Topics
مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیا رحمتہ اللہ علیہ نے مجھے
واقعہ سنایا کہ سیدنا حضور پاک ﷺ کی خدمت میں ایک بڑا نجومی حاضر ہوا۔ پتہ چلا کہ
حضور پاک ﷺ اس وقت پہاڑ پر ہیں۔ نجومی وہاں پہنچ گیا۔تعارف کرایا اور کہا ، اگر
آپﷺ کے پیر مبارک کے نیچے یہ پہاڑ موم ہو جائے اور پہاڑ کے اوپر پیر کا نقش آجائے
تو میں ایمان لے آؤں گا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے بسم اللہ پڑھ کر قدم اٹھایا اور پیر
پہاڑ پر رکھ دیا۔ نجومی نے آسمان کی طرف دیکھا اور پھر پہاڑ پر نظر ڈالی۔ پہاڑ پر
پیر کا نقش اس طرح موجود تھا جیسے نرم مٹی پر نقش بن جاتا ہے۔
تسخیر کا یہ عمل دیکھ کر نجومی ایمان
لے آیا ۔
لوگوں کے استفسار پر نجومی نے بتایا
کہ آسمان پر ایک ستارہ ہے۔ وہ ستارہ جب کسی کے سر پر براہ راست سایہ فگن ہوتا ہے
تو اس کے اندر یہ صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے کہ سخت مٹی نرم ہوجائے۔ میرے حساب سے اس
ستارے کو اس جگہ جہاں حضور پاک ﷺ کھڑے تھے، کئی ہزار سال بعد آنا تھا۔ جب میں نے
رسول اللہﷺ سے درخواست کی اور آپ ﷺ نے بسم اللہ پڑھ کر قدم اٹھایا تو ستارے میں
حرکت ہوئی اور حضور پاک ﷺ پر سایہ فگن ہو کر واپس چلا گیا۔
صلی اللہ تعالی علیٰ حبیبیہ محمد وسلم
اس معجزے میں بنیادی طور پر دو علوم
کی نشان دہی ہے۔ ایک علم دنیا کا ہے، وہ چاہے آسمان پر ستاروں سے متعلق کیوں نہ
ہو، جب تک اصل سے متصل نہیں ہوتا۔۔فکشن
ہے۔ دوسرا علم ۔۔۔ علم حقیقی ہے۔
حضرت محمد ﷺ نے قدم رکھا ، ستارے نے
ہزاروں سال کا سفر نا قابلِ پیمائش وقت میں طے کیا اور واپس پلٹ گیا۔ ہزاروں سال
آنے کا سفر اور ہزاروں سال واپس جانے کا سفر۔۔۔ دونوں وقت اس میں شامل ہیں۔طبیعات
اور نفسیات کی اساس۔۔۔مابعد النفسیات جسے خیال کا علم کہاجاتا ہے، اسپیس مغلوب کر
کے فرد کو وقت میں سفر کرنا سکھاتا ہے۔ سیکھنے کی بنیادی شرط توجہ ہے۔ توجہ سے
بندہ شے میں موجود تفصیلات پڑھ لیتا ہے۔شے کے اندر اوصاف، اوصاف میں مخفی صلاحیتیں
مخفی صلاحیتوں کے اندر مزید مخفی صلاحیتیں خود اپنا تعارف کراتی ہیں۔
اللہ نے ہر شے ایکویشن میں تخلیق کی
ہے اور مخلوق کو آگاہ کیا ہے۔ چھوٹی بڑی ہر تخلیق روشنی کے غلاف میں بند ہے اور یہ
غلاف تفکر سے کھلتا ہے۔ نظر غلاف کے اندر مرکوز کی جائے تو تین انکشافات ہوتے ہیں۔
۱۔ صلاحیت ۲۔صلاحیت کا ا ستعمال ۳۔
صلاحیت کا مظہر بننا
عمل کی بنیاد خیال ہے، خیال لاتناہیت
سے آتا ہے ۔ لاتناہیت کہاں ہے؟ ”ذہن“ میں ہے۔ تمام ایجادات میں اہم بات۔۔خیال کا آنا،
توجہ اور ارادے کا استعمال ہے اور ارادے کا دارومدار ذہن میں موجود تصویروں پر ہے۔
ہر لفظ کی صورت ہے۔ کہا جائے کہ فلاں
کو بخار ہے تو مظاہرہ جسمانی درجۂ حرارت 100 سے زیادہ ہونے،
نقاہت،زرد رنگ اور اعصابی کم زوری کے ذریعے محسوس ہوتا ہے جب کہ روحانی نظر دیکھتی
ہے کہ بخار کی بھی شکل و صورت ہے جس کو صاحب شہود خواتین و حضرات دیکھتے ہیں۔ جس
