Topics

لکڑی میں روشنی


ایک اندھیری رات میں جب بارش خوب زوروں پر تھی ۔ حضرت قتاوہ بن لغمان انصاریؓ نماز با جماعت کے لئے مسجد میں آئے ۔ نماز سے فارغ ہوئے کے بعد حضرت قتاوہ ؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھجور کی ایک شاخ دی اور فرما یا ،   یہ شاخ دس ہاتھ تمہارے آگے اور دس ہاتھ تمہارے پیچھے روشنی کرے گی ۔

          حضرت قتاوہ ؓ کھجورکی شاخ لے کر گھر کی طرف چلے تو یہ شاخ مشعل کی طرف روشن ہو گئی ۔

اللہ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے:

  ہم نے ہر چیز معین مقداروں سے تخلیق کی ہے۔

          یہ معین مقداریں ہی ہیں جن سے زمین پر مختلف چیزیں تخلیق پاتی ہیں۔ مثلا لوہا اس کے اندر معین مقداریں کام کر رہی ہیں۔ لکڑی اس کے اندر معین مقداریں کام کر رہی ہیں۔ اگر لوہے اور لکڑی میں معین مقداریں کام نہ کریں تو لکڑی لکڑی نہیں رہے گی اور لوہا لوہا نہیں رہے گا ۔ معین مقداروں سے مراد یہ نہیں ہے کہ جو مقداریں لوہے کے اندر کام کر رہی ہیں وہ لکڑی کے اندر کام نہیں کرتیں ۔ تخلیق کرنے والی معین مقداروں کا فارمولہ یہ ہے کہ لوہے کے لئے آٹھ مقداریں معین ہیں او رلکڑی کے لئے سات مقداروں کا تعین ہے تو لکڑی کی معین مقداروں میں اگر لوہے کی اضافی ایک مقدار شامل کر دی جائےتو لکڑی لوہا بن جائے گی ۔

          سونے (Gold) کے لئے پانچ معین مقداریں ہیں اور گیرو کے لئے چار مقداریں معین ہیں ۔ سونے کو گیرو بنانے کا فارمولہ یہ ہے کہ سونے کی مقداروں میں سے ایک مقدار کم کر دی جائے ۔ گلاب کے پھول میں چھ معین مقداریں کام کرتی ہیں ۔ جبکہ سیب کے پھول میں نو (۹) معین مقداریں کام کرتی ہیں ۔اگر سیب کے پھول کی معین مقداروں میں سے تین کم کر دی جائیں تو سیب کا پھول گلاب کا پھول بن جاتا ہے اور اگر گلاب کے پھول میں تین مقداروں کا اضافہ کر دیا جائے تو گلاب کا پھول سیب کا پھول بن جاتا ہے ۔ یہ ایک پورا تخلیقی نظام ہے جو اللہ نے ان لوگوں کو سکھایا ہے جو لوگ سیدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے وارث اور صاحب تکوین ہیں۔ جس وقت سیدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے کھجور کی لکڑی حضرت عکاشہ بن محضؓ ، حضرت مسلمہ بن اسلمؓ ، حضرت عبداللہ بن حجشؓ اور حضرت قتاوہ ؓ کو دی تو تخلیقی فارمولوں کے تحت مقداروں میں ردو بدل ہو گیا اور یہ رودو بدل قرآن پاک کے ارشاد کے مطابق ہے ۔

ترجمہ :

          ”  ہم نے تمہارے لئے مسخر کر دیا جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ، سب کا سب" ۔  (الجاثیہ۔۱۳)

            آسمانوں اور زمین میں ہے   کا مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے سب کا سب رائی سے بھی چھوٹا ذرہ اور پہاڑ کے برابر ذرہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تصرف میں ہے۔


Topics


Mohammad Rasool Allah (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔ 

آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔ 

میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔ 

آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔

یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔ 

میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔ 

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔

آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔ 

مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔ 

میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔

آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