Topics

دوکمانوں سے کم فاصلہ


ترجمہ :

” پاک ذات ہے جو لے گیا اپنے بندے کو رات ہی رات ادب والی مسجد ( مسجد الحرام) سے پرلی مسجد ( مسجد الا قصیٰ) تک جس میں ہم نے خوبیاں رکھی ہیں کہ دکھاویں اس کو کچھ اپنی قدرت کے نمونے ، وہی ہے سنتا دیکھتا “۔( بنی اسرائیل)

                رجب کی ۲۷ ویں شب سیدنا علیہ الصٰلوة والسلام اپنی چچا زاد بہن ام ہانی کے گھر میں آرام فرما رہے تھے کہ گھر کی چھت شق ہوئی ۔آپؐ نے د یکھا کہ جبرائیل امین فرشتوں کے ہمراہ تشریف لائے اور حضور علیہ الصلوة والسلام کو زم زم کے کنویں کے پاس لے گئے۔ وہاں جبرائیل ؑنے سینہ مبارک کھول کر دل باہر نکالا اور آب زم زم سے دھونے کے بعد دوبارہ سےسینہ میں رکھ دیا۔

                سیدنا علیہ الصلوة والسلام براق پر سوار ہو کر بیت المقدس تشریف لے گئے مسجد اقصیٰ میں حضور ؐنے انبیاءعلیہم السلام کی امامت فرمائی ۔ اس کے بعدآپؐ کی خدمت میں دودھ اور شراب کے پیالے پیش کئے گئے ۔آپؐ نے دودھ پسند فرمایا۔ حضرت جبرائیل ؑ نے کہاآپؐ نے فطرت کو اختیار کیا ہے۔

(ایک روایت یہ ہے کہ آپؐ کعبہ سے متصل شمالی حصے حطیم میں آرام فرما رہے تھے ۔ جب جبرائیل آپؐ کے پاس حاضر ہوئے۔)

                بیت المقدس سےآپؐ عالم بالا کی طرف روانہ ہوئے ۔ آسمانوں میں آپؐ نے جلیل القدر پیغمبروں سے ملاقات کی ۔ پہلے آسمان پر حضرت آدم ؑآپؐ کو ملے ۔ دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ ؑ نےآپؐ کا استقبال کیا ۔ تیسرے آسمان پر حضور یوسف ؑ نےآپؐ کو خوش آمدید کہا ۔ چوتھے آسمان پر حضرت ادریس ؑ سے ملاقات ہوئی۔ پانچویں آسمان پر حضور ؐہارون ؑ اور چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ ؑآپؐ کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ ابو الانبیاءحضرت ابراہیم ؑ نے ساتویں آسمان پرآپؐ کو خوش آمدید کہا ۔ ساتویں آسمان پر ” بیت المعمور“ دیکھا۔ ساتویں آسمان کے بعد سدرة المنتہیٰ تک حضرت جبرائیل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ رہے۔ اس کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالق کائنات کی تسبیح و تقدیس فرمائی اور حجاب عظمت کا معائنہ کیا ۔ پھرآپؐ پر حجاب کبریا منکشف ہوا۔ حجاب کبریا منکشف ہونے کے بعد سیدنا علیہ الصلوة والسلام نے حجاب محمود میں تجلیات کا مشاہدہ کیا او رمقام محمود میں اللہ کو دیکھا۔

ترجمہ:          ” دل نے جو دیکھا، جھوٹ نہیں دیکھا“۔ ( سورہ نجم)

                معراج شریف میں بارگاہ رب العزت سے انعامات و عطیات مرحمت کئے گئے۔ مفسرین نے تین اکرامات کا بطور خاص تذکرہ کیا ہے۔

۱۔           سورة البقرہ کی آخری آیات جن میں اسلام کے رہنما اصول بیان کئے گئے ہیں۔

۲۔          امت محمدؐ    کی بخشش کا وعدہ ، مگر جو لوگ شرک کے مرتکب ہوں گے وہ اس انعام سے محروم رہیں گے ۔

