Topics

پانی + مقداریں+ رنگ+ روشنی = نور

   سوالات بڑھ رہے تھے۔ مرشد کریم چاہتے ہیں کہ وہ قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھے کیوں کہ جواب حکمت والی کتاب میں موجود ہیں۔ وقت ضائع کیے بغیر کتابوں کے شیلف کی جانب بڑھا۔ مقدس کتاب کو اٹھایا، دل سے لگایا اور اسٹدی ٹیبل کی طرف بڑھ گیا۔

 کلام الٰہی کو پڑھنے سے پہلے خیال آیا کہ اس کا ذہن محدود ہے اور ہاتھ میں موجود کتاب لامحدود مفہوم رکھتی ہے۔دل نے کہا۔۔ غیر جانب دار ذہن سے قرآن کو پڑھنے کی دعا مانگ ! اس نے درود شریف پڑھا۔ قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی اور کتاب کھول لی۔

 قرآن کریم کو ترتیب سے پڑھنا شروع کیا۔ ساتھ ہی جہاں جہاں حکمت کا ذکر تھا وہ آیات تلاش کرنا شروع کر دیں۔ بس آغاز کی دیر تھی۔۔ اس آغاز کی جس کا کوئی اختتام نہیں ہے۔ خواہش تھی جب کبھی موقع ملے شیخ سے عرض کرے گا کہ اسے قرآن پڑھائیں۔ اور جب اس نے باقاعدگی سے قرآن پڑھنا شروع کیا تو سمجھ آیا کہ مرشد کریم اتنے عرصہ سے اسے قرآن ہی تو پڑھا رہے ہیں۔یہ اس کی نااہلی تھی جو دیر کی اور سورس سے رجوع نہ کیا۔ دل مرشد کریم کی محبت سے معمور ہو گیا۔ خیال نے بتایا کہ جو محبت تم محسوس کرتے ہو یہ تمہاری نہیں، کریم مرشد کی تم سے ہے۔ تمہاری محبت تعمیلِ حکم میں ہے۔۔۔ خود کو کھو کر پانے میں ہے۔

  جن آیات میں حکمت کا ذکر ہے ریسرچ کے لیے معاون قرآنی الفاظ کی فہرست پر مبنی کتاب کی مدد سے ایک ایک کر کے نوٹ بک میں اتارتا گیا۔ یہ ایسا کام تھا جس میں لطف و سرور اور دل کا سکون تھا۔ محسوس ہوا ضمیر بھی اس کی مدد کررہا ہے۔

قرآن کریم میں جہاں جہاں انبیائے کرام ؑ کا تذکرہ ہے وہاں خالق کائنات اللہ نے حکمت کا ذکر کیا ہے۔ ہم سب کے بابا حضرت آدمؑ کو اللہ نے اپنی صفات کا علم عطا کیا ۔ اللہ خالق ہے، تخلیق کرتا ہے تدبیر کے ساتھ۔بابا آدم ؑ نے فرشتوں کے سامنے معین مقداروں سے تخلیق کا مظاہرہ کیا۔ یہ دیکھ کر فرشتوں نے اپنی کم علمی اور خالق کے علیم و حکیم ہونے کا اقرار کیا۔

 قرآن میں آدمؑ کی تخلیق سے پہلے فرشتوں کے آدم ؑ کے متعلق خدشات اور پھر اپنی کم علمی کا اعتراف پڑھ کر اس نے سوچا کہ باپ کا ورثہ اولاد کو منتقل ہوتا ہے۔بابا آدمؑ نے ورثہ میں اولاد کو علم دیا لیکن کیا اولادِ آدم نے اس ورثہ کو اپنایا؟ جس نے اپنایا قرآن نے اس کا شمار نیک بختوں میں کیا ہے اور جس نے جاننے کی کوشش نہیں کی اسے چوپایوں سے بدتر کہا ہے۔

