Topics

عالم تمام حلقۂ دام خیال ہے


نیند سے جاگا تو زبان پر آیت تھی کہ اللہ کے دوستوں کو خوف و غم نہیں ہوتا۔اس کے ساتھ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب نیند سے آنکھ کھلتی ہے تو زبان پر قرآن کی کوئی آیت ہوتی ہے۔اور آواز تو اس کی ہوتی ہے لیکن آواز میں ایسا نور ہوتا ہے کہ وہ سمجھ نہیں پاتا۔ دماغ پرسکون ہوتا ہے، آنکھیں نیم کھلی اور کانوں میں نورانی آواز کی گونجار محسوس ہوتی ہے۔ اس آواز میں ایسا نور ہوتا ہے کہ خود کو بھول جاتا ہے اور جاگنے کے باوجود نیند کی لہروں میں گم ہوتا ہے۔ دل گداز ہوتا ہے، آنکھیں جھرنا بن جاتی ہیں۔ عجیب منظر ہوتا ہے جس کی منظر کشی شعور سے ماورا ہے۔ جو آیت زبان پر ہوتی ہے اس کا تعلق حال سے ہوتا ہے۔ حال کیا ہے، یہ بھی ایک سوال ہے۔ مرشد کریم سے کبھی پوچھا نہیں لیکن ان سے گفتگو کے دوران حال کا آسان مطلب سمجھ میں آگیا تھا۔

 

        جن کیفیات سے ہم گزرتے ہیں اگر وہ قانون قدرت کے مطابق نہ ہوں اور ہم ان سے نکلنا چاہتے ہیں تو قدرت مدد کرتی ہے۔ لیکن قدرت تو سب کی مدد کرتی ہے۔ وہ بے نیاز ہے۔ جو اسے نہیں مانتا وہ اس کی بھی رازق ہے۔ ہاں! یوں کہنا چاہئے  کہ بندہ جب اللہ کے راستہ میں جدوجہد کرتا ہے تو راہیں روشن ہوتی ہیں۔ لڑکھڑانے لگتا ہے تو ہمت عطا ہو جاتی ہے۔ جب تک بندہ مکمل طور پراپنے شعور کی نفی نہیں کردیتا، قدرت مختلف طریقوں سے راہ نمائی کرتی ہے۔ کوئی بچہ پہلے دن اسکول جا کر پہلا گریڈ پاس نہیں کر لیتا۔ ہر روز سبق ملتا ہے اور ہر سبق نیا ہوتا ہے یا پھر سبق ایک ہی ہے، بس زاویے نئے روشن ہوتے ہیں اور مقررہ وقت کے بعد بچہ کو پہلی کلاس کی سند ملتی ہے۔

        اسی طرح وہ بھی شعور کی نفی کے راستہ پر چل رہا ہے تاکہ حقیقت۔۔۔ حقیقت سے آشنا کر دے۔

تجربات نے سکھایا ہے کہ ہر وہ لمحہ محفوظ ہے جس میں ذہن مرشد کی طرف ہو۔ اس بار اس نے مرشد کا ہاتھ پکڑا نہیں ہے۔ اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دیا ہے۔ بے یقینی سر اٹھاتی ہے تو ہاتھ پر گرفت کا احساس ہوتا ہے اور وہ گم نہیں ہوتا بلکہ حال کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔

        تربیت کا عمل بتاتا ہے کہ ذہن بننے کے لیے وقت درکار ہے۔ وقت کیا ہے، کیسے گزر رہا ہے اور اس میں تبدیلی کیسے ہوتی ہے۔ سورج اور چاند سے وقت اور دنوں کا تعین ہوتا ہے۔ سورج نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے اور چاند بادلوں میں چھپ جاتا ہے ۔ دن اور رات کو وقت کہا جاتا ہے لیکن دن مستقل ہے اور نہ رات۔ پھر وقت کی کیا تعریف ہوئی۔ کیا وقت میں تبدیلی ہے۔ اگر ہے تو کیا ہے؟