۳۔          نماز پنجگانہ کی فرضیت۔

ترجمہ :     ”قائم کرو صلوة سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک اور قرآن پڑھنا فجر کا ، بےشک قرآن پڑھنا فجر کا ہوتا ہے روبرو اور کچھ رات جاگتا رہ، اس میں فائدہ ہے تجھ کو ، شاید کھڑا کرے تجھ کو تیرا رب تعریف کے مقام میں “۔ ( بنی اسرائیل ۷۸-۷۹)

                روایات ملتی ہیں کہ معراج کے سفر میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمانوں میں حیرت انگیز مناظر دیکھے ۔آپؐ نے جنت کی سیر کی اور دوزخ کے طبقات آپؐ کو دکھائے گئے ۔ نیک و بد لوگوں کا مقام دیکھااور ان مقامات پراعمال کی جزا اور سزا کا مشاہدہ کیا ۔ آپ صلی اللہ  علیہ وسلم نے جنت کے داروغہ رضوان سے ملاقات کی اور جنت کے باغوں میں گھوم پھر کر ان کا معائنہ کیا۔

                قرآن میں ہے :

ترجمہ:  مومن مردوں اور عورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ۔ ان سدا بہار باغوں میں ان کے لئے پاکیزہ قیام گاہیں ہوں گی اور سب سے بڑھ کریہ کہ اللہ کی خوشنودی انہیں حاصل ہو گی یہی بڑی کامیابی ہے ۔ (توبۃ۔۷۲)

ترجمہ: ” متقی لوگوں کے لئے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ اس کی شان یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ، اس کے پھل دائمی ہیں اور اس کا سایہ لا زوال ہے ۔ یہ انجام ہے متقی لوگوں کا اور منکروں کے لئے دوزخ ہے “۔ ( رعد۔ ۳۵)

 

ترجمہ: ” ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن میں یہ لوگ داخل ہوں گے ۔ وہاں انہیں سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے آراستہ کیا جائے گا ، وہاں ان کا لباس ریشم ہو گا اور وہ کہیں گے کہ شکر ہے اس خدا کا جس نے ہم سے غم دور کر دیا ، یقینا ہمارا رب معاف کرنے والا اور قدر فرمانے والا ہے“ (فاطر ۳۳۔ ۳۵)

ترجمہ: ” جنت میں داخل ہو جاؤتم اور تمہارے زوج تم شاد کیے جاؤگے ۔ ان کے سامنے سونے کی طشتریاں اور سونے کے پیالے پیش کئے جائیں گے اور ان میں وہ چیزیں ہوں گی جو دل کو پسند اور آنکھوں کے لئے لذت بخش ہوں گی اور تم اس میں ہمیشہ رہو گے اور یہ وہ جنت ہے جس کے تم وارث بنائے گئے اپنے اعمال کے صلے میں اور تمہارے لئے اس میں بہت سے میوے ہوں گے جن میں تم کھاﺅ گے“۔ ( الزخرف ۷۰ ۔ ۳۷)

ترجمہ: " متقی لوگ وہاں باغوں اور نعمتوں میں ہوں گے ۔ لطف لے رہے ہوں گے ان چیزوں  سے جو ان کا رب انہیں دے گا ، اور ان کا رب انہیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے گا ۔ ( ان سے کہا جائے گا ) کھاؤاور پیو مزے سے اپنے ان اعمال کے صلےمیں جو تم کرتے رہے ہو ۔ وہ آمنے سامنے بچھے ہوئے تختوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے اور ہم خوبصورت آنکھوں والی حوریں ان سے بیاہ دیں گے ۔ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور ان کی اولاد بھی کسی درجہ ایمان میں ان کے نقش قدم پر چلی ہے ان کی اس اولاد کو بھی ہم ( جنت میں ) ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ان کے عمل میں کوئی گھاٹا ان کو نہ دیں گے ،ہر شخص اپنے کسب کے عوض رہن ہے۔ ہم ان کو ہر طرح کے پھل اور گوشت، جس چیز کو بھی ان کا جی چاہے گا خوب دیئے چلے جائیں گے۔ ان کے درمیان ایسی شراب کے پیالوں کے تبادلے ہو رہے ہوں گے جو  لغویت اور گناہ  سے پاک  ہوگی۔ ان کی خدمت کے لئے ایسے خوبصورت لڑکے ہوں گے جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی"۔ (الطور  ۱۷۔۲۴)

