈیڈ باڈی کہتے ہیں۔ جسم مرنے کے بعد ڈیڈ باڈی نہیں ہوتا بلکہ روح کی موجودگی میں بھی ڈیڈ باڈی ہے۔ موت یہی سکھاتی ہے کہ جسے تم نے حرکت میں سمجھا ، وہ حرکت کے تابع تھا۔

                                                                             ذہن بھاری ہو گیا تھا کہ اب تک جو دیکھا کیا دیکھا، جو دیکھ رہا ہے وہ کیا ہے۔ڈیڈ باڈی دیکھ کر احساس ہوا کہ جسے جانا وہ تھا نہیں۔۔ جو تھا اسے جانا نہیں۔ لیکن مرنے والے کے ساتھ وہ تو نہیں مر گیا۔ اپنے اندر کیوں نہیں دیکھتا ۔

                                                                        نظر وجود پر پڑی۔ دیکھا کہ وہ خود بھی سر سے پیر تک ماسک ہے۔ ہاتھ اٹھایا کہ دیکھے حرکت کہاں ہے۔ پہلی بار اندر میں متوجہ ہوا اور وزن محسوس کیا۔ دوسرا ہاتھ اٹھا اور ادراک ہوا کہ ہاتھ نہیں اٹھایا۔۔ اندر میں موجود کسی شے نے ہاتھ کو اٹھایا ہے۔وہ خود مٹی کا پتلا اور روبوٹ ہے۔ ذہن آنکھ کی طرف گیا۔ وہ نہیں۔۔ آنکھ کے پردوں کے پیچھے کوئی اور دیکھ رہا تھا۔ نہ صرف دیکھ رہا تھا بلکہ اپنی موجودگی کا احساس بھی دلا رہا تھا۔

                                                                   خود آگہی ایسی کیفیت ہے کہ ظاہر غائب اور غائب ظاہر ہو جاتا ہے۔ تجربہ سے دل ہر شے سے اچاٹ ہو گیا۔ اردگرد موجود ہر شے اور خود اپنا آپ دھوکا محسوس ہوا۔ بس خاموش رہ کر غور کر رہا تھا کہ وہ کون ہے، کیا ہے، کہاں سے آیا ہے اور جسم کو چھوڑ کر کہاں چلا جاتا ہے ؟

                                                                        اندر میں دیکھنا شروع کیا تو احساس ہوا کہ اگر آنکھ کے دیکھنے کو ہی دیکھنا کہتے ہیں تو تصور میں کون دیکھتا ہے اور سونے کے بعد آدمی کیا اور کہاں دیکھتا ہے۔۔۔؟ تصور میں آدمی اندر دیکھتا ہے اور اندر کے میکانزم سے ناواقف ہے۔

                                                                                            تجربہ یہ ہے کہ انگلش میں کوئی واٹر کہتا ہے تو اندر کا آدمی نہ صرف لفظ پانی سنتا ہے بلکہ پانی کی نمی بھی محسوس کرتا ہے۔ اگر کان سنتے ہیں تو گہری نیند میں آواز سنائی کیوں نہیں دیتی جب کہ کان موجود ہیں؟ سوتا ہوا آدمی جب نیند کی دنیا میں سنتا ہے تو اس کے علاوہ کوئی دوسرا کیوں نہیں سنتا۔۔۔؟

                                                   سننا کیا ہے۔۔۔۔؟

                                                                       کوئی فرد ایسا نہیں جسے کبھی محبت نہ ہوئی ہو۔ محبوب سامنے ہو تو لفظ بے معنی ہو جاتے ہیں خاموشی بات کرتی ہے۔ جب وہ مرشد کو یاد کرتا ہے، اندر باہر۔۔۔ باہر اندر گداز ہوتا ہے۔ آنکھیں شبنم بن جاتی ہیں۔ لگتا ہے آسمان رو رہا ہے یا آسمان پر بادل اظہار تمنا کر رہے ہیں کہ مخلوق کے لئے سیرابی ہو۔تصور میں اس حد تک کھو جاتا ہے کہ بے اختیار اپنے ہاتھ چوم لیتا ہے۔ محبوب سامنے ہونے کے باوجود زبان نہیں بولتی لیکن سمجھنے والا سمجھ لیتا ہے۔ نہ صرف سمجھ لیتا ہے بلکہ حال سے بے حال اور بے حال سے حال میں ملبوس ہو جاتا ہے۔

                                                                                                                    دل کہتا ہے محبت کا اظہار الفاظ سے نہیں ، تعمیل حکم سے ہے۔ تعمیل کے لئے ضروری ہے کہ نفی ہو جائے۔۔۔ صرف عمل باقی رہے۔ وہ جانتا ہے کہ ایسا کہنا بہت آسان ہے لیکن جب انا پر ضرب پڑتی ہے تو پھر تکلیف ہوتی ہے اور راستہ نظر  نہیں آتا۔ راستہ اس لئے نظر نہیں آتا کہ آدمی انا میں گم ہوتا ہے۔ صحیح اور غلط معلوم ہونے کے باوجود حقیقت کو قبول نہیں کرتا۔

                                                                  بہر حال ! جذبات بیان سے باہر ہوں تو مرشد قریب کرتے ہیں۔ کتنی مرتبہ ایسا ہوا کہ انہوں نے چھاتی سے لگایا۔ وہ ایک لمحہ تھا جس پر لمحات در لمحات قربان!

