Topics

روشنی سفر میں ہے


اس کی نظر آسمان کی طرف تھی جہاں جگ مگ کرتے ستارے اپنے آگے کسی اور جہاں کا پتہ دے رہے تھے۔اردگرد سے بے نیاز خیالوں ہی خیالوں میں ان ستاروں کا پیچھا کرتے وہ اس نئے جہان کی تلاش میں تھا۔ ہر طرف گہری خاموشی تھی یا پھر اس کے اندر کا سکوت تھا جو ماحول پر حاوی تھا اور ہر شے کو خود میں جذب کر رہا تھا۔ گیلی مٹی کی سوندھی سوندھی خوش بو آہستہ آہستہ رگوں میں سرایت کر رہی تھی۔ مٹی۔۔۔ مٹی کو کھینچ رہی تھی لیکن ۔۔۔ خلا میں موجود وجود خود کو مٹی سے آزاد کرنے کی جستجو میں تھا۔

نہ جانے کتنی دیر سوچوں میں گم  بیٹھا رہا۔یہاں تک کہ سیاہ بادلوں نے آسمان کو ڈھانپ لیا۔  اچانک بجلی کڑکی۔۔ اس زور سے کہ تاریک رات کا ایک لمحہ روشن ہوا اور اگلے لمحے پھر تاریکی میں ڈوب گیا۔ کچھ دیر تک اندھیرا روشنی اور روشنی  اندھیرے میں بدلتی رہی، لہروں میں ڈوبتے ابھرتے سورج کی طرح جو پانی میں نہ ہوتے ہوئے بھی پانی میں معلوم ہوتا ہے۔

بجلی کی کڑک کے ساتھ ایک جھماکا اس کے اندر بھی ہوا تھا۔۔ اس نے ایک لمحہ میں رات کو دن اور دن کو رات ہوتے دیکھا تھا جیسے کوئی دن کو رات میں سے اور رات کو دن میں سے ادھیڑ رہا ہو۔تفکر نے نیا سوال سوچنے کے لئے دیا ۔۔ اس وقت جب رات یہاں موجود ہے اور اس رات کے اندر دن بھی تو پھر دن کیا ہے اور رات کیا ہے۔۔ اندھیرا کیا ہے اور روشنی کیا ہے۔۔ کیا اندھیرا ہی روشنی ہے۔۔۔اگر دن اور رات دیکھنے کی دو طرزوں کی تخلیق ہے تو پھر وقت کیا ہے۔۔؟

"وہ جس نے آسمانوں اور زمین اور ان میں موجود چیزوں کو چھ ایام میں پیدا کیا۔ پھرعرش پر قرار پکڑا، وہ رحمن ہے۔ اس کی شان کسی خبردار سے پوچھو۔"(الفرقان : ۵۹)

    اندر داخل ہوتے ہی جوتے بائیں جناب شو اسٹینڈ پر ترتیب سے رکھے اور وضو خانہ کی طرف بڑھ گیا۔ اگرچہ طویل سفر کے باوجود چہرہ کی تازگی برقرار تھی لیکن وہ ہمیشہ محسوس کرتا تھا کہ وضو سے جسم کے ساتھ خیالات میں بھی لطافت پیدا ہوتی ہے۔اور پھر جس ہستی کی محفل میں وہ شریک ہونے آیا تھا وہ ایک عارف کی تھی۔ اس نے کہیں پڑھا تھا کہ عارفین کی خدمت میں بغیر وضو حاضر ہونا خلافِ ادب ہے کیوں کہ ان کی محفل میں بیٹھنا عبادت ہے اور حاضرین کو ان کی صحبت سے فیض حاصل ہوتا ہے۔وضو کرتے ہوئے ان باتوں کو ذہن میں دہرا رہا تھا کہ چونک اٹھا۔ بہت سی باتیں ہم اکثر سنتے رہتے ہیں اور گہرائی میں سوچے بغیر گزر جاتے ہیں لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے جب کئی مرتبہ سنی گئی کوئی بات اچانک اپنا مفہوم واضح کر دیتی ہے۔ وہ ایک عارف کے آستانہ پر آیا تھا۔ظاہری پاکیزگی کا اہتمام تو وہ کر رہا تھا لیکن وہ یہ کیسے بھول گیا کہ عارف کی نگاہ باطن کو بھی ظاہر کی طرح دیکھتی ہے۔ پانی تن پر لگے گرد و غبار کو تو دھو دے گا لیکن من کی کثافت کیسے دھلے۔ زمانہ بھر کی خواہشات سے اس کا دل آلودہ تھا اور جسے ایک نظر دیکھنے کے لئے وہ بے قرار تھا۔ وہ ایک کے علاوہ کچھ نہیں کہتا تھا۔ اس کا جینا مرنا ایک کے لئے تھا۔ ایک سے بات شروع کرتا تھا ۔ اس ایک کی محبت کی لَو دلوں میں جگاتا تھا۔ بڑھاتا تھا۔ اور پھر ایک پر ہی اپنی بات ختم کرتا تھا۔

