Topics

جگر کے امراض

جگر میں لاکھوں قسم کی برقی رو ہر وقت دوڑتی رہتی ہیں۔ جگر اپنی ساخت میں اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ پندرہ سال تک بیماریوں کا مقابلہ کرتا ہے۔ پندرہ سال کے بعد مقابلے کی سکت باقی نہیں رہتی۔ اس میں اور ذخیروں کے علاوہ گلائیکوجین (مٹھاس) کا بڑا ذخیرہ ہوتا ہے۔ یہ مٹھاس ہی جسم کی سب سے بڑی قوت ہے۔ جب جگر کے اندر غیر صحتمند خلیوں کی مقدار لاکھوں گنا زیادہ ہو جاتی ہے تو جگر کا السر ہو جاتا ہے۔ جگر کا تعلق براہ راست معدے اور آنتوں سے ہے۔ آنتوں میں قدرت کا ایک خاص پرزہ لگا ہوا ہے جس کو لبلبہ کہتے ہیں۔ لبلبے کے اوپر جسم کو صحت مند رکھنے کی ذمہ داری ہے۔ لبلبہ حسب ضرورت جگر کو انسولین دیتا ہے۔ انسولین کی کمی سے ذیابیطس ہو جاتی ہے۔ جس کا پرہیز کے ساتھ اگر علاج نہ کیا جائے تو یہ انسانی جسم کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔

ھُوَالشَافِی
عظیمی جگر جوشاندہ رات کو سوتے وقت اور صبح نہار منہ پئیں۔

زرد شعاعوں کا پانی ۲۔۲اونس صبح شام۔

بینگنی شعاعوں کا پانی ۲۔۲اونس کھانے سے پہلے۔

حب کبد کھانے کے بعد ۲۔۲عدد۔

حب مشکی ایک گولی رات سوتے وقت۔

زرد شعاعوں کا تیل جگر کی جگہ پیٹ پر ہلکے سے دباؤ کے ساتھ انگلیوں سے مالش کریں۔

رہم زرد پیٹ پر مالش کریں۔

معالج کے مشورہ سے غذا کا چارٹ بنائیں اور اس پر مستقل مزاجی سے عمل کریں۔

سب کاموں سے فارغ ہونے کے بعد رات کو سونے سے پہلے وضو کر کے ۱۰۰ مرتبہ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا الّکَلِماتِ رَبِّیْ

پڑھ کر سبز روشنیوں کا مراقبہ کریں۔

جگر یا گردوں کی خرابی سے اگر جسم پر ورم آ جائے تب بھی یہی مراقبہ کریں۔ جگر کی بڑھی ہوئی حرارت کو متوازن کرنے کے لئے انناس، لیموں، سنگترہ، گریپ فروٹ، انگور اور سیب کھائیں۔

ائے بھی بغیر دودھ کے پینا چاہئے۔ ذیابیطس کے مرض میں جسم کمزور ہو کر سوکھنے لگتا ہے اور جسمانی کمزوری لاحق ہو جاتی ہے۔

ذیابیطس میں ٹہلنا، پیدل چلنا، ہلکی ورزش کرنا اور نشاستہ دار اشیاء سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔

علاج کے ساتھ ساتھ کمزوری دور کرنے کے لئے حب مشکی بہترین دوا ہے۔ حب مشکی کا نسخہ حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کا عطا کردہ ہے۔


Mamoolat E Matab

خواجہ شمس الدین عظیمی


ہادئ برحق کی تعلیمات پر عمل کر کے اکابرین نے علم کے سمندر میں شناوری کر کے علم طب پر بھی ریسرچ کی اور اس طرح علم طب کا خزانہ منظر عام پر آ گیا۔ ان علوم کا یونانی زبان سے عربی زبان میں ترجمہ ہوا۔ مصر، ہندوستان اور جہاں سے بھی جو فنی کتاب ان کے ہاتھ آئی انہوں نے اس کا عربی میں ترجمہ کر دیا۔ بڑے بڑے نامور طبیب پیدا ہوئے۔ تحقیقات کا سلسلہ جاری رہا۔ علوم و فنون پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں۔