                                                                     مرشد کیا ہیں۔۔۔؟ سوال یہ ہے کہ مرشد کیا نہیں ہیں۔۔۔؟سب کچھ مرشد ہیں تو میں کیا ہوں۔۔۔؟

           بات کو اس وقت محسوس کیا جاتا ہے جب اس میں وزن ہو۔ وزن نہ ہو تو بات حواس کی حد میں نہیں آتی۔ وزن دراصل شکل و صورت ہے ۔ جتنا وہ اندر میں غور کر رہا تھا۔۔ ظاہر وجود غیر محسوس ہو رہا تھا۔لکھنے بیٹھا تو لکھتا چلا گیا، لفظ در لفظ مالا بن رہی تھی۔ ہاتھوں کو میکانکی انداز میں حرکت کرتے دیکھا۔ ابھی بات ذہن میں آئی نہیں کہ کی بورڈ پر انگلیوں کی حرکت شروع ہوگئی۔

                                                        بات ختم نہیں ہوئی۔ جب وہ بات کرتا ہے تو الفاظ کی ترتیب ذہن میں نہیں ہوتی۔ بولنا شروع کرتا ہے اور لفظ خود بخود دماغ کی اسکرین پر پرنٹ ہونے لگتے ہیں جیسے اندر کا ٹیپ ریکارڈر آن ہو گیا ہو۔ لگتا ہے ہم بات نہیں کرتے، ریکارڈ پڑھتے ہیں۔

                                                      جب ہم ریکارڈ پڑھتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ پڑھتا کون ہے۔۔ کیا ہم پڑھتے ہیں۔۔۔؟

                                         اگر ہم پڑھتے ہیں تو حیات جب رشتہ توڑ لیتی ہے تو پڑھ کیوں نہیں سکتے۔۔۔؟

غور کیجیئے سب کے ساتھ یہ ہوتا ہے۔

جس شے کو دیکھو ، ہر شے ماسک نظر آتی ہے۔ ظاہر اگر ماسک ہے تو اصل کیا ہے۔۔۔؟

کیا ایسا نہیں ہے کہ پھل، پھول، پودے ، جانور، جمادات ، آدمی، آبی مخلوق اور رنگ برنگ کائنات سب ماسک ہیں جو شعور دیکھتا ہے۔۔۔؟

 

کائنات کی تصویر  بنتے ہی اندر میں اسپارک ہوا احسن الخالقین اللہ تعالیٰ کی صفت ” المصور“ کا مشاہدہ ہوا۔ ” المصور“ کا مطلب تصویر کشی کرنے والا ہے۔

                                                مصور کے بنیادی حروف ” ص ور ۔۔۔صور “ ہیں۔

                             قاموس القرآن میں ” صور“ کے معنی شکل و صورت ہیں۔

                                 قرآن کریم میں لفظ ” صور“ کی مدد سے آیات تلاش کیں۔ رب العالمین اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،

هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ

                ” وہ اللہ ہے جو تخلیق کرنے والا، نافذ کرنے والا، اس کے مطابق صورت گری کرنے والا ہے۔ اس کے لئے بہترین نام ہیں۔“       (الحشر :۲۴)

                       خیال نے المصور سے پہلے ” الخالق“ کی طرف متوجہ کیا۔ آیت میں ترتیب  بتاتی ہے کہ پہلے تخلیق کیا پھر صورت بنائی۔ تخلیق سے مراد یہاں باطن ہے۔ پہلے باطن بنایا پھر باطن کو تصویر میں ظاہر کیا۔ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے آدم کو تخلیق کیا پھر صورت دی اور فرشتوں سے کہا کہ سجدہ کرو، سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس سجدہ کرنے والوں میں سے نہ تھا۔ تفکر طلب یہ ہے کہ صورت دینے کے بعد سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے پہلے نہیں۔

                                                                     قرآن کریم میں ” یوم ینفخ فی الصور “ کے الفاظ ہیں۔ فی کے معنی ” میں “ ہے۔ اب تک وہ یہی ترجمہ پڑھتا آیا تھا کہ جب صور پھونکا جائے گا جیسے صور کوئی آواز ہے۔ غور کیا تو معلوم ہوا کہ صور نہیں۔ صور میں پھونکا جائے گا۔

