Topics

بدر کے قیدی


قریش نے جنگ بدر کے قیدیوں کو چھڑانے کے لئے فدیے بھیجے۔ حضرت عباس بولے میرے پاس کیا ہے جسے میں ادا کر کے رہائی حاصل کروں ۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا وہ مال کہاں ہے جسے آپ نے اور آپ کی بیوی ام الفضل نے چھپا رکھا ہے ۔ جنگ کے لئے روانہ ہوتے وقت آپ نے اپنی بیوی سے کہا تھا اگر میں مارا گیا تو اس مال کو میرے بیٹوں میں تقسیم کر دینا۔

                حضرت نوفل بن حارث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عم زادہ تھے ۔ کفار کی فوج میں شامل تھے ۔ غزوہ بدر میں گرفتار ہو گئے ۔ بدر کے قیدیوں میں سے ہر ایک کا فدیہ ایک ہزار درہم سے چار ہزار درہم تھا۔ جن کے پاس مال نہ تھا اور وہ لکھنا پڑھنا جانتے تھے ان کا فدیہ یہ مقرر ہوا کہ وہ انصار کے دس نوجوانون کو لکھنا سکھا دیں۔ جب قیدیوں کے فدیےکی بات چلی تو حضرت نوفل بن حارث نے عرض کیا میرے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں کہ فدیے میں دے سکوں  ۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا   وہ نیزے کہاں ہیں جو تو نے جدہ میں رکھے ہوئے ہیں ۔ ان کو فدیے میں دے دے ۔ 

Topics


Mohammad Rasool Allah (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔ 

آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔ 

میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔ 

آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔

یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔ 

میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔ 

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔

آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔ 

مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔ 

میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔

آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