        اللہ کے دوستوں کو خوف اور غم نہیں ہوتا۔ خوش رہتے ہیں۔ یہ اللہ کی رضا میں راضی رہنے کی خوشی ہے۔ قدرت اُسے مسلسل اللہ کی رضا میں راضی رہنے کی تلقین کر رہی ہے۔خیال بتاتا ہے کہ وقت کا غم اور خوشی سے گہرا تعلق ہے۔ جب آدمی خوش ہوتا ہے، وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوتا۔ غمگین ہوتا ہے، محسوس ہوتا ہے کہ وقت ٹھہر گیا جب کہ وقت ٹھہرا نہیں۔ وقت کا تعین رفتار سے ہے اور رفتار کا تعلق وجود سے ہے۔ حرکت وجود میں ہوتی ہے۔ وجود نہ ہو تو حرکت نہیں ہوگی۔ خوشی اور غم کیفیت ہے۔ کیفیت وجود ہے۔ خوش رہنے والے شخص کے چہرہ پر رونق ہوتی ہے اور افسردہ آدمی کا چہرہ بیمار نظر آتا ہے۔ کیفیت بدلتی ہے تو وقت بدلتا ہے۔

        روحانیت میں وجود کو مکان یا space  کہتے ہیں اور حرکت یا وقت کو زمان یا  time  کہا جاتا ہے۔خوشی اور غم کی کیفیت کو سامنے رکھ کر مکان اور زمان کو سمجھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ زمان ہے تو مکان ہے۔ سائنس کی ترقی مکان اور زمان کے گرد گھوم رہی ہے۔ وہ وقت کی رفتار کو بڑھا رہے ہیں اور مزید بڑھانا چاہتے ہیں۔ لیکن وقت کی رفتار کو بڑھانے کے لیے وہ کیا کرتے ہیں۔۔۔؟ پہلے وجود تیار کرتے ہیں۔ سائیکل بنائی، رفتار کو بڑھانے کے لیے موٹر سائیکل، گاڑی، ریل گاڑی اور ریل کے بعد ہوائی جہاز ، راکٹ اور خلائی شٹل بنا دی۔

        ہر ایجاد میں رفتار کا تعلق وجود کی صلاحیت سے ہے۔ یہی نہیں، ماں کے رحم میں بچہ کا وجود بنتا ہے تو یہ وقت کی کارفرمائی ہے۔۔۔ لیکن وقت میں تغیر نہیں ہے۔ بظاہر نظر آتا ہے کہ وقت میں تغیر مٹر کے برابر بچہ کی ایک تصویر بنا دیتا ہے لیکن یہی وقت بچہ کے نرم و نازک کومل چہرہ کو الجھی ہوئی جھاڑی کی طرح جھریوں سے بھر دیتا ہے۔ ہم عمر کا تعین بچہ کے ماں کے وجود سے باہر آنے کے بعد کرتے ہیں لیکن فہم بتاتی ہے کہ بچہ کی زندگی کا وقت اس وقت شروع ہوا جب ماں کے رحم میں اس کا وجود بنا۔ ایسے ممالک ہیں جو پیدائشی عمل کے نو ماہ بھی عمر میں شامل کرتے ہیں۔

        سائنس مشین کی رفتار کو بڑھانے پر کام کر رہی ہےاور روحانی سائنس ذہن کی رفتار کو بڑھانے پر کام کرتی ہے۔ اسپیس بدلے گی وقت بدلے گا۔۔۔ یہ الفاظ بار بار ذہن میں گونج رہے تھے۔ گاڑی میں بیٹھتے ہیں تو رفتار اور ہوتی ہے۔ ہوائی جہاز میں بیٹھے ، اسپیس بدل گئی لامحالہ رفتار بھی بدل گئی۔

        خیال نے کہا، جنت سے ہو کر آئے ہو، جنت کی زندگی پر غور کرو۔

                                                                جنت کے لیے اللہ نے فرمایا کہ جہاں سے جی چاہے خوش ہو کر کھاؤ پیو۔ جنت خوشی کا مقام ہے اور خوشی میں وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوتا ۔ جنت میں نافرمانی نے آدمی کو غم میں مبتلا کر دیا۔ اور آدمی اس اسپیس میں آگیا جہاں وقت کی رفتار کم ترین درجہ پر ہے۔

                                                  اسپیس کے درجات ہیں۔ ہر درجہ میں وقت کی رفتار کا تعلق اسپیس کی صفت پر ہے۔ ذہن کی رفتار کو بڑھانے کے لیے اسپیس کا بدلنا ضروری ہے۔۔۔ وقت خود بخود بدل جائے گا۔   