ترجمہ :  متقیوں کے لئے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ اس میں نہریں بہہ رہی ہوں گی نتھرے ہوئے پانی کی نہریں بہہ رہی ہوں گی ایسے دودھ کی جس کے ذائقے میں ذرا فرق نہیں آیا ہو گا ۔ نہریں بہہ رہی ہوں گی ایسی شراب کی جو پینے والوں کے لئے لذیذ ہو گی ، نہریں بہہ رہی ہوں گی صاف شفاف شہد کی ، اس میں ان کے لئے ہر طرح کے پھل ہوں گے اور ان کے رب کی طرف سے بخشش ۔  ( محمد ۔ ۱۵)

ترجمہ :  بے شک اہل جنت آج اپنی دلچسپیوں میں مگن ہوں گے وہ اور ان کے زوج سایوں میں مسندوں پر تکیہ لگائے ہوئے بیٹھیں گے اور اس میں ان کے لئے میوے ہوں گے اور ان کے لئے وہ سب کچھ ہو گا جو وہ طلب کریں گے ، رب رحیم کی طرف سے ان کو سلام کہا گیا ہے ۔( یٰسین ۵۵۔۵۸)

ترجمہ :  اور انہوں نے جو صبر کیا اس کے صلے میں ان کو جنت اور ریشمی لباس عطا کرے گا ۔ وہاں وہ اونچی مسندوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے ۔ نہ انہیں دھوپ کی گرمی ستائے گی نہ جاڑے کی سردی ۔ جنت کی چھاؤں ان پر جھکی ہوئی سایہ کر رہی ہو گی اور اس کے پھل ان کی دسترس میں ہوں گے اور ان کے سامنے چاندی کے برتن اور شیشے کے پیالے گردش میں ہوں گے ۔ شیشے ، چاندی کی قسم کے ہوں گے ۔ ان کو انہوں نے نہایت موزوں اندازوں کے ساتھ سجایا ہو گا ۔ ان کو وہاں ایسی شراب کے جام پلائے جائیں گے جس میں زنجیبل ( سونٹھ ) کی آمیزش ہو گی ۔ یہ جنت کا ایک چشمہ ہے جسے سلسبیل کہا جاتا ہے ۔ ان کی خدمت میں غلمان حاضر ہوں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے ۔ تم ان کو دیکھو تو سمجھو کہ موتی ہیں جو بکھیر دئے گئے ہیں ۔ وہاں جدھر بھی نگاہ ڈالو گے نعمتیں ہی نعمتیں اور ایک عظیم بادشاہی دیکھو گے۔ ان کے اوپر باریک رشیم کے سبز لباس اور اطلس و دیبا کے کپڑے ہوں گے، ان کو چاندی کے کپڑے پہنائے جائیں گے اور ان کا رب ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا ۔ بے شک یہ تمہارے عمل کا صلہ ہے اور تمہاری کوشش مقبول ہوئی ۔ (الدھر ۱۱-۲۲)