  نوٹ بک میں اتاری گئی آیتوں کو اس نے کئی بار پڑھا اور پھر ذہن میں آئے خیالات کوتحریر کرنا شروع کر دیا۔ اس کی عادت تھی کہ کسی موضوع پر سوچتے ہوئے جو کچھ ذہن میں آتا تحریر کر لیتا ۔ لکھنے سے باتیں ذہن نشین ہو جاتی ہیں۔ وہ لکھ رہا تھا کہ بابا آدم ؑ سے لے کر خاتم النبیینتک تمام انبیائے کرام علیھم السلام کا ورثہ علم ہے۔وہ علم جو معین مقداروں کا ہے۔ حضرت نوحؑ بھی اپنی قوم کو تفکر کی طرف راغب کرتے رہے کہ اللہ نے مجھ پر رحمت بخشی، میں وہ بات جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ غور کرو اپنی پیدائش پر، تخلیق کے لیے تم کتنی تبدیلیوں سے گزرتے ہو، مخلوقات کی پیدائش پر غور کرو، کیسے اللہ نے تہ در تہ سات آسمان بنائے، آسمان کو ستاروں سے زینت بخشی، سورج کو چراغ اور چاند کو اجالا بنایا، زمین کو پھیلایا اور اس میں ہر قسم کے میوے رکھے۔

 حضرت صالح    ؑ کو کھلی سند اور رحمت دی۔ حضرت لوط ؑ اور یوسف ؑ کو قوت فیصلہ اور علم دیا۔ حضرت اسمٰعیل ؑاور اسحٰق ؑ کو اپنی رحمت میں داخل کر کے بلند مرتبہ عطا کیا۔ حضرت ابراہیم ؑ کو حکمت و سلطنت عطا کی اور زندہ پرندوں کو موت اور پھر زندگی دے کر ان کے علم کو حق الیقین کا درجہ دیا۔

 حضرت داؤد ؑ کا مقابلہ جب جالوت کے لشکر سے ہوا تو لشکر داؤد تعداد میں جالوت کے لشکر سے بہت کم تھا لیکن اللہ نے داؤد ؑ کو حکمت و سلطنت عطا کی تھی اور کفار کے دلوں پر ان کا خوف بٹھا دیا۔حضرت داؤد ؑ نے اللہ کے حکم سے جالوت کو مار گرایا اور فتح پائی۔

    یہ حکمت ہی تھی کہ حضرت داؤد کے ہاتھوں میں اتنی توانائی جمع ہو جاتی تھی کہ لوہا موم کی طرح نرم ہو جاتا اور وہ حسب منشا زنجیریں، زرہیں وغیرہ بنا لیتے۔زمین و آسمان کی ہر شے ان کے تابع تھی۔ جب وہ صبح و شام اللہ کی حمد بیان کرتے، ان کی آواز زمین و آسمان میں جہاں جہاں ٹکراتی، ہر شے ان کے ساتھ ہم آواز ہو کر اللہ کی پاکی بیان کرتی۔

  حضرت داؤدؑ کے بیٹے حضرت سلیمان ؑ کی بادشاہت سے کون واقف نہیں۔ جن و انس ، چرند پرند ، نباتات، جمادات، آبی مخلوقات سب ان کے تابع فرمان تھے اور حکمت کے علم کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ حضرت سلیمان ؑ کا دور ہر لحاظ سے جدید تھا۔ علم کی معراج کا یہ عالم تھا کہ ان کے دربار میں موجود الہامی کتاب سے واقف ایک شخص آصف بن برخیا ، ٹائم اسپیس کی نفی کر کے ملکہ سبا کا تخت پلک جھپکنے سے پہلے لے آیا۔

    حضرت موسیٰ ؑ کو اللہ نے توریت عطا کی اور اسے ہدایت اور روشنی فرمایا۔ وہ عصا دیا جس نے اژدہا بن کر فرعون کے دربار میں سانپوں کو نگل لیا۔حضرت عیسیٰ ؑ کو کتاب و حکمت اور انجیل سکھائی۔ وہ مٹی سے پرندوں کی صورت بنا کر پھونک مارتے تو وہ اڑتا جانور بن جاتا۔ اندھا بینا اور کوڑھی ٹھیک ہو جاتا۔ مردوں کو زندگی ملتی اور آپ لوگوں کے دلوں کا حال بتا دیتے۔