حضرت علامہ محمد اقبال ؒ فرماتے ہیں،

                        احوال                                      و                                                  مقامات                                                       پہ                                                    مو قوف                                                                       ہے                                                          سب                                                                        کچھ

                        ہر                                            لحظہ                                                         ہے                                                    سالک                                                 کا                                              زماں                                                        اور                                                               مکاں                                                                 اور

        اسپیس پر غور کرنے سے سمجھ میں آیا کہ خیال بھی اسپیس ہے۔ آنکھیں بند کر کے دنیا کا خیال کیجئے، دنیا خیال بن جائے گی۔ دنیا اچھی ہے، وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوگا۔ ذہن میں دنیا کا تصور مایوس کن ہے، ذہن بھاری ہو جائے گا۔ ذہن کا بھاری ہونا کیا ہے۔۔۔؟

        وہ سوچ رہا تھا ہم میں سے ہر شخص ذہین بننا چاہتا ہے لیکن کیا ہم جانتے ہیں کہ ذہانت کیا ہے اور ذہین شخص کسے کہتے ہیں؟ ذہانت کا تعلق ذہن کی رفتار سے ہے۔ جتنی رفتار تیز ہوتی ہے بندہ اتنی جلدی معاملات کی تہ تک پہنچتا ہے، نت نئے ایجادات کرتا ہے ، زندگی میں آسانیاں تلاش کرتا ہے۔ رکاوٹیں پریشان نہیں کرتیں کیوں کہ وہ راستہ بنانا جانتا ہے۔ تیز گھومنے والی شے پر بوجھ رکھ دیا جائے تو اس کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ آدمی کا ذہن بھی

Revolving surface کی مانند ہے جہاں خیال آتا ہے اور مظاہرہ کر کے واپس چلا جاتا ہے جہاں سے آیا تھا۔ یوں ایک دائرہ بن گیا۔

         اس نے سوچا جو خیال کسی جنیئس کو آتا ہے وہ عام آدمی کو بھی آتا ہے لیکن جینیئس عمل کر لیتا ہے اور عام آدمی اس خیال پر توجہ نہیں دیتا۔ یوں خیال واپس اپنے source کی طرف چلا جاتا ہے۔ایک عام آدمی اور جینیئس میں کیا فرق ہوا۔۔۔؟ عام آدمی کا ذہن بٹا ہوا ہے۔ اس کی توجہ غیر ضروری چیزوں کی طرف ہے۔ جب کہ جس شخص کو جینیئس کہا جاتا ہے اس کا ذہن یکسو ہے۔ جینئس کے پاس اتنا ٹائم نہیں کہ وہ غیر ضروری چیزوں پر وقت ضائع کرے اس لیے توجہ بٹتی نہیں۔ جب توجہ نہیں بٹتی تو ذہن رکتا نہیں اور رفتار تیز ہو جاتی ہے۔

        بات سمجھنے کے لیے ذہن میں گاڑی کی مثال آئی۔ دو گاڑیاں ایک سڑک پر سفر کر رہی ہیں۔ ایک بس ہے اور ایک نجی گاڑی۔ نجی گاڑی کا ڈرائیور یہاں وہاں کے بغیر تیز رفتاری سے منزل کی طرف رواں ہوگا اور بس کی بہ نسبت بہت پہلے پہنچے گا۔ کیوں۔۔۔؟ اس لیے کہ بس جگہ جگہ رکتی ہے، طرح طرح کے لوگوں کو سوار کرتی ہے، اتارتی ہے، نئے لوگ چڑھتے ہیں، یہاں تک کہ تِل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی۔بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ ڈرائیور کو مزید مسافر ملتے ہیں تو وہ انہیں بس کی چھت پر سوار کر لیتا ہے۔ مخصوص اسٹاپ پر بس کو کافی دیر رکنا بھی پڑتا ہے۔ اب اس بھری بس کے ساتھ وہ اس رفتار سے نہیں جا سکتا جیسے نجی گاڑی جاتی ہے۔  