اسے اپنی ظاہری طہارت منافقت لگی۔ پیشمانی نے آگھیرا۔ خود پر منوں بوجھ محسوس ہوا۔ اسے لگا کہ وہ یہاں سے اٹھ نہیں پائے گا۔وہ من کا پاپی تھا اور سب کچھ تن کو سمجھے بیٹھا تھا۔ سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ کتنی دیر یوں ہی بیٹھا رہا۔۔ لیکن پھر اندر کسی گوشہ نے سہارا دیا۔۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ تو من کے پاپ دھونے ہی تو یہاں آیا ہے۔ تیری غفلت اور کوتاہیاں کتنی ہی کیوں نہ ہوں، مرشد کریم کی شفقت ہمیشہ حاوی رہے گی۔۔ ماں کی محبت کی طرح۔

وہ مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب  کے سامنے بیٹھا تھا۔الفاظ روشنیاں بن کر وہاں موجود ہر فرد کو اپنے ہالہ میں لیے ہوئے تھیں۔ وہ فرما رہے تھے " اولی الالباب ، صاحب ِ دانش ، صاحب ِ حقیقت ، صاحب ِ شہود۔۔ صاحب ِ علمِ لدنی ۔۔ صاحب عقل و فہم۔۔ یہ لوگ اللہ کی نشانیوں پر غور و فکر کرتے ہیں اور اس کی تخلیق میں معین مقداروں کو تلاش کرتے ہیں۔ اور جب دیکھتے ہیں کہ گلاب کا پھول سرخ، زرد، سفید اور کالا ہے تو سوچتے ہیں کہ ان رنگوں کے فارمولے کیا ہیں؟َ پھر وہ سوچتے ہیں کہ زمین میں جو اجزائے ترکیبی ہیں ان اجزائے ترکیبی میں پانی نشوونما کا ذریعہ بنتا ہے لیکن ان کے ذہن میں یہ بات بھی آتی ہے کہ پانی کا رنگ سفید ہے۔۔زمین کا رنگ خاکی ہے یا زرد۔۔۔ بیج کا رنگ سفید ہے۔ اگر بیج کسی پھل کی ، درخت کی، آدمی کیbase ہے تو ڈائی میں ۔۔ رحم میں۔۔ رنگوں کی بوقلمونی کس طرح ہوگئی؟ زمین ایک ۔۔۔ پانی ایک۔۔۔ سورج کی دھوپ ایک۔۔۔۔ سورج کی دھوپ میں کہا جاتا ہے کہ سات رنگ ہوتے ہیں جب کہ رنگوں کی تعداد آدمی کی شماریات سے زیادہ ہے۔ پانی کا رنگ مختلف ہوتا ہے۔ یہ کس طرح ہوا کہ ایک گلاب کے بیج میں جب اس کو کھولا جاتا ہے تو ایک رنگ نظر آتا ہے۔ اس ایک رنگ میں زرد، سرخ، سفید، کالا کس فارمولے کے تحت ہوگیا؟ کسی بھی طریقہ سے بیج کے اندر دیکھا جائے ، رنگ آمیزی نظر نہیں آتی۔پھولوں میں مختلف رنگ نظر آتے ہیں ۔ مختلف پھولوں میں مختلف پتیاں، مختلف شاخیں، ہر پتے کے مختلف نقش و نگار۔۔ یہ قدرت کا بنایا ہو کون سا فارمولا ہے؟"

        مرشد کریم کا ایک ایک لفظ تصویر بن رہا تھا۔ بیج کا مٹی میں جذب ہونا، پانی کا مٹی میں مل کر بیج کی نشوونما کرنا، دھوپ کی تمازت سے بیج کا کھلنا، بیج کا ایک نئی شکل میں باہر نکلنا، اس پودے میں پھول کا لگنا، نرم ملائم پتیوں ، کھردری ٹہنیوں، ایک دوسرے سے الگ پتوں اور ان پتوں پر بنی مختلف لکیروں اور پھر پھولوں کے ساتھ کانٹوں کا وجود۔۔۔ سب ایک ایک کر کے تصویر مکمل کر رہے تھے۔