                                                                            پھر قیامت او ر اس کے بعد کا ذکر کرتے ہوئے احکم الحالکین اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،

                ” اور اس روز صور میں پھونکا جائے گا اور وہ سب مر کر گر جائیں گے جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، سوائے ان کے جنہیں اللہ زندہ رکھناچاہے۔ صور میں پھر پھونکا جائے گا اور یکایک سب کے سب اٹھ کردیکھنے لگیں گے۔“           ( الزمر : ۶۸)

”سوائے ان کے جنہیں اللہ زندہ رکھنا چاہے“ کے الفاظ معرفت سے متعلق ہیں۔

                                                                                              ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ اللہ تصویر کشی کرتا ہے ماں کے رحم میں جس طرح چاہے۔ یعنی کوئی شے پہلے سے موجود ہے جس کی تصویر کشی کی جا رہی ہے۔ ایک کے بعد ایک پیرہن بن رہا ہے۔

                                                              یہ بھی ارشاد ہے کہ اللہ معین مقداروں کے ساتھ تخلیق کرتا ہے اور جس صورت میں چاہتا ہے جوڑ دیتا ہے۔ قرآن کریم میں جہاں پیدائش کا بیان ہے وہاں تخلیق کا ذکر پہلے ہے اور صورت کا بعد میں۔ تخلیق سے باطن اور

 ” صور“ سے ظاہر مراد ہے۔ ظاہر جس کی حیثیت ڈیڈ باڈی ہے اور ڈیڈ باڈی ماسک ہے۔

                                                   رب العالمین اللہ تعالیٰ ظاہر اور باطن کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں،

                ”پھر جس وقت پھونک مارے صور میں، تو نہ ذاتیں ہیں ان میں اس دن

                   اور نہ آپس میں پوچھنا۔“     ( المؤمنون :۱۰۱)

پھونک آواز کے قانون کی طرف متوجہ کرتی ہے۔

وہ سوچ رہا تھا کہ آخر پھونک ہے کیا۔۔۔؟

خیال نے کہا، جب ہم پھونک مارتے ہیں تو ”ھُو“ کی آواز آتی ہے۔

خود سے سوال کیا کہ ھُو کیا ہے۔۔؟ اور کیا روح کی کوئی شکل و صورت بھی ہے۔۔؟

مرشد کریم سے پوچھا ، اندر میں غور کرتا ہوں محسوس ہوتا ہے کوئی ہے۔ وجود  شدت سے موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ باطن غالب اور ظاہر غائب نظر آتا ہے۔ اندر میں محسوس ہونا کیا ہے۔۔ اندر میں کون ہے۔۔۔؟

                                                                                                   فرمایا، ” آدمی کی اصل تجّلی ، نور اور روشنی ہے اور اس کے بعد  matter ہے۔ جسم کی حیثیت روبوٹ کی ہے۔ روبوٹ میں اظہار کا ذریعہ چابی ہے۔ دراصل چابی بھی فکشن ہے۔ اب جو چیز فکشن سے دیکھیں گے، فکشن نظر آئے گی۔ اصل کیا ہے۔۔۔؟ اصل فکشن نہیں ہے۔ چابی سے تشبیہ اس لیے دی جاتی ہے کہ ہمارے پاس الفاظ نہیں۔۔ اب میں کہوں نورِ مطلق ۔۔ کیا سمجھ میں آئے گا؟ نہیں اس لیے کہ نہیں معلوم نورِ مطلق کیا ہے۔“

                                                          چہرہ پر پریشانی دیکھ کر انہوں نے ہاتھ پکڑا اور بتایا، ” یہ جو آپ کا ہاتھ ہے ، تین پرتوں کا مجموعہ ہے۔ ابھی نور کی بات نہیں ہو رہی۔ نور ان پر توں کو فیڈ کرتا ہے۔ دل میں جو نقطہ ہے اس سے واقف ہوں گے تو نور سے واقف ہو جائیں گے ۔ نور سے واقف ہوں گے۔ ہر شے روشن ہو جائے گی۔ دل نے جو دیکھا ، جھوٹ نہیں دیکھا۔ روح کا دیکھنا، دل کا دیکھنا ہے۔ روحانیت کا مقصد اللہ سے قربت ہے۔ قربت کے لیے ضابطہ حیات قرآن کریم ہے۔۔اللہ نور السمٰوٰت و الارض۔“

Topics


Murshid Ki Batein

خواجہ شمس الدین عظیمی



حضور قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں 

بچہ ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے 

استاد تراش خراش کے اسے ہیرا بنا دیتے