         اس نے خود سے پوچھا کہ ہم میں اور بس میں کیا فرق ہوا۔۔۔؟ ہمارے ذہنوں کی حالت بھی اس بس جیسی ہے، ہم بھی جگہ جگہ رکتے ہیں، غیر ضروری چیزوں کو دماغ میں جگہ دیتے ہیں، خوب کھچڑی پکاتے ہیں، دماغ کو ادھر اُدھر کی باتوں ، قیاس آرائیوں، غیبت، جھوٹ، لڑائی جھگڑوں، چغل خوری، حسد ، کینہ، انتقام، غصہ، نفرت، مستقبل کے اندیشوں اور مال جمع کرنے کی ہوس سے اتنا بھر دیتے ہیں کہ ذہن بھاری ہو جاتا ہے اور ہم بے سکون۔اب اس ذہن کو کیسے کوئی بات سمجھ میں آئے جس میں پہلے ہی اتنا گھاس پھوس اور کوڑا کرکٹ بھرا ہوا ہے۔ ایسے ذہن کی رفتار تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ جہاں ہوتا ہے، وہیں رہتا ہے۔

        ذہن کی رفتار کیسے بڑھے۔۔۔۔؟ سوال بھی اسی کا تھا اور جواب سے بھی وہ واقف تھا۔

        روحانیت میں مرشد کی کیا اہمیت ہے مرید جانتا ہے۔ مرشد معرفت کے مرتبہ پر ہیں، مقام عبدیت پر ہیں۔ تصور شیخ دراصل اپنی مادی اسپیس سے نکل کر مرشد کے ذہن کی اسپیس سے واقف ہونا ہے۔ جتنا مرشد چاہیں۔

        دو سال پہلے اس نے ان سے عرض کیا کہ حضور ! میں کسی حال میں نہیں ہوں۔

        مسکرائے اور فرمایا۔۔۔” پھر آجاؤ حال میں۔ “

        کیسے۔۔۔۔؟

        فرمایا۔۔۔” جیسا کہتا ہوںویسا کرو۔“

        خیال نے کہا۔۔ ذہن کی رفتار کو بڑھانے کا یہی فارمولا ہے۔ قطرہ اس وقت سمندر بنتا ہے جب وہ سمندر میں ملتا ہے۔ قطرہ گم ہو جاتا ہے اور سمندر باقی رہتا ہے۔قطرہ کا سمندر میں گم ہونا کیا ہے؟ قطرہ کی اسپیس بدل گئی۔ اسی طرح صلوٰۃ کو مومن کی معراج کہا جاتا ہے۔ مومن کو صلوٰۃ میں مرتبۂ احسان حاصل ہوتا ہے۔ وہ تصور کرتا ہے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے تو ذہن کی اسپیس بدل جاتی ہے۔

        جب سے اس نے مرشد کریم کی باتوں پر عمل کرنا شروع کیا ہے سامنے آنے والی ہر رکاوٹ اور خواہش کو امتحان سمجھتا ہے۔ ایسا کئی بار ہوا کہ مرشد کے علاوہ جس چیز کی جانب متوجہ ہوتا ، خواب میں نشان دہی ہو جاتی ہے کہ قدم غلط سمت میں اٹھ رہے ہیں اور وہ چوکنا ہو جاتا ہے۔ امتحان سے متعلق وہ واقعہ یاد آیا جو کسی نے سنایا تھا۔

        ایک مرتبہ ایک شاگرد مرشد کریم کے پاس گیا اور لوگوں کے رویوں کی شکایت کی۔

        صاحب طریقت نے پوچھا،  ” آپ یہاں کس لیے آتے ہیں؟“

        شاگرد نے کہا، آپ کے لیے۔

        انہوں نے پوچھا ، ” کیا آپ کو مجھ سے شکایت ہے؟“

        شاگرد نے فوراً کہا ، نہیں جناب! مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں۔

        فرمایا، ” بس تو پھر یہ سب لوگ تمہاری تربیت کے لیے ہیں!“

        اس نے خود سے کہا، کتنے مسائل غصہ اور انتقام سے پیدا ہوتے ہیں اور ذہن کو بھاری کر دیتے ہیں۔ درگزر اور معافی ذہن کو ہلکا ، حواس کی رفتار کو تیز اور پرواز کو بلند کرتے ہیں۔ اس راہ میں قدم قدم پر امتحان ہے، الجھو مت، گزر جاؤ۔ کیا معلوم کون تمہارا امتحان ہے اور تم کس کا!