کتنی مرتبہ وہ پھولوں کے پاس سے گزرا تھا، ہاتھوں میں لیا تھا، خوشبو محسوس کی تھی لیکن کبھی سوچا نہیں کہ ایک رنگ کی مٹی اور ایک ہی رنگ کے پانی سے ایک بیج اتنے رنگوں میں کیسے ڈھل گیا۔

مرشد کریم کی بات جاری تھی ۔ " بات یہاں آکر ٹھہرتی ہے، اللہ فرماتے ہیں کہ یہ پورا تخلیقی نظام وہ لوگ سمجھتے ہیں جو اولی الالباب ہیں۔ اولی الالباب کا مطلب صاحبِ عقل ، صاحبِ دانش، صاحبِ فہم اور صاحبِ تفکر انسان ہیں۔"

گھر جاتے ہوئے ذہن میں یہی بات تھی کہ ایک بیج اتنے رنگوں میں کیسے بدل گیا۔

راستہ میں جہاں جہاں نظر جاتی، پسِ پردہ یہی قانون نظر آتا۔ ہر نوع کی ابتدا بیج ، تخم یا نطفہ سے ہوئی اور نتیجہ بے شمار رنگوں کی صورت میں ظاہر ہوا۔ خود اس کا  آغازایک بیج سےہوا۔ بیج نشوونما پا کر گوشت کا ٹکڑا بنا اور بتدریج بے شمار رنگوں میں ڈھل گیا۔ خود  سے سوال کیا کہ کیا یہ تمام رنگ اس بیج تخم یا نطفہ کے اندر موجود ہیں۔۔ رنگ ہیں کیا۔۔۔ اگر موجود ہیں تو پھر نظر کیوں نہیں آتے۔۔؟

اندر سے جواب ملا۔۔ قدرت قرآن کریم میں جگہ جگہ اپنی نشانیوں کی طرف متوجہ کر رہی ہے کہ غور کرو، مشاہدہ کرو اور یقین کرو۔

غور کرنے کا کیا مطلب ہے اور غور کرنے کی سائنس کیسے کام کرتی ہے۔۔۔؟

اسے یاد آیا کہ جب وہ ستاروں سے آگے کسی اور جہاں کی تلاش میں تھا تو نظر ایک ستارہ پر مرکوز تھی اور تھوڑی دیر بعد اس نے اس ستارہ کو حرکت کرتا محسوس کیا۔ وہ چونک گیا۔ ابتدا میں نظر کا دھوکا محسوس ہوا۔ مادی ذہن میں شک پہلے آتا ہے۔ وہ بھی اسی ابتلا میں مبتلا تھا۔ تسلی کے لئے دوسرے ستارہ پر نظر جمائی اور چند لمحوں بعد وہ ستارہ بھی حرکت کرتا دکھائی دیا۔اس نے تیزی سے دور کسی تیسرے ستارہ  کو نظر ٹکا کر دیکھنا شروع کیا اور نتیجہ پہلے دو ستاروں سے مختلف نہیں تھا۔کسی شے پر تھوڑی دیر کے لئے نگاہ مرکوز کر دی جائے تو وہ حرکت کرتی محسوس ہوتی ہے۔۔۔ ایسا کیوں؟

ستارے طولانی اور محوری گردش میں تھے۔ پہلے آگے بڑھتے اور پھر دائیں یا بائیں مڑ جاتے  یہاں تک کہ دائرہ بن جاتا۔ محوری اور طولانی گردش دراصل دائروں میں سفر ہے۔ ذہن سوال، در سوال درسوال اور پھر سوال کے بھنور میں تھا۔ وہ ستاروں سے آگے دوسرے جہان کو ڈھونڈ رہا تھا لیکن کیا اسے یہ معلوم تھا کہ خود ستارے کیا ہیں اور روشنی کے قمقمے سفر کیوں کر رہے ہیں؟