ترجمہ:  اور ان کے لئے جو اپنے رب کے حضور پیشی سے ڈرتے رہے دو باغ ہوں گے ۔ اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤگے ۔ ہری بھری ڈالیوں سے بھر پور ۔ اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤگے ۔ ان کے اندر دو چشمے جاری ہوں گے ۔ اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤگے ۔ ان میں ہر میوے کی دو قسمیں ہوں گی۔ اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاﺅ گے ۔ جنتی لوگ ایسے فرشوں پر تکیہ لگا کر بیٹھیں گے جن کے استر دبیز ریشم کے ہوں گے ۔ اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاﺅ گے ۔ ان نعمتوں کے درمیان باحیا حوریں ہوں گی جن کو ان سے پہلے کسی انسان یا جن نے چھوا نہیں ہو گا اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاﺅ گے ۔ ایسی خوبصورت جیسے ہیرے اور موتی ۔ اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاﺅ گے ۔ نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے ۔ اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاﺅ گے ۔ ان دو باغو ں کے سوا دو باغ اور ہوں گے ۔ اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاﺅ گے ۔گھنے سر سبز و شاداب باغ ۔ اپنے رب کے کن کن انعا ما ت کو تم جھٹلاﺅ گے ۔ ان میں دو چشمے فواروں کی طرح ابلتے ہوئے ہوں گے ۔ اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاﺅ گے ۔ان میں بکثرت پھل ، کھجور اور انار ہوں گے ۔ اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاﺅ گے ۔ان میں نیک سیرت اور خوبصورت حوریں ہوں گی۔ حوریں ، خیموں میں رہنے والیاں اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاﺅ گے ۔ان جنتیوں سے پہلے کبھی کسی انسان یا جن نے ان کو چھوا نہ ہو گا۔ اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاﺅ گے ۔ وہ جنتی سبز قالینوں اور نفیس و نادر فرشوں پر تکیے لگا کے بیٹھیں گے ۔ اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاﺅ گے ۔ بڑی برکت والا ہے تیرے رب جلیل و کریم کا نام  ۔ ( الرحمن ۴۷۔۷۸ )

 

                روایت کے مطابق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی شب دوزخ کے داروغہ سے ملاقات کی اور دوزخ کے عذاب میں مبتلا لوگوں کے حالات آپؐ کو بتلائے گئے ۔آپؐ نے دیکھا کہ :

۱۔            کچھ لوگوں کو ان کے اپنے بدن کا گوشت کاٹ کاٹ کر کھلایا جا رہا تھا ۔ یہ چغل خور اورغیبت کرنے والے لوگ تھے۔

۲۔           کچھ لو گ جن کے ہونٹ اونٹ کے ہو نٹوں کی طرح تھےاوران کے منہ میں پتھروں کیاانگارے ٹھونسے جا رہے تھے ۔ یہ یتیموں کا مال ہضم کرنے والے لوگ تھے۔

۳۔           سود خوروں کو دیکھا کہ ان کے شکموں میں سانپ بھرے ہوئے تھے۔ ان کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے کہ وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتے تھے۔ سود خوروں کے گروہ کے ایک فرد کو اس حال میں بھی دیکھا کہ وہ خون کی ندی میں تیر رہا تھا جب تیرتے ہوئے کنارے تک آیا لوگ اس کو پتھر مارتے اور وہ واپس پلٹ جاتا تھا۔

۴۔           نا جائز دولت کمانے والوں کومتعفن اورسڑاند سے بھرا ہوا گوشت کھاتے ہوئے دیکھا۔

۵۔           چند لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہونٹ اور زبانیں کاٹی جا رہی ہیں۔زبان اور ہونٹ صحیح ہو جاتے اور دوبارہ تکلیف دہ عمل شروع ہو جاتا تھا ۔ سیدنا علیہ الصلوة والسلام کو بتایا گیا کہ یہ بے عمل منبر نشین ، خطیب، و اعظ اور عالم ہیں جو دوسروں کو نصیحت کرتے تھے اور خود اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔

۶۔           سیدنا علیہ الصلوة والسلام نے ایک چھوٹے سے پتھر  میں سے بہت بڑا بیل نکلتے دیکھا جو کہ دوبارہ پتھر میں داخل ہونے کی کوشش میں لگ جاتا تھا ۔ آپؐ  کو بتایا گیا کہ یہ حال اس شخص کا ہے جو بری بات منہ سے نکال کر شرمندہ ہوتا ہے لیکن اس کو واپس لینے پر قدرت نہیں رکھتا۔