 باعثِ تخلیق کائنات ، محبوب رب العالمین حضرت محمد کے لیے کئی مقامات پر ارشاد ہوا کہ لوگوں کے لیے ایسا رسول بھیجا جو بتاتا ہے نشانیاں، سنوارتا ہے دلوں کو سکھاتا ہے کتاب و حکمت۔ قرآن کو حکمت والی کتاب کہا۔ حضورپاک کے معجزات حکمت کی دلیل ہیں۔

     اس نے نوٹ کیا کہ اللہ نے قرآن میں حکمت کے ساتھ سلطنت کا بھی ذکر کیا ہے۔ کائنات میں اللہ کا نائب وہی ہے جس کے پاس حکمت یعنی معین مقداروں کا علم ہے۔ ساتھ ہی اپنی رحمت اور فضل کا بھی تذکرہ فرمایا۔ اس نے سمجھا کہ اللہ کی رحمت اور فضل کا مطلب علم ہے۔ جگہ جگہ پر بتایا کہ اتاری گئی ہے کتاب و حکمت تاکہ سمجھائے چیزوں کی معرفت ۔ یہ بھی بتایا کہ شیطانی طرز عمل سے شک ، خوف، تنگی اور غیر اخلاقی قدروں کا غلبہ ہوتا ہے اور اللہ کے فرستادہ بندوں کی قربت میں بخشش، کشائش، رحمت اور فضل ہے۔ اور اللہ کافضل حکمت ہے۔جس کو ملی حکمت اس کو ملی خوبی۔ اور خوبی یہ ہے کہ حکمت کا علم رکھنے والا اللہ کے دیئےہوئے اختیار سے جب اللہ کے بھروسہ پر کچھ کہتا ہے  وہ ہو جاتا ہے۔

گفتئہ    اُو    گفتئہ   اللہ    بود

گرچہ  از    حلقوم  عبداللہ    بود

   حدیث قدسی ہے،

" میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ دیکھتا ہے، میں اس کے کان بن جاتا  ہوں کس کے ذریعے وہ سنتا ہے ، میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس کےذریعے وہ پکڑتا ہے، میں اس کے پیر بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ چلتا ہے، میں اس کی زبان بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ بولتا ہے۔ " (صحیح بخاری)

   حکمت ایک بار پھر اسے معین مقداروں تک لے آئی تھی۔ مقداریں کیا ہیں، یہ جاننے کے لیے اس نے تجربہ کرنے کا ارادہ کیا۔ دو پیالوں میں پانی لے کر آیا۔سرخ رنگ کے دو قطرے ایک پیالہ میں اور پیلے رنگ کے دو قطرے دوسرے پیالے میں ڈالے۔ رنگ پانی میں ملتے ہی پانی کا رنگ بدل گیا۔ تجربہ کا نتیجہ سوچ کے مطابق تھا۔ پانی سرخ اور پیلا اس لیے نظر آرہاتھا کہ ایک میں سرخ اور دوسرے میں پیلے رنگ کی مقداریں شامل کی گئی تھیں۔

    بات یہ سمجھ میں آئی کی چیزوں کا رنگ رنگ ہونے کا مطلب ان کی قسمیں ہیں اور اقسام مقداریں ہیں۔ سرخ کے دو قطرے ڈالنے کا مطلب سرخ رنگ کی مقداروں کا شامل ہو نا ہے۔ لیکن وہ پانی جو زمین کو دیا جاتا ہے، اگر اس میں مختلف رنگوں کی مقداریں شامل ہیں تو وہاں رنگ نظر کیوں نہیں آتے۔۔؟

     سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس طرح معاملہ کی تہہ تک پہنچے۔ آخر یہ مقداریں کیا ہیں، کیسے کام کرتی ہیں اور نظر کیوں نہیں آتیں۔۔؟ اور وہ رک گیا۔ اس نے خود سے کہا اتنی دیر سے تم پانی پانی کر رہے ہو، پانی لکھ رہے ہو، پانی سے بننے والی چیزوں کے بارے میں سوچ رہے ہو، پانی پر تجربہ کر رہے ہو۔ پہلے یہ تو معلوم کرو کی مقداریں جس پانی میں شامل ہیں وہ پانی کیا ہے۔

