Topics

بائیکاٹ


کفار مکہ اور اہل قریش نے سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام کا معاشی بائیکاٹ کر کے عہد نامہ لکھ کر کعبہ میں لٹکا دیا ۔ اس عہد نامہ میں لکھا تھا کہ بنو ہاشم سے کوئی تعلق نہ رکھے، یہاں تک کہ دوسرے علاقوں کے سوداگر بنو ہاشم سے لین دین نہیں کر سکتے۔ آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام بمعہ اہل و عیال شعب ابی طالب نامی گھاٹی میں مقیم ہو گئے ۔ تین سال تک حدو حساب سے زیادہ تکالیف اور پریشانیاں برداشت کیں۔ تین سال کے بعد سیدنا علیہ الصلوۃ والسلام نے قریش مکہ کو اطلاع بھیجی کہ قریش نے متفقہ طور پر جو عہد نامہ لکھا تھا اسے دیمک نے چاٹ لیا ہے ۔ صرف اللہ کا نام اس میں باقی رہ گیا ہے ۔ قریش نے عہد نامہ منگوا کر دیکھا تو جہاں جہاں اللہ لکھا تھا وہ دیمک کی دست برد سے محفوظ رہا باقی سب کو دیمک نے چاٹ لیا۔

دیمک (White Ants)چیونٹی کی ایک قسم ہے ۔ یہ پندہ سے بیس فٹ تک اونچا گھر بناتی ہیں۔ دیمک کی عقل و دانش کا حال یہ ہے کہ جب وہ اپنا گھر بناتی ہے تو ہر گھر محرابوں پر اٹھایا جاتا ہے۔ چھتیں اس قدر مضبوط ہوتی ہیں کہ کئی آدمیوں کا بوجھ سہار سکتی ہیں۔ ہر گھر کے مرکز میں ملک و ملکہ رہتے ہیں ، اردگرد مزدوروں کے کمرے ہوتے ہیں ۔ ان سے آگے دایہ جماعت کے کمرے ہوتے ہیں اور ان سے آگے گودام بنائے جاتے ہیں ۔ اس گھر کا کوئی دروازہ نہیں ہوتا اور نہ ان کی آنکھیں ہوتی ہیں۔ یہ مٹی کے نیچے رہتی ہیں تاکہ پرندوں کا شکار نہ بنیں۔ مٹی کی سرنگ بنا کر اس کے اندر چلتی ہیں۔ان میں سے کچھ روشنی میں چلتی پھرتی ہیں جن میں بصارت بھی کام کرتی ہے۔ نر دیمک کے دانت اس قدر مضبوط ہوتے ہیں کہ لکڑی کو چند ثانیوں میں ریزہ ریزہ کر دیتے ہیں ۔ ان کی ملکہ ایک چھوٹے کمرے میں بند رہتی ہے۔ اس کمرہ کا دروازہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ ملکہ باہر نہیں نکل سکتی ۔ اسے غذا اندر ہی پہنچا دی جاتی ہے ۔

                اس ننھے سے کیڑے نے عقل و دانش کا مظاہرہ کر کے عہد نامہ کے صرف ان الفاظ کو چاٹا جو کفار مکہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دینے کے لئے لکھے تھے ۔ لیکن خالق و مالک ہستی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس واحد ذات کے قابل پرستش ہونے کا برملا اعلان کیا ، اس کے نام کو دیمک نے نہیں چاٹا۔

Topics


Mohammad Rasool Allah (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔ 

آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔ 

میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔ 

آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔

یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔ 

میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔ 

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔

آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔ 

مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔ 

میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔

آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