 

                معراج میں سیدنا علیہ الصلوة والسلام نے زمین پر سینکڑوں میل کا فاصلہ طے کیا اور ہزاروں لاکھوں نوری سال کے فاصلے پر آسمان کی حدود میں داخل ہوئے ۔ فرشتوں کی حد سے آگے تشریف لے گئے اور خدائے کریم سے ہم کلام ہوئے اور اس سفر سے جب واپس لوٹے تو گھر کے دروازے کی کنڈی اسی طرح ہل رہی تھی جس طرح جاتے وقت ہلتی ہوئی چھوڑ گئے تھے۔

                معراج سے واپس تشریف لانے کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام ہانی سے رات کے واقعہ کا تذکرہ کیا تو انہوں نے قریش کی استہزاءکے ڈر سے مشورہ دیا کہ اس کا ذکر لوگوں سے نہ کیا جائے۔ سیدنا علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ،   میں ضرور ان سے تذکرہ کروں گا ، میرا رب سچا ہے اور جو کچھ میں نے دیکھا ہے ، سچ ہے۔

                معراج میں پیش آنے والے واقعات سن کر دل کے اندھے کفارِ مکہ آپؐ  کا مذاق اڑانے لگے ۔ کچھ مسلمان جن کا ایمان ابھی پختہ نہیں تھا ، مرتد ہو گئے ۔ حضرت ابو بکرصدیق ؓ سے کفار مکہ نے کہا کہ نبوت کے دعوےدار تمہارے ساتھی کا کہنا ہے کہ وہ رات ہی رات میں بیت المقدس ہو آئے ہیں تو انہوں نے جواب میں کہا   اگر محمدؐ   کہتے ہیں تو یہ درست ہے، میں تو اس سے بھی زیادہ پرایمان رکھتا ہوں کہ فرشتے ان کے پاس آتے ہیں۔

                قریش میں سے بہت سے لوگ بیت المقدس دیکھ چکے تھے انہوں نے بیت المقدس کی طرز تعمیر اور دیگر چھوٹی چھوٹی تفصیلات کے بارے میں پوچھا ، آپؐ  کی نگاہوں کے سامنے بیت المقدس کی عمارت موجود ہو گئی اور آپؐ  نے تمام تفصیلات بتا دیں ۔ کفار مکہ تذبذب کا شکار ہو گئے۔ ایک سردار نے تجارتی قافلوں کے بارے میں پوچھا کہ وہ کہاں ہیں ۔ حضرت محمد رسول اللہ نے تین قافلوں کے بارے میں تفصیلات بتا ئیں ۔ کفار نے بیضاءکی گھاٹی کی طرف چند لوگوں کو تصدیق کے لئے بھیجا تو انہیں تیسرا قافلہ آتا ہوا نظر آ گیا ۔

باقی دو قافلے بھی وقت مقررہ پر مکہ پہنچ گئے۔

٭٭٭

                شب معراج کے قصے میں مفسرین نے۵۰ نمازوں کا تذکرہ کیا ہے ۔ لکھا ہے کہ حضرت موسی ؑ نے کہا کہ۵۰ نمازیں زیادہ ہیں ۔ آپؐ  ان میں تخفیف کرائیں۔ حضور علیہ الصلوة والسلام واپس تشریف لے گئے اور دس نمازیں کم کر دی گئیں ۔ حضرت موسی ؑ نے پھر فرمایا کہ نمازیں اب بھی زیادہ ہیں اور کم کرائیے۔ حضور علیہ الصلوة والسلام واپس تشریف لے گئے اور دس نمازوں کی تخفیف ہوئی۔ حضرت موسی ؑ نے کہا کہ آپؐ  کی امت تیس نمازیں ادا نہیں کر سکے گی ۔ آپؐ دوبارہ بارگاہ رب العزت میں نماز کم کرانے کی درخواست کیجیے اور اس طرح جب پانچویں مرتبہ حضور رب العالمین کے پاس گئے تو پانچ نمازیں فرض ہوئیں۔ اس پر بھی حضرت موسی ؑ نے فرمایا کہ نمازیں ابھی بھی زیادہ ہیں۔

