Topics

پیش لفظ

تاریخ شہادت فراہم کرتی ہے کہ سرزمین عراق و عرب انسانی تہذیب کا پہلا گہوارہ تھی۔ دنیا میں طب کا فن اور علاج معالجے کے طریقے اسی خطہ سے یونان، روم اور ہندوستان پہنچے۔ یہ فن شروع میں مذہبی خاندانوں میں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا رہا۔ یونان میں اس کی زیادہ پذیرائی ہوئی۔ وہاں غیر معمولی صلاحیتوں کے انسان پیدا ہوئے۔ انہوں نے نئے نئے اسلوب سے طب کو روشناس کرایا۔ علم الادویہ اور علم الامراض کے الگ الگ باب قائم کئے۔ سرجری، علم الابدان، منافع الاعضاء اور علم الادویہ پر کتابیں لکھیں۔ دوا سازی کا علم ایجاد کیا۔

اسلام کا سورج طلوع ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

’’مرد اور عورت پر علم سیکھنا فرض ہے۔‘‘

ہادئ برحق کی تعلیمات پر عمل کر کے اکابرین نے علم کے سمندر میں شناوری کر کے علم طب پر بھی ریسرچ کی اور اس طرح علم طب کا خزانہ منظر عام پر آ گیا۔ ان علوم کا یونانی زبان سے عربی زبان میں ترجمہ ہوا۔ مصر، ہندوستان اور جہاں سے بھی جو فنی کتاب ان کے ہاتھ آئی انہوں نے اس کا عربی میں ترجمہ کر دیا۔ بڑے بڑے نامور طبیب پیدا ہوئے۔ تحقیقات کا سلسلہ جاری رہا۔ علوم و فنون پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں۔

پندرہویں صدی تک یورپ کے میڈیکل کالجوں میں رازی، ابن سینا اور زہراوی کی کتابوں کے ترجمے داخل نصاب تھے اور آج کی میڈیکل سائنس کو بھی ہمارے اسلاف کی کتابوں نے ترقی کی بنیاد فراہم کی ہے۔

مسلمانوں پر جب ان کے اعمال اور اپنے اسلاف کے ورثہ پر عدم توجہی کی بناء پر زوال شروع ہوا تو علم طب پر بھی زوال آ گیا لیکن اللہ تعالیٰ کے نظام میں تبدیلی اور تعطل واقع نہیں ہوتا۔ اس لئے قدرت ایسی ہستیاں پیدا کرتی رہی جو محدود ذرائع کے باوجود طب کو زندہ رکھنے کی جدوجہد میں مصروف رہے۔

موجودہ میڈیکل سائنس نے سرجری اور مختلف اعضاء کی پیوند کاری میں بلاشبہ ایسی ترقی کی جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی لیکن عام امراض کے علاج کے لئے نئی نئی ادویات کے تجربات نے معالج کے ساتھ ساتھ مریضوں کو بھی پریشان کر دیا۔ بیماریوں کا جڑ سے ختم نہ ہونا، وقتی طور پر افاقہ اور دواؤں کا ری ایکشن عام بات ہو گئی ہے۔

۱۹۶۹ء میں حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے رنگ و روشنی سے علاج اور روحانی طریقہ علاج سے خدمت خلق کا باقاعدہ سلسلہ شروع کیا۔ انہوں نے بتایا کہ زمین و آسمان میں کوئی چیز بے رنگ نہیں ہے۔ جسم میں رنگوں کے اعتدال سے صحت قائم رہتی ہے اور اگر رنگوں میں اعتدال نہ رہے تو آدمی بیمار ہو جاتا ہے۔ زمین پر موجود کوئی جڑی بوٹی ایسی نہیں ہے جو کسی نہ کسی رنگ کے غلاف میں بند نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر انسان کی یہ مجبوری ہے کہ اس کا کوئی عقیدہ ہوتا ہے۔ صراط مستقیم پر قائم عقیدہ توحید ہے۔ توحید کا مطلب ہے کہ یک ذات جو دراصل کُل ذات ہے۔ خالق و حاکم اور قادر مطلق ہے۔ اس ہستی نے قرآن میں اپنا تعارف اس طرح کرایا ہے:

’’اللہ آسمانوں اور زمین کی روشنی ہے۔‘‘

یعنی سمٰوات اور ارض میں ہر موجود شئے روشنی ہے۔ جس کا براہ راست اللہ کے ساتھ تعلق ہے۔ ہم جو آیتیں پڑھتے ہیں یا اللہ کے اسماء کا ورد کرتے ہیں ان میں اللہ کے نور کی لہریں کام کرتی ہیں اور یہ لہریں ہی مرض ختم کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔
والد محترم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے انتیس (
۲۹) سال پہلے جسمانی عوارض کو ختم کرنے کے لئے رنگ، روشنی، دعا اور جڑی بوٹیوں سے علاج کے لئے ایک مکتبہ فکر کی بنیاد رکھی اور اس کو متعارف کرانے کے لئے عظیمی دواخانہ قائم کیا۔ محتاط اندازے کے مطابق اس طریقہ ہائے علاج سے عظیمی صاحب اب تک ۱۷ لاکھ مریضوں کا علاج کر چکے ہیں۔

یہ ایسا طریقہ علاج ہے جس سے حکماء، ڈاکٹرز، ہومیوپیتھ، ایکوپنکچرسٹ اور آیورویدک معالجین بھی استفادہ کر سکتے ہیں۔
اللہ ہی ہے جو ہمیں پیدا کرتا ہے۔ وہی ہے جو ہمیں رزق دیتا ہے۔

’’اور جب تم بیمار پڑ جاتے ہو تو اللہ ہی تمہیں شفاء دیتا ہے۔‘‘

حکیم نور عجم عظیمی

عظیمی دواخانہ

۱۔ڈی، ۷؍۱، ناظم آباد، کراچی

 

 

وَ اِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنِ

اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھ کو شفا دیتا ہے

(القرآن)


Mamoolat E Matab

خواجہ شمس الدین عظیمی


ہادئ برحق کی تعلیمات پر عمل کر کے اکابرین نے علم کے سمندر میں شناوری کر کے علم طب پر بھی ریسرچ کی اور اس طرح علم طب کا خزانہ منظر عام پر آ گیا۔ ان علوم کا یونانی زبان سے عربی زبان میں ترجمہ ہوا۔ مصر، ہندوستان اور جہاں سے بھی جو فنی کتاب ان کے ہاتھ آئی انہوں نے اس کا عربی میں ترجمہ کر دیا۔ بڑے بڑے نامور طبیب پیدا ہوئے۔ تحقیقات کا سلسلہ جاری رہا۔ علوم و فنون پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں۔