Topics
اللہ
سب
سے
بڑا
ہے
،
اللہ
سب
سے
بڑا
ہے |
اللہ سب
سے
بڑا
ہے
، اللہ
سب
سے
بڑا
ہے |
میں
گواہی
دیتا
ہوں اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں |
میں
گواہی
دیتا ہوں
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں |
میں
گواہی
دیتا
ہوں
محمدؐ
اللہ
کے رسول
ہیں |
میں
گواہی
دیتا
ہوں
محمدؐ
اللہ
کے
رسول ہیں |
صلوٰۃ
کی
طرف آؤ ،
صلوٰۃ
کی طرف
آؤ |
فلاح
کی
طرف
آؤ
،
فلاح
کی
طرف
آؤ |
اللہ
سب سے بڑا
ہے
،
اللہ سب
سے
بڑا
ہے |
اللہ
کے
سوا
کوئی
معبود
نہیں |
جامع الفاظ میں حکم ِ اذاں ہے۔ دل نے کہا۔
جس نے اس آواز پر لبیک کہہ کر اپنی نفی کر دی اس کا شمار
مفلحون ( فلاح پانے والے) میں ہوگا۔
عربی میں
اذان کے کلمات دہراتے دہراتے نہیں معلوم کب آنکھ لگ گئی۔
تغیر کی دنیا سے حقیقی دنیا میں داخل ہوا تو خود کو تاریک جگہ پر پایا۔
اندھیرے کو ختم کرنے کی جستجو میں تھا۔ مرشد کریم نے جب دیکھا تو قریب آئے اور کان
میں” حی علی الفلاح، حی علی الفلاح“ بلند آواز میں پڑھا۔ باطن روشن ہو گیا۔ آنکھ
کھلی تو صبح کی اذان ہو رہی تھی۔
(
اذان فجر میں ایک کلمہ کا اضافہ ہوتا ہے ۔۔ صلوٰۃ نیند سے بہتر ہے۔)
فجر میں صلوٰۃ قائم کرنے کے بعد اللہ کے حضور دعا کی اور
لیپ ٹاپ کھول کر لکھنا شروع کر دیا،
صلوٰۃ
کیا
ہے
فلاح
کیا
ہے |
سونا
ہے
کیا
جاگنا
کیا
ہے |
حق نے
یہ
گواہی دی |
محمد ؐ
اس
کے
رسول
ہیں |
حق
کی
یہ
صدا
کیا
ہے |
کوئی
نہیں
اللہ کے
سوا |
لا
الہٰ
الا
اللہ |
یہ
حکمِ
اذاں
کیا
ہے |
خیالات
کو Inpage ( اردو ٹائپنگ سافٹ ویئر) پر منتقل کر کے کچھ
دیر غور کیا اور لیپ ٹاپ بند کر کے صبح کی واک کے لیے نکل آیا۔
صبح کی چہل قدمی کا اپنا مزہ ہے۔ دن بھر کے لیے توانائی ملتی ہے اور چہرہ
پر رونق آتی ہے۔چہل قدمی کے دوران اس نے سوچا کہ کہاں لکھنا نہیں آ رہا تھا اور جب
لکھنے بیٹھا تو اشعار وارد ہو گئے۔ کبھی زندگی میں شاعری نہیں کی۔ یہ پہلا تجربہ
ہے اور وہ بہت خوش تھا۔ اندر سے کسی نے پوچھا اشعار لکھنے پر خوش ہو؟ اس نے کہا
نہیں۔ خوش اس لیے ہوں کہ میں اس وقت لکھتا ہوں جب تصور میں ہوتا ہوں ، توجہ ہٹ
جاتی ہے لکھنا بھول جاتا ہوں۔
صوفی شاعر رحمان بابا ؒ کہتے ہیں،
غبار
جب
آپ
کی
راہ کی
پڑتی
ہے
کسی پر |
دونوں
آنکھوں
کا
بھی
اندھا
ہوجاتا
ہے مبصر |
آپ
کے
در
کے گدا ، سب کے سب
ہیں
بادشاہ |
آپ کے
در
سے
نکل
کر
ہوجاتے ہیں در بہ
در |
اس کی توجہ ایک گھر کے باہر گلاب کے سرخ، سفید اور گلابی پھولوں پر پڑی۔ اس
نے مخملی پتیوں کو نرمی سے چھوا اور پھولوں کی مہک کو جذب کرتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔
بڑے کہتے ہیں فجر کی نماز کے بعد باقاعدگی سے واک کی جائے تو منفی خیالات اثر
انداز نہیں ہوتے۔ گھر واپس جانے کے بعد ناشتہ کیا اور قرآن پڑھنے بیٹھ گیا۔
اللہ جگہ جگہ قرآن میں ایمان والوں سے مخاطب ہے کہ عاجز اور انکسار ہو کر
اللہ سے ربط قائم کرو، نفس کو حرص و ہوس سے پاک رکھ کر قلب کا تزکیہ کرو، صبر سے اور ثابت قدم رہ کر اللہ کو کثرت سے یاد کرو،