        مرشد کریم نے اسے واقعہ سنایا جو انہیں ان کے مرشد نے سنایا تھا۔

         ایک نواب صاحب تھے۔ ان کو شوق تھا روحانیت سیکھنی چاہئے ۔ جاننا چاہتے تھے یہ کون سا علم ہے اور کیسے حاصل ہوتا ہے۔ شہر میں ایک فقیر رہتے تھے ان کے پاس جا کر بیٹھنا شروع کیا اور اس کے لیے جمعرات کا دن مقرر کیا۔ کافی عرصہ تک یہ معمول رہا۔

        ایک روز فقیر نے پوچھا، آپ تشریف لاتے ہیں لیکن کبھی کوئی بات نہیں کی مدعا بیان نہیں کیا۔ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتایئے۔

        نواب صاحب نے کہا، حضور! مجھے اللہ سے ملاقات کرنی ہے۔

فقیر خاموش ہوگیا۔ کچھ عرصہ بعد پھر پوچھا۔ نواب صاحب ! کوئی خدمت ہو تو بتایئے۔

        نواب صاحب نے دوبارہ عرض کیا کہ اللہ سے ملنا ہے۔

        سوال جواب کا سلسلہ تین مرتبہ ہوا تو ایک رات یہ واقعہ پیش آیا۔

بالا خانہ پر نواب صاحب کے مخصوص کمرے کے دروازہ پر کسی نے دستک دی۔ کڑاکے کی سردی تھی۔ یہ آواز نواب صاحب کو بہت ناگوار گزری اور ذہن میں خیال آیا کہ رات کے وقت اتنی سردی میں کون آگیا۔ یہ کمرہ ایک قلعہ میں تھا۔ نواب صاحب نے ملازمین کو بلانے کے لیے گھنٹی بجادی۔ گھنٹی کی آواز محل میں گونجی تو افراتفری پھیل گئی۔ سپاہی ہتھیار سنبھالے نواب صاحب کے کمرے میں جا پہنچے۔ اس سے پہلے کہ سپاہی بالا خانہ پر پہنچتے، نواب صاحب نے دروازہ کھول کر دیکھا کہ ایک آدمی پھٹے پرانے کپڑے پہنے کھڑا ہے اور سردی سے کپکپا رہا ہے۔

        فقیر نے کہا، میرے پاس کپڑے نہیں ہیں اور سردی بہت زیادہ ہے مجھے کپڑے دے دیجئے۔

نواب صاحب کے غصہ کی حرارت کا پارہ 106 پر پہنچ گیا۔ اور انہوں نے جو کچھ کہا وہ قارئین خود سوچیں کہ نواب صاحب نے کیا کہا ہوگا۔ اتنے میں سپاہی ہاتھوں میں لاٹھیا ںاور بندوقیں لیے اوپر پہنچ گئے اور نواب صاحب کے حکم پر اس کو مارتے پیٹتے گالم گلوچ کرتے پکڑ کر لے گئے۔

        اگلا روز جمعرات تھا۔ نواب صاحب حسب معمول بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

        جب وہ اطمینان سے بیٹھ گئے بزرگ نے کہا، نواب صاحب کیسے آئے ہو کیا کام ہے؟

        نواب صاحب نے نہایت عاجزی و انکساری سے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا، سرکار اللہ سے ملنا ہے۔

درویش نے جب یہ بات سنی تو چہرہ سرخ ہو گیا۔ آنکھوں میں جلال اتر آیا اور کہا۔۔۔ نواب صاھب! آپ جھوٹ بولتے ہیں۔ رات اللہ میاں آپ کے پاس آئے تھے انہوں نے آپ سے سخت سردی میں کپڑے مانگے اور آپ نے اپنے اہل کاروں سے انہیں دھکے دلوا کر گھر سے نکال دیا۔آپ سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے ایک فقیر کو جس کو اللہ نے بھیجا تھا کپڑوں کے انبار میں سے ایک جوڑا کپڑا تو دے نہیں سکے، آپ اللہ سے ملنے کی توقع رکھتے ہیں۔۔؟

Topics


Murshid Ki Batein

خواجہ شمس الدین عظیمی



حضور قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں 

بچہ ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے 

استاد تراش خراش کے اسے ہیرا بنا دیتے