ستاروں کے مشاہدہ نے بتایا کہ روشنی سفر میں ہے لیکن روشنی کیا ہے۔۔۔؟

زمین  گردش میں ہے، ہوا، بادل، چاند، سورج اور ستارے سفر میں ہیں۔زندگی گھٹ رہی ہے، بڑھ رہی ہے اور پھر بڑھ کر گھٹ رہی ہے اور یہ زندگی کہاں نہیں ہے، جہاں جہاں ہے گھٹنے اور بڑھنے کے قانون کی پابند ہے۔آدمی بڑھتے بڑھتے جوانی تک پہنچتا ہے اور پھر عمر ڈھلنا شروع ہو جاتی ہے۔۔ چاند کی طرح۔ چاند اور ہماری زندگی ایک سی ہے۔ فرق یہ ہے کہ وہ آسمان کی زینت بڑھاتا ہے اور ہم زمین کی۔ پہلے دن کا چاند بڑھتے بڑھتے عروج پر پہنچتا ہے، چودھویں کا چاند بنتا ہے اور پھر گھٹ کر واپس اس مرحلہ میں آتا ہے جہاں سے ابتدا ہوئی تھی۔

پہلے تو یہ باتیں کبھی ذہن میں نہیں آئیں۔ اب جو غور کرنا شروع کیا تو زمین و آسمان کی تخلیقات ایک ایک کر کے تصور میں آکر اپنے عرفان کی دعوت دے رہی تھیں۔ وہ سوچ رہا تھا کہ قدرت کا کون سا فارمولا ، کون سی سائنس ، کون سی حکمت اس کے پیچھے کام کر رہی ہے۔ حکمت ۔۔۔؟خیال نے بتایا غور کرنے سے مراد حکمت کو تلاش کرنا ہے۔ اب یہ حکمت کیا ہے۔ نیا سوال اس کے سامنے تھا۔

اسے غور کرنے کی عادت نہیں تھی اس لئے ذہن پر بار محسوس ہوا۔ ضمیر بار بار مرشد کریم کے پوچھے گئے سوال کا جواب تلاش کرنے کی طرف متوجہ کر رہا تھا۔ حکمت کا لفظ دماغ سے ٹکراتے ہی قرآن کریم میں پڑھی گئی ایک آیت ذہن میں آئی۔ خانہ کعبہ کی بنیادیں اُستوار کرتے ہوئے حضرت ابراہیم ؑ نے دعا کی تھی،

" اے رب ہمارے ! ان میں انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو ان پرتیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کوکو خوب پاک صاف کردے، بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔" ( البقرہ : ۱۲۹)

بندہ جب کسی خیال میں محو ہوتا ہے تو موضوع سے متعلق خیالوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ آنے والا کوئی خیال بے معنی نہیں ہوتا، بس خیال سے خیال ملایا جائے، راستہ بنتا جاتا ہے۔ اس نے سوچا اس طرح کی آیت قرآن کریم میں کئی مقامات پر ہے۔ ایک ہی آیت میں چار مرتبہ علم کا تذکرہ ، علم کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ لیکن یہ کس علم کی بات کی گئی ہے۔ کیا چاروں سے مراد ایک ہی علم ہے یا پھر ایک ہی علم کے چار مختلف شعبے ہیں۔۔۔؟

رات کو تنہائی میں لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھا وہ ذہن میں آئے خیالوں کو Inpage پر اتار رہا تھا۔ سوچ کا سلسلہ وہیں سے جوڑا، جہاں سے ٹوٹا تھا۔آیت کی عربی لکھی اور جہاں علم کا ذکر تھا اسے underline  کیا اور پھر underline کئے گئے الفاظ کو نمبر وار ترتیب میں لکھا۔


۱۔ یَتْلُوْاعَلِیھِمْ اٰیَتِكْ    (  ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے)

۲۔ وَیَعَلِمُھِمُ الْکِتَابَ   (  کتاب کی تعلیم دے)

۳۔ وَالْحِکْمَۃ           (  اور حکمت)

۴۔ وَیُزَکْیِھِمْ            (  اور خوب پاک صاف کر دے)

بہت دیر تک لیپ ٹاپ کی اسکرین پر ٹائپ کیے گئے الفاظ کو دیکھتا رہا پھر انگلیوں نے حرکت کی۔ کی بورڈ (keyboard)  کی آواز نے کمرے میں خاموشی کو توڑا اور اس نے لکھنا شروع کیا۔

آیات ۔۔ آیات کا مطلب نشانیاں، علامتیں اور احکام ہیں۔ قرآن کریم وہ الہامی کتاب ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نشانیاں اور احکامات نازل کیے ہیں اور نوع آدم کو ان نشانیوں پر غور کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ وہ فلاح پائے۔ پہلے علم سے مراد قرآن کا فہم ہے۔

