Topics

مستجاب الدعوۃ


 

                رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب بیمار ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے ۔ ابو طالب نے کہا ۔

                  بھتیجے ! جس اللہ نے تجھے رسول بنا کر بھیجا ہے ۔ اس سے میری لئے دعا مانگ تا کہ میں اچھا ہو جاؤں ۔

                رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ۔ ابو طالب اچھے ہو گئے ۔ ابو طالب نے کہا   اللہ تیرا کہنا مانتا ہے۔  جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔

                  محترم چچا ! آپ اگر اللہ کا کہنا مانیں تو وہ آپ کا بھی کہنا مانے گا  

                حدیث قدسی میں ارشاد ہے کہ :

                  "میرا بندہ اپنی اطاعتوں سے مجھ سے اتنا قریب ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگتاہوں ۔ یہاں تک کہ میں وہ آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ۔ وہ کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور وہ ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے ۔ "

شیر آیا

ابو لہب اور اس کی بیوی ام جمیل اور اس کا بیٹا عقبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے ۔ ایک بار عقبہ گستاخی کا مرتکب ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ۔  اے اللہ ! اس پر اپنے کتوں میں سے کسی کتے کو مسلط کر دے  ۔

                ابو لہب اور عقبہ ایک تجارتی قافلے کے ساتھ شام جا تے ہوئے ابرا ہ کے مقام پر ٹھہرے رات کو ایک شیر آیا اور عقبہ کو چیر پھاڑ کر ہلاک کر دیا۔

پانی برسا

                جمعہ کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر خطبہ پڑھ رہے تھے کہ ایک بدو اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا ۔

                  یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مدینہ کے قرب و جوار میں قحط پڑ گیا ہے ۔ ہمارے مویشی ہلاک ہو گئے ہیں اور بال بچے بھوکے مر رہے ہیں ۔ آپ ہمارے لئے بارش کی دعا فرمائیں۔

                آسمان پر اس وقت دور دور تک بادل کا کوئی ٹکڑا نہ تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے ۔ یکا یک آسمان بادلوں سے ڈھک گیا اور زور و شور سے بارش کی ایسی جھڑی لگی کہ اگلے جمعہ تک مسلسل بارش ہوتی رہی ۔ جمعہ کے خطبے میں ایک بدو نے کھڑے ہو کرکہا۔   یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارے مکان گر گئے ہیں اور مال مویشی پانی  میں     ڈوب رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے دعا فرمائیں  ۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے دعا فرمائی ۔ بارش رک گئی ۔

ابو ہریرہؓ کی ماں

                حضرت ابو ہریرہؓ کی والدہ مشرکہ تھیں۔ ایک روز ان کی والدہ نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی شان میں گستاخی کی ۔ حضرت ابو ہریرہؓ روتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور والدہ کی طرف سے صدمہ پہنچنے کی شکایت کی ۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ سے دعا کی   اے اللہ ! ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت دے  ۔ حضرت ابو ہریرہؓ واپس آئے تو ان کی والدہ کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہو گئیں۔

اندھی آنکھ میں بینائی

                حضرت فدیکؓ نامی ایک صحابی اونٹ پر سے گر گئے ۔ جس جگہ گرے نیچے سانپ کے انڈے تھے ۔ وہ ٹوٹے اور زہر کے چھینٹے ان کی آنکھوں میں چلے گئے ۔ جس سے ان کی بصارت جاتی رہی ۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس حال  میں     حاضر ہوئے کہ ان کی آنکھیں سفید ہو چکی تھیں ۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کی آنکھوں پر دم کیا ۔ جس سے آنکھیں ٹھیک ہو گئیں۔

کھانے میں برکت

                حضرت ابو ہریرہؓ چند کھجوریں لے کر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور برکت کے لئے دعا کی درخواست کی۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کھجوروں کو اپنے دست مبارک میں لے کر دعا کی اور پھر ارشاد فرمایا ،   ان کو توشہ دان میں رکھ لو ۔ جس وقت ان میں سے کچھ لینا چاہو ہاتھ ڈال کر نکال لینا اور توشہ دان کو کبھی نہ جھاڑنا ۔   حضرت ابو ہریرہؓ نے وہ چند کھجوریں اپنے توشہ دان میں رکھ لیں اور اسے اپنی کمر سے باندھ لیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے وہ خود بھی کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے تھے۔

                غزوہ تبوک کے دوران تیس ہزار مسلمانوں کی جمعیت نے بیس روز تک تبوک  میں     قیام فرمایا تھا ۔ غذائی اجناس کی کمی محسوس ہوئی تو حضرت عمر فاروقؓ نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے عرض کیا ، یا محمد رسول اللہ علیہ الصلوۃ والسلام ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو حکم دیں کہ جس کے پاس جو توشہ ہے لے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر دعائے برکت فرمائیں۔

                حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت عمرؓ کی رائے کو پسند فرمایا اور چمڑے کا فرش بچھانے کا حکم دیا ۔ فوجیوں نے اپنے پاس موجودخوراک لا کر چمڑے کے فرش پر ڈھیر کر دی ۔ کوئی چنوں کی مٹھی لے آیا ، کوئی چھوہارے اور کسی نے روٹی کا ٹکڑا لا کر رکھ دیا ۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنا دست مبارک اس ڈھیر پر رکھا اور دعا فرمائی اس کے بعد صحابہ سے فرمایا ،   اسے اپنے اپنے برتنوں میں ڈال کر لے جاو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق سارے سپاہیوں نے اپنے اپنے برتن بھر لئے اور سب نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا۔


Topics


Mohammad Rasool Allah (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔ 

آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔ 

میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔ 

آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔

یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔ 

میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔ 

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔

آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔ 

مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔ 

میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔

آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