میں حرارت کا درجہ بڑھتا ہے تو ہم کہتے
ہیں کہ فلاں کو 102, 103 بخار ہے۔
102 یا 103 بخار کی شکلیں ہیں۔ حرارت
میں اضافے سے بخار کی شکل تبدیل ہو جاتی ہے۔
ایک شخص کسی سے الجھتا نہیں، اگر کوئی
الجھے تو نظر انداز کر دیتا ہے نتیجے میں اس کی صحت اچھی اور اعصاب مضبوط اور کام
کی رفتار زیادہ ہوتی ہے۔ جب کہ الجھنے والے شخص کی توجہ تقسیم ہونے سے اعصاب کم
زور ہوتے ہیں۔ ذہنی پراگندگی اور تھکن ہوتی ہے، نتیجے میں کام کی رفتار کم ہوتی ہے
اور ذہنی مریض ہو جاتا ہے۔
مضمون پیراسائیکالوجی سے متعلق ہے لہذا پھر سمجھئے
کہ فزکس ، سائیکالوجی اور پیرا سائیکالوجی کیا ہے۔
طبیعات (فزکس) : قدیم یونانی زبان کے لفظ فزیکوس Physicos سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی فطرت کے ہیں۔
فطرت کے مطالعے کو سائنس نے فزکس کا نام دیا ہے۔ جدید سائنس کے مطابق کائنات میں
مادے اور توانائی کے باہمی تعلق اور ان سے پیدا ہونے والے اثرات کا مطالعہ طبیعات
(فزکس) ہے۔
نفسیات (Psychology) : نفسیات میں ذہن سے
بحث کی جاتی ہے یہ لفظ نفس سے مشتق ہے۔ نفس یا شعوری کیفیات مثلاً غصہ، غم، خوشی،
نا خوشی وغیرہ کے مطالعے کے علم کو نفسیات کہتے ہیں۔ اس میں ذہن، ذہنی کیفیات اور
ان سے پیدا ہونے والے رویوں اور پس پردہ محرکات زیرِ بحث آتے ہیں۔
مابعد النفسیات (Parapsychology) : علم مابعد النفسیات احاطہ کرتا ہے کہ
انسان کائنات کے تخلیقی فارمولوں سے کہاں تک مانوس ہے۔ یہ فارمولے اس کی دسترس میں
ہیں یا نہیں اور ہیں تو کس حد تک؟ ان کی افادیت کیا ہے؟
باطنی علوم کے ماہرین فرماتے ہیں کہ
پیرا سائیکالوجی سے مراد وہ علم ہے جو طبیعات اور نفسیات کے مروجہ قوانین کی اصل
ہے۔ اس علم میں کائنات کے تمام مرئی اور غیر مرئی مظاہرہ کی اصل کو تلاش کرنے کی
کوشش کی جاتی ہے۔ مثال سمجھیں۔
٭ پانی اور پانی پینا فزکس ہے۔
٭
پانی پینے سے تسکین ملنا سائیکالوجی ہے
٭ پانی پینے کا خیال آنا
اور اس کے لئے متعلقہ عوامل کا موجود ہونا پیراسائیکالوجی ہے۔
مختصر یہ کہ ساخت ، ساخت میں مزاج، مزاج میں زندگی۔۔۔ دماغ ، دماغ میں سوچنے کی طرزیں اور طرزوں میں حرکت۔۔۔ زندگی کے تین دائرے ہیں جن کو تفصیل سے بیان کیا جاچکا ہے۔معاشرے میں افراتفری کی وجہ یہ ہے کہ فرد اپنی اصل سے دور ہو گیا ہے۔ سبب خود فرد کی نفسیات ہے اور نفسیات ماحول سے منسلک ہے جس میں وہ رہتا ہے۔ ہر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کام تخلیق ہے، تخلیق کا محرک خیال ہے اور خیال کا خالق رحمٰن و رحیم اللہ احسن الخالقین ہے۔
Parapsychology se masil ka hal
خواجہ شمس الدین عظیمی
معاشرے میں افراتفری کی وجہ یہ ہے کہ فرد اپنی اصل سے دور ہوگیا ہے۔ سبب خود فرد کی نفسیات ہے اور نفسیات ماحول سے منسلک ہے جس میں وہ رہتا ہے۔ ہر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کام تخلیق ہے، تخلیق کا محرک خیال ہے اور خیال کا خالق رحمٰن و رحیم اللہ احسن الخالقین ہے۔