Topics

ابو ہریرہؓ کی ماں

حضرت ابو ہریرہؓ کی والدہ مشرکہ تھیں۔ ایک روز ان کی والدہ نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی شان میں گستاخی کی ۔ حضرت ابو ہریرہؓ روتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور والدہ کی طرف سے صدمہ پہنچنے کی شکایت کی ۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ سے دعا کی  اے اللہ ! ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت دے ۔ حضرت ابو ہریرہؓ واپس آئے تو ان کی والدہ کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہو گئیں۔

اندھی آنکھ میں بینائی

حضرت فدیکؓ نامی ایک صحابی اونٹ پر سے گر گئے ۔ جس جگہ گرے نیچے سانپ کے انڈے تھے ۔ وہ ٹوٹے اور زہر کے چھینٹے ان کی آنکھوں میں چلے گئے ۔ جس سے ان کی بصارت جاتی رہی ۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس حال  میں     حاضر ہوئے کہ ان کی آنکھیں سفید ہو چکی تھیں ۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کی آنکھوں پر دم کیا ۔ جس سے آنکھیں ٹھیک ہو گئیں۔

کھانے میں برکت

حضرت ابو ہریرہؓ چند کھجوریں لے کر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور برکت کے لئے دعا کی درخواست کی۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کھجوروں کو اپنے دست مبارک میں لے کر دعا کی اور پھر ارشاد فرمایا ،  ان کو توشہ دان میں رکھ لو ۔ جس وقت ان میں سے کچھ لینا چاہو ہاتھ ڈال کر نکال لینا اور توشہ دان کو کبھی نہ جھاڑنا ۔  حضرت ابو ہریرہؓ نے وہ چند کھجوریں اپنے توشہ دان میں رکھ لیں اور اسے اپنی کمر سے باندھ لیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے وہ خود بھی کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے تھے۔ 

غزوہ تبوک کے دوران تیس ہزار مسلمانوں کی جمعیت نے بیس روز تک تبوک  میں     قیام فرمایا تھا ۔ غذائی اجناس کی کمی محسوس ہوئی تو حضرت عمر فاروقؓ نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے عرض کیا ، یا محمد رسول اللہ علیہ الصلوۃ والسلام ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو حکم دیں کہ جس کے پاس جو توشہ ہے لے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر دعائے برکت فرمائیں۔ 

حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت عمرؓ کی رائے کو پسند فرمایا اور چمڑے کا فرش بچھانے کا حکم دیا ۔ فوجیوں نے اپنے پاس موجودخوراک لا کر چمڑے کے فرش پر ڈھیر کر دی ۔ کوئی چنوں کی مٹھی لے آیا ، کوئی چھوہارے اور کسی نے روٹی کا ٹکڑا لا کر رکھ دیا ۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنا دست مبارک اس ڈھیر پر رکھا اور دعا فرمائی اس کے بعد صحابہ سے فرمایا ،  اسے اپنے اپنے برتنوں میں ڈال کر لے جاو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق سارے سپاہیوں نے اپنے اپنے برتن بھر لئے اور سب نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا۔


Topics


Mohammad Rasool Allah (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔ 

آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔ 

میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔ 

آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔

یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔ 

میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔ 

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔

آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔ 

مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔ 

میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔

آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