اللہ کے دیئے ہوئے میں سے خرچ کر کے دل کو دولت کی محبت سے پاک کرو۔ شک سے پرہیز
کر کے یقین کی دنیا روشن کرو۔ اللہ سے واقف ہونے کے لیے اس کی راہ میں جدو جہد کرو
جیسا حق ہے جدو جہد کا۔ رکوع کرو۔ سجدہ کرو۔ اور بندگی کرو رب کی تاکہ فلاح پاؤ۔
رکوع
کیا ہے، سجدہ ہے کیا اور بندگی کسے کہتے ہیں، خیال قرآن میں موجود ان الفاظ کے
حقیقی معنی جاننے کی طرف راغب کر رہا تھا۔
قرآن کریم کا پیغام ہے کہ پاک اور
ناپاک برابر نہیں۔ جو نفس کو پاک رکھتا ہے وہ فلاح پاتا ہے اور جو نفس کو خاک میں
ملا دیتا ہے وہ نامراد ہو جاتا ہے۔ قرآن میں بیش تر مقامات پر فلاح پانے کے لیے
صلوٰۃ قائم کرنے کا ذکر ہے۔ اس نے سوچا
نماز میں بندہ کیا کرتا ہے۔۔۔؟پھر اذان ایسے اوقات میں ہوتی ہے جب پہر بدلتا ہے۔
ہر پہر کی ابتدا اذان سے ہوتی ہے۔ ایک پہر کا اختتام دوسرے پہر کی ابتدا ہے۔ اس
میں کیا حکمت ہے؟ اس کے علاوہ بھی رات کے بیش تر حصے میں اللہ کو یاد کرنے کا حکم
دیا گیا ہے۔
صلوٰۃ کا عمل اور اس میں پڑھی گئی آیات پر
غور کیا جائے تو اللہ اکبر سے سلام تک پوری صلوٰۃ اللہ سے ربط قائم کرنا ہے۔ جو
شخص صلوٰۃ میں اللہ سے ربط قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے، دو پہروں کے درمیان وقفوں
میں بھی اس کا اللہ سے ربط قائم رہتا ہے۔ اللہ اکبر کہہ کر اللہ کی عظمت کا اعتراف
کر کے بندہ باطل کی نفی کرتے ہوئے سجدہ میں جاتا ہے اور خود کو اللہ کے حوالہ کر
دیتا ہے۔ ساری صلوٰۃ خود سپردگی ہے۔۔ اسی خود سپردگی میں فلاح ہے۔
خود سپردگی کی تعریف قرآن کریم نے ان
الفاظ میں کی ہے۔
” کہہ دیجیے کہ بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ کے لیے ہے جو رب ہے سارے جہاں کا۔“ (الانعام۱۶۲)
جینا۔۔۔ پیدائش سے موت اور موت کے بعد
حیات پر محیط ہے۔ قربانی کیا اور کیسے ہوتی ہے اور قرآن نے جہادِ اکبر کسے کہا
ہے۔۔۔؟ خیال ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات کے فہم کی تکرار کر رہا تھا۔
کلام الہٰی مکمل ضابطۂ حیات ہے اور ضابطۂ حیات
یہ ہے کہ بندہ خود کو اللہ کے سپرد کر دے۔ اللہ تک پہنچنے کے لیے قرآن کہتا ہے کہ
وسیلہ تلاش کرو، اہلِ ذکر سے دریافت کرو، صادقین کا قرب حاصل کرو،اس رحمٰن اور
رحیم کے بارے میں کسی خبردار سے پوچھو۔ اللہ کے رسول ؐ کی اطاعت کرو۔ اولیاء اللہ،
حضور پاکؐ کے روحانی علوم کے وارث ہیں۔ وہ اللہ کے دوست ہیں اور اللہ کے دوستوں کو
خوف ہوتا ہے نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔
بچہ کے لیے ماں کا ہاتھ پکڑنا بہتر ہے یا
ماں کا بچہ کا ہاتھ پکڑنا، بچہ کے لیے بہترہے۔۔۔؟
اس سوال نے غور و فکر کے کئی زاویے روشن
کر دیئے تھے۔ تھوڑی دیر کے نہیں لکھنے نے اسے بہت کچھ سکھا دیا تھا۔ توجہ ہٹی تو
نظر بٹ گئی۔ توجہ کیا ہے اور نظر کسے کہتے ہیں۔۔۔ نظر اور توجہ کا کیا تعلق ہے؟ یہ
بات اس کے ذہن میں اس لیے آئی کہ لکھ نہ سکنے کی جس کیفیت سے وہ گزرا تھا وہ بار
بار فلم کی صورت میں ذہن میں نمایاں ہو رہی تھیں۔
جب اس کی توجہ بٹی تھی تو نظر کے سامنے سب