   معین مقداروں کی تلاش میں جس طرح خیال کڑی در کڑی اسے پانی کی حقیقت معلوم کرنے تک لے آیا یہ بات روشن ہوئی کہ قدرت کی صناعی میں ہر چیز دوسری چیز سے ربط میں ہے۔کسی ایک چیز کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے کئی چیزوں سے واقف ہونا پڑتا ہے۔ اتنا سوچ کر وہ خاموش ہو گیا لیکن باقی رہ جانے والی بات اندر سے کسی نے مکمل کی۔ " اور جب بندہ منزل پر پہنچتا ہے تو یہ وہ جگہ ہوتی ہے جہاں سے آغاز ہوتا ہے۔" اس کی منزل کتنی دور تھی، نہیں جانتا تھا لیکن تحقیق و تلاش اسے نت نئے زاویوں سے سوچنا سکھا رہی تھی اور وہ اللہ کا مشکور تھا۔

    وہ عظیمی صاحب کی خدمت میں حاضر تھا۔ اس نے عرض کیا کہ حضور ! پانی کیا ہے۔۔۔؟

انھوں نے سورہ بقرہ کی آیات تلاوت کی۔ ترجمہ :

            " وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو فرش بنایا اور آسمان کو چھت بنایا اور اوپر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کرتمہیں رزق عطا کیا۔" ( البقرۃ: ۲۲)

 

    اس کے بعد فرمایا ،    " میں نے اپنے مرشد کریم سے سوال کیا تھا، کائنات نہیں تھی تو کیا تھا؟"

مرشد کریم نے فرمایا ،     "امعاء"

عرض کیا ،      " اس کے بعد کیا ہوا؟"

ارشاد کیا ،     " ماء (پانی) "

اتنا کہہ کر لمحہ بھر خاموشی کے بعد شیخ طریقت نے سمجھایا ، " ماء نہ ہو تو زمین بنجر ہو جائے گی۔ ماء کے وجود کے بغیر کوئی چیز موجود نہیں۔ پہاڑوں کو بھی پانی چاہیئے۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ پہاڑ جمے ہوئے نہیں بادلوں کی طرح اڑ رہے ہیں، پہاڑوں کی اصلیت کیا ہوئی؟ پانی۔ یہ جمے ہوئے نہیں  بادلوں کی طرح اڑ رہے ہیں۔پہاڑ کیا ہوا۔۔۔بادل۔"

  اس نے عرض کیا، حضور ! پہاڑ بادل ہیں، بادل پانی سے بنے پھر پانی کیا ہے؟

     " یہ پی ایچ ڈی لیول کا سوال ہے اور آپ کی ذہنی استعداد اتنی نہیں کہ اس کو سمجھ سکیں۔ کم ہی ہستیاں پانی کی حقیقت سے واقف ہیں۔ پانی کیا ہے، بس اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ ماء۔۔۔Base ۔ ہر چیز کی بنیاد پانی ہے، ہر چیز پانی ہے، پانی نہ ملے ، مر جائیں گے۔ اب پانی کیا ہے؟ پانی اللہ کی صفات ہیں۔ پانی میں مقداریں ہیں۔ مقداریں روشنی ہیں۔ روشنی نور ہے۔ نور کیا ہے؟ اللہ کا حکم ہے۔ اللہ کا حکم۔۔۔ اللہ کا ذہن ہے۔ بندہ اللہ کی صفات پر پیدا ہوا ہے۔ اللہ نے خود فرمایا ہے کہ میں نے اپنی صفات پر پیدا کیا اور میری صفت محبت ہے۔ اللہ بارش برساتا ہے، خواہش ڈالتا ہے لوگوں کے دلوں میں۔ اللہ کی محبت ہے کہ کوئی چیز اپنے کام سے نہیں رکتی۔ دل پھیپھڑے سب اپنے وقت پر کام کر رہے ہیں۔ ذرا سی گڑ بڑ ہو جائے تو۔۔۔؟ سب مقداریں ہیں۔ اسی مقداروں کے علم کو " علم لدنی" کہتے ہیں۔ یہ فکشن نہیں ہے اس لیے فکشن علوم سے اس کو سیکھا نہیں جا سکتا۔"