کتاب ۔۔ کتاب سے مراد لوحِ محفوظ ہے۔ لوحِ محفوظ وہ اصل کتاب ہے جس کے بارے میں خالق کائنات اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،

" بلکہ یہ بڑی عظمت والا قرآن ہے جو لوحِ محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔"  ( البروج: ۲۱: ۲۲)

قرآن نے لوحِ محفوظ کو " ام الکتاب " بھی کہا ہے یعنی اصل کتاب ۔ لوحِ محفوظ وہ کتاب ہے جس میں ازل سے ابد تک کا تمام ریکارڈ موجود ہے۔

حکمت ۔۔ یہ وہ لفظ ہےجس کے ذہن میں داخل ہوتے ہی وہ یوں چونک گیا تھا کہ جیسے حکمت کی حکمت سے واقف ہو کر وہ راز تک پہنچ سکتا ہے۔ حکمت کا مطلب شے کی معرفت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر حاکم بنایا ہے۔ حاکم وہ ہوتا ہے جو حکم دیتا ہے۔ حکم وہ دیتا ہے جس کے پاس اختیار ہوتا ہے۔ اختیار اس کے پاس ہوتا ہے جو تصرف کرتا ہے اور تصرف وہ کرتا ہے جو شے کی معرفت رکھتا ہے۔ شے میں موجود اجزا ءاور ان کی مقداروں سے واقف ہوتا ہے۔جو شخص مقداروں کے قانون سے واقف نہیں اور نہ ان پر تصرف جانتا ہے تو وہ حاکم کی تعریف کے زمرہ میں نہیں آتا۔ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے چوپایوں سے بدتر فرمایا ہے۔ حکمت سے مراد معین مقداروں کا علم ہے اور حکمت کا سورس وہ ذات ہے جس کی ایک صفت "حکیم" ہے۔

نفس و قلب کو مادی خواہشات سے پاک کر کے اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کرنا تزکیہ ہے۔ تزکیہ دین کا اہم رکن ہے۔قرآنی تعلیمات کے مطابق آخرت میں وہی کامیاب و سرخرو ہوگا جس نے نفس و قلب کا تزکیہ کیا۔ اس نے کہیں پڑھا تھا کہ حقیقی ذوق، لذتِ عبادت اور اللہ کے پاس اس کی قبولیت کا دارومدار قلب کی صفائی اور نفس کی پاکیزگی پر ہے۔

قرآن کی آیات اپنے معنی و مفہوم میں لامحدود وسعت رکھتی ہیں۔ اس الہامی کتاب کا یہ اعجاز ہے کہ بندہ جتنا غور کرتا ہے ، ہر بار نئی بات سامنے آتی ہے۔ اس لیے جوشخص قرآن کو جتنا سمجھتا ہے ، وہ دراصل اس کے فہم کی حد ہے۔حضور پاک ﷺ کی ذاتِ مبارک  جن و انس اور مخلوقات کو دیئے گئے تمام علوم کا مجموعہ ہے۔ لوگوں کو آیات سنانا ، کتاب و حکمت کی تعلیم دینا اور ان علوم کے حصول میں کامیابی  کے لیے دلوں کو خود غرضی سے پاک کر کے اللہ کی بندگی سکھانا حضور ﷺ کے مشن کے اہم اور نمایاں ارکان ہیں۔  اس کی سمجھ کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ کی دعا کا مفہوم یہ بنا کہ اے ہمارے رب !  ان پر وہ رسول بھیج جو انھیں حکمت والی کتاب کا فہم دے۔ ان پر وہ رسول بھیج جو انھیں تیری نشانیوں سے واقف کر کے وہ تختی پڑھنا سکھائے جہاں ازل تا ابد ریکارڈ موجود ہے۔ ان پر وہ رسول بھیج جو انھیں معین مقداروں پر تصرف کرنا سکھائے۔ اور ان پر وہ رسول بھیج جو ان کے دلوں کو مانجھ کر صیقل بنائے اور ان دلوں میں صرف اور صرف تیری یاد کے دیئے جلیں۔


Topics


Murshid Ki Batein

خواجہ شمس الدین عظیمی



حضور قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں 

بچہ ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے 

استاد تراش خراش کے اسے ہیرا بنا دیتے