کچھ پہلے کی طرح موجود تھا لیکن اسے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ چیزوں کو دیکھ کر بھی
وہ سمجھ نہیں رہا تھا۔ فہم اس حقیقت تک پہنچی کہ توجہ قائم ہوتی ہے تو نظر بنتی
ہے۔ توجہ بٹتی ہے تو نظر منتشر ہو جاتی ہے۔ کسی دور کی یا پھر بہت قریب کی چیز کو
دیکھنے کے لیے کیمرے کا فوکس ایڈ جسٹ کرنا پڑتا ہے۔ فوکس ایڈجسٹ نہ ہو تو اسکرین
پر منظر دھند لا نظر آتا ہے۔ جن کی توجہ بٹ جاتی ہے وہ اسی دھند کو منظر سمجھتے
ہیں۔
اس نے خود سے سوال کیا، کیا دھند منظر
نہیں ہے۔۔۔؟ دھند بھی تو منظر ہے۔
خیال نے کہا،
یقیناً دھند بھی منظر ہے لیکن یہ منظر مفروضہ ہے۔دھند جب پھیلتی ہے تو ہر شے کو
اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ مادی آنکھ دھند کو حتمی سمجھتی ہے لیکن آنکھ جانتی ہے
کہ دھند دنیا نہیں۔۔۔ دنیا دھند کے پیچھے آباد ہے۔
ذہن فوراً آسمان کی طرف گیا۔اس نے سوچا کیمرے کا لینس اپنی استعداد کے بعد
منظر کو دھندلا دکھاتا ہے جیسے سفید یا سیاہ بادل۔ آنکھ بھی کیمرا ہے۔ مادی نظر
جہاں جا کر رکتی ہے اس کے بعد خلا نظر آتا ہے۔ ہم اس خلا کو بادل یا آسمان کہہ
دیتے ہیں۔حالاں کہ یہ آسمان نہیں ہے۔ اس کا مطلب آسمان حد کو کہتے ہیں۔ آسمان
بلندی ہے اور بلندی ہو یا پستی اسے حد کے علاوہ اور کیا کہیں گے۔۔۔؟ جیسے جیسے نظر
گہری ہوتی ہے آسمان کی حد بڑھتی جاتی ہے۔ ایک وقت آتا ہے بندہ دیکھ لیتا ہے کہ اس
آسمان کے پیچھے اور آسمان بھی ہیں۔
ابھی وہ یہ سوچ رہا تھا کہ خیال نے پوچھا
، تم کہہ رہے ہو نظر گہری ہوتی ہے تو نظر میں وسعت آجاتی ہے۔ یہ بتاؤ کہ دھند کا
وجود کہاں ہے۔۔۔ باہر یا اندر۔۔۔ دھند فضا میں ہے یا مسئلہ تمہاری آنکھوں کے لینس کی استعداد میں ہے؟
اس نے جواب دیا، اب تک کے تجربات کے مطابق
مسئلہ میرے لینس کی capacity میں ہے۔آنکھ دیوار کے
پار نہیں دیکھ سکتی۔میں چشمہ لگالوں ، دور بین سے دیکھوں یا بڑے سے بڑا لینس
استعمال کر لوں، سب کی حد کہیں نہ کہیں جا کر ختم ہوجائے گی۔ اور میں اتنا ہی دیکھ
سکوں گا جتنا لینس دکھائے گا۔
تو پھر تم نے دیکھا یا لینس نے۔۔۔۔؟ خیال
نے پوچھا۔
لینس نے۔ اس نے جواب دیا۔
تم لینس کے دیکھنے کو دیکھ رہے ہو تو پھر
تم کیا دیکھ رہے ہو۔۔۔؟
میں سمجھا نہیں۔۔۔؟
خیال نے سوال کوآسان کرتے ہوئے کہا کہ ایک حد تک فوکس کرنے کے بعد لینس کی صلاحیت ختم ہوگئی۔pixels کا پھیلنا۔۔۔ منتشر ہونا ہے، منظر دھندلا گیا اور تم نے اس کا نام آسمان رکھ دیا۔ کیا وہ واقعی آسمان ہے۔۔۔؟
اس نے نفی میں سر ہلا یا۔
خیال نے لفظوں پر زور دیتے ہوئےکہا، پھر وہ کیا ہے؟
اس نے کہا، میں جس
کو آسمان سمجھ رہا ہوں وہ آسمان نہیں ، خلا ہے۔ اور خلا کے اوپر آسمان ہے۔
خیال سے پوچھا ۔ مفروضہ کا حصار کیسے ختم ہو؟
خیال نے جواب دیا۔۔۔؟؟
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضور قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں
بچہ ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے
استاد تراش خراش کے اسے ہیرا بنا دیتے