                معراج کے سلسلے میں یہ واقعہ روایتا ً دہرایا جا رہا ہے ۔ میں مولف کتاب خواجہ شمس الدین عظیمی یہ عرض کرتا ہوں کہ اس واقعہ سے خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت موسی ؑ کی فضیلت ثابت کی جا رہی ہے جبکہ سیدنا حضور علیہ الصلوة واسلام کا بلند و اعلیٰ مرتبہ یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوة والسلام نے اللہ کو دو کمانوں سےبھی کم فاصلہ سے دیکھا اور اللہ تعالیٰ سے راز و نیاز کیا اور خود قرآن نے اس بات کی شہادت فراہم کی ۔

                  دل نے جودیکھا جھوٹ نہیں دیکھا ۔( سورہ نجم )

                حضرت موسی ؑ جلیل القدر صاحب کتاب پیغمبر ہیں لیکن خود اللہ نے فرمایا:

                  ہم نے بعض رسولوں کو بعض رسولوں پر فضیلت دی اور بلند کیا ان میں بعض کا درجہ  ۔

                یہ عجیب و غریب تاویل ہے کہ جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو آخری نبی ہیں، جن پر دین کی تکمیل ہو چکی ہے ۔ ان کو نو (۹) مقامات نیچے سے حضرت موسی ؑ رہنمائی کر رہے ہیں۔ جلیل القدر پیغمبر حضرت موسی ؑ کا مقام چھٹا آسمان ہے ۔ سیدنا حضور علیہ الصلوة والسلام نے مقام محمود کے اس پار اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا اور دو کمانوں سے بھی کم فاصلے سے اللہ سے باتیں کیں ۔ چھٹے آسمان کے اوپر ساتواں آسمان ، عرش، کرسی ، بیت المعمور، سدرة المنتہیٰ ، حجاب عظمت ، حجاب کبریا، حجاب محمود اور مقام محمود ہے ۔ اس مقام تک خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی بھی پیغمبر کی رسائی نہیں ہوئی ۔ پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ چھٹے آسمان سے اوپر نو(۹) مقامات کا حامل اللہ کا محبوب ترین بندہ پا نچ مرتبہ اوپر سے نیچے آیا اور نیچے سے اوپر گیا ۔ اللہ تعالیٰ میرے اوپر اور میری اولاد پر رحم کرے اور میری لغزشوں اور گناہوں کو معاف فرمائے ۔ میری دانست میں یہ سب اسرائیلیات ہے۔

                کسی پیغمبر کے اعلیٰ مراتب میں کوئی آدمی کمی بیشی نہیں کر سکتا ۔ مگر سمجھنے کےلئے ضروری ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوا کہ حضرت موسی ؑ نے حضور علیہ الصلوة والسلام کی رہنمائی فرمائی جبکہ تمام آسمانی کتابوں میں ، اس میں توریت بھی شامل ہے سیدنا حضورعلیہ الصلوة والسلام کی آمد کی پیشن گوئی موجود ہے ۔

                انسان کے اندر کھربوں جنریٹر کام کرتے ہیں۔ ان جنریٹرز کو چار نورانی نہریں فیڈ کرتی ہیں ۔ ایک نہر کا منبع عرش، دوسری نہر کا مخزن حجاب عظمت ، تیسری نہر کا مصدر حجاب کبریا اور چوتھی نہر کا سورس حجاب محمود ہے ۔ ایک ذات اور کل ذات کے درمیان تجلی ایک پردہ ہے۔ اس کے ذریعہ کل ذات کے تصورات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وصول ہوتے ہیں اور یہ وصولی چار نہریں نہر تسوید، نہر تجرید، نہر تشہیدا ور نہر تظہیر کے ذریعہ ہوتی ہے۔

