Topics

آنے کا مقصد کیا ہے؟


شیطان صفت عمیر بن وہب حضور علیہ الصلوۃ والسلام اور صحابہ کرامؓ کو اذیتیں دینے میں پیش پیش رہتا تھا ۔ ایک روز خانہ کعبہ میں عمیر نے کہا ،   اللہ کی قسم اگر مجھ پر قرض نہ ہوتا اور گھر والوں کی ذمہ داری نہ ہوتی تو میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دیتا۔   ابو لہب نے کہا تمہارا قرض میں ادا کر دیتا ہوں ۔ تمہارے بیوی بچوں کی پرورش میرے ذمہ ہے ۔ جب تک وہ زندہ ہیں میں ان کا کفیل ہوں ۔ عمیر بن وہب زہر میں بجھا ہوا خنجر لے کر مدینہ کی طرف چل پڑا ۔ جب وہ مدینہ پہنچا اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر میں داخل ہو گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ،   عمیر ! تو یہاں کیوں آتا ہے ؟  عمیر نے کہا ۔   میں اپنے بیٹے کی رہائی کا فدیہ دینے آیا ہوں ۔   حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تو جھوٹ بولتا ہے ۔ تو اس لئے نہیں آیا کہ اپنے قیدی کو فدیہ ادا کر کے چھڑا لے جائے بلکہ تو مجھے قتل کرنے آیا ہے ۔ عمیر راز کھلنے پر لرزنے لگا او رکپڑوں میں چھپا ہوا خنجر زمین پر گر گیا ۔ 


Topics


Mohammad Rasool Allah (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔ 

آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔ 

میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔ 

آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔

یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔ 

میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔ 

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔

آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔ 

مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔ 

میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔

آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