Topics

مغربی حاجی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟


عیسائیوں نے سفارش کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر کو قبر سے نکال کر لے جائیں ۔ نور الدین زنگی تہجد گزار بادشاہ تھا ۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دو سرخ فام اشخاص کی طرف اشارہ کر کے فرما رہے ہیں ،  نور الدین مجھے ان دونوں سے بچا۔

                سلطان نے بیدار ہو کر وضو کیا ، نوافل اد اکر کے سو گیا ۔ دوسری بار پھر اس نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہی دو سرخ رنگ اشخاص کی طرف اشارہ کر کے فرما رہے ہیں ،  " نور الدین مجھے ان دو کتوں سے بچا  ۔"

سلطان نے نوافل ادا کئے پھر سو گیا ۔ تیسری بار اس نے پھر وہی خواب دیکھا ۔ ایک ہی رات تین بار حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے ایک کام کا حکم دیا تھا ۔ سلطان نے اپنے وزیر مرد صالح جمال الدین موصلی کو طلب کیا اور اس سے مشورہ کیا ۔ جمال الدین موصلی نے کہا ،    آپ یہاں کیسے بیٹھے ہیں ۔ آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے طلب فرمایا ہے ۔ فوراً  روانہ ہو جائیے ۔ یقیناً مدینہ میں کوئی غیر معمولی واقعہ پیش آیا ہے ۔ جس کے لئے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے آپ کو بلایا گیا ہے۔

                سلطان نور الدین تیز رفتا ر سواریوں پر بیس آدمیوں کے ساتھ مدینہ روانہ ہوا ۔ جمال الدین موصلی ایک ہزار اونٹ او رگھوڑے مال سے لاد کر لے گیا ۔ سولہ دن سفر کر کے سلطان مدینہ پہنچا ۔ اس نے اعلان کرایا کہ سلطان حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی زیادرت کے ارادے سے آیا ہے اور اہل مدینہ میں تقسیم کرنے کے لئے بہت سارا سامان لایا ہے ۔ تمام اہل مدینہ دعوت میں شریک ہوں۔

                لوگ جوق در جوق دعوت میں شریک ہوئے ۔ جو شخص آتا سلطان اسے غور سے دیکھتا تھا۔

                اہل مدینہ آگئے تو سلطان نے پوچھا ۔

                  کیا کوئی باقی رہ گیا ہے

                لوگوں نے بتایا کہ اہل مدینہ میں کوئی باقی نہیں رہا البتہ دو مغربی حاجی نہیں آئے ۔ یہ گوشہ نشین حاجی دن رات اپنے حجرت میں عبادت کرتے ہیں ۔ محتاجوں کو اکثر صدقہ دیتے رہتے ہیں ۔ محفل میں شریک نہیں ہوئے۔

                سلطان نے حکم دیا کہ دونوں کو حاضر کیا جائے۔

                سلطان نے انہیں دیکھتے ہی پہچان لیا ۔ سلطان نے پوچھا :

                  تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو ؟

                انہوں نے جواب دیا   ہم حج کرنے کے لئے آئے ہیں ۔

                سلطان نے دریافت کیا کہ یہ لوگ کہاں ٹہرے ہوئے ہیں ؟ لوگوں نے بتایا حجرہ شریف کے قریب رباط میں رہتے ہیں۔

                سلطان نے دونوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا اور جہاں وہ رہتے تھے اس جگہ کی تلاشی لی ، مگر وہاں صدقہ ، خیرات کے لئے بہت سا مال ، قرآن مجید اور وعظ و نصیحت کی کتابوں اور مال و اسباب کے علاوہ کچھ نہیں ملا ۔ لوگوں نے ان کی پارسائی کی شہادت دی ، تعریف کی اور بتایا کہ یہ دونوں حاجی بڑے سخی اور فیاض ہیں ۔ سارا دن روزہ رکھتے ہیں ، روضہ شریف پر حاضر ہو کر درود و سلام پڑھتے ہیں ، ہر صبح جنت البقیع کی زیارت کرتے ہیں اور ہر شنبہ کو زیارت کے لئے قبا جاتے ہیں ۔ کسی سائل کا سوال رد نہیں کرتے ، ان کی فیاضی کی وجہ سے مدینے میں کوئی محتاج نہیں رہا ۔ سلطان نے زیادہ توجہ سے تلاشی لی تو مصلہ کے نیچے تہہ خانہ نظر آیا ۔ جہاں سے سرنگ حجرہشریف کی طرف کھودی گئی تھی ۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ حاجیوں کے بھیس میں وہ شیطان کے نمائندے تھے اور جسم اطہر کو نکال کر لے جانا چاہتے تھے ۔ وہ شیطان صفت لوگ رات کو سرنگ کھودتے ۔ سرنگ کھودنے سے جو مٹی نکلتی تھی وہ چمڑے کی تھیلیوں میں بھر کی علی الصبح جنت البقیع میں قبروں پر ڈال آتے تھے ۔ کھدائی مکمل ہو چکی تھی اور حجرہ کے قریب پہنچ چکے تھے ۔ اگلی صبح سلطان نور الدین زندگی نے انہیں گرفتار کر لیا ۔ سلطان نے ان دونوں کو قتل کرا دیا ۔ سلطان نور الدین زنگی اس عظیم مقصد کے لئے اپنے انتخاب پر سجدے میں گر کر خود رویا ۔ سلطان نےحجرہ شریف کے گرد پانی کی تہہ تک خندق کھدوائی اور ا س خندق کو پگھلے ہوئے سیسہ سے بھروا دیا ۔ روایت کے مطابق یہ واقعہ ۵۵۵ ہجری میں پیش آیا۔


Topics


Mohammad Rasool Allah (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔ 

آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔ 

میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔ 

آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔

یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔ 

میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔ 

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔

آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔ 

مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔ 

میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔

آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