                نہر تسوید کی حدود عالم لاہوت ، نہر تجرید کی حدود عالم جبروت ، نہر تشہید کی حدود عالم ملکوت اور نہر تظہیرکی حدود عالم ناسوت ہے۔ عالم لاہوت میں علم الٰہی بصورت غیب متمکن ہے۔ عالم جبروت میں کائنات کی ماہیت اور جس غیب پر یہ ماہیت قائم ہے ، موجود ہے عالم جبروت کا دائرہ اپنی حدود سے نزول کرتا ہے تو  اسے عالم ملکوت کہتے ہیں ، عالم ملکوت جب اپنی حدود سے نزول کرتا ہے تو عالم محسوس بن جاتا ہے ۔ عالم محسوس کو عالم ناسوت یا عالم دنیا بھی کہتے ہیں۔

                علم کی دو قسمیں ہیں ۔ علم حضوری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علم حصولی ۔

                علم حضوری کی بھی دو قسمیں ہیں۔ غیب الغیب اور غیب یعنی علم القلم اور علم لوح۔ علم حضوری کائنات کے صفاتی احساس کا مجموعہ ہے ۔ سیدنا علیہ الصلوة والسلام غیب الغیب ، غیب ، علم القلم اور علم لوح کے عارف و امین ہیں ۔ چار نہروں کے نورانی تمثلات سیدنا حضورعلیہ الصلوة والسلام کے انر میں ذخیرہ ہیں۔ اس ذخیرے کی وجہ سے معراج کے سفر میں سیدنا علیہ الصلوة والسلام کی قوت پرواز جس کو ہم رفتار بھی کہہ سکتے ہیں اتنی زیادہ ہے کہ حضور ؐ کا جسد مبارک ٹائم اسپیس کی گرفت سے آزاد ہو گیا اور حضور ؐ روشنی سے بھی زیادہ رفتا ر سے مقام محمود میں تشریف لے گئے۔

ترجمہ :  قسم ہے تارے کی جب ڈوبے ۔ بہکا نہیں تمہارا رفیق اور بے راہ نہیں چلا اور نہیں بولتا اپنی خواہش سے ۔ ان کا بولنا وحی ہے جو ان پر بھیجی جاتی ہے ۔ اس کو سکھایا سخت قوتوں والے زور آور نے ۔ پھر اصلی صورت پر نمودار ہوا۔ ایسی حالت میں کہ وہ بلند کنارے پر تھا ۔ پھر وہ نزدیک آیا ، پھر اور نزدیک آیا ۔ پس دو کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا ۔ یا اس سے بھی کم ۔ پھر اللہ نے اپنے بندے سے باتیں کیں ، جو کیں ۔ جھوٹ نہیں دیکھا دل نے جو دیکھا۔ اب تم کیا اس سے جھگڑتے ہو اس پر جو اس نے دیکھا ۔( سورہ نجم )

                سائنس دانوں کے کہنے کے مطابق اگر ہم زمین اور سورج کا فاصلہ نو کروڑ میل تسلیم کر لیں تو سیدنا علیہ الصلوة والسلام نے پلک جھپکنے سے پہلے ایک ارب چوالیس کروڑ میل کا فاصلہ جانے کے لئے طے کیا اور ایک ارب چوالیس کروڑ زمین پر واپس تشریف لانے کے لیے فاصلہ طے کیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضور پاکؐ  کی رفتار پرواز پلک جھپکنے سے بھی کم وقت میں دو ارب اٹھاسی کروڑ میل ہے۔

                اس وقت سائنس کے سامنے سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ زمان کی نفی کر کے زیادہ سے زیادہ رفتار پر کنٹرول کیا جائے اور سائنس کی تمام تر ترقی کا دارومدار رفتار کی تیزی اور وقت کی نفی ہے ۔ لیکن کسی انسان کی رفتار پرواز اتنی کبھی نہیں ہو گی جتنی آخری پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔


Topics


Mohammad Rasool Allah (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔ 

آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔ 

میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔ 

آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔

یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔ 

میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔ 

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔

آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔ 

مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔ 

میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔

آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