      پانی سے متعلق جواب میں مرشد کریم نے سوچنے کے لیےکئی زاویے دے دیے تھے۔ اس نےمزید کوئی سوال نہیں کیا۔ جانتا تھا وہ علوم کا سمندر ہیں اور ساحل پر موجود ریت کے ذرہ کو بھی سیراب کرتے ہیں ۔ جتنا بتا دیا گیا تھا، اس وقت وہی اس کے لیے جواب تھا۔

اس نے سوچنا شروع کیا کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے، وہ پانی چشموں اور دریا میں شامل ہوتا ہے۔ اس سے فصلیں اور باغات سیراب ہوتے ہیں اور مختلف رنگوں میں تبدیل ہو کر پھل ، پھول اور اناج بنتا ہے۔ خود انسان و حیوانات کی تخلیق پانی سے ہوتی ہے۔ جسم کو متحرک رکھنے والا خون پانی ہے۔ پہاڑ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہیں اور بادلوں کی بنیاد پانی ہے۔ آسمان ٹھوس نظر آتا ہے لیکن اس کی بنیاد بھی پانی ہے۔ زمین ٹھہری ہوئی نظر آتی ہے لیکن تخلیقی قانون کے مطابق وہ بھی پانی ہے۔

     پانی کا وصف حرکت ہے اور اس کی بنیاد روشنی ہے اور خود پانی رنگوں کی صورت نظر آتا ہے۔ یعنی روشنی کا ظاہر رنگ ہے اور رنگوں کا باطن پانی اور روشنی ہے۔ روشنی پانی میں تبدیل ہو کر رنگ بن رہی ہے۔ حقیقت رنگ نہیں ہے اور ہم رنگوں کو دیکھ رہے ہیں۔ رنگوں میں تغیر ہے لیکن ان کی بنیاد روشنی ہر جگہ ایک ہے۔ رنگوں کی دنیا میں رہتے ہیں اور رنگوں کو ہی حتمی سمجھتے ہیں اس لیے ہم روشنی کو نہیں دیکھتے اور مقداروں سے واقف نہیں۔ مرشد کریم کے الفاظ ذہن میں گونجے۔ مقداریں فکشن نہیں ہیں اس لیے فکشن علوم سے ان کو سیکھا نہیں جا سکتا۔

   عرض کیا، حضور! یعنی فارمولا یہ بنا  ،    پانی     +    مقداریں   +  رنگ    =  روشنی؟

  فرمایا ،    "  پانی  +  مقداریں  +      رنگ     +  روشنی     =  نور۔ یعنی اللہ نور السمٰوٰت والارض"

قرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے لفظ ارض پر ذہن رک گیا۔ارض سے متعلق آیات تلاش کیں۔

اللہ نے ارض کو بساط بنایا۔ زمین کی فطرت میں سمٹنا ہے۔ اللہ نے زمین کو پھیلایا اور پہاڑوں کو میخیں بنا کر زمین کو روکا۔پانی بارش بن کر زمین سے ٹکراتا ہے تو اسبابِ معیشت پیدا ہوتے ہیں اور ہر مخلوق کی نشوونما توازن کے مطابق ہوتی ہے۔ مرشد کریم نے فرمایا تھا زمین ہماری ماں ہے۔ اس نے سوچنا شروع کیا تو زمین اور ماں کے بطن کو یکساں پایا۔ ما ں کا بطن بھی زمین ہے، اسپیس ہے۔اللہ جس طرح چاہے زمین کی طرح ماں کے پیٹ میں نقشے بناتا ہے۔ ہر تصویر دوسرے سے مختلف ہوتی ہے لیکن اسپیس ایک ہے۔

  بتایا جاتا ہے زمین ایک دن میں پچیس ہزار میل کا سفر طے کرتی ہے۔ آدمی کی رفتار زمین کی ر فتار کے مطابق نہیں ہے اس لیے وہ کھڑا نہیں ہو سکے گا، گر جائے گا لہذا  اللہ نے پہاڑوں کو میخیں بنا دیا تا کہ زمین کی رفتا رمیں اعتدال کے ساتھ توازن قائم رہے۔ خیال نے بتایا آدمی کو زمین کی رفتار سے واقف ہونے کے لیے دماغ میں پہاڑ جیسے بوجھ کو ختم کرنا ہوگا۔ تب جا کر ذہن اور زمین کی رفتار ایک ہوگی اور تواز ن قائم ہوگا۔۔ یا پھر ذہن کی رفتار ، زمین کی رفتار سے بڑھ جائے گی۔

    ذہن میں سوال ابھرا۔۔ اللہ نے زمین کو پھیلایا، پھیلانے کا کیا مطلب ہے۔ زمین کا مادہ کس خمیر سے بنا ہے۔ پھیلانے سے پہلے زمین کیا تھی۔۔؟ قرآن کریم نے زمین کی ایک خصوصیت سمٹنا بتائی ہے۔ سمٹنے سے کیا مراد ہے۔۔۔؟

    مرشد کریم سے عرض کیا کہ زمین کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا،   "  یہ بات اب راز نہیں رہی کہ زمین ایک سیارہ ہے۔ سائنس دان سیارہ کو گولائی سے تشبیہ دیتے ہیں جب کہ اندر کی آنکھ دیکھتی ہے کہ زمین گول نہیں پپیتے کی طرح مخروطی ہے۔مخلوق زمین کے اندر نہیں ہے، زمین کی سطح پر آباد ہے۔زمین کے اندر کیا ہے ، یہ ایک ایسی بات ہے جس کو ظاہر کرنے کی اجازت نہیں۔ زمین دراصل پرت در پرت بنی ہوئی ہے۔ پیاز کو اگر سامنے رکھا جائے تو وہ ٹھوس اور وزنی نظر آتا ہے۔ یہ نظر آنا شعوری ہے۔ پیاز کو ادھیڑا جائے تو پرت در پرت بنا ہوا گیند نما زمین کا پھل ہے۔ پیاز کے اندر سے ڈل نکال کر تجزیہ کیا جائے تو وہ بھی پرت در پرت بہت سارے پرتوں کا مجموعہ ہے۔ یہ ایک دوسرے کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں اور یہ سارے پرت ستون کے گرد لپٹے ہوئے ہیں۔ یہ ستون زمین سے پیاز کے اندر جتنے اجزاء ہیں، حاصل کر کے ان کی دیواریں تعمیر کرتا ہے۔ یہ جو ستون نما چیز ہے اس کو آپ ماں کے پیٹ میں بچے سے ملی ہوئی آنول     ( umbilical cord)  سے تشبیہ دے سکتے ہیں جس کے ذریعے زمین سے غذا فراہم ہوتی ہے۔ یہی equation  تمام مخلوقات کی ہے۔"

    شیخ طریقت کی بات جاری تھی اور وہ باہوش و حواس سن رہا تھا۔ انھوں نے فرمایا،

    " اس وقت پیش نظریہ ہے کہ زمین کیا ہے۔ زمین اگر مٹی ہے تو مٹی کیا ہے۔ مٹی کے ذرّات اگر خلا پر مشتمل ہیں تو خلا کیا ہے۔خلا سے مراد بظاہر یہ لی جاتی ہے کہ اس میں کھوکھلا پن ہو، سوراخ ہو، نالی ہو، اب ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ زمین خلا کے علاوہ کچھ نہیں۔ لیکن اگر ہم خلا کو اسپیس کہتے ہیں تو کیا اس سے فہم مطمئن ہوتا ہے۔۔؟" اتنا کہہ کر وہ مسکرا دیے۔

  اس نے جانا کہ جواب مل چکا ہے لیکن مخفی ہے۔ اور شیخ طریقت چاہتے ہیں کہ تلاش جاری رہے۔

 

Topics


Murshid Ki Batein

خواجہ شمس الدین عظیمی



حضور قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں 

بچہ ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے 

استاد تراش خراش کے اسے ہیرا بنا دیتے